جاوید اقبال: ’100 بچوں‘ کا سفاک قاتل کیا شہرت کا بھوکا ذہنی مریض تھا؟

شاہد اسلم / زبیر اعظم

انتباہ: اس رپورٹ میں پُرتشدد مناظر اور واقعات کی تفصیلات موجود ہیں۔

یہ 30 دسمبر کی سرد رات تھی اور رات کے پونے نو بجے کا وقت تھا۔ لاہور میں پنجاب پولیس کے سی آئی اے ہیڈکوارٹر میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس جاری تھی جہاں پولیس افسران یہ وضاحت دینے میں مصروف تھے کہ پاکستان کا سب سے مطلوب سفاک قاتل اُن کی گرفت سے کیسے بچ نکلا۔

ٹھیک اسی وقت کچھ ہی فاصلے پر لاہور کی مصروف شاہراہ ڈیوس روڈ پر جنگ اخبار کے دفتر کے سامنے ایک رکشہ رُکا جس سے اُترنے والے شخص کو دیکھ کر کوئی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ بظاہر معذور نظر آنے والا یہ ادھیڑ عمر آدمی ہی وہ سفاک قاتل ہے جس کا چرچا گذشتہ چار ہفتوں میں پاکستان سمیت پوری دنیا میں ہو رہا تھا۔

اس کیس کی عجیت بات یہ تھی کہ اس جرم کا انکشاف کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ یہی شخص تھا اور اب وہ اپنی ہی مرضی سے گرفتاری دینے آیا تھا۔

اخبار کے استقبالیہ کے دفتر میں موجود منیر حسین کو جب اس شخص نے اپنا تعارف کروایا تو وہاں چند لمحوں کے لیے خاموشی چھا گئی۔ وہ ادھیڑ عمر شخص اپنا تعارف کرواتے ہوئے بولا: ’میں جاوید اقبال ہوں، سو بچوں کا قاتل۔‘

جاوید اقبال جنگ اخبار کے دفتر ہی گرفتاری دینے کیوں آیا تھا؟ کیا واقعی اس نے سو بچوں کو قتل کیا تھا یا معاملہ کچھ اور تھا؟ جاوید اقبال کی جانب سے اپنے جرم کی اطلاع سب سے پہلے کس کو دی گئی؟ کیا جاوید اقبال شہرت کا بھوکا ایک ذہنی مریض تھا یا پھر ایک سفاک قاتل؟

ان سوالات کی تہہ میں جانے سے پہلے جاوید اقبال کے اس ماضی پر ایک نظر ڈالتے ہیں جس پر چل کر وہ پاکستان کے سب سے سفاک سیریل کلر بنا۔

بی بی سی اُردو نے جاوید اقبال کی لکھی گئی ڈائری، اُن کے خطوط سمیت اس کیس کی دستاویزات اور اس سے جڑی کئی ایسی شخصیات تک رسائی حاصل کی جو آج سے پہلے مختلف وجوہات کی بنا پر منظرِ عام پر نہیں آ سکی تھیں۔

’ایک بزرگ نے کہا تھا یہ بچہ نام پیدا کرے گا‘

محمد علی کے خاندان کو تقسیم ہند کے بعد انڈیا سے نقل مکانی کرنی پڑی تو انھوں نے لاکھوں پناہ گزینوں کی طرح لاہور کا رُخ کیا۔ لاہور میں برانڈتھ روڈ پر لوہے کے پائپوں کی دکان سے ہونے والی خاطر خواہ آمدن محمد علی کے بڑے خاندان کے لیے کافی تھی جس میں پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں شامل تھیں۔

جاوید اقبال بھی محمد علی کے بچوں میں سے ایک مگر کچھ مختلف تھے۔ جاوید اقبال کے بڑے بھائی ضیا الحق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جاوید بچپن سے ہی ضدی، جھگڑالو اور جنونی بچہ تھا۔ ہر جائز، ناجائز بات منواتا تھا۔ والد نے اگر کسی بات سے انکار کر دیتے تو دھمکیاں دیتا تھا۔‘

جیسے جیسے جاوید اقبال کی عمر بڑھتی گئی، اُن کے والد محمد علی کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

ضیا الحق کے مطابق جاوید اقبال کے ذہن میں الٹے سیدھے خیالات آتے تھے۔ ’کبھی کسی سے جھگڑا کرتا، کبھی کسی سے، بھائیوں اور بہنوں سے بھی بدتمیزی کرتا تھا کبھی کبھار۔ لیکن صرف باتوں کی حد تک۔ والد البتہ اس کی حرکتوں پر پریشان رہتے تھے۔‘

ضیا الحق کے مطابق اُن کے خاندان کے ایک بزرگ نے جاوید کو دیکھ کر کہا تھا کہ ’جاوید اقبال نام پیدا کرے گا، چاہے نیک نامی میں کرے یا بدنامی میں۔‘

انھوں نے کہا کہ جاوید کو بچپن سے یہ شوق تھا کہ اُس کا دنیا میں نام ہو۔

جاوید اقبال کے پرانے دوست نسیم مرشد عرف باوا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جاوید اقبال ریلوے روڈ کالج میں پڑھتا تھا، وہیں سے اسے بُری عادتیں پڑیں۔‘

’وہ بچوں سے بہت پیار کرتا تھا‘

جاوید اقبال کے والد نے اسے شاد باغ میں لوہے کے پائپ بنانے کا ایک چھوٹا سا کارخانہ لگا کر دیا تھا۔

اُسی زمانے میں نسیم مرشد کی جاوید اقبال سے دوستی ہوئی تھی جو پولیس سے حوالدار ریٹائر ہوئے تھے۔ نسیم مرشد کے مطابق جاوید اقبال مارکیٹ کا صدر بھی منتخب ہوا اور اس زمانے میں علاقے کا مجسٹریٹ اور اے سی بھی اُس کے دفتر میں اُس سے ملنے آتے تھے۔ اسی علاقے سے جاوید اقبال کی شخصیت کا ایک تاریک باب بھی شروع ہوتا ہے۔

اپنے کارخانے میں کام کے لیے جاوید اقبال نو عمر بچوں کا انتخاب کرتا تھا۔ جاوید کے بھائی ضیا الحق کہتے ہیں کہ ’اسے کام کے لیے لیبر (مزدوروں) کی ضرورت ہوتی تھی۔ لیکن وہ اُن بچوں (فیکٹری ورکرز) کا بہت خیال کرتا تھا۔ اُن کے پرانے کپڑے اُتروا کر نئے کپڑے اور جوتے دیتا تھا۔ وہ ان بچوں پر ہزاروں روپے خرچ کرتا تھا۔ انھیں سیر کے لیے مری بھی لے جاتا تھا۔‘

کارخانے کے باہر جاوید اقبال نے بچوں کو متوجہ کرنے کے لیے سانپوں اور مچھلیوں کی دکان بھی کھول رکھی تھی اور علاقے کے بچے سارا سارا دن اس کے اردگرد جمع رہتے تھے۔

جاوید اقبال کے بھائی ضیا الحق نے اسی دکان میں بی بی سی سے گفتگو کی، جہاں کبھی سانپ، بچھو اور مچھلیاں پائی جاتی تھیں۔

مگر جاوید اقبال کی کام کرنے والے بچوں پر یہ توجہ صرف کاروباری حکمت عملی نہیں تھی۔

نسیم مرشد کے مطابق شاد باغ میں ہی پہلی مرتبہ اس پر بچوں کے ساتھ بد فعلی کرنے کا الزام لگا تھا۔ معاملہ اس قدر سنگین ہو گیا کہ اس واقعے میں جاوید اقبال کے خلاف سنہ 1990 میں شاد باغ تھانے میں مقدمہ بھی درج ہوا لیکن گرفتاری سے قبل جاوید فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا جس پر پولیس نے جاوید کے والد اور بھائی کو گرفتار کر لیا۔

علاقے کے معززین اکھٹے ہوئے اور جاوید اقبال کو شاد باغ سے نکال دیا گیا۔ جاوید اقبال سے ایک بیان حلفی (سٹیمپ پیپر) پر دستخط بھی لیے گئے کہ وہ دوبارہ اس علاقے میں قدم نہیں رکھے گا۔

نسیم مرشد کے مطابق علاقہ معززین کے سامنے جاوید اقبال نے تسلیم کیا تھا کہ اس سے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی غلطی سرزد ہوئی ہے جس کی سزا کے طور پر ’اسے وہاں (شاد باغ) سے نکال دیا گیا تھا۔‘

جاوید اقبال کے والد محمد علی بیٹے کی اس حرکت سے بہت پریشان ہوئے تھے۔ لیکن جاوید اقبال کے بھائی ضیا الحق آج بھی یہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں کہ ان کا بھائی بچوں سے جنسی زیادتی کرتا تھا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بس اُسے بچوں سے پیار تھا۔‘

عجیب بات یہ ہے کہ جاوید اقبال نے دو شادیاں مگر جو ناکام رہیں۔ جاوید اقبال کے بھائی ضیا الحق نے بتایا کہ پہلی بیوی سے جاوید اقبال کی ایک بیٹی تھی لیکن یہ شادی زیادہ عرصے نہیں چلی، ’پھر ہم نے اس کی دوسری شادی کی۔ اس کا ایک بیٹا بھی تھا۔‘

بی بی سی کے اس سوال پر کہ کیا جاوید اقبال اپنے بچوں اور بھتیجوں سے بھی اتنا پیار کرتا تھا جتنا اپنے کارخانے میں کام کرنے والے بچوں سے، تو ضیاالحق نے بتایا ’اپنے بچوں اور بھتیجوں سے وہ اتنا پیار نہیں کرتا تھا۔ بس کبھی کبھار پیسے دے دیتا تھا۔‘

ضیا الحق یہ ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ وہ کئی سال قبل ہی جاوید اقبال سے قطع تعلق کر چکے تھے اور اس سے ملنا جلنا چھوڑ چکے تھے۔

واضح رہے کہ جاوید اقبال پر بچوں سے زیادتی کا پہلا باقاعدہ مقدمہ 1990 میں تھانہ شاد باغ اور دوسرا مقدمہ 1998 میں، یعنی بچوں کے قتل کے واقعے سے ایک سال قبل، لاہور کے تھانہ لوئر مال میں درج ہوا تھا۔ دوسرے مقدمے میں جاوید اقبال کچھ عرصہ جیل میں ضرور رہا لیکن بعد میں رہا ہو گیا۔

ایسا کیا تھا کہ جنسی زیادتی کے الزامات اور مقدمات کے باوجود جاوید اقبال پولیس کی گرفت سے نہ صرف بچا رہا بلکہ کچھ عرصے بعد اس سے بھی سنگین جرم کرنے میں کامیاب ہو گیا؟ حیران کن بات یہ ہے کہ جاوید اقبال کی اس تمام عرصے میں پولیس اہلکاروں سے گاڑھی چھنتی رہی۔

’اس کا ذہن کمپیوٹر کی طرح چلتا تھا‘

بچوں کے ریپ کا معاملہ تھوڑی دیر کے لیے ایک طرف رکھیں تو جاوید اقبال کی زندگی کے اس حصے میں وہ ایک ایسا شخص نظر آتا ہے جسے نہ صرف پیسہ کمانے، دکھانے اور خرچ کرنے کا شوق تھا بلکہ وہ شہرت کا بھی بھوکا تھا۔

نسیم مرشد سے جب جاوید اقبال کی شخصیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’جاوید اقبال کا دماغ کمپیوٹر کی طرح کام کرتا تھا۔ اس نے اپنے کمرے میں گورنر پنجاب غلام جیلانی کی تصویر لگائی ہوئی تھی اور کہا کرتا تھا کہ دیکھو گورنر جیلانی جاوید اقبال کے ساتھ۔‘

جاوید اقبال کے چند اور شوق بھی تھے۔ اسلحہ رکھنا، فوٹو گرافی، سانپ پالنا، فلمیں دیکھنا اور بااثر لوگوں سے دوستی کرنا۔ یہ سب مہنگے شوق تھے اور وہ اسے لوگوں کی نظر میں بھی لاتے تھے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ جاوید اقبال جزوقتی (پارٹ ٹائم) صحافی بھی تھا۔

جاوید اقبال کے بھائی ضیا الحق کے مطابق ’جاوید ایک لکھاری (رائٹر) بھی تھا اور ایک ماہانہ رسالے ’اینٹی کرپشن‘ کا ایڈیٹر تھا۔‘ اسی رسالے کے ذریعے جاوید اقبال نے بہت سے پولیس والوں سے دوستی کی۔ وہ ہر مہینے تھانوں میں رسالے پہنچاتا اور اسی طرح اس کی پولیس والوں سے جان پہچان بڑھتی گئی۔ جاوید اقبال کی نجی محفلوں میں بھی پولیس اہلکار آتے جاتے رہتے تھے۔

یہ تمام شوق شاید جاوید اقبال کی جیب پر مہنگے ثابت ہوتے لیکن جاوید اقبال کے بھائی ضیا الحق کے مطابق اُن کے والد کی موت کے بعد جب جائیداد کا بٹوارہ ہوا تو جاوید کے حصے میں برانڈتھ روڈ رام گلی نمبر تین میں دو دکانیں اور دو تہہ خانے آئے۔ یہ جائیداد لاکھوں میں فروخت ہوئی تو جاوید کے وارے نیارے ہو گئے۔

سنہ 1993 میں جاوید اقبال نے رانا ٹاؤن میں کئی کنال جگہ خریدی اور وہاں ایک بنگلہ بنایا جہاں وہ کام کرنے والے بچوں کو رکھتا تھا۔ اس کے پاس ایک جیپ بھی تھی جس میں وہ بچوں کو مری تک سیر کے لیے لے جاتا تھا۔

جاوید اقبال کے بھائی ضیاءالحق

نسیم مرشد کے مطابق جاوید اقبال نے شاد باغ چھوڑ کر پہلے رانا ٹاؤن اور بعد میں غازی آباد میں رہائش اختیار کی۔ بار بار رہائش کی اس تبدیلی کے پیچھے بھی غالباً وہی وجہ تھی جس نے جاوید کو شاد باغ سے بدنامی کے ساتھ در بدر کروایا تھا لیکن اب یہی عادت اس کی زندگی میں ایک نیا موڑ لانے والی تھی۔

’17 ستمبر 1998 کو مجھے قتل کر دیا گیا‘

سنہ 1998 میں جاوید اقبال لاہور کے علاقے غازی آباد میں رہائش پذیر تھا جب اس کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو اسے موت کے دہانے پر لے آیا۔ بعد میں اسی واقعے کو بنیاد بنا کر جاوید اقبال نے سو بچوں کے قتل کا منصوبہ بنایا۔

جاوید اقبال نے اپنی ڈائری میں اس بارے میں کچھ یوں لکھا: ’میں بہت خوش و خرم رہتا تھا۔ دو ویڈیو گیمز کی دکانوں سے روزانہ پانچ، سات سو روپے خرچہ آتا تھا۔ پندرہ ستمبر کو یادگار مینار پاکستان سیر کے لیے گیا۔ میں نے ایک اٹھارہ سال کا لڑکا دیکھا۔ کام کا پوچھا تو وہ راضی ہو گیا۔ دو موریہ پُل سے گزرا تو ایک اور نوجوان ملا۔ اسے بھی کام کا پوچھا تو ساتھ آ گیا۔ پہلا نارووال کا تھا، دوسرا کوہاٹ بنوں کا۔۔۔۔ 17 ستمبر کو مکان کا سودا کر دیا اور رات کمرے میں، میں بیڈ پر سویا اور ارباب سمیت دونوں نئے ملازم نیچے فوم کے گدوں پر۔۔۔ کمرے کی چابی میرے گدے کے نیچے تھی۔۔۔ تقریباً آٹھ اکتوبر کو ہوش آیا تو والدہ کے گھر تھا۔ میں بہت تکلیف میں تھا۔ والدہ نے بتایا تمہارے ساتھ حادثہ ہوا۔ مجھے پتا چلا مجھے 17 ستمبر کی رات قتل کر دیا گیا تھا۔۔۔ چھوٹا بچہ ارباب بھی قتل کر دیا گیا تھا۔‘

جاوید اقبال نے ڈائری میں دعویٰ کیا کہ اس رات اس کے دو نئے ملازمین نے رات میں ارباب نامی ملازم سے جنسی زیادتی کی کوشش کی اور شور مچانے پر اسے قتل کر دیا جب کہ خود اس کو بھی سوتے میں مار کر گھر سے پیسے چرائے گئے۔ اصل حقیقت کچھ اور ہی تھی۔

تھانہ غازی آباد میں 239/98 کا مقدمہ جاوید اقبال کے بھائی پرویز اقبال کی مدعیت میں درج ہوا جس کی تفصیل کے مطابق پرویز اقبال اور سب سے چھوٹا بھائی سعید اقبال دونوں جاوید اقبال سے ملنے اس کے گھر گئے تو جاوید اُن کے پہنچنے کے کچھ دیر بعد سات سالہ ارباب نامی ملازم اور ایک مالشیے (تیل کی مالش کرنے والا) کے ساتھ گھر آیا۔

مقدمے میں پرویز اقبال کی درخواست کے مطابق وہ دونوں بھائی نیچے سو گئے جبکہ جاوید اقبال، اس کا ملازم ارباب اور مالشیا اوپر والے فلور پر سونے چلے گئے۔ پرویز کے مطابق رات کو وہ کوئی آواز سُن کر اٹھے تو دیکھا کہ مالیشیا تو بھاگ گیا ہے لیکن ان کا بھائی جاوید اور ملازم ارباب خون میں لت پت زخمی حالت میں پڑے تھے۔

اس کیس کی تفتیش میں جب وہ ملزم مالشیا گرفتار ہوا تو اس نے بیان دیا کہ جاوید اقبال اسے مالش کروانے کے بہانے گھر لے گیا جہاں اس کے ساتھ زبردستی زیادتی کی گئی۔ جاوید اقبال کے سونے کے بعد اس نے کمرے میں موجود الماری میں سے بندوق نکالی اور اس کے بٹ مار مار کر جاوید کو زخمی کر دیا اور وہاں سے بھاگ گیا۔ یہ حقائق سامنے آنے کے بعد پولیس نے الٹا جاوید اقبال پر ہی پی پی سی کے سیکشن 377 کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔

جاوید اقبال کے بھائی ضیا الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جاوید کے سر کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ میری والدہ بہت پریشان ہو گئیں۔ ہسپتال جا کر دیکھا تو اُس کا بہت بُرا حال تھا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ بچنے کے کم چانس ہیں۔ شاید پانچ یا دس فیصد بچنے کا امکان تھا کیوںکہ چوٹوں سے اس کا سر پھول کر اتنا بڑا ہو گیا تھا جیسے بڑا گھڑا ہوتا ہے۔‘

’بس اسے بچانے کا گناہ ہوا ہم سے‘

جاوید اقبال کے بھائی کے مطابق اس واقعے کے بعد ’جاوید کا اتنا بُرا حال تھا کہ وہ کسی کو پہچانتا نہیں تھا۔ ہم نے ڈاکٹروں کو کہا کہ کسی طرح اس کو بچا لیں، بس وہی گناہ ہوا ہم سے۔‘

اس واقعے کے بعد کئی ماہ تک جاوید کا علاج ہوا جس کے دوران اس کی والدہ نے ہی اس کا خیال رکھا۔ جاوید زندہ تو بچ گیا لیکن اس کی زندگی بدل چکی تھی۔ اس کی جسمانی اور معاشی حالت دونوں ہی ابتر ہو چکے تھے۔

جاوید اقبال کیس کی تفتیش کرنے والے سابق ڈی ایس پی مسعود عزیز خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جاوید اقبال نے تفتیش کے دوران انھیں بتایا تھا کہ اس واقعے (اوپر بیان گیا) کے بعد اس نے سوچ لیا تھا کہ اس نے بدلہ لینا ہے۔ ’وہ کہتا تھا کہ میں نے ایسے آوارہ، گھروں سے بھاگے ہوئے سو بچوں کا قتل کرنا ہے۔‘

جہاں جاوید اقبال اس بدلے کی وجہ اس واقعے کے بعد پولیس کی بے حسی اور عدم توجہی کے ساتھ ساتھ اپنی ماں کو پہنچنے والے دکھ کو قرار دیتا ہے وہیں کیس میں جاوید اقبال کے وکیل دفاع فیصل نجیب ایک اور توجیہ پیش کرتے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے فیصل نجیب نے بتایا کہ ’جب جاوید اقبال یہ کہتا تھا کہ وہ مر چکا ہے تو اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اس واقعے کے بعد جنسی طور پر ناکارہ ہو چکا تھا۔‘

راوی روڈ میں اس مقام پر جاوید اقبال کا وہ مکان واقع تھا جو 100 بچوں کے قتل کی جائے واردات بنا

16 بی راوی روڈ

وجوہات جو بھی ہوں، جاوید اقبال اس واقعے کے بعد 16 بی راوی روڈ کے اُس مکان میں منتقل ہوا جہاں نو ماہ بعد اس نے سو بچوں کے قتل کا دعویٰ کیا۔ جاوید اقبال کی ڈائری کے مطابق یہ 20 فروری 1999 کا دن تھا اور اس کی والدہ بھی اس کے ہمراہ تھیں۔

تین کمروں پر مشتمل تین مرلے کا یہ مکان جو اب اصل حالت میں موجود نہیں ہے، لاہور کے یادگار چوک سے چند قدم کے فاصلے پر اولڈ راوی کے کنارے ایک ایسی بند گلی میں واقع تھا جس کے آس پاس چند ہی مکان تھے۔

سید منیر حسین شاہ اس علاقے میں پراپرٹی ڈیلر کا کام کرتے ہیں۔ انھیں آج بھی اچھی طرح وہ دن یاد ہے جب جاوید اقبال مکان کرائے پر لینے کے لیے اُن کے دفتر آئے تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سید منیر حسین شاہ نے بتایا کہ ’اسے تین چار لوگوں نے سہارا دیا ہوا تھا۔ وہ یہ مکان کرائے پر لینا چاہتا تھا جو ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر صاحب کا تھا۔ بیمار سا بندہ لگتا تھا۔ میں نے سوچا اسے کچھ ہو گیا تو کیا ہو گا اس لیے میں نے شخصی ضمانت مانگی۔ اس کے ایک رشتہ دار، جو لکڑ منڈی میں رہتے ہیں، انھوں نے مجھے کہا کہ اس کو مکان کرائے پر دے دیں۔ میں نے پانچ سو روپے کمیشن لے کر دو ہزار روپے مہینہ پر ایک سال کے لیے اسے مکان کرائے پر دے دیا۔‘

سید منیر حسین شاہ کے مطابق اس مکان میں جاوید کی والدہ، بیوی اور ایک بچہ بھی کبھی کبھار رہنے آتے تھے کیونکہ ’اکثر میں کرایہ لینے جاتا تھا تو جاوید کی والدہ کرایہ دیا کرتی تھیں۔‘

یہ وہ وقت تھا جب جاوید اقبال کے معاشی حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ دگرگوں ہوتے جا رہے تھے۔ اب نہ تو کوئی کارخانہ تھا، نہ کوئی ویڈیو گیم کی دکانیں، جہاں سے روانہ کی بنیاد پر کمائی ہوتی۔ جاوید اقبال نے اپنے بھائیوں سے مدد اور پیسوں کا مطالبہ کرنا شروع کیا۔ یہی وہ وقت تھا جب جاوید اقبال نے سو بچوں کے قتل کے ارادے کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا اور 16 بی راوی روڈ منتقلی اس منصوبے کا پہلا قدم تھا۔

جاوید اقبال کی ڈائری کے مطابق بچوں کے قتل کے سلسلے کا آغاز 20 جون 1999 کو ہوا اور 26 جولائی کو اس کی والدہ کے انتقال کے بعد اس میں تیزی آتی گئی۔ اسی ڈائری کے مطابق آخری قتل 13 نومبر کو کیا گیا۔

’ہم پاپڑ بیچنے کے بہانے بچوں کو لاتے تھے‘

ندیم عرف دیمی کی عمر لگ بھگ 12 برس تھی جب انھوں نے اپنے گھر کو خیرآباد کہا۔ ‘پڑھائی سے دل اٹھ چکا تھا۔ بس لاہور آ گیا۔‘

ندیم کو جاوید اقبال کیس میں ماتحت عدالت سے معاونت پر ملنے والی سزا بعد میں وفاقی شرعی عدالت نے ختم کر کے اسے بری کر دیا تھا۔

عاصمہ جہانگیر لیگل سیل کی معاونت سے بی بی سی اردو کی ٹیم جاوید اقبال کے پرانے ساتھی ندیم سے ملنے اس کے گاؤں گئی جہاں اب 35 سالہ ندیم ناصرف شادی شدہ ہیں بلکہ ایک بیٹے کا باپ بھی ہیں۔ لیکن 22 سال پرانے اس واقعے کے ان کی زندگی پر پڑنے والے اثرات اس کی آنکھوں میں اب بھی نظر آتے ہیں۔

ندیم نے بتایا کہ 12 سال کی عمر میں گھر چھوڑ کر جب وہ لاہور پہنچے تو مینار پاکستان پر ایک دن اُن کی جاوید اقبال سے ملاقات ہوئی۔ ’اس نے پوچھا کام کرو گے، میں نے کہا کروں گا۔ یہ تو اب یاد نہیں کہ اس نے کیا تنخواہ بتائی تھی، لیکن اس نے رہنے کی جگہ، کھانے پینے اور پہننے کے لیے کپڑے دینے کا وعدہ کیا تھا تو میں اس کے ساتھ چلا گیا۔‘

ندیم کے مطابق اس کو کہا گیا کہ وہ پاپڑ بیچنے مینار پاکستان اور داتا دربار جایا کرے اور وہاں پر اپنے جیسے گھر سے بھاگے ہوئے اور بچوں کو بھی کام کے بہانے لایا کرے۔ ندیم کے مطابق اس نے راوی روڈ کے اس گھر میں قریباً 15 روز گزارے اور اس دوران وہ چھ سے سولہ سال کے تیرہ، چودہ بچے لے کر آیا۔

’ہر رات اس گھر میں تین سے چار بچے موجود ہوتے تھے۔ سب صبح کام کرنے چلے جاتے۔ کچھ واپس آ جاتے تھے۔ گھر میں ہی کھانا کھاتے تھے، وہیں سو جاتے تھے۔‘

ندیم کی عمر اس وقت بارہ سال تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زیادہ وقت گھر کے پہلے کمرے میں ہی رہتے تھے جہاں ایک ٹی وی اور ایک بیڈ موجود تھا۔ ’جاوید اقبال تو زیادہ ترگھر میں بیڈ پر بیٹھا ٹی وی پر انگریزی فلمیں دیکھتا رہتا تھا۔ کبھی کبھار باہر چلا جاتا تھا۔ اس سے کوئی ملنے نہیں آتا تھا وہاں پر۔‘

ندیم کا کہنا ہے کہ جتنا عرصہ وہ اس گھر میں رہا، اس نے نہ تو کسی بچے کو قتل ہوتے دیکھا اور نہ ہی کسے بچے سے جنسی زیادتی کی گئی۔ ’میں نہیں جانتا وہاں کیا ہوا۔ ہم تو اور کسی کمرے میں نہیں جاتے تھے۔ ہمارے سامنے تو ایسا کچھ نہیں ہوا۔‘

ندیم کے والد یاسین نے بی بی سی کو بتایا کہ 30 نومبر کو ندیم اچانک واپس گھر لوٹ آیا۔ ’ہم نے تو اپنے بچے کو قرآن حفظ کرنے کی غرض سے قریبی مدرسے بھیجا تھا لیکن کچھ عرصہ بعد پتا چلا کہ یہ وہاں سے بھاگ گیا ہے۔‘

یاسین کے مطابق انھوں نے ندیم کو بہت ڈھونڈا لیکن وہ نہیں ملا۔ ‘کئی ہفتوں تک اس سے کوئی رابطہ نہیں تھا پھر 30 نومبر کو وہ خود ہی گھر لوٹ آیا۔‘

جاوید اقبال کیس کے تحقیقاتی افسر سابق ڈی ایس پی مسعود عزیز خان

’گلی میں کبھی کسی نے شکایت نہیں کی‘

پراپرٹی ڈیلر سید منیر حسین شاہ آج بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ جاوید قبال نے اسی گھر میں 100 بچے مار دیے تھے۔ ان کے مطابق اس وقت گلی میں صرف چار گھر تھے اور گلی کے باہر پنکچر لگانے والا اور چائے والا ہوتا تھا۔

’اگر اندر بندے جاتے تو ان کو بھی تو پتہ لگتا کہ اندر کوئی جا رہا ہے۔ میرے خیال میں اس گھر میں بچوں کا قتل نہیں ہوا۔ میں نے نہیں دیکھا۔ گلی میں بھی کبھی کسی نے شکایت نہیں کی تھی۔‘ سید منیر حسین کے مطابق اس گھر کے بالکل سامنے بھی ایک گھر تھا اور ساتھ والے گھر میں بھی فیملی رہتی تھی جب کہ گھر کی پچھلی دیوار بھی بہت اونچی نہیں تھی۔ ’ساتھ والے گھر سے اندر نظر آتا تھا مگر کبھی کسی نے نہیں کہا کہ وہاں سے تیزاب یا کچھ جلنے کی بدبو آتی ہے۔‘

عبد الجبار لاہور صرافہ بازار میں کام کرتے تھے اور 100 بچوں کے قتل کے انکشافات سامنے آنے سے دو ڈھائی ماہ پہلے ہی راوی روڈ کی گلی میں رہنے آئے تھے جہاں جاوید قبال کا گھر بھی تھا۔ وہ بھی اس کیس کی صداقت پر سوال کرتے نظر آتے ہیں۔ عبدالجبار نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا اور جاوید اقبال کا گھر آمنے سامنے تھا لیکن انھوں نے کبھی بھی جاوید اقبال یا کسی بچے کو گلی سے آتے جاتے نہیں دیکھا۔

عبد الجبار نے بتایا کہ ان دنوں ان کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی جس کا علاج چل رہا تھا اور ساتھ ہی وہ اپنے نئے مکان کی تعمیر بھی کروا رہے تھے جس کے لیے وہ سارا سارا دن گھر کے باہر گلی میں بیٹھے رہتے تھے۔

جاوید اقبال کا پہلا اعترافی خط؛ ’یہ تو پاگل شخص ہے‘

اس کیس میں صرف ہمسائے اور پراپرٹی ڈیلر ہی سوالات اٹھاتے نظر نہیں آتے بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ پولیس نے بھی جاوید اقبال کے پہلے اعترافی خط کے بعد یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ وہ قتل بھی کر سکتا ہے۔

یہ بات ہے اس کیس کے منظر عام پر آنے سے کچھ ہی عرصہ پہلے کی جب جاوید اقبال کے پہلے اعترافی بیان کے مطابق وہ سو بچوں کا قتل کر چکا تھا۔ جاوید قبال نے پولیس کے اعلیٰ حکام کے نام خطوط لکھے جس میں اس نے 100 بچوں کو قتل کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے تمام تفصیلات بھی مہیا کیں کہ اس نے وہ قتل کیسے، کب اور کہاں کیے تھے اور اس واردات کو انجام دینے کا اس کا مقصد کیا تھا۔

اس نے خطوط میں اپنی ایک ڈائری کا بھی ذکر کیا تھا جس میں ان جرائم کی مکمل تفصیلات لکھی ہوئی تھیں۔

ایسا ہی ایک خط اس وقت کے ڈی آئی جی لاہور کے پاس پہنچا جنھوں نے ڈی ایس پی سی آئی اے طارق کمبوہ کو اس خط کی حقیقت کا سراغ لگانے کا ٹاسک سونپا۔

اس کے بعد کیا ہوا؟ بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے پولیس حکام، وکلا اور پراپرٹی ڈیلر منیر حسین شاہ نے مختلف واقعات بیان کیے۔

منیر حسین شاہ کے مطابق ڈی ایس پی طارق کمبوہ راوی روڈ آئے جہاں انھوں نے ان کے دفتر آ کر جاوید اقبال کے بارے میں استفسار کیا اور بعد میں جاوید کے گھر بھی گئے۔ پولیس اہلکاروں کے مطابق طارق کمبوہ نے جاوید اقبال کو پوچھ گچھ کے لیے دفتر بلایا۔ کیس کے اس وقت کے سرکاری وکیل کے مطابق طارق کمبوہ جب جاوید اقبال کے گھر گئے تو اس نے خود کشی کی کوشش کے لیے پستول بھی اٹھایا۔ اس وقت کے اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق جاوید اقبال کو سی آئی اے تھانے لے جایا گیا۔

ان بیانات کا تضاد اس بات پر اتفاق رائے میں ختم ہوتا ہے کہ اس وقت ڈی ایس پی طارق کمبوہ نے جاوید اقبال کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ یہ ایک پاگل شخص ہے، یہ بھلا کیسے 100 بچوں کا قتل کر سکتا ہے؟

چند ہی دن بعد جاوید اقبال کے گھر سے تیزاب سے بھرے چند ڈرم برآمد ہوئے جن سے انسانی باقیات ملیں۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ایک جانب پولیس اطلاع کے بعد بھی موقع واردات کا پوری طرح جائزہ نہ لے سکی اور دوسری جانب ایک صحافی نے وہ کام کیا جو شاید پولیس پہلی ہی بار کر لیتی تو کیس پہلے ہی حل ہو جاتا۔

جاوید اقبال کا دوسرا خط: ’کیا کوئی ایسا کر سکتا ہے؟‘

کیس کے تفتیشی افسر ریٹائرڈ ڈی ایس پی مسعود عزیز کا ماننا ہے کہ جاوید اقبال کے اس جرم کے پیچھے ایک وجہ اس کی شہرت کی بھوک بھی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب جاوید نے دیکھا کہ پولیس کو لکھے گئے خط کے باوجود کچھ نہیں ہوا تو اس نے ایک ہفتے بعد وہی خط جنگ اخبار کو بھیج دیا۔‘

یہ خط دو دسمبر 1998 کو جنگ اخبار لاہور کے کرائم ایڈیٹر جمیل چشتی کے سامنے موجود تھا جو خط پڑھے جا رہے تھے اور سوچے جا رہے تھے کہ کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟

جمیل چشتی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ کافی وزنی لفافہ تھا جس میں 75 بچوں کی ایک ہی کمرے میں کھینچی گئی تصاویر تھیں اور یہ تحریری دعویٰ تھا کہ سولہ بی راوی روڈ کے مکان میں سو بچوں کے قتل کے شواہد موجود ہیں۔

’اس وقت ہم سوچ رہے تھے کہ کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے؟ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی شخص اتنے بے رحمانہ طریقے سے بچوں کو قتل کر سکتا تھا۔‘

جمیل چشتی نے فیصلہ کیا کہ اس مکان کا جائزہ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ جمیل چشتی بتاتے ہیں کہ مکان کے باہر تالا لگا ہوا تھا لیکن اردگرد پتا کرنے کے بعد ان کا رابطہ پراپرٹی ڈیلر سید منیر حسین شاہ سے ہوا اور انھیں ساتھ لے کر وہ جاوید اقبال کے ساتھ والے مکان سے سیڑھی لگا کر اس گھر کے اندر جا پہنچے۔

’یہاں سو بچوں کا قتل ہوا ہے‘

جمیل چشتی بتاتے ہیں کہ ’جب ہم گھر کے اندر اُترے تو مجھے ایک بوری نظر آئی جس پر لکھا ہوا تھا سو بچوں کے جوتے۔ ایک اور بوری پر سو بچوں کے کپڑے لکھا ہوا تھا۔ یہ سب ویسے ہی تھا جیسے خط میں تحریر تھا۔ اب میں نے سٹور کی تلاش شروع کر دی۔ جلد ہی ہمیں ایک چھوٹا سا سٹور بھی مل گیا۔ اندر داخل ہوئے تو اندھیرا تھا۔ میں نے بلب آن کیا تو دیکھا کہ ایک ڈرم موجود ہے۔ اس ڈرم کے ڈھکن کو اٹھایا تو آپ سوچ نہیں سکتے کہ میرا کیا حال ہوا۔ میرے ہاتھ تیزاب سے جل گئے، اتنی تیز بدبو تھی کہ میرے اوسان خطا ہو گئے۔‘

’مجھ سے اپنے آپ کو سنبھالا نہیں جا رہا تھا۔ سید منیر حسین سے جب میں نے یہ کہا کہ آپ تو کہتے تھے یہاں کچھ نہیں ہے لیکن یہاں تو 100 بچوں کا قتل ہوا ہے ۔ یہ سنتے ہی وہ بے ہوش ہو گئے۔‘

جمیل چشتی کے مطابق اب انھیں جاوید قبال کے خطوط میں لکھی گئی کہانی سچی لگنے لگی تھی۔ پراپرٹی ڈیلر منیر کو ہوش میں لے کر آئے تو وہ بھی پریشان ہو چکے تھے۔ پھر تھانہ راوی روڈ کے ایس ایچ او عاشق مارتھ کو فون کیا گیا۔ منیر حسین شاہ سے جب بی بی سی اردو نے اس دن کے بارے میں سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ سب سے پہلے پولیس کے ساتھ گھر کے اندر داخل ہوئے لیکن انھوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ایک کمرے میں ڈرم میں گوشت کا ٹکڑا دیکھ کر وہ بے ہوش ہو گئے تھے۔

ایک ایسا جرم جس کے تمام شواہد مجرم خود چھوڑ گیا

انسپکٹر ریٹائرڈ رانا محمد افضل بھی اس پولیس ٹیم کا حصہ تھے جو سب سے پہلے جائے واردات پر پہنچی تھی۔ انسپکٹر رانا محمد افضل نے بتایا کہ اس گھر میں چھوٹا سا صحن تھا اور تین چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ ’ویران سا گھر تھا، اندر سے عجیب سی بدبو آرہی تھی۔ ایک کمرے میں نیلے رنگ کے ڈرم پڑے تھے جن میں محلول تھا۔ ایک ڈرم میں کچھ اعضا نظر آ رہے تھے۔‘

پولیس نے جائے وقوعہ پر ڈرم میں موجود انسانی باقیات سے لوہے کا ایک کڑا بھی برآمد کیا جب کہ 77 بچوں کے جوتوں کے جوڑے اور 100 بچوں کے کپڑے بھی الگ الگ تھیلوں میں پیک کیے ہوئے ملے۔ جاوید اقبال کے ہاتھ سے لکھے ہوئے متعدد پمفلٹس بھی ملے جن پر درج تھا کہ اس نے 100 بچوں کو قتل کر کے تیزاب میں ڈال دیا ہے۔

اس گھر سے انسانی بالوں سے بھرے دو جگ اور پہلے کمرے سے 16 انچ لمبی لوہے کی چین ملی۔ بیڈ کے سائیڈ ٹیبل سے بچوں کی تصاویر کا ایک البم اور تین ڈائریاں بھی ملیں جو ملزم جاوید اقبال نے لکھیں تھیں۔ ان میں سے ایک ڈائری میں بچوں کے نام درج تھے جبکہ دوسری میں بچوں کو قتل کرنے کے طریقے کے بارے میں لکھا ہوا تھا۔ انسپکٹر رانا صدیق کے مطابق ان اشیا کے معائنے کے لیے فرانزک لیبارٹری بھجوا دیا گیا۔ اب یہ کہانی خوفناک روپ دھارتی جا رہی تھی۔

’ہم نے اسی روز خبر چھاپ دی‘

جمیل چشتی کے لیے یہ ایک بڑی خبر تھی۔ اس سے پہلے کہ یہ خبر باقی اخباروں تک پہنچتی، انھوں نے اسے چھاپنے کا فیصلہ کیا۔ جمیل چشتی کے مطابق انھیں بھی گھر سے ایک ڈائری ملی تھی جس میں جاوید اقبال نے ایک ایک بچے کے گھر کا پتہ لکھا ہوا تھا۔

’ہم نے ہر اس شہر سے جہاں کا پتہ لکھا ہوا تھا معلوم کروایا کہ کیا اس نام کا بچہ لاپتہ ہے۔ جب تصدیق ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا سو بچوں کو مارنے کا دعویٰ سچا تھا۔ ہم نے بچوں کی تصاویر اور اس سرخی کے ساتھ خبر لگا دی کہ سو بچوں کے قتل کا انکشاف۔‘

جنگ اخبار میں جاوید اقبال کی گرفتاری کی خبر

تین دسمبر کو پاکستان کے اخبارات میں یہ خبر مزید تفصیلات کے ساتھ شائع ہوئی تو ملک بھر میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ بچوں کی تصاویر دیکھ کر انسانی جم غفیر تھانہ راوی روڈ جمع ہو گیا۔ کئی لاپتہ بچوں کے والدین سولہ بی راوی روڈ سے برآمد ہونے والے بچوں کے کپڑوں اور جوتوں میں اپنے بچوں کو تلاش کرتے رہے۔

انسپکٹر رانا صدیق کہتے ہیں کہ وہ چند روز جن میں شناخت کا یہ عمل جاری تھا، قیامت خیز تھے۔ اپنے بچوں کی چیزوں کو شناخت کرتے خواتین کی چیخ و پکار آج تک ان کے کانوں میں گونجتی ہے۔

یہ چیخ و پکار بین الاقوامی میڈیا کی سرخیوں کی بھی زینت بنی۔ ملک میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کی نئی نویلی حکومت کے لیے یہ ایک ٹیسٹ کیس بن گیا۔ پولیس حکام اب مزید اس کیس سے پہلو تہی نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن اب وہی مجرم جو پہلے پولیس کو جرم کی اطلاع کرتا رہا غائب ہو چکا تھا۔

جاوید اقبال کا کہیں نام و نشان نہیں مل رہا تھا۔ پولیس نے ان تمام افراد کو گرفتار کر لیا جن کا اس سے کسی بھی قسم کا کوئی بھی تعلق تھا۔ جاوید اقبال کے بھائی، پراپرٹی ڈیلر منیر حسین شاہ، پرانے دوست نسیم مرشد، اسحاق بلا۔۔۔ کیوںکہ جاوید اقبال ان تمام افراد کے نام بطور شریک مجرم اپنی ڈائری میں درج کر گیا تھا۔ پولیس نے کسی کو نہیں چھوڑا، بس ہاتھ نہ آیا تو جاوید اقبال۔

مرشد نسیم کے متعلق جاوید اقبال نے ڈائری میں لکھا تھا کہ مرشد نسیم نے ہی اسے بچوں کو اس طرح سے قتل کر کے لاشوں کو تیزاب میں ڈال کر محلول بنانے کا مشورہ دیا تھا جبکہ اسحاق بلا اسے تیزاب کا بندوبست کر کے دیتا تھا۔ قلعہ گجر سنگھ میں واقع سی آئی اے پولیس ہیڈکوارٹرز میں قید اسحق بلا کی دوران تفتیش کھڑکی سے گر کر موت ہوئی تو پولیس نے اسے خودکشی قرار دیا لیکن بعد میں جوڈیشل انکوائری میں یہ بات ثابت ہوئی کہ ملزم اسحاق بلا کی ہلاکت مبینہ تشدد سے ہوئی تھی۔ طارق کمبوہ پر قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ بھی درج کیا گیا۔

اس سوال کے جواب میں کہ جاوید اقبال نے بار بار ان کا تذکرہ اپنی ڈائری میں کیوں کیا، نسیم مرشد نے کہا کہ وہ یہ نہیں جانتے لیکن وہ جاوید اقبال سے اپنا تعلق شاد باغ سے ہی ختم کر چکے تھے۔ نسیم مرشد نے مزید بتایا کہ جاوید اقبال کے ساتھ سب سے زیادہ وقت اسحاق بلا کا ہی گزرا جو بچپن سے اس کے ساتھ تھا اور کھانا بنانے سے لے کر اس کے گھر کے سارے کام بھی کرتا تھا۔

ادھر ایس ایچ او تھانہ راوی روڈ عاشق مارتھ کی مدعیت میں دو دسمبر 1999 کو جاوید اقبال اور دیگر کے خلاف 100 بچوں کو قتل کرنے اور ان کے ساتھ بد فعلی کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ نمبر 316/99 درج ہوا جن میں پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی مختلف دفعات بشمول 302, 201, 377 اور377 جبکہ حدود آرڈیننس کی دفعات سات اور 12 شامل کیں گئیں۔ مقدمہ میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ سات بھی شامل کی گئی۔

’ہم نے پوچھا سر کہاں جا رہے ہیں؟‘

اس وقت جاوید اقبال کہاں تھا؟ یہ سوال ہم نے ندیم کے سامنے رکھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ 30 نومبر کو جب ندیم گھر پہنچا تو اس کے ایک ہی دن بعد جاوید اقبال بھی اس کے گھر آیا۔ یہ یکم دسمبر کی بات ہے۔ ندیم کے والد نے بتایا کہ جاوید اقبال اور اس کا ساتھی ساجد یکم دسمبر 1999 کو ان کے گھر آئے تھے۔

’ندیم جب گھر واپس آیا تو اس کے پاس چار ہزار روپے تھے۔ ہمیں شک ہوا کہ اتنے پیسے اس کے پاس کہاں سے آئے تو اس نے کہا کہ لاہور میں کام کرتا ہے۔‘

یاسین نے بتایا کہ جاوید اقبال نے انھیں بتایا کہ وہ کوئی بڑا سرکاری افسر ہے۔ ’اس نے اپنا کوئی کارڈ بھی دیا اور کہنے لگا کہ وہ ایک بیمار شخص ہے، ندیم کو اس کے ساتھ جانے دیں کیونکہ ندیم نے اس کی بڑی خدمت کی ہے۔‘

یاسین کہتے ہیں کہ انھیں کیا پتا تھا کہ وہ ایسے شخص کے ہاتھ میں اپنا بچہ دوبارہ دے رہے تھے جو اتنے سنگین جرائم میں مطلوب تھا۔ یٰسین کے مطابق وہ خود تینوں کو ایک بس پر بٹھا کر آئے تھے۔

ندیم کے مطابق اس کے بعد جاوید اقبال نے انھیں کہا کہ وہ لوگ مری جا رہے ہیں۔ ’پھر ہم پہاڑیوں میں بھی رہے۔ میں نے ایک بار پوچھا کہ سر ہم یہاں کیوں آئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بس سیر کر رہے ہیں۔‘

دوسری طرف مسعود عزیز خان کہتے ہیں کہ ملزم جاوید اقبال کی بہن نے انھیں بتایا کہ ملزم کے پاس دس دس ہزار کے تین بانڈز کے علاوہ کچھ نہیں۔ پولیس نے پاکستان بھر میں اس بینک کی برانچوں کو مطلع کیا کہ کوئی بھی اگر ان بانڈز کو کیش کروانے آئے تو فوری طور پر اطلاع دی جائے۔ مسعود عزیز خان کے مطابق جب تک ’ہمارا پیغام بنکوں تک جاتا تب تک جاوید اقبال دینہ سے ایک بانڈ کیش کروا چکا تھا۔ دوسرا بانڈ کیش کروانے یہ سرائے عالمگیر ایک بینک گیا۔‘

سرائے عالمگیر کے اس بینک میں جاوید اقبال نے ندیم اور ساجد کو بھیجا اور خود باہر کھڑا رہا۔ ندیم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جیسے ہی ہم نے کیشیئر کو چیک دیا، اس نے آواز لگائی کہ بینک کا دروازہ بند کر دو۔ یہ وہی بندہ ہے جس نے سو بچوں کو مارا ہے۔‘

جاوید اقبال یہ دیکھتے ہی فرار ہو گیا لیکن ساجد اور ندیم پکڑے گئے۔ ندیم کا کہنا ہے کہ ساجد، جاوید کا خاص بندہ تھا اور ہر جگہ وہی اس کے ساتھ ہوتا تھا۔ مسعود عزیز خان کہتے ہیں کہ ’بچوں نے ہمیں بتایا کہ ان کے پاس ایک کمبل تھا اور یہ زیادہ تر ہوٹلوں کی بجائے غاروں میں ہی رہتے تھے اسی وجہ سے وہ پولیس کی گرفت میں نہ آ سکے۔‘

’ہمیں ڈر تھا کہیں وہ خودکشی نہ کر لے‘

تاریخ تیس دسمبر ہو چکی تھی۔ یہی وہ دن تھا جب رات کے پونے نو بجے جمیل چشتی کو اطلاع ملی کہ جاوید اقبال جنگ کے دفتر پہنچ چکا ہے۔ ’میں فوراً دفتر پہنچا تو دیکھا وہاں رش تھا۔ جب میں نے اپنے سامنے اسے دیکھا تو میں اسے پہچان نہیں سکا۔ اس کے چہرے پر جنونیت سی تھی۔ داڑھی بڑھی ہوئی، سر پر ٹوپی۔ ناجانے وہ اتنا عرصہ کہاں رہا۔‘

جمیل چشتی کے مطابق انھوں نے دیکھا کہ جاوید اقبال کے ہونٹ خشک ہو رہے ہیں۔ ’ہمیں ڈر محسوس ہوا کہ اس نے کچھ کھا نہ لیا ہو جس پر اس کی تلاشی لی گئی اور اس کے پاس سے سائینائیڈ کی گولیاں برآمد ہوئیں۔‘

جمیل چشتی کے مطابق انھوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ جاوید اقبال نے دو دو جرابیں پہن رکھی تھیں اور پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کے پاؤں تیزاب کی وجہ سے جلے ہوئے ہیں۔ ’جب جرابیں اتاری گئیں تو اس میں سے ویلیئم ٹین (نیند کی گولی) کی بہت ساری گولیاں نکلیں۔ ہم نے اسے بہت سارا پانی پلایا اس ڈر سے کہ کہیں وہ پہلے ہی کچھ کھا نہ چکا ہو۔‘

واضح رہے کہ جاوید اقبال اپنے اعترافی خط میں یہ لکھ چکا تھا کہ وہ خود کشی کرنے والا ہے۔

جمیل چشتی نے اس روز جنگ کے دیگر سٹاف سمیت قریب دو گھنٹے تک جاوید اقبال کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ جمیل چشتی کے بقول انھوں نے جاوید اقبال سے اس کیس سے جڑے ہر طرح کے سوالات کیے جن میں سو بچوں کو قتل کرنے کی وجہ بھی شامل تھی۔

’اس نے بتایا تھا کہ اس پر ایک حملہ ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ قریب المرگ ہو گیا تھا اور اس کی ماں اس کی بیماری کے صدمے میں ہی چل بسی جس کے بعد اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ ان بچوں کی وجہ سے اس کی ماں مری ہے تو وہ سو بچوں کی ماؤں کو رلائے گا۔‘

جاوید اقبال نے جمیل چشتی کو بتایا کہ اس نے صرف سو بچوں کو مارنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس نے کہا کہ ’سو کا ٹارگٹ پورا ہو گیا۔‘

اس دوران پولیس ،سکیورٹی ادارے وہاں پہنچ چکے تھے۔ عوام کا ایک جم غفیر بھی جنگ کے دفتر کے باہر جمع ہو چکا تھا۔ جیسے ہی انٹرویو ختم ہوا جاوید اقبال کو گرفتار کر لیا گیا۔ مسعود عزیز خان کہتے ہیں کہ ’ہم جاوید اقبال کو قلعہ گجر سنگھ لے آئے جہاں پہلے ہی ندیم اور ساجد زیر تفتیش تھے۔‘ کیس کے چوتھے ملزم محمد صابر کو اس کے والد نے ہی پولیس کے حوالے کر دیا۔

’جاوید اقبال بہت مطمئن تھا‘

مسعود عزیز خان کہتے ہیں کہ جب ’میں نے پہلی بار جاوید کو دیکھا کہ تو اس کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی، بہکی بہکی باتیں کرتا تھا لیکن بول چال میں بالکل ٹھیک تھا۔ وہ بہت مطمئن تھا۔ مجھے اس میں کسی قسم کی ندامت نظر نہیں۔‘

’ایک کمرے میں اس نے ٹی وی اور بیڈ رکھا ہوا تھا۔ یہاں یہ بچوں کو نئے کپڑے دیتا تھا اور ان کو ٹی وی کے سامنے بٹھا کر خود بیڈ پر بیٹھ جاتا تھا۔ بچے ٹی وی دیکھ رہے ہوتے تھے تو اسی دوران جاوید اقبال ایک زنجیر کے ذریعے دونوں ہاتھوں سے ان کی گردن دبا دیتا تھا۔ گھر کے تیسرے کمرے میں ڈرم رکھے ہوئے تھے جن میں یہ بچوں کی لاش ڈال دیتا تھا اور ایک دن میں ہی ان کا جسم گل جاتا تھا۔ ہر بچے کی یہ تصویر اور گھر کا پتہ لے لیتا جسے ڈائری میں نوٹ کرتا تھا۔‘

’جاوید اقبال نے تفتیش کے دوران بتایا تھا کہ ابتدا میں اس کے پاس کیمرہ نہیں تھا لیکن 43 بچوں کو قتل کرنے کے بعد اس نے کیمرے کا بندوبست کیا تھا اسی لیے اس کے پاس 57 بچوں کی ہی تصاویر موجود تھیں۔‘

’جاوید اقبال نے ہمیں بتایا کہ پہلے پہل قتل کے بعد وہ لاش تیزاب میں پگھلا کر جسمانی باقیات کو فلش کے ذریعے پھینک دیتا تھا جس سے گٹر بند ہو جاتا تھا تو محلے والے شکایت کرتے تھے کہ جاوید تم کیا کرتے ہو کہ گٹر بند ہو جاتا ہے۔ پھر اس نے پرانے راوی میں باقیات پھینکنا شروع کر دیں۔‘

مسعود عزیز خان کے مطابق اس کیس کی تفتیش اس لیے مشکل تھی کیوںکہ اس واقعے کا ملزمان کے علاوہ کوئی چشم دید گواہ نہیں تھا۔ ’ایک ثبوت ہمیں یہ ملا کہ جب یہ گھر سے نکلتا تھا تو ایک فروٹ والا گلی میں موجود ہوتا تھا جس سے اس کی دوستی تھی۔ اس نے ہمیں بتایا کہ جب وہ صبح آتا تھا تو وہ دیکھتا تھا کہ جاوید اقبال گھر سے ڈرم لے کر جاتا ہے۔‘

پولیس نے لاپتہ بچوں کی شناخت کا عمل بھی شروع کیا۔ ’ہم نے ہر بچے کے گھر پر پولیس کو بھجوایا۔ انھوں نے بچوں کے کپڑے، جوتے شناخت کیے۔ لورالائی تک سے لاپتہ بچوں کے خاندان والے آئے۔ آخر میں ڈرم سے دو کڑے ملے تھے جو پاؤں میں ڈالے جاتے ہیں۔ وہ دو بچے قصور کے تھے۔ ان کے والدین نے شناخت کی کہ واقعی یہ کڑے ان کے بچے پہنتے تھے۔

ایک اور سوال کے جواب میں مسعود عزیز خان نے بتایا کہ جب تفتیش مکمل ہو گئی اور چالان مرتب کیا جا رہا تھا تب بھی بار بار ویریفیکیشن کی جا رہی تھی کہ شاید کوئی بچہ بچ کے نکل گیا ہو۔ اس دوران معلوم ہوا کہ ’جاوید اقبال کی ڈائری میں ایک بچے کا نام درج تھا جو بھائی پھیرو میں اپنے گھر سے مل گیا تھا۔

سینیئر افسران نے اس بچے کا انٹرویو کیا تھا تو اس نے بتایا کہ وہ ایک چائے والے ہوٹل پر کام کرتا تھا جہاں دو بچے آئے اور کہنے لگے کہ ان کا ایک استاد ہے جو پاپڑ بیچتا ہے تم ہمارے ساتھ آؤ پیسے بھی زیادہ ملیں گے۔ وہ بچے کو ساتھ لے گئے جہاں اس کے کپڑے اتروائے تو اسے شک ہوا اور وہ وہاں سے بھاگ گیا۔ اس بچے کے استاد نے جب اسے کہا کہ وہ اسے اس جگہ پر لے چلے تو بچے نے کہا اسے اب وہ گلی بھی یاد نہیں۔‘

جاوید اقبال کا یوٹرن

آٹھ فروری 2000 کو پولیس نے کیس کی تفتیش مکمل کر کے چار ملزمان جن میں مرکزی ملزم جاوید اقبال کے علاوہ شہزاد عرف گڈو عرف ساجد، محمد ندیم عرف دیمی اور محمد صابر کو ملزم ثابت کرتے ہوئے چالان مقامی عدالت میں جمع کروا دیا تو کیس ایڈیشنل اینڈ سیشن جج اﷲ بخش رانجھا کی عدالت میں مقرر کر دیا گیا۔

چاروں ملزمان کو نو فروری کو عدالت میں پیش کیا گیا جہاں ملزمان نے بتایا کہ وہ اپنے خرچ پر وکلا کا بندوبست نہیں کر سکتے۔ اسی لیے جاوید اقبال کے لیے ایڈووکیٹ فیصل نجیب چوہدری، ساجد کے لیے ایڈووکیٹ عبد الباقی، ندیم کے لیے ایڈووکیٹ اصغر علی اور ملزم محمد صابر کے لیے ایڈووکیٹ صفدر جاوید چوہدری کو وکیل مقرر کر دیا گیا۔ جبکہ کیس کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے محمد اشرف طاہر اسسٹنٹ پبلک پراسیکیوٹر، برہان معظم ملک، محمد اصغر روکڑی، امجد چھٹہ، آفتاب احمد اور اقبال چیمہ سپیشل پبلک پراسیکیوٹرز تعینات ہوئے۔

عدالت نے ملزمان پر 17 فروری 2000 کو فرد جرم عائد کی تو ملزمان نے صحت جرم سے ہی انکار کر دیا۔ جاوید اقبال اب یوٹرن لے چکا تھا۔ کیس میں ایک اور موڑ آ چکا تھا۔ وہی کیس جس کی ابتدا میں پولیس جاوید اقبال کے دعوے کو ماننے سے انکار کر رہی تھی، اب پولیس کیس ثابت کرنے اور جاوید اسے جھوٹا قرار دینے کی کوشش میں تھے۔

جاوید اقبال نے دعویٰ کیا کہ اس نے ایک جھوٹی کہانی گھڑی تھی جس کا مقصد صرف اور صرف پولیس سسٹم میں خرابیوں کی نشاندہی کرنا اور گھروں سے بھاگے ہوئے بچوں کی اپنے پیاروں تک واپسی کو ممکن بنانا تھا۔

سچ کیا تھا اور جھوٹ کیا؟ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا۔

جاوید اقبال کے گھر سے ملنے والے کپڑے کہاں سے آئے؟

جاوید اقبال کے بھائی ضیا الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ جاوید اقبال اپنی فیکٹری میں کام کرنے والے بچوں کو جب نئے کپڑے لے کر دیتا تھا تو ’ان کے پرانے کپڑے اور جوتے سٹور میں پھینک دیتا تھا۔ بعد میں جو باتیں آئیں کہ بچوں کے کپڑے اور جوتے ملے، یہ وہی کپڑے اور جوتے تھے جو وہ ان بچوں کے اٹھا کر پھینک دیتا تھا۔‘

لیکن کیس کے دوران پبلک پراسیکیوٹر رہنے والے برہان معظم ملک کے مطابق ایسا نہیں تھا اور یہ کیس کی سماعت کے دوران ثابت ہوا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے برہان معظم ملک نے بتایا کہ ’ہمارے پاس ایک خاتون آئی جو ایک گمشدہ بچے کی والدہ تھیں۔ ان کو جب کپڑے دکھائے گئے اور کہا گیا کہ کیا آپ پہچان سکتی ہیں کہ ان میں سے آپ کے بچے کے کپڑے بھی ہیں تو انھوں نے ایک شلوار قمیض پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ یہ میرے بچے کے کپڑے ہیں۔ اس خاتون سے وکیل دفاع نے سوال کیا کہ یہ تو ایک عام سا کپڑا ہے جو کسی کا بھی ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا نہیں، یہ کسی اور کا نہیں ہو سکتا کیوں کہ یہ شلوار قمیض میں نے اپنے ہاتھ سے سیا تھا۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ اتنے سارے کپڑوں میں سے آپ کیسے پہچان سکتی ہیں کہ یہ کپڑے آپ نے سیئے تھے تو اس عورت کا جواب تھا کہ ہم غریب لوگ ہیں ہمارے پاس سلائی مشین نہیں ہے۔ عام شلوار قمیض سلائی مشین پر سیا جاتا ہے لیکن یہ کپڑے میں نے ہاتھ سے سیے تھے۔ اس خاتون نے مزید کہا کہ اگر آپ ان کپڑوں کو کھولیں گے تو دیکھیں گے کہ شلوار میں جو آزار بند ہے وہ بھی ہاتھ کا سیا ہوا ہے اور اس میں، میں نے سات مختلف رنگوں کے دھاگے لگائے تھے۔ عدالت میں اسی وقت ان کپڑوں کو کھولا گیا تو شلوار کے آزار بند میں اس خاتون کے بیان کے مطابق سات رنگوں کے دھاگے موجود تھے۔‘

’جاوید اقبال ان فٹ نہیں تھا‘

جاوید اقبال کے سابق وکیل ایڈوکیٹ فیصل نیب چوہدری نے کہا کہ ’وہ ڈس ایبل (معذور) تھا۔ اس کی ایک ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی۔ بغیر سہارے کے نہیں چل سکتا تھا۔ اب ایک معذور آدمی یہ سب کیسے کر سکتا ہے۔ ایک اور بات یہ ہے کہ وہ جنسی طور پر کمزور ہو چکا تھا۔ جب وہ کہتا تھا کہ میں مر چکا ہوں تو اس کا اصل معنی یہ ہوتا تھا جب اس کے سر پر چوٹ آئی اور اس کی ہڈی بھی ٹوٹی تو اس کے بعد اس کی جنسی طور پر مردانہ صلاحیتیں بھی متاثر ہوئیں۔ جاوید اقبال پر بد فعلی کا الزام بالکل غلط تھا۔‘

فیصل نجیب کہتے ہیں کہ ’اصل کہانی یہ ہے کہ وہ بچوں کو لاتا تھا۔ ان کو نہلاتا تھا۔ ان کو اچھے کپڑے پہناتا تھا۔ ان کا آپس میں سیکس کرواتا تھا کیوںکہ خود تو کمزور ہو چکا تھا۔ ویڈیو بناتا تھا۔ اور انجوائے کرتا تھا۔ خود تو وہ کہتا تھا کہ میں ختم ہو چکا ہوں۔ اس کی عادت تھی بدفعلی کی۔‘

لیکن کیس میں ڈاکٹر امتیاز احمد کی رپورٹ کے مطابق جاوید اقبال ان فٹ نہیں تھا اور نا ہی اس کو کسی قسم کی کمزوری تھی۔ 31 دسمبر 1999 کو جب ندیم اور ساجد دونوں کا میڈیکل ٹیسٹ کیا گیا اس میں بھی یہ بات ثابت ہوئی کہ ندیم اور ساجد کے ساتھ ایک ہی شخص مسلسل زیادتی کر رہا تھا اور آخری بار ندیم کے ساتھ گرفتاری سے صرف ایک ہفتہ قبل جنسی یادتی کی گئی تھی۔ لیکن وقت زیادہ گزرنے کے باعث اس شخص کی شناخت کے لیے کوئی نمونہ حاصل نہیں کیا جا سکا۔

’جاوید اقبال نے صرف شہرت کے لیے جھوٹ بولا‘

جاوید اقبال کے سابق وکیل ایڈوکیٹ فیصل نجیب کہتے ہیں کہ جاوید اقبال یہ سب خود کو مشہور کرنے کے لیے کرتا تھا۔ ’اس نے مجھے کہا کہ میں اپنے آپ کو مشہور کرنے کے لیے ایسا کر رہا تھا تاکہ بعد میں ایک کتاب لکھوں اور اس سے پیسے کماؤں۔‘

ایڈووکیٹ فیصل چوہدری کے مطابق جاوید اقبال میگیلو مینیا کا شکار تھا۔ ’جب اسے کہا گیا کہ آپ نے تو خود یہ تسلیم کیا ہے اور خود کہانی بتائی ہے تو اس نے کہا کہ میں نے انگلش فلمیں دیکھ کر یہ کہانی گھڑی۔ اس نے ان فلموں کے نام بھی بتائے۔‘

’آپ خود سوچیں کہ تین مہینے میں سو بچوں کو اغوا کرنا، ان سے بدفعلی کرنا اور ان کا قتل کرنا اور ان کی لاش اور اعضا کو ٹھکانے لگانا ممکن ہی نہیں ہے۔ اگر آپ جائے وقوعہ دیکھیں تو اس تین مرلے کے اس گھر کی دو دو تین تین فٹ کی دیواریں ہیں۔ یعنی باہر سے اندر دیکھا جا سکتا تھا۔ ایک بچہ مرا، نہیں پتہ چلا، سو بچے مر گئے اور کسی کو نہیں پتہ چلا۔‘

ایڈووکیٹ فیصل چوہدری نے دعویٰ کیا کہ جاوید اقبال کے خلاف جھوٹے شواہد بنائے گئے تھے کیونکہ ایک بار پولیس افسر طارق کمبوہ جاوید اقبال کو کلیئر کر چکے تھے۔ ’یہ سارا ڈرامہ نواز شریف ہائی جیکنگ کیس سے توجہ ہٹانے کے لیے کیا گیا۔ پھر یہ کیس اوپر چلا گیا اور لوگوں کی توجہ اس کیس سے ہٹ گئی۔‘

’لوگ وقت سے فائدہ اٹھاتے ہیں، جاوید اقبال سیکنڈز سے فائدہ اٹھاتا تھا‘

اس کیس کے سپیشل پبلک پراسیکیوٹر اور قانون دان ایڈوکیٹ برہان معظم ملک نے جاوید اقبال کے کیس پر تمام شکوک و شبہات کو غلط قرار دیا۔ ’پراسیکیوشن کے پاس بہت شواہد تھے۔ سب سے پہلے تو جاوید اقبال کا اپنا اعترافی بیان تھا جو اس نے جنگ اخبار میں دیا۔ کئی عینی شاہدین تھے جنھوں نے اسے آخری بار بچوں کے ساتھ دیکھا، پھر بچوں کے والدین نے وہاں سے کپڑے شناخت کیے، تیزاب بھی تھا جس سے انسانی باقیات ملی تھیں۔‘

اس سوال پر کہ کیا جاوید اقبال نے واقعی 100 بچوں کو قتل کیا تھا، ایڈووکیٹ برہان معظم ملک کہتے ہیں کہ تفتیش سو بچوں سے متعلق ہی شروع ہوئی۔ ’ہمیں 72 بچوں کی گمشدگی کی تصدیق ہوئی جن کے والدین بھی پیش ہوئے۔ عدالت نے 72 بچوں کی تعداد پر ہی سزا دی۔ ایسا کوئی بچہ نہیں تھا جو زندہ ثابت ہوا ہو۔ ہمارے پاس تقریباً سو بچوں کے شواہد تھے لیکن 28 بچوں کے شواہد کو عدالت نے تسلیم نہیں کیا کیونکہ نہ تو لاشیں تھیں اور نہ ہی ان کا پوسٹ مارٹم ہو سکا۔‘

’بہت سے والدین تک ہم پہنچ نہیں سکے۔ اس نے تین جگہوں کا انتخاب کیا ہوا تھا جن میں مینار پاکستان، لاہور لاری اڈہ اور داتا دربار تھے۔ ہمارا خیال ہے کہ جن تک ہم نہیں پہنچ سکے وہ شاید قبائلی علاقوں یا دور دراز کے علاقوں کے بچے تھے جو بہت برسوں سے گھر نہیں گئے تھے، ہو سکتا ہے کہ ان کے والدین کو پتا ہی نہ چلا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ یتیم بچے تھے جن کا پیچھا کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ کیونکہ جاوید کے گھر میں شواہد تھے لیکن ان کی شناخت کرنے والا کوئی نہیں تھا۔‘

جاوید اقبال کی شخصیت کے متعلق بات کرتے ہوئے برہان معظم ملک نے کہا کہ ’شکل سے جاوید اقبال معصوم نظر آتا تھا لیکن انتہائی چالاک اور عیار شخص تھا۔ لوگ وقت سے فائدہ اٹھاتے ہیں، میں نے جاوید کو سیکنڈز سے فائدہ اٹھاتے دیکھا ہے۔ وہ کھیلتا تھا۔۔۔ ہمارے ساتھ تو کیا وہ پولیس اور جج تک کے ساتھ کھیلتا تھا۔ دوسرے یا تیسرے دن جب وہ عدالت میں آیا تو اس نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جناب یہ جو ایس پی سی آئی اے کھڑا ہے یہ مجھے بالٹی، لوٹا اور سویٹر نہیں لا کر دیتا۔ اسے حکم جاری کریں کہ یہ اشیا مجھے فراہم کی جائیں جو عدالت نے دیا۔ اگلے دن عدالت میں آ کر جاوید نے کہا کہ جج صاحب آج میرا دل نیلا گنبد کے نان چنے کھانے کو کر رہا ہے۔ تیسرے دن جاوید نے جج صاحب کو کہا کہ جج صاحب میرا دل چاہتا ہے کہ بڑے بڑے کینو ہوں اور ساتھ کالا نمک ہو، وہ اس طرح کی فرمائشیں کرتا تھا اور جج صاحب اس کی فرمائشیں پوری کیا کرتے تھے۔‘

برہان معظم ملک کہتے ہیں کہ ’کیا کوئی انسان اتنا شقی القلب ہو سکتا ہے کہ وہ بچے پر بچہ مارے؟ بچے کو تو انسان ایک چھڑی مار دے تو سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ دوسری بار نہ ماروں۔ وہ نا صرف ان کو مارتا تھا بلکہ ان کے جسم کے ذرے ذرے کر دیتا تھا۔ میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ وہ اس وقت کا بہت بڑا درندہ تھا۔‘

انگریزی اخبار دی نیوز میں جاوید اقبال کی سزا سے متعلق شائع خبر کا تراشا

 ’جاوید اقبال کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں‘

کیس کا باقاعدہ ٹرائل شروع ہوا تو چند ہی ہفتوں کے اندر اندر یعنی 16 مارچ 2000 کو جج اﷲ بخش رانجھا نے اس تاریخی کیس کا فیصلہ سنا دیا اور ملزم جاوید اقبال اور ساجد کو قصاص کے تحت سزا سنائی گئی جس میں حکم دیا گیا کہ مینار پاکستان کے سامنے متاثرہ والدین کی موجودگی میں ان کے جسم کے 100 ٹکڑے کر کے تیزاب میں ڈال کر محلول بنا دیے جائیں۔

عدالتی فیصلے کے مطابق زیادتی کا الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ اس عدالتی فیصلے کی جہاں عمومی طور پر پزیرائی ہوئی وہیں کچھ وکلا، انسانی حقوق کی تنظیموں اور چند سنجیدہ حلقوں نے تنقید بھی کی اور اس فیصلے کو خلاف آئین و قانون قرار دیا۔

جمیل چشتی اس دن عدالت میں موجود تھے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میں سوچ رہا تھا کہ سزا سن کر جاوید اقبال بے ہوش نہ ہو جائے لیکن اس نے ہنس کر میری طرف دیکھا اور ایسے ہاتھ ہلایا کہ میرا شکریہ ادا کر رہا ہو۔ بعد میں جب اسے پولیس وین میں بٹھانے لگے تو وہ میرے گلے لگا اور اس نے مجھے کہا کہ میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ کی وجہ سے میرا مشن پورا ہو گیا۔‘

ندیم بھی کمرہ عدالت میں موجود تھا لیکن شور میں اسے کچھ پتہ نہیں چلا کہ کیا سزا ہوئی۔ ندیم نے بتایا کہ ’وہ تو جب ہمیں بہاولپور جیل لے گئے اور ایک بندے نے بتایا کہ پوری عمر جیل میں رہنا پڑے گا تو پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔‘

’یہ تاریخی فیصلہ تھا‘

اس وقت کے ایڈیشنل اینڈ سیشن جج جسٹس اﷲ بخش رانجھا نے بی بی سی اردو سے اس فیصلے، اس وقت کے حالات و واقعات اور اس کیس سے جڑے عوامی جذبات و توقعات کے متعلق پہلی بار کُھل کر بات کی ہے۔

جسٹس رانجھا ایڈووکیٹ فیصل چوہدری کے اس دعوے کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں کہ جاوید اقبال کیس نواز شریف طیارہ ہائی جیکنگ کیس سے توجہ ہٹانے کے لیے کیا گیا تھا۔ ’یہ ایک فضول بات ہے۔‘

’زبانی طور پر ایسی باتیں ضرور ہوئی تھیں کہ اس کیس کی وجہ سے بڑی سنسنی پیدا ہوئی ہے اس لیے اب اس کا جلد سے جلد فیصلہ ہو جائے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ان کے علم میں ایسی کوئی بات نہیں کہ حکومت کا کوئی دباؤ تھا لیکن ’مجھے امپریشن (تاثر) دیا گیا تھا کہ آپ کو منتخب کیا گیا ہے کہ آپ جلدی اس کیس کا فیصلہ کر دیں۔ میں تو سارے ٹرائل ہی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کر کے کرتا تھا۔‘

’مجھے آج تک یاد ہے کہ جب شواہد اس کے سامنے رکھے گئے کہ کیا آپ جنگ ک دفتر خود گئے اپنی مرضی سے تو اس نے عدالت میں جواب دیا تھا کہ بالکل وہ جنگ کے دفتر خود گیا تھا اپنی مرضی سے۔ اس سے پوچھا کہ آپ نے وہاں انٹرویو میں 100 بچوں کو قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا تو اس نے کہا ہاں کیا تھا۔‘

اس وقت کے عدالتی مناظر کے بارے میں بات کرتے ہوئے جسٹس رانجھا نے بتایا کہ ’عدالت کے اندر تو آپ سمجھ لیں ماتم گری ہو جاتی تھی۔ عورتیں بھاگنے اور دوڑنے کی کوشش کرتی تھیں تاکہ جاوید اقبال کو وہ پکڑ سکیں اور اس کو اس طرح ماریں جس طرح اس نے ان کے بچوں کو مارا ہے۔ وہ تو بڑا دردناک منظر ہوتا تھا جسے کنٹرول کرنا مشکل تھا۔‘

جاوید اقبال کے ذہنی توازن کے بارے میں بات کرتے ہوئے جسٹس رانجھا نے بتایا کہ جاوید اقبال کو نفسیاتی مسائل ضرور تھے لیکن ذہنی طور پر وہ بالکل ٹھیک تھا۔ جسٹس رانجھا کے مطابق جاوید اقبال ایک شکاری تھا جس کے پاس لائسنس یافتہ بندوقیں تھیں، ’اس کی پولیس والوں سے دوستیاں تھیں۔ تھانے دار اس کے دوست تھے۔‘

جسٹس رانجھا کے مطابق دوران ٹرائل جب جاوید اقبال ایسی باتیں کرتا تھا تو سارے پولیس والے آ کر ان کی منتیں کرتے تھے کہ اسے منع کریں کہ پولیس کے خلاف باتیں نہ کرے لیکن ’میں انھیں کہتا کہ یہ ایک جج کا کام نہیں کہ وہ اسے بولنے سے منع کرے ،میرا کیا مقصد ہے۔‘

انگریزی اخبار دی نیوز میں شائع خبر

جسٹس رانجھا نے اس کیس میں پولیس کی ناقص تفتیش پر بھی سوالات اٹھائے۔ ’جب جاوید اقبال جنرل ہسپتال میں زیر علاج تھا اس وقت ان ڈاکٹرز میں سے کسی ایک کو بھی بطور گواہ پیش نہیں کیا گیا۔ حالانکہ پیش کیا جانا چاہیے تھا کہ اسے کیا مسئلہ تھا، اسے جو چوٹ لگی اس کے کیا اثرات تھے۔ یہ چیزیں ایک ڈاکٹر نے ہی بتانی تھیں کیونکہ یہ تو جج کے دائرہ اختیار سے ہی باہر ہے۔‘

’یہ بھی ایک تفتیشی افسر کا کام ہے یا جج کا کہ وہ پتا لگائے کہ وہ کیوں بچوں کو نئے کپڑے پہناتا تھا حالانکہ اس نے تو اسے مارنا تھا۔ اسے دوسرے کمرے میں کیوں لے گئے۔ یہ بھی سامنے آیا کہ یہ بچوں کو خوشبو بھی لگاتا اور ایسے سارے انتظامات اس نے وہاں کیے ہوئے تھے جب تک اس کے پاس رقم تھی۔ ہمیں تو آف دی ریکارڈ پتا چلتا تھا۔‘

کیا جاوید اقبال نے واقعی 100 بچوں کا قتل کیا تھا؟ اس سوال کے جواب میں جسٹس رانجھا نے کہا کہ کیا آج تک کوئی ایسا بچہ سامنے آیا ہے جس نے کہا ہو کہ میں زندہ ہوں؟ ’ڈیفنس وکلا کے علاوہ میڈیا بھی کسی ایک بچے کو سامنے نہیں لا سکا آج تک جن کا نام ڈائری میں درج تھا۔ ہو سکتا ہے کوئی ایک آدھ بچہ زندہ بچا ہو لیکن انھیں چاہیے تھا کہ میڈیا میں آتے کہ یہ وہ بچہ ہے جس کے متعلق پراسیکیوشن کہتا ہے کہ اسے جاوید اقبال نے قتل کر دیا ہے لیکن یہ زندہ ہے۔‘

اس فیصلے پر انھوں نے کہا کہ ’فیصلہ واقعی غیرمعمولی تھا کیونکہ پراسیکیوشن کی ڈیمانڈ تھی قصاص کی۔ اسلامی نظام میں قصاص کا مطلب ہے ناک کے بدلے ناک، دانت کے بدلے دانت وغیرہ۔ تو جس چیز سے ملزم جرم کرے اسے اسی طرح سے سزا دی جائے تو اس لیے جاوید اقبال کو یہ سزا سنائی گئی۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں کبھی قصاص نہیں مانگا گیا۔‘

ایک اور سوال کے جواب میں جسٹس رانجھا نے بتایا کہ ’یہ بات سچ ہے کہ جاوید اقبال عدالت میں ٹرائل کے دوران کھانے پینے کی بہت فرمائشیں کرتا تھا لیکن انھوں نے کبھی بھی اپنی جیب سے جاوید اقبال کی کوئی فرمائش پوری نہیں کی بلکہ اس کے وکلا چیزیں لا کر دیتے تھے۔ وہ کہتا تھا بیمار بندہ ہوں بھوک لگی ہے تو وہ پھر اس کو لا کر دیتے تھے۔‘

عدالتی فیصلے کے بعد اس کیس کی اپیل لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ کے سامنے لگی لیکن بینچ نے حدود آرڈیننس کا حوالہ دے کر معاملہ وفاقی شرعی عدالت بھیج دیا جہاں ابھی کیس کی سنوائی ہونی تھی کہ جاوید اقبال اور ساجد ایک ہی جیل میں اور ایک ہی وقت میں اپنے اپنے سیل کے اندر مردہ پائے گئے۔

جیل حکام اسے خودکشی قرار دیتے ہیں لیکن اس کیس کے ساتھ منسلک پراسراریت کئی سوالات چھوڑ جاتی ہے۔

’جاوید اقبال کو ڈر تھا اسے قتل کر دیا جائے گا‘

جاوید اقبال کے سابق وکیل فیصل نجیب کہتے ہیں کہ ’ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ہی وقت میں دو لوگ جو ساتھ بھی نہیں ہیں خودکشی کر لیں جب ان کے پاس وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ان کو پلاننگ کر کے مارا گیا۔ یہ سوچی سمجھی سازش تھی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’جاوید اقبال نے مجھے بتایا تھا کہ جیل والے اسے کہتے ہیں کہ خودکشی کر لو۔ اس نے جرابوں سے مجھے بلیڈ نکال کر دکھائے کہ یہ جیل والوں نے دیے ہیں۔ اس نے دو صفحوں کا خط لکھا اور مجھے کہا کہ کیس کریں۔

’میں نے عدالت میں کیس کیا جسٹس ریاض کیانی نے نوٹس کیا اور حکومت کی جانب سے بیان دیا گیا کہ جاوید کو مارنے کی کوئی سازش نہیں کی جا رہی۔ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ جاوید اقبال کو قتل کیا گیا تاکہ اس پورے قصے کو ہی ختم کر دیا جائے۔ اس کے کیس کی کوئی پیروی بھی نہیں کرتا تھا۔ گھر والے پہلے ہی پیچھے ہٹے ہوئے تھے اس کیس کے بعد بالکل ہی ہٹ گئے۔‘

’کوئی سازش نہیں ہوئی‘

مسعود عزیز ان الزامات کو رد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اسحاق بلا کی ہلاکت کے بعد پولیس کافی محتاط تھی۔ اس وقت کوٹ لکھپت جیل کے ایک سینیئر اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی اردو کو بتایا کہ جاوید اقبال نے خودکشی سے پہلے متعدد بار اپنی جان لینے کی کوشش کی۔ ان کے مطابق جب جاوید اقبال کو کھانا دیا جاتا تھا تو وہ کھانے کے برتن اپنے سیل میں لگے بلب کو مار کر توڑ دیتا تھا اور ان ٹوٹے ہوئے شیشوں سے خود کو زخمی کرتا تھا۔

سینیئر جیل اہلکار کے مطابق جاوید اقبال ایک نفسیاتی مریض تھا جس کا علاج دوران ٹرائل بھی چل رہا تھا اور اسے ایک بار مینٹل ہسپتال بھی لے جایا گیا۔ جاوید اقبال کے سیل سے بجلی کی تمام تاریں ہٹائی جا چکی تھیں لیٹرین کی دیواریں جو عام طور پر چار فٹ ہوتی ہیں صرف دو فٹ رکھی گئی تھیں تاکہ جاوید پر نظر رکھی جا سکے۔

ساجد اور جاوید اقبال کی دو الگ الگ سیلز میں لیکن ایک ہی وقت پر مبینہ خودکشی کے متعلق سینیئر جیل اہلکار نے بتایا کہ دونوں نے خودکشیاں اس وقت کیں جب سکیورٹی اہلکاروں کی شفٹ بدل رہی تھی۔ ’ہم نے دیکھا کہ ان کی لاشیں نیچے زمین پر پڑیں تھیں اور پہلے دیکھ کر یہی لگا کہ انھیں کہیں زہر نہ دے دیا گیا ہو۔ یہ معمہ 15روز تک حل نہیں ہو رہا تھا کہ یہ دونوں کیسے مر گئے۔ پھر ایک دن ڈیوٹی پر تعینات اہلکار نے اصل بات بتائی کہ دراصل ان دونوں نے سونے والی چادر کا ایک سرا سیل کی سلاخوں سے باندھ کر دوسرا سرا اپنی گردن میں ڈال کر دونوں پاؤں سلاخوں میں پھنسا کر خودکشی کی تھی۔ ان کی لاشیں سیل میں لٹک رہی تھیں لیکن اس اہلکار نے بندھی ہوئی چادروں کو کھول دیا تھا جس سے یہ دونوں نیچے زمین پر گر گئے تھے تاکہ اس کی غفلت پر پردہ پڑا رہے۔

سینیئر جیل اہلکار کے مطابق اس واقعے کی انکوائری آئی بی اور آئی ایس آئی نے بھی کی لیکن سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ اہلکار کے مطابق جاوید اور ساجد کے سیل ساتھ ساتھ تھے اور دونوں آپس میں بات کر سکتے تھے اس لیے دونوں نے ایک ساتھ مشورہ کر کے اپنی زندگیاں ختم کر لیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں سینیئر اہلکار کا کہنا تھا کہ جاوید بائی پولر ڈس آرڈر اور ڈپریشن کا شکار ہو چکا تھا اور جب اسے سزا ہوئی تو کوئی بھی اسے ملنے نہیں آتا تھا۔

’جب ٹرائل چل رہا تھا تب تو عدالت میں وہ دوسرے لوگوں سے مل لیتا تھا، بات کر لیتا تھا لیکن جیل میں اس سے کوئی بھی بات کرنا پسند نہیں کرتا تھا اور شاید اسی وجہ سے اس نے اپنی زندگی ختم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور چونکہ ساجد جاوید کے ساتھ ہیپناٹائز تھا اس لیے اس نے بھی جاوید کے ساتھ مرنے کو ہی ترجیح دی کیونکہ سزا کے بعد وہ بھی مکمل طور پر خاموش ہو چکا تھا کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔‘

ندیم کو جاوید اقبال کی موت کی خبر بہاولپور جیل میں ملی۔ ’اس وقت تو یہی لگا کہ اب ہمارے ساتھ بھی کچھ ہو نا جائے۔ ڈر لگا رہتا تھا۔‘ لیکن پھر وفاقی شرعی عدالت نے ندیم کو بری کر دیا۔ لیکن جاوید اقبال کے نام سے جڑا رہنے کے بعد ندیم کی زندگی کبھی پہلے جیسی نہیں رہی۔ بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ندیم کا کہنا تھا کہ ’جیل کی زندگی ویسے ہی مشکل ہوتی ہے۔ ایک چھوٹے سے سیل میں ہی رہنا۔۔وہیں کھانا ۔۔خود سوچیں کیا زندگی ہو گی۔‘

ندیم کا کہنا ہے کہ اب وہ کبھی کبھی سوچتا ہے کہ وہ گھر سے نہ بھاگتا تو شاید زندگی بہتر ہوتی۔ ’میں تو سب سے یہی کہوں گا کہ اپنے گھر میں رہیں، پڑھیں۔‘ جاوید اقبال کے بارے میں ندیم کہتا ہے کہ اسے اس کے کیے کیسزا مل گئی۔

لیکن جنگ اخبار کے سابق کرائم ایڈیٹر جمیل چشتی کہتے ہیں کہ اس کیس کی تفتیش میں بہت سے سوالات باقی ہیں۔ ’نا جانے وہ کسی انٹرنیشنل ریکٹ کا حصہ تھا جو اس طرح بچوں کی فلمیں بناتے ہیں۔ کیا اس کا جیل میں قتل اسی گروہ نے تو نہیں کرایا؟ یہ بہت سارے سوالات ہیں کہ جاوید اقبال کیا تھا؟ نہ جانے آج بھی کتنے جاوید اقبال موجود ہیں۔‘

حوالہ : بی بی سی اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close