ایک تصویر ایک کہانی۔24

گل حسن کلمتی

پولیس چوکی، عوامی لائبریری اور مسعود فوجی

آج کہانی ایک پولیس چوکی کی ہے، جو بعد میں عوامی لائبریری میں تبدیل ہوئی اور اب اس پر قبضے کی تیاری ہو رہی ہے۔

یہ نومبر 2021 کا گرم دن تھا ، میں کامریڈ واحد بلوچ اور رمضان بلوچ کے ساتھ کلا کوٹ گیا.”کلاں کا کوٹ (قلعہ)“ اب نہیں رہا، بلکہ اب یہ ایک معروف بستی ہے۔ کامریڈ کے گھر سے ہم کے۔بی گبول روڈ پر آئے، جہاں گبول پارک بھی ہے. خانبہادر اللہ بخش گبول کی کہانی کسی اور دفعہ..

گبول روڈ پر 90 سال سے قائم ہم مُلا ہوٹل آئے. مُلا ہوٹل اپنے بکرے کے گوشت کی وجہ سے مشہورِ ہے. جب میں بی اے کا طالب علم تھا، ایک بار اپنے والد کے ساتھ یہاں کھانا کھانے آیا تھا. آج 45 سال بعد کامریڈ واحد اور رمضان بلوچ کے ساتھ یہاں کھانا کھایا۔

ھوٹل کے سامنے واقع ایک عمارت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے دوستوں نے بتایا کہ یہ لائبریری تھی، جو اب بند ہے. ساتھ میں ایک جامع مسجد ہے۔ مسجد کمیٹی یہ چاہتی ہے اس کو مدرسے کا حصہ بنایا جائے۔

عمارت کا قصہ دلچسپ تھا.. ملا ہوٹل میں جو بیٹھک لگی، اس کا مختصر قصہ کچھ اس اس طرح بنتا ہے:

یہ 1894ع کی بات ہے، کلا کوٹ میں اس جگہ، جس کا ذکر ہو رہا ہے، انگریز دور میں کلا کوٹ کے نام سے پولیس چوکی بنائی گئی، یہاں پر لاکپ ہوا کرتا تھا، ایک جج بھی کیسوں کی شنوائی کے لیے آتا تھا۔

1940ع میں لیاری کے کچھ لوگ بابا فرید کے مزار پر گئے، تو وہاں ان کو مسعود نامی ایک شخص ملا اور وہ ان کے ساتھ کراچی آیا۔ یہ انگریز فوج میں سپاہی تھا، سب کچھ چھوڑ کر آیا تھا، اس کے ساتھ ایک فوجیوں کی پیٹی تھی، جس میں اس کے کپڑے، تصویروں کا البم ، کچھ خط اور سرکاری لیٹر تھے۔ یہاں آکر اس نے پورٹ میں مزدوری کی اور 1946ع میں اس چوکی کے ایک کمرے میں رہنے لگا تھا۔

اقبال بلوچ، جو ایکسائز میں تھا، اس کی دادی ناز بیبی اس کا خیال رکھتے تھے، کھانا ان کے گھر سے آتا تھا۔

ملا ہوٹل کے مالک ملا عبدالغفور سے اس کی دوستی تھی، وہ بھی اس کا خیال رکھتا تھا۔

پاکستان بننے کے کچھ سال بعد چوکی کلا کوٹ تھانہ منتقل ہوئی.

اس سے پہلے مسعود نے اپنے لیاری کے دوستوں سے مل کر ایک لائبریری بنائی ، جس کے لیے اس وقت کی مشہور شخصیت غلام رسول بیضا والا نے بھی کوشش کی تھی ، جو صدر ایوب کے دور میں اسمبلی ممبر یا بی ڈی ممبر تھا۔

جگہ کا مسئلہ تھا، پولیس چوکی ختم ہو چکی تھی، عمارت خالی تھی لیکن سرکار کی ملکیت تھی ، مسعود نے اس لائبریری کے لیے حکومت سے خط و خطابت کی. اس کے لیے اسے حیدرآباد بھی جانا پڑا۔ اس طرح انہیں یہاں کتابیں رکھنے کی اجازت ملی۔

بھٹو دور میں جب غلام مصطفیٰ جتوئی وزیر اعلیٰ اور ممتاز بھٹو سندھ کے گورنر تھے ، تو انہوں نے پولیس چوکی کی یہ عمارت لائبریری کے لیے الاٹ کردی، اس طرح مسعود کی کوششیں رنگ لائیں اور کلاکوٹ میں عوامی لائبریری کا افتتاح ہوا.

لائبریری کے ساتھ یہاں کلاکوٹ کے لوگوں ایک بیٹھک بن گئی، سماجیات کے موضوع سے لے کر تعلیم اور سیاست پر گفتگو ہوتی تھی، لائبریری مقبول ہوئی تو دور دور سے علم کے پیاسے یہاں آنے لگے۔

20 فروری 1992ع کو ایک سرد صبح مُلا ہوٹل کا عبدالقیوم جب لائبریری میں مسعود کے لیے کھانا لے کر گیا، تو مسعود احمد کی روح پرواز کر چکی تھی۔ اس وقت اس کی عمر 77 برس تھی۔

اس کی تدفین ملا ہوٹل والوں نے کی. تدفین اور خیرات کے کھانے کے لیے کچھ رقم ملا ہوٹل والوں نے دی اور اردو کالج کے ایک افسر یوسف بلوچ، جو جھینگا کے نام سے مشہورِ تھے، نے 15 ھزار روپے دیے.

ھندستان کے بِہار سے تعلق رکھنے والا مسعود احمد ولد مقصود احمد اب میوا شاھ قبرستان لیاری میں ابدی نیند سو رہا ہے. ملا ہوٹل کے عبدالقیوم بلوچ، جو ملا ہوٹل کے مالک ملا عبدالغفور کے بھانجے ہیں، اس کی قبر پر جاتے ہیں اور پھول چڑھاتے ہیں۔ یہ علاقہ آج بھی گھاٹ کے نام سے مشہور ہے۔

مرتے وقت اس کی کپڑوں کی پیٹی جس میں لوگوں کا کہنا ہے کہ چالیس ھزار کیش، تصویروں کا البم ،کچھ خط اور لیٹر تھے، یہ سب ناصر کریم کو دیے گیے. اس وقت ناصر کریم کے والد عبدالکریم کونسلر تھے، یہ ضیاالحق کا زمانہ تھا، بابو غلام حسین یہاں سے صوبائی اسمبلی کے ممبر تھے.

1996ع میں بے نظیر بھٹو کے دور میں اس لائبریری کی تزئین وآرائش کی گئی، جس کے افتتاح کا بورڈ اب بھی لگا ہوا ہے۔

گینگ وار کے علم دشمن دور میں یہ لائبریری ویران ہوگئی۔مشرف دور میں جب یوسی 14 کلاکوٹ بنا ، یہ علائقہ اس یو سی میں تھا، رحمان ڈکیت کے بھائی عبدالغفور بلوچ یو سی چیئرمین بنے تو اس نے یہاں یو سی آفس بنادی، ہزاروں کتابیں یہاں سے اٹھائی گئیں.. کہاں گئیں، کسی کو نہیں پتا!

اس طرح کلاکوٹ میں ایک آباد لائبریری، جو بِہار سے آئے ایک فوجی بھگوڑے نے قائم کی اور کلاکوٹ کے اصلی وارثوں نے اسے ترقی دینے کے بجائے، تباہ کردیا۔

اب عمارت خالی ہے ،کسی دن یہ اچانک مدرسے میں تبدیل ہو جائے گی۔ سرکاری عمارت پرائیویٹ لوگوں کے ہاتھوں میں جائے گی، ہم دیکھتے رہے جائیں گے۔

کے ایم سی کو چاہیے کہ فتوے آنے سے پہلے اس عمارت میں دوبار لائبریری قائم کرے ، جو کتابیں یہاں سے شفٹ کی گئیں ہیں، ان کو واپس لانے کی کوشش کرے۔ اگر دیر کی گئی تو بہت دیر ہو جائے گی۔

نوٹ: اس کہانی کی تیاری میں کامریڈ واحد بلوچ، ملا ہوٹل عبدالقیوم بلوچ اور واجہ رمضان بلوچ کا شکریہ. دوستوں سے گزارش ہے کے اگر اس سلسلے میں کوئی اضافی معلومات فراہم یا درستگی کرنی ہو تو شیئر کریں)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close