مرحلہ وار انداز میں مقامی لوگوں کو بےروزگار کرنے، ان کو قدرت کی طرف سے عطا کردہ وسائل سے محروم کرنے، علاقہ بدر کرنے اور خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے، جس کے لیے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے جارہے ہیں، معاملہ ڈیپ سی فشنگ ٹرالرز کا ہو یا ابراہیم حیدری سے متصل جزائر بھنڈار اور ڈِھنگی کا، مقصد ایک ہی ہے اور وہ مقصد ہے وہ قانون جو پہلے ہی سرمایہ دار اور طاقتور کے گھر کی لونڈی بنا بیٹھا ہے اس قانون کی بھی دھجیاں بکھیر کر اپنے مالی اور غیر ریاستی مفادات کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے آگے بڑھنا اور صدیوں سے آباد علاقوں کو تہس نہس کرتے ہوئے محض مالی لالچ کی بنیاد پر لاکھوں لوگوں کو اپنے لالچی نام نہاد ریاستی بیانیے کے ایما پر بے گھر و در بہ در بھٹکنے کے لیے تباہی کی طرف دھکیل دینا!
اگست کے پہلے ہفتے میں، میں نے ڈیپ سی فشنگ ٹرالرز کے بارے میں لکھنا شروع کیا تھا اس کے ساتھ ساتھ ہم سب نے ایک عملی جمہوری مزاحمتی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز بھی کردیا تھا جو اب تک جاری ہے، مگر ابھی ہم اس پر صوبائی و وفاقی حکومت کو سنجیدہ بنیادوں پر بات سننے تک کا بھی روادار نہیں دیکھ پائے تھے کہ اب ایک غیر آئینی ، غیر قانونی ، غیر جمہوری طریقہء کار کو اپناتے ہوئے سندھ کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے. مختلف آرڈیننس یا اتھارٹیز کے ذریعے سے وسائل پر قابض ہونے کا رویہ ہمیشہ آمرانہ حکمرانوں کا رہا ہے، یہ کسی بھی جمہوری حکومتوں کا رویہ نہیں ہوتا، کیونکہ ایسے قومی و بین الصوبائی معاملات پر چور دروازوں سے نہیں بلکہ اتفاقِ رائے اور علاقوں کے جغرافیائی، معاشی و علاقائی تحفظات کو نظرانداز کیے بنا سب کے ساتھ مل جل کر کام کرنا چاہیے.
صدیوں سے آباد لوگوں کے وسائل کو اس طرح چھین لینا، چھوٹے صوبوں پر بڑے چوروں کو مسلط کرتے ہوئے ان کی زمینوں کو ہتھیانا غیر جمہوری ، غیر آئینی عمل ہیں. پہلے ہی غریب اور متوسط طبقے کہ استحصال میں کوئی کمی نہیں چھوڑی گئی، ہمیشہ سے ڈنڈا، پولیس، قانون، آئین صرف اور صرف مظلوم طبقات کو ڈرانے کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں، لیکن جب لالچ اور ہوس اپنی انتہا کو پہنچ جائے تو سرمایہ دار اور طاقتور عناصر اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کو بھی بالائے طاق رکھتے ہوئے مظلوموں کا مزید استحصال کرنے پر محض طاقت کا استعمال کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے.
اس سارے معاملے میں سندھ حکومت کی چُپ اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں ان کی حکومت کو قائم رکھنے یا انہیں ان پر چلنے والے مختلف کیسز میں یا کمیشن کی مدد میں رعایت دینے پر راضی کر لیا گیا ہے ورنہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اس طرح کے استحصالی پروجیکٹ کے خلاف احتجاج یا جمہوری مزاحمت نہ کی جائے.
ماہیگیروں کو بے دخل کرنے کے لیے مختلف ہتکھنڈوں کا استعمال کیا جارہا ہے، جس میں ماہیگیر علاقوں میں اداروں کی سرپرستی میں منشیات مافیا کو عام کیا جارہا ہے، لینڈ مافیا سرگرم ہے، ادارے لوگوں کی نہیں جرائم پیشہ افراد کی زبان بول رہے ہیں، منشیات کی مخالفت پر منشیات مافیا مظلوم ماہیگیروں پر سیدھی گولیاں چلا رہی ہے، ڈیپ سی فشنگ ٹرالرز کے لیے راستے ہموار کیے جارہے ہیں، تاکہ مچھلی کی قلت اور بیروزگاری کے باعث ماہیگیر تنگ آ کر در بہ در ہونے پر مجبور ہوجائیں. دوسری جانب تعلیم، اسپورٹس و روزگار کے دیگر ذرائع پر بھی ماہیگیروں و دیگر مقامی لوگوں کے لیے راستے بند کیے جا رہے ہیں. ماہیگیروں کے بچے علم سے محروم ہیں اور ان کے تحفظ و حقوق کے لیے کام کرنے والے سرکاری و غیر سرکاری ادارے بھی سرمایی دار کی لونڈی بنے بیٹھے ہیں، مقامی نمائندے بھی ماہیگیروں کے لیے بولنے تک کی ہمت بھی پیدا نہیں کر پا رہے ہیں.
یہ جزائر ماہیگیروں کی ملکیت ہیں، ناکہ وفاقی حکومت کی! حکومت نت نئے ہتھکنڈوں کا استعمال غریب ماہیگیروں سے ان کے روزگار کا واحد ذریعہ چھیننے پر کرنے کے بجائے تعمیری رویہ اپنائے. تعمیری رویہ سے ہی مظلوم و کاروباری، دونوں طبقات کی بقائے باہمی وابستہ ہے اور علاقائی، شہری، صوبائی اور ملکی خوشحالی کا راز بھی اسی میں پنہاں ہے بصورت دیگر لاکھوں لوگوں کی بیروزگاری و بے سروسامانی ملکی ترقی کا راستہ نہیں بن سکتی۔۔۔۔!
(جاری ہے)