انگریزی کا ایک لفظ ہے ’integrity‘۔ عام طور سے اِس کا ترجمہ دیانت داری یا امانت داری کیا جاتا ہے، جس سے گزاراتو ہو جاتا ہے مگر تسلی نہیں ہوتی کیونکہ دیانت داری ’honesty‘ کا ترجمہ ہے اور یوں integrity کے لیے یہ لفظ موزوں نہیں ہے۔ integrity کے لیے راست بازی اچھا متبادل ہو سکتا ہے۔ خیر، اِن میں سے جوبھی لفظ آپ کو مناسب لگے اسے integrity کے متبادل کے طور پر چُن لیں کیونکہ فی الحال اِس لفظ کا موزوں ترجمہ کرنا اہم نہیں بلکہ اہم سوال یہ ہے کہ زندگی میں اِس integrity یا راست بازی کی کتنی اہمیت ہے اور اصل میں اِس سے مرادکیاہے؟
لفظ integrity کی سب سے عمدہ تعریف امریکی لکھاری اور دانشور ایڈم گرانٹ نے کی ہے۔ گرانٹ کئی کتابوں کا مصنف ہے جن میں سے اُس کی سب سے مشہور کتاب give and take ہے یا یوں کہیے کہ میں نے اُس کی یہی کتاب پڑھی ہے لیکن فی الحال اِس کتاب سے ہمیں کوئی لینا دینا نہیں، صرف راست بازی کی تعریف سے سروکار ہے جو گرانٹ نے کچھ یوں کی ہے :راست بازی کو جانچنے کا معیار یہ نہیں کہ آپ کتنی مرتبہ اپنا موقف تبدیل کرتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ آپ اپنا ذہن کیوں بدلتے ہیں۔ محض عوامی خوشنود ی کی خاطر اپنی بات کو بدل دینا کھوکھلے پن کی نشانی ہے۔ البتہ اپنے موقف کا نئے حقائق کی روشنی میں جائزہ لینا، سیکھنا کہلاتا ہے۔راست بازی اپنے خیالات سے چمٹے رہنے کا نام نہیں بلکہ سچائی کی جستجو کا نام ہے ۔
ایک دانشور کے لیے راست باز ہونا ضروری ہے اور راست بازی کی پہلی شرط یہ ہے کہ آپ مسلسل اپنے موقف کی پڑتال کرتے رہیں اور جب آپ کا موقف غلط ثابت ہو جائے تو اسے کھلے دِل سے تسلیم کرلیں۔ یہاں ایک بات البتہ اہم ہے کہ اکثر لوگ اپنے موقف کی غلطی تسلیم کرکے خود کو بڑادانشور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اگلے ہی لمحے دوبارہ اسی قسم کی سوچ کو پروان چڑھانے میں جُت جاتے ہیں جس سوچ نے اُن کے غلط موقف کی آبیاری کی تھی۔ یہ موقف کی تبدیلی نہیں کہلائے گی بلکہ خود کو بڑا آدمی ثابت کرنے کی کوشش ہوگی۔اسی طرح کچھ لوگ جانتے بوجھتے ہوئے محض اِس وجہ سے اپنے موقف سے دستبردار نہیں ہوتے کہ اس سے اُن کی انا متاثر ہوگی حالانکہ کھرادانشور ایسا نہیں سوچتا، اُس کے نزدیک اصل اہمیت سچائی اور حق کی ہوتی ہے اور حق کی تلاش میں انا آڑے نہیں آتی۔ کسی بحث کے دوران اگر کوئی شخص یہ کہہ دے کہ اُس نے زندگی میں جو نظریات قائم کیے وہ سو فیصد درست ہیں تو پھر ایسے شخص سے گفتگو نہیں ہو سکتی کیونکہ ایسی صورت میں وہ کسی بھی دلیل سے قائل نہیں ہوگا۔اس سے جڑا ہوا ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ ہمارے ہاں اکثر دانشور، مذہبی اور غیر مذہبی دونوں اقسام کے، اپنی گفتگو میں بظاہر انکساری سے کام لیتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں جب انہیں اُن کے موقف کے تضادات دکھائے جاتے ہیں تو وہ غصے میں آجاتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے علم کی بنیاد پر متکبرانہ انداز اپنا لیتے ہیں، مثلاً تاریخ کی ایک پروفیسر ہیں اور پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں جنہوں نے جناح اور پاکستان پر تحقیقی کتابیں لکھی ہیں، وہ خواہ مخواہ جلال میں رہتی ہیں۔ یہ سب باتیں کسی دانشور کو زیب نہیں دیتیں۔
دانشوروں کی ایک قسم اور بھی ہے جو بالکل دھیمے اور شائستہ لہجے میں بات کرتی ہے، آنکھوں پر سنہری فریم کی عینک لگا کر وہ خوبصورت انگریزی میں جب گفتگو کرتے ہیں تو لوگوں کا دل موہ لیتے ہیں۔ عام طور سے ہم ایسے لوگوں سے بہت جلد متاثر ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ زیادہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور اِن کے پاس انواع و اقسام کی ڈگریاں ہوتی ہیں ، یہ لوگ آئی وی لیگ قسم کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بہترین انگریزی لکھ اور بول سکتے ہیں۔ ایسے لوگ جب بات کر تے ہیں تو اِن کی گفتگو اِس قدر لچھے دار ہوتی ہے کہ بندے کا خواہ مخواہ اُن کے موقف سے متفق ہونے کو جی چاہتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ کبھی درست بات نہیں کرتے، بعض اوقات اُن کی باتوں میں حقیقتاً وزن ہوتا ہے مگر دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ وہ کون سی بات کس موقع پر اور کس وجہ سے کر رہے ہیں۔گزشتہ دنوں ایک دستاویزی فلم دیکھی جس میں ایسے ہی ایک دانشور نے انگریزی کے زور پر تاریخ کی ایک ’ان کہی داستان‘ سنائی، اُن کا موقف یہ تھا کہ تاریخ کا درست بیان نہیں کیا گیا اور کچھ حقائق توڑ مروڑ کر پیش کیے گئے ہیں لہٰذا انہوں نے بہت مدبرانہ انداز میں تاریخ ’درست‘ کرنے کی کوشش کی۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ اِن صاحب کی سی وی میں درج ہے کہ وہ ایک آمر کی ترجمانی کا فریضہ انجام دے چکے ہیں۔اب ایسے شخص کی ڈگریاں، کتابیں، اُس کی شیکسپیرئین انداز کی انگریزی ہمارے کس کام کی!کسی دانشور کی راست بازی کا اصل امتحان ہی تب ہوتا ہے جب اسے طاقتور کی حمایت اور کمزور کی وکالت میں سے کسی ایک موقف کا انتخاب کرنا پڑے، گھر بیٹھے تو سب ہی دیانت دار ہوتے ہیں، دیکھنا یہ ہوتا ہےکہ پرنسٹن، ییل اور کولمبیا سے ڈگریاں لینے والے کو جب پیشکش کی جاتی ہے کہ وہ آمریت کی حمایت کا جواز تلاش کرے تووہ اُس مرحلے پر انکار کرتا ہے یا ’جی سر‘ کہہ کر ایک دستاویزی فلم بنا ڈالتا ہے۔
سچی بات پوچھیں تو یہ سب کتابی باتیں ہیں۔ اِن پر عمل کرنے سے آپ کی زندگی میں کسی قسم کی بہتری یا انقلاب آنے کا امکان کم ہے۔ ہاں، اگر آپ دنیاوی طریقے پر چلیں گے، عوامی خوشنودی کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے موقف میں نہایت چالاکی سے تبدیلی کرتے رہیں گے، طاقتور کے مزاج آشنا بن کر اُس کے طرز حکمرانی کا انگریزی میں دفاع کریں گے تو پھر راوی تو کیا چناب، جہلم، ستلج، سندھ سب آ پ کے لیے چین ہی چین لکھیں گے۔ لہٰذا integrityکی جو تعریف میں نے بیان کی ہے اسے بھول جائیں، صرف راست بازی کا راگ الاپتے رہیں اور جہاں موقع ملے وہاں اپنے فائدے کی خاطر کچھ بھی کر گزریں، یہی دنیا میں کلید کامیابی ہے، باقی سب افسانے ہیں۔
حوالہ : روزنامہ جنگ