پاکستانی میں ”ڈیل کی سیاست“ کی سیاہ تاریخ

نیوز ڈیسک

کراچی – سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے جلد وطن واپسی کا عندیہ، مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے پرجوش بیانات اور وزیراعظم عمران خان کی جانب سے شکوک و شبہات کے اظہار کے بعد پاکستان میں ایک بار پھر نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی ڈیل کی خبریں گردش کر رہی ہیں

کچھ دن پہلے لاہور میں ایک تقریب سے ٹیلی فونک خطاب میں نواز شریف نے شرکا سے کہا تھا کہ ‘جلد پاکستان میں آپ سے ملاقات ہوگی۔’

اسی تقریب میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا تھا کہ وہ خود نواز شریف کو لینے لندن جائیں گے

اس کے بعد وزیراعظم عمران خان سے منسوب یہ بات بھی میڈیا میں سامنے آئی تھی کہ ‘نواز شریف کی نااہلی کو ختم کرنے کے راستے نکالے جا رہے ہیں۔’

نواز شریف سے ڈیل کی ان باتوں سے متعلق سوال کے جواب میں گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے ساتھ ڈیل کے متعلق سب قیاس آرائیاں اور بے بنیاد ہیں، اگر کوئی ڈیل کی بات کر رہا ہے تو اس سے پوچھیں، تفصیلات بھی بتائے، ان کے پاس ثبوت کیا ہیں، کون ڈیل کررہا ہے، کیا محرکات ہیں، درحقیقت ایسا کچھ بھی نہیں ہے، سول ملٹری تعلقات میں الحمدللہ کوئی مسئلہ نہیں ہے

اس حوالے سے حقیقت تو وقت آنے پر سامنے آجائے گی، تاہم پاکستان میں ڈیلوں کی سیاست کوئی نئی بات نہیں، بلکہ اس کی ایک طویل تاریخ ہے

اس حوالے سے پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں اور ماہرین کا کہنا تھا کہ 70 کی دہائی سے لے کر اب تک متعدد بار سیاست دانوں نے طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کے ذریعے راستے نکالے

سیاسی تجزیہ کار پروفیسر رسول بخش رئیس کے مطابق ڈیل کا لفظ بنیادی طور پر اس وقت استعمال ہوتا ہے، جب مذاکرات کے ذریعے کسی تنازعے کو حل کیا جائے یا تناؤ کو کم کیا جائے

رسول بخش رئیس کہتے ہیں ”پاکستانی سیاست میں یہ زیادہ تر منفی معنوں میں استعمال ہوتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ جہاں قانون یا سیاسی روایات اجازت نہ دیتی ہوں، وہاں کسی کے ساتھ رعایت کرنا اور بات چیت کے ذریعے اپنے کچھ مطالبات منوانا اور کچھ دوسرے فریق کے مان جانا۔“

دو دہائیوں سے پاکستان کے سب بڑے سیاسی ٹاک شو کے میزبان رہنے والے حامد میر کا کہنا ہے کہ ڈیل اور پاکستانی سیاست کا پرانا تعلق ہے اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر عمران خان تک سب سیاست دانوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی نہ کسی سطح کی ڈیل کی، تاکہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرسکیں۔
تاہم اگر تاریخ سے سبق سیکھا جائے تو ڈیل سے سیاست دانوں کو کبھی فائدہ نہیں ہوا

نوے کی دہائی سے سیاسی امور کی رپورٹنگ کرنے والے ایک اور صحافی طارق بٹ کے مطابق پاکستان کے زمینی حقائق ایسے ہیں کہ ‘ڈیل سیاست دانوں کی مجبوری ہے، کیونکہ اس کے بغیر پاکستان میں اقتدار میں آنا ممکن نہیں۔’

طارق بٹ اور رسول بخش رئیس کے مطابق پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی ڈیل 2006-2007 میں فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں نیشنل ری کنسیلیشن آرڈیننس (این آر او) پر دستخط ہوئے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کی صدارت جاری رکھنے کی شرط پر بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف کیسز ختم کیے گئے تھے

تاہم حامد میر کے خیال میں ذوالفقار علی بھٹو کی جنرل یحییٰ خان کے ساتھ سنہ 1971 میں اقتدار کے لیے ڈیل تاریخ کی سب سے بڑی ڈیل تھی، جس کے نتیجے میں شیخ مجیب الرحمان کے الیکشنز میں اکثریت حاصل کرنے کے باوجود ان کے بجائے ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم بنے اور پھر ایک سویلین یعنی ذوالفقار علی بھٹو کو صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا تھا

پاکستان میں ڈیلوں کی تاریخ پر بات کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ سنہ 1971ع میں ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل یحییٰ خان کے درمیان ڈیل ہوئی اور بھٹو اقتدار میں آئے، تاہم اس ڈیل کے باوجود بھی بھٹو کو آٹھ سال بعد سنہ 1979 میں پھانسی دے دی گئی

حامد میر کہتے ہیں”ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سیاست دانوں کو یہ سبق سکھانے کے لیے کافی تھی کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اس سے ان کی صاحبزادی سمیت باقی سیاست دانوں نے سبق نہیں سیکھا اور بار بار دھوکے کھائے۔“

ان کے مطابق ”سنہ 1988ع میں بے نظیر بھٹو انتخابات جیت گئیں، تو اسٹیبلشمنٹ نے اقتدار دینے سے قبل ان سے ڈیل کی اور منوایا کہ ان کے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان اور وزیر خزانہ وی اے جعفری ہوں گے۔ یہ دونوں صاحبان اس وقت کے صدرغلام اسحاق خان اور اسٹیبلشمنٹ کے نامزد کردہ تھے۔ اسی ڈیل میں طے ہوا کہ بے نظیر بھٹو صدر کے انتخابات میں غلام اسحاق خان کی حمایت کریں گی جبکہ تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کی جماعتوں نے نوابزادہ نصر اللہ خان کو صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا۔“

حامد میر کہتے ہیں کہ ”اس ڈیل کے نتیجے میں غلام اسحاق خان ہی صدر بنے اور پھر انہوں نے ہی مئی 1990 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کر دی۔ گویا اس ڈیل سے بھی بے نظیر بھٹو کو فائدہ نہ ہوا۔“

انہوں نے کہا ”اس کے بعد اسی سال نواز شریف وزیراعظم بنے تو ان کی بھی اسٹیبلشمنٹ اور غلام اسحاق خان کے ساتھ لڑائی ہو گئی۔“

ان کے مطابق ”اس پر سنہ 1993ع میں بے نظیر بھٹو نے غلام اسحاق خان کو ٹریپ کیا اور امید دلائی کہ نواز شریف کی حکومت ختم ہونے پر پیپلز پارٹی ان کو ہی صدر بنائے گی تاہم اب کی بار انہوں نے ایسا نہیں کیا اور صدارتی انتخابات کا وقت آیا تو فاروق لغاری کو اپنا امیدوار بنا دیا۔“

حامد میر بتاتے ہیں کہ ”بے نظیر نے فاروق لغاری کو اس لیے چنا تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو قابل قبول ہوں گے، مگر فاروق لغاری نے سنہ 1996ع میں ان کی حکومت ختم کردی اور نواز شریف سے خفیہ ڈیل کرلی۔“

انہوں نے بتایا کہ ”جھنگ کی سیاست دان سیدہ عابدہ حسین کی مدد سے کی جانے والی ڈیل میں طے ہوا تھا کہ فاروق لغاری بے نظیر حکومت کو ہٹائیں گے اور نواز شریف برسراقتدار آکر انہیں دوبارہ صدر بنوا دیں گے۔ اس ڈیل میں اسٹیبلشمنٹ بھی شامل تھی۔“

حامد میر کے مطابق ”اس کے بعد نواز شریف وزیراعظم بنے تو ان کی فاروق لغاری سے لڑائی ہوگئی۔ انہوں نے اپنے اس دور میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ، آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت اور صدر فاروق لغاری کو نکال دیا۔ کچھ وقت تک تو ایسے لگا کہ وہ ناقابل شکست ہیں مگر پھر سنہ 1999ع میں نواز شریف کی حکومت ایک فوجی بغاوت میں جنرل مشرف نے ہٹا دی۔ پھر بے نظیر بھٹو نے سنہ 2007ع میں جنرل پرویز مشرف سے ڈیل کرلی۔“

حامد میر کے بقول ”یہ ڈیل امریکا اور برطانیہ نے کروائی تھی اور اس ڈیل کے مطابق بے نظیر بھٹو نے وردی اتارنے پر صدر پرویز مشرف کی حمایت کرنا تھی، جس پر ان کے سارے کیسز ختم ہونا تھے۔ لیکن ڈیل کے تحت بے نظیر بھٹو کو واپس نہیں آنا تھا مگر پھر بھی وہ واپس آئیں اور انہیں شہید کردیا گیا۔ گویا انہیں اس ڈیل سے بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔“

حامد میر کہتے ہیں کہ ”نواز شریف نے بھی دو تین مرتبہ ڈیل کی مگر انہیں بھی نکال دیا گیا“

رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ ”سنہ 1988ع میں بے نظیر بھٹو اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان طے ہوا تھا کہ خارجہ پالیسی خصوصاً افغانستان پر مشاورت کرنی ہے اور جنرل ضیاء الحق کے خاندان کو کچھ نہیں کہنا۔“

رسول بخش رئیس کے مطابق ”مگر وہ ایسی ڈیل نہ تھی، اصل ڈیل وہ تھی جب پرویز مشرف نے انہیں این آر او دیا تھا۔ جب وکلا تحریک کی وجہ سے مشرف کمزور ہو چکا تھا تو اس نے بے نظیر بھٹو کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور ہر بات مان گیا۔“

رسول بخش رئیس کے مطابق ”دوسری طرف بے نظیر بھٹو ہر صورت میں اپنے خلاف کیسز کا خاتمہ چاہتی تھیں اور پھر امریکی اور برطانوی سفارت کاروں کا دباؤ بھی تھا اس لیے ڈیل ہوگئی۔“

ان کے مطابق امریکا اور برطانیہ اس لیے مشرف اور بے نظیر کی صلح چاہتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ”ان دونوں روشن خیال رہنماؤں کی وجہ سے افغان جنگ میں پاکستان انہیں فائدہ پہنچائے گا۔“

ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے مطابق ’نواز شریف بھی مشرف سے ڈیل کر کے جیل سے بیرون ملک گئے تھے۔‘

اس کے علاوہ جب غلام اسحاق خان اور نواز شریف کی 90 کی دہائی میں لڑائی حد سے بڑھی تو بھی اس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے ڈیل کروائی تھی کہ دونوں استعفیٰ دیں اور تازہ الیکشنز ہوں۔‘

جب پروفیسر رسول بخش رئیس سے پوچھا گیا کہ پاکستانی سیاست میں موجود ڈیل کی روایت کیسے ختم ہو سکتی ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ’جب سسٹم بریک ڈاؤن کر جائے تو پھر ڈیل ناگزیر ہو جاتی ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ سیاسی پلیئرز میں دشمنی اتنی بڑھ گئی ہے کہ تیسرے فریق کو مداخلت کرنا پڑ رہی ہے۔ اگر اپوزیشن اور حکومت دونوں قواعد کے تحت چلیں تو پھر بیرونی مداخلت کا امکان نہیں رہتا، مگر سیاست دان آپس میں معاملات طے نہیں کر پاتے۔‘

رسول بخش رئیس کا مزید کہنا تھا کہ ‘عمران خان کے حالیہ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اندرون خانہ کچھ ہو رہا ہے اور وزیراعظم یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ اس سے خوش نہیں ہیں اور وہ مزاحمت کریں گے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا وہ اگلے ایک دو ماہ میں سامنے آجائے گا۔’

سینیئر صحافی طارق بٹ کے مطابق ’پاکستان میں سیاست دانوں کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوتا ہے کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں کیونکہ طاقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہوتی ہے۔‘

جبکہ حامد میر کہتے ہیں کہ ’سیاست دانوں کو سبق سیکھتے ہوئے اب طے کرنا چاہیے کہ خفیہ ڈیل نہیں کرنی بلکہ تمام بات چیت میڈیا اور عوام کے سامنے کریں اس طرح انہیں مستقبل میں دھوکہ نہیں ملے گا۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close