دس سال سے یعنی جس دن سے میری شادی ہوئی ہے، یہی ایک سوال بار بار کسی نہ کسی صورت میں ہمارے سامنے دہرایا جاتا ہے، آپ کے ہاں بچّہ کیوں نہیں ہوتا؟ یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ آپ کے ہاں روٹی ہے؟ گھر ہے؟ روزگار ہے؟ خوشی ہے؟ عقل ہے؟ سب یہی پوچھتے ہیں کہ آپ کے ہاں بچّہ ہے؟ گویا بچّہ ان تمام ضروریاتِ زندگی کا نعم البدل مان لیا گیا ہے.. ہم دونوں کو اس سوال سے انتہائی کوفت ہوتی ہے، مگر کیا کریں سکون کی خاطر طرح طرح سے اس سوال کو ٹالنا پڑتا ہے
میرے ایک دوست ہیں.. ماشاء اللہ سات عدد بچّوں کے باپ ہیں اور آٹھویں کی فکر میں ہیں، ان کے بچّے اکثر بیمار رہتے ہیں، آج ایک کو کالی کھانسی ہے، تو دوسرے کو بخار ہے، تیسرے کو چیچک نکل آئی ہے، تو چوتھے نے سڑک پر گر کر اپنا سر پھوڑ لیا ہے، پانچویں کی آنکھیں دکھتی ہیں، تو چھٹا اس بات پر ادھار کھائے ہے کہ کب کسی مہمان کی گود میں بیٹھے، اور پیشاب کرے.. مگر اس روشن اولاد کے باپ کو صرف ایک ہی غم کھائے جا رہا ہے، اٹھتے بیٹھتے مجھ سے سوال کرتے رہتے ہیں۔ ’’آپ کے ہاں بچّہ کیوں نہیں ہوتا؟‘‘
میں اس سوال کے جواب میں اکثر اپنی ڈبڈبائی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھاکر نہایت مسکین لہجے میں جواب دیتا ہوں۔ ’’کیا بتاؤں.. نہیں ہوتا۔‘‘
مگر میرے دوست کی تسلّی اس جواب سے نہیں ہوتی، آگے جھک کر بڑے رازدارانہ لہجے میں فرماتے ہیں۔ ’’کسی ڈاکٹر کی مدد لیجئے۔‘‘
میں کہتا ہوں۔ ’’کیسے لے سکتا ہوں۔ جس ڈاکٹر کے ہاں ہم لوگوں کا علاج ہوتا ہے، اس کے ہاں خود کوئی بچّہ نہیں ہے۔‘‘
وہ فوراً گھبرا کر کہتے ہیں، ’’آپ سمجھے نہیں… میرا مطلب ہے… کسی ڈاکٹر کو دکھائیے… ممکن ہے آپ کے اندر کوئی نقص…..‘‘
میں بات کاٹ کر کہتا ہوں، ’’دکھایا ہے.. کوئی نقص نہیں ہے۔‘‘
’’اور ہماری بھابی؟‘‘
’’وہ بھی ٹھیک ہیں۔‘‘
’’وہ بھی ٹھیک ہیں… آپ بھی ٹھیک ہیں۔‘‘ میرے دوست بڑی حیرت سے کہتے، ’’پھر بھی بچّہ نہیں ہوتا… حیرت کی بات ہے صاحب!‘‘
یہ کہہ کر غور سے اور انتہائی شُبے سے مجھے دیکھنے لگتے ہیں، جیسے میں جھوٹ بول رہا ہوں اور کسی خوفناک بلکہ شرمناک مرض کا شکار ہوں اور ان سے دانستہ چھپا رہا ہوں۔ ان کا بس نہیں چلتا، ورنہ وہ خود کھڑے کھڑے ہم دونوں کا ڈاکٹری معائنہ کرا ڈالیں
ایک اور دوست ہیں ہمارے.. انہیں یہ تو شبہ نہیں ہے کہ ہم دونوں میاں بیوی میں خدانخواستہ کوئی نقص ہے، مگر وہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ ہم لوگ دیدہ و دانستہ بچّہ پیدا نہیں کرتے۔ وہ جب بھی ہمارے گھر آتے ہیں، بچّوں کے فوائد پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالتے ہیں۔ البتہ تقریر کرتے وقت انداز سیاستداں کا سا نہیں ہوتا، بلکہ ایسے بروکرکا ہوتا، جیسے ہمارے ہاں بچّہ ہونے پر ان کو فوراً کمیشن ملے گا
میں ان سے بہت الجھتا ہوں۔ کیوں کہ مجھے خواہ مخواہ شبہ ہوجاتا ہے کہ بچّہ میں پیدا کروں اور فائدہ ان کو ہوگا۔ جی چاہتا ہے کہ محض ان کو زک دینے کے لئے زندگی بھر کوئی بچّہ پیدا نہ کیا جائے۔ اکثر فرماتے رہتے ہیں، اگر آپ کے گھر کوئی بچّہ ہوتا تو میں اس کی شادی اپنی مُنّی سے کرتا۔ ان کی مُنّی انتہائی بدصورت، بھینگی، بدمزاج، اور مرگھِلی ہے۔ محلّے کے سب بچّوں سے لڑتی رہتی ہے۔ اس کے سر پر بال اس قدر کم ہیں کہ بڑی ہونے پر انشاء اللہ واقعی گنجی ثابت ہوگی۔ مگر یہ حضرت ہیں کہ میرے گھر میں اسی چاند سی بیوی کا اضافہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس مُنّی کو دیکھ کر مجھے نہ صرف اپنے بلکہ ان تمام بچّوں کی خوش قسمتی پر رشک ہوتا ہے، جو ابھی پیدا نہیں ہوئے… یا جن کے پیدا ہونے کی کوئی امیّد نہیں ہے۔
ہمارے ایک تایا ہیں.. پچاس برس کی عمر ہونے پر بھی ان کا نام چُھٹن لال ہے۔ تایا چُھٹن لال بچّوں کے بے حد قائل ہیں اور جوں جوں بوڑھے ہوتے جاتے ہیں، بچّوں کے زیادہ سے زیادہ قائل ہوتے جاتے ہیں۔ گھر آتے ہی میرے سر پر بڑی شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہیں۔ مجھ پر کم، میری بیوی پر زیادہ۔ پھر ایک آہ سرد بھر کر کہتے ہیں،
’’افسوس تمہارے ہاں کوئی بچّہ نہ ہوا۔ اسے گود میں کھلانے کا ارمان دل ہی دل میں رہ گیا۔‘‘
میں جواب دیتا ہوں۔ ’’تایا جی! مجھے ہی گود میں کھلا لیجئے۔‘‘
تو اس پر برہم ہو جاتے ہیں۔ کہتے ہیں، ’’تُو نہیں جانتا۔ تُو تو احمق ہے۔ نرا پورا احمق! بچّے تو گھر کی رونق ہوتے ہیں۔ وہ کبھی جھگڑتے ہیں، کبھی ہنستے ہیں، کبھی روتے ہیں، کبھی چلّاتے ہیں، دھول دھپّا کرتے ہیں، بچّوں کے ہونے سے گھر میں عجیب رونق سی رہتی ہے۔‘‘
میں کہتا ہوں، ’’اس کام کے لئے ہمسائے کے بچّے کیا کافی نہیں ہوتے؟ پھر جہاں تک چیخنے چلاّنے کا تعلق ہے آدمی بچّے کیوں پیدا کرے، وہ آل انڈیا ریڈیو کا کوئی ڈرامہ کیوں نہ سن لے۔ جس میں چیخنے چلاّنے کے سوا اور کچھ ہوتا ہی نہیں۔ اس لئے ایک بچّے کو نو مہینے پیٹ میں رکھنا، پھر اسے پالنا پوسنا اور اس پر ہزاروں روپے خرچ کرنا کیا ضروری ہے۔ جب کہ یہ کام بہ آسانی سے ریڈیو کی ایک سوئی گھومانے سے سرانجام دیا جا سکتا ہے۔‘‘
میری یہ بات سن کر وہ اور برہم ہو جاتے ہیں
’’تیری تو مت ماری گئی ہے۔ اور تو اپنے ساتھ اپنی بیوی کو بھی لے ڈوبے گا۔‘‘
پھر وہ بڑے پیار سے میری بیوی کی طرف مخاطب ہو کر کہتے ہیں، ’’کیوں بیٹا! تجھے تو بچّے پسند ہیں نہ؟‘‘ اور میری بیوی لجا کر نہایت شرمیلی آواز میں جواب دیتی ہے، ’’جی ہاں۔ بشرطیکہ وہ دوسروں کے ہوں۔ صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہوں اور غسل خانے سے فارغ ہو چکے ہوں۔‘‘
اس پر تایا جی ہنس پڑتے ہیں۔ اور میری بیوی کے ہاتھ سے دودھ جلیبی کھا کر رخصت ہوجاتے ہیں یہ دعا دیتے ہوئے۔ ’’بھگوان تیری کوکھ ہری کرے۔‘‘
اب یہ کون کس کو سمجھائے کہ جوں جوں کوکھ ہری ہوتی جاتی ہے، یہ دنیا اجڑتی جاتی ہے۔ اورنگ زیب کے زمانے میں ہندوستان کی آبادی دس کروڑ تھی۔ اب چالیس کروڑ ہے، اورنگ زیب کے زمانے میں آٹا روپے کا ڈیڑھ من تھا، اب روپے کا ڈیڑھ سیر بھی مشکل سے ملتا ہے۔ سائنسدانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ اگر دنیا کی کوکھ اسی طرح ہری ہوتی رہی تو اگلے تین سو سال کے بعد انسانی آبادی اس قدر بڑھ جائے گی کہ ایک انسان کے حصّے میں صرف ایک مربعّ گز زمین آئے گی
اب اس ایک گز زمین میں آپ چاہے کھڑے ہولیں، چاہیں بیٹھ لیں، چاہے سو لیں، یا چہل قدمی کر لیں۔ ایک مربعّ گز زمین پر آپ اپنا گھر بنا لیجئے اور اسی پر اپنی قبر… اس سے زیادہ زمین آپ کو تین سو سال کے بعد نہیں ملنے والی ہے
اور سائنس دانوں نے یہ بھی اندازہ لگایا ہے کہ جس رفتار سے آج کل بچّے پیدا ہو رہے ہیں، اسی شرح کے مطابق اگلے سات سو سال میں انسانوں کی آبادی اتنی بڑھ جائے گی کہ ان کا کل وزن ملا کے زمین کے وزن سے بڑھ جائے گا۔ لازماً زمین اتنا بوجھ نہیں سہار سکے گی اور ٹکڑے ہوجائے گی، یعنی قیامت آجائے گی
گو جو بچّے پیدا کرتا ہے، وہ دھیرے دھیرے قیامت کو قریب لاتا ہے۔ مگر ہندوستان میں یہ بات آپ کسی سے نہیں کہہ سکتے، کسی کی کوکھ ہری ہو یا نہ ہو، آپ کی چندیا ضرور ہری کردی جائے گی
اس لئے بچّوں کے سلسلے میں مجھے تو آج تک اپنا ہم خیال کوئی نہیں ملا، لیکن ایک بار میری بیوی کو ایسی سہیلی مل گئی تھی۔ قصّہ یہ ہوا کہ میری بیوی ایک روز اکیلے سنیما دیکھنے چلی گئی، کوئی ہندوستانی پکچر تھی، اس تصویر میں ٹن ٹن کے بارہ بچّے۔ پورے بارہ بچّے تلے اوپر کے دکھائے گئے تھے۔ بارہ بچّوں کی لین ڈوری کو دیکھ کر میری بیوی تو ہنس ہی پڑی ۔ لیکن ساتھ کی سیٹ پر بیٹھی ہوئی ایک عورت بھی ہنس پڑی۔
میری بیوی کو یہ دیکھ کر پہلے تو بڑی حیرت ہوئی۔ بعد میں اس نے اس عورت سے بہناپا کر لیا۔ بعد میں میری بیوی کو پتہ چلا کہ وہ عورت محض اس لئے ہنس رہی تھی کہ اس کے صرف گیارہ بچّے تھے۔ گیارہ بچّوں والی عورت کو بارہ بچّوں والی عورت پر ہنسنے کا پورا پورا حق ہے
یہ اکثر کہا گیا ہے کہ بچّے قوم کی دولت ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو ہندوستان کا شمار دنیا کی امیر ترین قوموں میں کرنا چاہیئے۔ زندگی کے کسی اور شعبے میں ہم دولت پیدا کریں یا نہ کریں، بچّے پیدا کرنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں
ہمارے محلّے میں ایک صاحب رہتے ہیں.. نام ان کا دولت رام ہے اور واقعی بچّوں کی دولت کے اعتبار سے وہ ہمارے محلّے کے رئیس سمجھے جا سکتے ہیں۔ اب تک دس بچّے تصنیف فرما چکے ہیں. جب ان کے ہاں پہلا بچّہ ہوا تو ان کے گھر میں موٹر گاڑی تھی، ریفریجٹر تھا، ریڈیو گرام تھا، غالیچہ تھا، صوفہ تھا، بجلی کا پنکھا تھا۔ غرضیکہ آرام و آسائش کی ہر چیز مہیّا تھی۔ پھر جب دوسرا بچّہ پیدا ہوا تو موٹر گئی، تیسرے بچّے کے ہونے پر ریڈیو گرام گیا، چوتھے پر ریفریجٹر، پانچویں پر غالیچہ، چھٹے پر صوفہ، ساتویں پر پنکھا، اب دسویں بچّے کی پیدائش پر چند ہفتے ہوئے ان کے گھر کی بجلی بھی کٹ گئی ہے۔ یعنی جس منزل اور مقام پر کل ہندوستان اورنگ زیب کے زمانے سے اب تک ڈھائی سو سال میں پہنچا ہے، وہ انہوں نے دس سال میں حاصل کرلیا ہے اور اپنی خوش قسمتی پر نازاں نظر آتے ہیں
اکثر ایک بچّے کو کندھے پر چڑھائے، دوسرے کو گود میں اٹھائے تیسرے کو انگلی سے لگائے میرے پاس آتے ہیں۔ اور چوتھے بچّے کو میری گود میں دے کر کہتے ہیں ، ’’بھائی صاحب! اب آپ بھی بال بچّوں والے ہوتے تو اپنے بچّے کو گود میں لے کر خوش ہوتے۔‘‘ اور میں جلدی سے ان کے بچّے کو گود سے اتار کر کہتا ہوں، ’’رہنے دیجئے بھائی صاحب! میں لنڈورا ہی بھلا۔‘‘
اس پر ان کا بچّہ میری گود سے اترنے سے انکار کر دیتا اور اپنی ناک سے انگلی نکال کر میرے منھ میں ٹھونستے ہوئے کہتا ہے، ’’آہا… میرا چاچا لندولا… میرا چاچا لندولا…‘‘
پھر ان بچّوں کے نام کس قدر عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ جو لڑکا ہے وہ کٹّو ہے، یا بِجّو ہے، یا پکوّ ہے، یاسلوّ ہے، یا جُنوّ ہے، وہ راکی ہے، کراکی ہے، راتی ہے، پاتی ہے، چٹپرقناتی ہے، جو لڑکی ہے وہ گیلگی ہے، گوگلی ہے، شُنّی ہے، ڈنّی ہے، چّمی ہے، پّمی ہے، اَللّی ہے، بللّی ہے، مرگھلّی ہے۔ آج تک آپ نے کسی بچّے کا نام قائدے اور ڈھنگ کا نہیں سنا ہوگا.. اس بات سے جہاں والدین کے ذہن کی غربت پر روشنی پڑتی ہے، وہاں ان بچّوں کے مستقبل کا بھی کچھ اندازہ ہوتا ہے،جو یہ نام لے کر زندگی کے سفر پر نکلتے ہیں۔ اس حساب سے اپنے بچپن میں پنڈت جواہر لال کا نام ضرور حجّو رہا ہوگا۔ میکمِلن کا مکِی اور کینیڈی اگر ہندوستان میں پیدا ہوتے تو ضرور ان کا نام کِڈا ہوتا ہے۔ میرے خیال میں بڑے آدمیوں کی عظمت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اپنے بچپن کے مضحکہ خیز ناموں کے باوجود بڑے آدمی بن جاتے ہیں اور جو عام صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں، جیسے کہ اکثر لوگ ہوتے ہیں، وہ اسی مضحکہ خیزی کی بدولت ایک انجام کو پہنچ جاتے ہیں
بات اگر ناموں تک ہی محدود ہوتی تو چنداں مضائقہ نہ تھا۔ لیکن مصیبت تو یہ ہےکہ اچھے بھلے لوگ ایسے بھی ہیں، جن کی انشا پردازی، ادبیت صحافت اور خطابت کی ساری دنیا میں دھوم ہے۔ اپنے بچّوں سے اکثر اسی لہجے میں مخاطب ہوتے ہیں، تو بڑا ڈرلو ہے، پپلو ہے، چپلا گُھپلو ہے، میرا مُنّا تو آکا باکا ہے، کجّو پاکا ہے، جمن پٹاکا ہے، ارے تو ہپّا کھائے گا؟ رپّا کھائے گا؟ گپّا کھائے گا؟ دہپّا کھائے گا؟
یہ کیا زبان ہوتی ہے؟ یہ نہ اردو ہے نہ ہندی، گجراتی ہے نہ مراٹھی، پشتو ہے نہ بلوچی، انگریزی ہے نہ لاطینی، یہ توسپرانٹو تک نہیں ہے۔ خدا جانے کس دیس اور قوم کی زبان ہے؟ مگر ہر دیس یا قوم کا فرد اپنے بچّے سے اس زبان میں گفتگو کرے گا اور بچّے بھی ایسے نا معقول ہوتے ہیں کہ غوں غاں کرتے ہوئے، بانہیں اچھال کر، ٹانگیں اٹھا کر، منھ پر جھاگ کے بلبلے چھوڑتے ہوئے ہنس ہنس کر سر ہلاتے ہوئے اسی زبان میں جواب تصنیف فرمانے کی کوشش فرماتے ہیں۔
غالباً دنیا کی یہی وہ واحد زبان ہے، جس کے لئے ڈکشنری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ڈکشنری کیا اس کے لئے تو کسی کتاب، کسی گرامر اور کسی قائدے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
یہی زبان سیکھ کر جب بچّے بڑے ہو جاتے ہیں اور زندگی کے مسائل سے الجھ کر اپنا مافی الضمیر بھی ٹھیک طرح سے بیان نہیں کر سکتے، تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ یہی بچّےجب بڑے ہو کر کتابوں سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور باربار سنیما دیکھنے پر اصرار کرتے ہیں، تو انہیں قابلِ ملامت کیوں سمجھا جائے۔ سارا قصور ان کے والدین کا ہے، جو ان کی تربیت ہی اسی انداز میں کرتے ہیں
تربیت سے یاد آیا کہ بالعموم بچّوں کی تربیت ایک سرے سے ہوتی ہی نہیں۔ آج کل یہ ایک طرح کا فیشن چل نکلا ہے کہ بچّوں کو روکو نہ ٹوکو، جو ان کا جی چاہے وہی کرنے دو، سنا ہے اس سے بچّوں کی بہت سی نفسیاتی الجھنیں دور ہو جاتی ہیں، یعنی وہ الجھنیں جو بڑے ہونے پر ان کو لاحق ہو سکتی تھیں، یہ بھی سنا ہے کہ ایسی نفسیاتی ایجاد کا سہرا فرائیڈ کے سر ہے، جس سے بڑا الجھنوں کا بانی اور گورکھ دھندے باز اس دنیا میں آج تک پیدا نہیں ہوا
میرے عزیز دوست دولت رام، فرائیڈ کے اس مقولے پر بڑی پابندی سےعمل کرتے ہیں۔ نہ صرف عمل کرتے ہیں، بلکہ بچّوں کو بے راہ روی پر اکساتے ہیں، یعنی فرائیڈ سے بھی دو ہاتھ آگے جاتے ہیں
ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ یہ حضرت مع اپنی بیوی کے اور چھ بچّوں کے ہمارے گھر میں اس وقت وارد ہوئے جب ہم میاں بیوی نہا دھوکر اجلے کپڑے پہن کر سنیما جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ ہمارے ہندوستانی سماج کا ایک قائدہ یہ بھی ہے کہ کتنے ہی ضروری کام یا ضروری تفریح کے لئے جا رہے ہوں۔ گھر میں اگر مہمان آجائے تو آپ کہیں نہیں جا سکتے، مہمان سےکچھ کہہ نہیں سکتے، آپ کو لامحالہ رکنا پڑے گا، گھنٹوں بات چیت کرنی پڑے گی، اور باتوں کے دوران میں بات بے بات بلا وجہ یوں ہی ہنسنا بھی پڑے گا، الغرض آپ کو یوں کہنا پڑے گا کہ آپ اپنے ہمسائے کی آمد سے بے حد خوش ہوئے ہیں، حالانکہ اندر ہی اندر آپ کا دل انہیں قتل کرنے کو چاہتا ہوگا، مگر تہذیب مانع ہے، آپ مسکرا کر اور خون کا گھونٹ پی کر (ہمسائے کا نہیں، اپنا) خیر مقدم کرنے پر مجبور ہیں
مگر ہمسائے کے لئے تو کسی خیر مقدم کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ آپ کو ہو تو ہو، ہمسائے کو نہیں ہوتی، چنانچہ دولت رام نے آتے ہی میری پیٹھ پر ایک زور کا دھپ دیا اور میری کمر میں ہاتھ ڈال کر بڑی بے تکلفی سے میری ہڈی پسلی ایک کرتے ہوئے مجھ سے لپٹ گئے۔ مسز دولت رام نے میری بیوی سے باتیں شروع کردیں، اور بچّوں نے غالیچے پر کھڑے ہو کر چاروں طرف کمرے کے سامان کا یوں جائزہ لینا شروع کر دیا، جیسے وہ کسی کمرے میں نہیں، کسی جنگل میں آ نکلے ہوں
اس کے بعد دو بچّوں نے ٹارزن کی طرح ایک خوفناک چیخ اپنے حلق سے نکالی اور ریڈیوگرام کی طرف لپکے، میرا دل دھک سے رہ گیا، مگر بچّوں کو کسی کے دل کے دورے سے کیا غرض، چنانچہ ایک بچّہ نے بڑھ کر کے ریکارڈ بجانے شروع کر دیئے، دوسرے نے ریڈیو کی سوئی گھمانی شروع کردی
تیسرا بچّہ بک شیلف پر چڑھ گیا اور کتابیں نکال نکال کر باہر پھینکنے لگا۔ چوتھا بچّہ اونچے کارنر پیس پر پڑے ہوئے گلدان کے پھولوں کو لالچی نگاہوں سے دیکھنے لگا، پھر ایک اسٹول اٹھا کر کارنر پیس پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا، میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا
’’کیا حال ہے؟‘‘ دولت رام نے ایک قہقہہ لگاتے ہوئے میری پیٹھ پر دوسرا دھپ مارا
’’اچھا ہوں۔‘‘ میں نے کانپ کر مری ہوئی آواز میں کہا
اتنے میں ایک زور کا تڑاخہ ہوا۔ میں نے گھبرا کر دیکھا، چوتھے بچّے نے گلدان سے پھول گھسیٹنے کی کوشش میں گلدان ہی کو گھسیٹ لیا تھا اور اب پھولدان فرش پر گر کر ایک سو ایک ٹکڑوں میں بکھرا پڑا تھا ’’یہی وہ گلدان ہے نہ جو آپ نے خُرجے سے لائے تھے؟‘‘ مسٹر دولت رام نے بڑے اطمینان سے مجھ سے پوچھا
’’نہیں وہ تو پچھلے ہفتے ہی ٹوٹ چکا تھا۔‘‘ میں نے خوش ہوکر کہا۔ ’’جب آپ اپنے سب سے چھوٹے بچّے کی سالگرہ کی دعوت کے سلسلے میں تشریف لائے تھے۔‘‘
’’ارے وہ تو دوسرا گلدان تھا۔‘‘ مسز دولت رام نے تصحیح کرتے ہوئے کہا۔ ’’جسے ہمارے پُٹّو نے توڑا تھا۔‘‘
پھر وہ میری بیوی کی طرف مخاطب ہو کر بولیں، ’’یہ (اپنے شوہر کی طرف اشارہ کرکے) بڑے بھلکّڑ ہو گئے ہیں۔ انہیں کچھ یاد ہی نہیں رہتا… کون گلدان کب ٹوٹا تھا… کون کب؟‘‘
میری بیوی جواب میں کچھ خوفزدہ سی ہو کر منمنائی، اتنے میں ریڈیو گرام سے ایک بھیانک سی چیخ بلند ہوئی، اور میں نے دیکھا کہ دونوں لڑکے آپس میں لڑ رہے ہیں اور ریڈیو کے دونوں بٹن ریڈیو سے نکل کر ان کے ہاتھوں میں آچکے ہیں، بڑے لڑکے نے چھوٹے لڑکے کے گھونسہ مارا
’’شاباش‘‘ دولت رام خوشی سے چلاّیا
مگر گھونسہ لڑکے پر پڑنے کے بجائے ریڈیو گرام کے کانچ پر پڑا۔ اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئےاور لڑکا سہم کر ریڈیو گرام سے الگ کھڑا ہوکر بسورنے لگا
’’ڈر گیا میرا لال۔‘‘ مسز دولت رام جلدی سے اپنے بچّے کو اپنے گھٹنوں پر لیتے ہوئے بولیں
اتنے میں میں نے دیکھا کہ تین بچّے کتابوں پر جھکے ہوئے ہیں اور مُصوَّر کتابوں سے تصویریں پھاڑ پھاڑ کر الگ کر رہے ہیں۔ بچّوں کو مطالعےکا کس قدر شوق ہوتا ہے، یہ بات آج ہی سمجھ میں آئی۔ اتنے میں دیوانِ غالب کے مُصوَّر ایڈیشن پر دو بچّوں کا جھگڑا ہوگیا، دونوں بچّے اس کتاب کو اپنی اپنی طرف کھیچنے لگے، کھیچنے میں آدھی کتاب ایک بچّے کے ہاتھ میں چلی گئی، آدھی دوسرے بچّے کے ہاتھ میں رہ گئی، اور غالب زبانِ حال سے کہتا رہ گیا
”بازیچۂِ اطفال ہے دنیا مرے آگے،
ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے..“
پانچواں اور چھٹا بچّہ دونوں بڑے ہوشیار تھے۔ انہوں نے ڈرائنگ روم کو چھوڑ دیا تھا اور درّاتے ہوئے کھانے کے کمرے میں گُھس گئے تھے اور وہاں سے سنترے اور سیب، اور تربوز کی قاشیں اٹھا لائے تھے، کچھ کھا رہے تھے، کچھ مار رہے تھے، ایک سیب میرے ماتھے سے جا لگا، اور وہاں سے اوچھل کر دیوار پر لگنے والا تھا کہ دولت رام نے قہقہہ مار کر بیچ ہی سے کیچ کر لیا، اور میری طرف فاتحانہ انداز سے دیکھ کر بولے، ’’اب تو عادت چھوٹ گئی.. لیکن بچپن میں کرکٹ کا بہت عمدہ کھلاڑی تھا۔‘‘
اس پر میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ میں نے اپنی بیوی کا رنگ متغیر ہوتے دیکھا اور پھر دیکھا کہ چھٹے بچّے کی نگاہیں میری بیوی کی نئی شفان کی جوگیا ساڑھی پر ہیں۔ بالکل نئی اور خوب صورت ساڑھی تھی۔ جو جگہ جگہ زردوزی کے کام سے جِھلمِل جِھلمِل کر رہی تھی۔ غریب بچّے کا دل اس ساڑھی کو دیکھ کر مچل گیا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ جو تربوز کی قاشوں میں گھنگھولے ہوئے تھے، اوپر اٹھائے اور اپنی ناک کو تربوز کی قاش پر صاف کرتے ہوئے جھجکتے جھجکتے آگے بڑھا
’’ناں، ناں‘‘ میری بیوی خوف سے چلاّئی
مسز دولت رام قہقہہ مار کر، تالی بجا کر بولیں، ’’میرا مُنّن آنٹی کو پکڑے گا، آنٹی کو ضرور پکڑے گا، آنٹی بڑی اچھی آنٹی سے ڈرنا نہیں۔‘‘
میری بیوی گھبراکر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی، اب سب بچّوں نے خوش ہوکر تالی بجائی اور سب اپنے اپنے کھیل چھوڑ کر اس نئے کھیل کی طرف متوجہ ہوگئے۔ جوں جوں میری بیوی اپنی نئی ساڑھی بچانے کے لئے پیچھے ہٹتی جاتی تھی، مُنّن میاں آگے آتے جاتے تھے، آخر زور کا ایک جھپٹّا مار کر مُنّن نے اپنے دونوں ہاتھوں سے میری بیوی کی ساڑھی پکڑ لی اور اپنا منھ اس میں چھپا لیا۔ اور تربوز کا گودا، اور سنترے کھائی پھانکیں اور ناک اور گلے کا لُعاب اس بے داغ ساڑھی کو جگہ جگہ سے منقش کرتا گیا
میری بیوی چیخ مار کر بے ہوش ہو گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب اسےہوش آیا تو اس نے مجھے اپنے آپ پر جُھکا ہوا پایا۔ مجھ سے نظریں ہٹاکر اس نے جو کمرے کا جائزہ لیا تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کمرے میں کوئی چیز صحیح و سلامت نہیں رہ گئی تھی۔ کتابیں، پھولدان، ریڈیوگرام، میز، تپائیاں، کرسیاں عجیب بے ترتیبی کی حالت میں اس طرح پڑی تھیں، جیسے اس گھر پر ابھی ابھی نشہ بندی پولیس نے چھاپا مارا ہو
میری بیوی کے لب بڑی سختی سے اندر ہی اندر کو بھینچ گئے۔ اس نے زور سے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور اِدھر ادھر دیکھتے ہوئے مجھ سے گلوگیر لہجے میں لیکن مضبوط اور پختہ ارادے والے لہجے میں مجھ سے کہا، ’’مجھے بچّہ چاہیئے، ضرور چاہیئے، بچّہ ہوگا، ضرور ہوگا۔‘‘
اس واقعے کے ٹھیک نو ماہ بعد ہمارے گھر میں بچّہ پیدا ہوا، جسے ہم محض اس امید پر پال رہے ہیں، کہ وہ بڑا ہو کر سارے ہمسایوں کا سامان توڑے گا!!