دنیا کی ’کم عمر ترین ارب پتی خاتون‘ کی لوگوں سے فراڈ کی تہلکہ خیز کہانی

ویب ڈیسک

کیلیفورنیا – فوربز میگزین کے مطابق ’دنیا کی سب سے کم عمر خود ساختہ ارب پتی خاتون‘ اور صحت کے متعلق جدید ٹیکنالوجی بنانے کی دعویدار کمپنی تھیرانوس کی سابق چیف ایگزیکٹیو الزبتھ ہومز پر سرمایہ کاروں کے ساتھ فراڈ کا جرم ثابت ہو گیا ہے

ایلزبتھ ہومز کچھ برس قبل تک تو سیلیکون ویلی کی ایک ’ڈارلنگ‘ تھیں اور وہ کچھ غلط تو کر ہی نہیں سکتی تھیں۔ انہوں نے بیماریوں کی تشخیص کرنے والی ’تھیرانوس‘ کمپنی کی بنیاد رکھی جس میں سیلیکون ویلی نے کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی

لیکن ایلزبتھ ہومز کی کمپنی کی بنیاد دراصل ایک خیالی محل تھا جو انھوں نے تعمیر کیا۔ تھیرانوس ایک ایسی ٹیکنالوجی کو ایجاد کرنے کی کوشش کر رہی تھیں جس کے متعلق کہا جا رہا تھا کہ وہ بیماریوں کی تشخیص میں ایک انقلاب برپا کر دے گی۔

تھیرانوس نے دعویٰ کیا تھا کہ خون کے چند قطروں کی مدد سے کیے جانا والا اُن کا ٹیسٹ کینسر اور ذیابیطس جیسی سینکڑوں دیگر سنگین بیماریوں کا فوری پتہ لگا لے گا

پیر کے روز ہونے والی سماعت میں امریکی ریاست کیلیفورنیا میں بارہ اراکین کی جیوری اس نتیجے پر پہنچی کہ تھیرانوس نامی کمپنی، جس کی بنیاد 2003 میں الزبتھ ہومز نے رکھی تھی، نے اپنے سرمایہ کاروں کو یہ کہہ کر دھوکا دیا کہ انہوں نے ایک ایسا آلہ تیار کیا ہے، جو خون کے چند قطروں سے سینکڑوں بیماریوں کا پتہ چلا سکتا ہے

الزبتھ ہومز کو سزا سنانے کے لیے ابھی تک کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا، تاہم کیس کی مزید سماعت اگلے ہفتے ہوگی

الزبتھ ہومز نے 2002 میں جب ان کی عمر 19 سال تھی، اسٹینفورڈ یونیورسٹی کو چھوڑ دیا، جہاں انہوں کیمیکل انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا تھا. اس کے بعد انہوں نے تھیرانوس نامی کمپنی کی بنیاد رکھی جو اس بات کی دعویدار تھی کہ ان کے تیار کردہ جدید چھوٹے خودکار آلات کی مدد سے خون کے چند قطروں کے سینکڑوں ٹیسٹ بہت تیزی سے کیے جا سکتے ہیں

فوربز، انک اور فارچون نامی جریدوں نے الزبتھ ہومز کو اپنے سرورق پر جگہ دی۔ انک میگزین نے ان کی تصویر کے ساتھ’ مستقبل کی اسٹیو جابز‘ بھی لکھا تھا

سال 2014 میں تیس سالہ الزبتھ ہومز اپنے کیریئر کی بلندی پر تھیں اور ان کی بنائی گئی کمپنی کی مالیت نو ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی

کمپنی کے بورڈ میں دو سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر اور آنجہانی جارج شلٹز، دو سابق وزیر دفاع جنرل جیمز میٹس اور ولیم پیری، امریکی سینیٹ کے سابق ممبر سیم نن اور مالیاتی کمپنی ویلز فرجو کے سابق سی ای او رچرڈ کوواسیوچ بھی شامل تھے

اے پی کے مطابق ان کی کمپنی میں میڈیا کی طاقتور شخصیت روپرٹ مرڈوک اور کاروباری شخصیت لیری ایلیسن سمیت متعدد بڑی بڑی شخصیات نے سرمایہ کاری کر رکھی تھی

سال 2015 میں ان کا زوال اس وقت شروع ہوا جب وال اسٹریٹ جنرل سے وابستہ صحافی جان کریرو کی تھیرانوس کمپنی کے متعلق تحقیقات شائع ہوئیں

کمپنی کے سرمایہ کار اور بورڈ ممبران یہ جان کر ششدر رہ گئے کہ تھیرانوس کی بلڈ ٹیسٹنگ ٹیکنالوجی کے نتائج گمراہ کن ہیں۔ مریضوں کو معمولی سیمپلز کے بجائے باقاعدہ خون دینے پر مجبور کیا جاتا اور ٹیسٹوں کے لیے بازار میں پہلے دستیاب ٹیکنالوجی ہی استعمال کی جاتی رہی اور کمپنی اس حقیقت کو چھپانے کے لیے بہت جدوجہد کرتی رہی

پھر 2015ع میں وال اسٹریٹ جرنل میں دھماکہ خیز مضامین کی ایک سیریز اور تھیرانوس کے ایک ریگولیٹری آڈٹ کے نتیجے میں کمپنی کی ٹیکنالوجی میں ممکنہ طور پر خطرناک خامیوں کا پردہ فاش ہو گیا، جس کے نتیجے میں کمپنی ختم ہو گئی

سال 2016ع میں ہومز لیب ٹیسٹنگ انڈسٹری پر دو سال کی پابندی عائد کردی گئی۔ صحت کے حوالے سے امریکی ادارے ایف ڈی اے کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد مارچ 2018 میں تھیرانوس، ایلزبتھ ہومز اور کاروباری شراکت دار رمیش بلوانی پر سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی جانب سے ’کھلی دھوکا دہی‘ کا مقدمہ دائر کیا گیا

مقدمے میں پیش کیے گئے شواہد سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ ہومز نے مبینہ سودوں کے بارے میں جھوٹ بولا جو تھیرانوس نے فائزر اور امریکی فوج جیسی بڑی دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ کیے تھے

انہیں چار الزامات کے تحت ہر ایک کے لیے بیس سال قید کی سزا ہو سکتی ہے، حالانکہ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں زیادہ سے زیادہ سزا ملنے کا امکان نہیں ہے

جیوری نے ہولمز کو چار سنگین الزامات سے بری بھی کردیا جس میں ان مریضوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرنے کا الزام بھی شامل ہے جنہوں نے ٹیسٹ کروانے کے لیے پیسے دیئے تھے

الزبتھ ہومز نے تھیرانوس کمپنی کی بنیاد رکھتے وقت جو سہانا خواب دیکھا تھا، سال 2018 میں دھوکہ دہی کے الزامات لگنے کے بعد وہ ایک ڈراؤنا خواب بن چکا تھا

سال 2018 میں ہولمز پر الزام لگتے ہی امریکی محکمہ انصاف نے بڑی ٹیک کمپنیوں کا نام لیے بغیر، جو روزمرہ کی زندگی میں اپنا غلبہ بڑھاتی رہتی ہیں، واضح کیا کہ وہ اس کیس کو ایک مثال بنانے کی امید رکھتے ہیں جس سے سلیکون ویلی کو جھٹکا لگے گا

اس مقدمے نے سلیکون ویلی کی کمپنیوں کی طرف سے استعمال ہونے والے ایک حربے کے نقصانات کو بھی ظاہر کیا، یعنی ’اس وقت تک جھوٹ پیش کریں جب تک آپ اس کو سچ نہیں بنا دیتے۔‘ اس مروجہ رجحان نے گوگل، نیٹ فلکس، فیسبک اور ایپل جیسی بڑی کمپنیوں کو کھڑا ہونے میں مدد کی ہے

نئے کاروبار میں سرمایہ کاروں کی نمائندگی کرنے والے وکیل رچرڈ گرین فیلڈ نے کہا کہ ‘میرے خیال میں اس سے کاروباری افراد میں کچھ اور احتیاط پیدا ہوگی۔’

انہوں نے مزید کہا کہ ‘میں نہیں سمجھتا کہ اس سے بہت سے سرمایہ کاروں کے رویے تبدیل ہوں گے۔ لوگ اب بھی چاند تک پہنچنا چاہتے ہیں۔’

مقدمے میں شرکت کرنے والی سانتا کلارا یونیورسٹی کی قانون کی پروفیسر ایلن کریٹزبرگ نے مشورہ دیا کہ ہولمز کے فیصلے سے سی ای اوز کو یہ پیغام جائے گا کہ حدود سے تجاوز کرنے کے نتائج بھگتنے ہوں گے

انہوں نے کہا کہ ’سرمایہ کار اب بھی پیسے کمانا چاہیں گے، اگر انہیں ایک امید افزا آئیڈیا پیش کیا جائے تو۔ وہ ہمیشہ سونے کی انگوٹھی کے لیے جائیں گے۔‘

کسی ایسے شخص کے لیے جو سیلیکون ویلی کا حصہ نہیں، اس کے لیے یہ ایک بیوقوفانہ سی کہانی ہے کہ کتنے لوگوں نے اس کو سچ مان کر اس میں سرمایہ کاری کی

سیلیکون ویلی میں اپنی کسی پراڈکٹ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا کوئی نئی بات نہیں اور الزبتھ ہومز اس کام میں ماہر تھیں

کہا جاتا ہے کہ اسٹین فورڈ یونیورسٹی سے ڈراپ آؤٹ ہونے والی الزبتھ ہومز ایک بااعتماد اور خوش گفتار شخصیت ہیں، جو اپنے آئیڈیا کو انتہائی مؤثر انداز میں پیش کرنے میں مہارت رکھتی ہیں

کچھ لوگوں نے ان کے آئیڈیا سے اتفاق نہیں کیا تھا اور انہیں بتایا تھا کہ ان کا آئیڈیا قابل عمل نہیں، لیکن انہوں نے اس آئیڈیا کو پراعتماد انداز میں آگے بڑھایا اور سرمایہ کاروں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہیں کہ ان کی ممکنہ ٹیکنالوجی ہر چیز کو تبدیل کر کے رکھ دے گی

’دی کوڈ: سیلیکون ویلی اینڈ ریمیکنگ آف امریکہ‘ کی مصنف مارگریٹ او مارا کہتی ہیں کہ یہ سیلیکون ویلی کا کلچر ہے کہ اگر آپ ایک ہرعزم نوجوان ہیں اور کسی نئی کمپنی کی بنیاد رکھ رہے ہیں، جس کے پاس ابھی تیار شدہ پراڈکٹ موجود نہیں، تو آپ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے

’جب کسی نئی کمپنی کی بنیاد رکھی جا رہی ہوتی ہے تو سرمایہ کار اس شخص کو دیکھتے ہیں جو اس کا روح رواں ہوتا ہے۔‘

سیلیکون ویلی میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اگر ’آئیڈیا‘ کو آگے بڑھانے والا شخص عمدہ ہے تو ٹیکنالوجی باقی کمی پوری کر دے گی۔

الزبتھ ہومز خواب بیچنے میں ماہر تھیں۔ ان کا مسئلہ صرف یہ ہی تھا کہ وہ اپنے آئیڈیا کو عملی جامہ نہیں پہنا سکی۔ ان کے وکلا کی دلیل یہی رہی کہ وہ دھوکہ باز نہیں بلکہ ایک کاروباری شخصیت ہیں جن کا کاروبار کامیاب نہیں ہو سکا

راجر میکنامی سیلیکون ویلی کے ایک سرمایہ کار ہیں، لیکن انہوں نے تھیرانوس میں سرمایہ کاری نہیں کی تھی۔ راجر کا کہنا ہے کہ تھیرانوس دراصل سیلیکون ویلی کے کلچر کی عکاس ہے

راجر کے مطابق سیلیکون ویلی میں جھوٹ بولنے اور چیزوں کو مخفی رکھنے کا رواج ہے جس نے تھیرانوس جیسی کمپنی کا تجزیہ کیے بغیر اتنا آگے جانے دیا

انہوں نے کہا کہ ’خوش گمان ہونا اچھا ہے۔ آپ ایک اچھے مستقبل کے بارے میں سوچیں اور پھر اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ کمپیوٹر اور سمارٹ فونز ایسی ہی خواہشوں کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں لیکن سرمایہ کاروں کے لیے انقلابیوں اور ڈھکونسلے کرنے والوں میں فرق کرنا ہمیشہ ایک چیلنج رہا ہے۔‘

سیلیکون ویلی میں تخلیقی حقوق کی کڑی حفاظت کی جاتی ہے خواہ وہ کوک نامی مشروب کو بنانے کا نسخہ ہو یا کسی چٹنی کی ترکیب۔ اسی سے کمپنی کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے۔ ٹیکنالوجی کمپنیاں اپنے آئیڈیاز کے بارے میں بہت حساس ہوتی ہیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ ان کے آئیڈیا کو کوئی چرا لے

ان کمپنیوں کی کامیابی کے لیے رازداری بہت اہم ہے لیکن رازداری کے اس کلچر کو دھوکہ دہی کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے

اسی وجہ سے تھیرانوس جیسے سکینڈل جنم لیتے ہیں۔ تھیرانوس نے سیاستدانوں، صحافیوں اور سرمایہ کاروں سب کو یہ ہی بتایا تھا کہ خون کے چند قطروں سے سینکڑوں بیماریوں کی تشخیص کی ٹیکنالوجی موجود ہے

اگر کسی نے اس بارے میں مزید معلومات کا تقاضا کیا تو اسے بتایا گیا کہ ٹیکنالوجی ایک راز ہے اور اسے نہ تو ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی مزید وضاحت پیش کی جا سکتی ہے

وال گرین بھی ان میں سے ہیں جنہوں نے تھیرانوس میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ وہ کمپنی کی جانب سے معلومات کی عدم فراہمی سے نالاں تھے

’میں نے سیلیکون ویلی کی کئی کمپنیوں کی رپورٹنگ کی اور وہ کبھی بھی نہیں بتائیں گے کہ ان کی ٹیکنالوجی کیسے کام کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ان کے جملہ حقوق کا معاملہ ہے، جسے نہ تو افشا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کی ٹیکنالوجی کا جائزہ لیا جا سکتا ہے‘

یہاں کا سارا نظام اعتبار پر چلتا ہے جو تھیرانوس جیسے اسکینڈل کے لیے بہترین ماحول مہیا کرتا ہے، جہاں دعوؤں کو پرکھا نہیں جا سکتا

ایک ایسا نظام جس میں رازداری پر اتنا زور دیا جاتا ہے وہاں وکلا کی بہت مانگ ہوتی ہے۔ ایسی کمپنیاں نہیں چاہتیں کہ ان کے ملازمین ان کے آئیڈیا کو چوری کر لیں۔ ملازمین کے ساتھ کچھ بھی افشا نہ کرنے کے معاہدے کیے جاتے ہیں

سیلیکون ویلی کے کلچر میں راز سے پردہ اٹھانا بہت مشکل ہے۔ جب تھیرانوس ڈوب گئی تو اس کے ملازمین نے بتایا کہ ان پر کمپنی کے بارے میں منفی بات نہ کرنے اور خاموش رہنے کے لیے بہت دباؤ تھا۔ کمپنی نے اپنی شہرت کے تحفظ کے لیے مہنگے اور جارحانہ مزاج والے وکلا کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں

’فاکس کلوو‘ کی کوری کرائیڈر ملازمین کی جانب سے غیر قانونی کام کی نشاندہی کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیلیکون میں یہ کوئی انھونی بات نہیں

وہ کہتی ہیں ’میں نے نیشنل سکیورٹی میں ایک عشرہ گزارا۔ مجھے لگتا ہے کہ سیلیکون ویلی نے سی آئی اے کے طریقہ کار کو اپنا رکھا ہے۔ وہ لوگوں کو ڈرا کر خاموش کر دیتے ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ جائز معاملات پر بھی بات نہیں کر سکتے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ان کمپنیوں کے مالک اور چیف ایگزیکٹو ایمانداری کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں اور ملازمین کو خطرے کے بارے میں آگاہ کرنے میں کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے لیکن وہ اکثر ایسا نہیں کر پاتے

اس شور میں یہ بھول جانا آسان ہے کہ ایسے سرمایہ کار جن کے پاس صحت کے شعبے کا تجربہ ہے، انھوں نے تھیرانوس کو دیکھا تھا اور اسے پاس کیا۔ میڈیا انڈسری کی جانی پہچانی شخصیت روپرٹ مرڈوک نے بھی تھیرانوس میں سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔

روپرٹ مرڈوک جیسے سرمایہ کار جن کی اس شعبے کی کوئی مہارت نہیں، ایک اور معاملے کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایسے سرمایہ کار جن کے پاس سرمایہ کی فراوانی ہے وہ یہ سوچ کر تھیرانوس جیسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں کہ چھوٹے سرمایہ کاروں نے کمپنی کی مکمل جانچ پڑتال کر لی ہوگی۔

مس اومارہ کہتی ہیں کہ چونکہ یہ سارا کاروبار ہی اعتبار پر چلتا ہے تو بعد میں آنے والے بڑے سرمایہ کار یہ سوچتے ہیں کہ شروع سے کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے والوں نے اچھی طرح دیکھ بھال کر لی ہوگی۔

تھیرانوس بالاخر پکڑی گئیں، اور یہ ثابت ہو گیا کہ وہ اس کا دعویٰ جھوٹا اور دھوکہ دہی پر مبنی تھا اور اس کی کمپنی جعلی کمپنی تھی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close