لاہور – ڈیل اور جوڑ توڑ پاکستان کے سیاسی کلچر کی اہم علامات ہیں. اپنی اسی روایت کے پیشِ نظر پاکستان میں سیاسی جوڑ توڑ شروع ہو چکا ہے، ایک طرف حکمران جماعت اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کی کوشش میں ہے، تو دوسری جانب اپوزیشن کی جماعتیں بھی چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کر رہی ہیں یہی وجہ ہے ٹی ایل پی کی قیادت کے رہا ہونے پر حکمران جماعت سمیت تمام سیاسی جماعتون کے رہنماؤں نے ان سے ملاقاتیں کی ہیں
اس صورتحال میں وفاقی وزیر داخلہ نے نجی ٹی وی دنیا نیوز کے پروگرام نقطہ نظر میں انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پنجاب میں مذہبی طور پر ابھرنے والی تحریکِ لبیک آئندہ انتخابات میں پندرہ سے پچیس نشستیں حاصل کر سکتی ہے، تاہم ان کے بقول، یہ بات مسلم لیگ ن کے لیے مشکلات پیدا کرے گی
حکومتی وزیر کی جانب سے اس بیان کے بعد ملک کے سیاسی حلقوں میں بحث چھڑ گئی ہے۔ مذہبی جذبات کو مختلف مقاصد کے تحت شدت پسندی سے ہوا دینے والی تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سیاسی کردار کو اہم ضرور سمجھا جا رہا ہے، مگر مجبوری کی حد تک تسلیم کرنے کو کوئی سیاسی جماعت تیار نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ٹی ایل پی کی جانب سے بھی ابھی تک کسی سیاسی جماعت سے سیاسی اتحاد کا اعلان نہیں کیا گیا
سیاسی تجزیہ کاروں سے اس بارے میں رائے لی گئی تو انہوں نے ٹی ایل پی کے سیاسی کردار کو پنجاب میں کسی سیاسی جماعت کے لیے خطرناک قرار نہیں دیا، ان کے بقول نون لیگ کے امیدواروں کو شکست دینے کے لیے گزشتہ عام انتخابات میں بھی ٹی ایل پی اور ملی مسلم لیگ کو میدان میں اتار گیا تھا، جس کے بعد ٹی ایل پی پنجاب کی زیادہ ووٹ لینے والی تیسری جماعت ضرور بنی، مگر اس سے نون لیگ کے نتائج پر زیادہ فرق نہیں پڑا، البتہ پی ٹی آئی امیدواروں کو فائدہ ضرور پہنچا تھا. لیکن دیکھا جائے تو یہ بلاواسطہ طور پر نون لیگ کے لیے دھچکا ضرور تھا
لیکن خود تحریک لبیک سیاسی میدان میں کامیابی کے لیے کتنی پرامید ہے؟ اس حوالے سے ٹی ایل پی کے ترجمان صدام حسین بخاری کا کہنا ہے کہ ان کی ”جماعت مذہبی حکمت عملی کے ساتھ“ سیاسی میدان میں اترنے کی بھرپور تیاری کر رہی ہے۔ کے پی میں حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بھی ٹی ایل پی امیدواروں نے خاطر خواہ ووٹ لیے، اسی طرح پنجاب میں بھی بلدیاتی انتخابات کے لیے تیاریاں جاری ہیں اور امیدوار فائنل کیے جارہے ہیں
صدام حسین کا کہنا تھا کہ جہاں تک پنجاب میں عام انتخابات کے دوران نشستیں حاصل کرنے کا سوال ہے، تو اس بارے میں ابھی کوئی دعویٰ نہیں کر سکتے، کیونکہ ابھی ہم نے کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد یا علیحدہ سے امیدوار کھڑے کرنے کی منصوبہ بندی شروع نہیں کی. ہماری قیادت کا خیال ہے کہ بجائے سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنانے کے، پہلی ترجیح کے طور پر اہلسنت سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کو متحد کرنے کی کوشش کی جائے گی، تاکہ بڑا سیاسی اتحاد بنایا جا سکے۔‘
ترجمان ٹی ایل پی نے کہا کہ ویسے تو جب ٹی ایل پی کے قائد خادم حسین رضوی کا عرس ہوا، تو تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے حاضری دی اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا تھا، اس لیے سیاست میں راستہ تو ہر ایک لیے کھلا ہے، مگر ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا
ترجمان ٹی ایل پی کے مطابق ان کی جماعت کی عوام میں مقبولیت بڑھتی جارہی ہے اس لیے ’اب پہلے سے بڑی سیاسی قوت بن کر ابھریں گے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ موقف بھی سخت گیر کی بجائے سیاسی ہوگا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’پہلے بھی حکومت نے علامتی مظاہروں پر بات نہیں سنی تھی، تو سخت موقف اپنانا پڑا تھا اب بھی اپنے مطالبات کے لیے پر امن احتجاج کی پالیسی کو ہی ترجیح دیں گے۔‘
پنجاب میں ٹی ایل کسی جماعت کے لیے مشکلات کھڑی کر سکے گی؟ اس سوال کے جواب میں سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا خیال ہے کہ ’تحریک لبیک مذہبی قوت ضرور ہے، لیکن ابھی تک سیاسی طاقت دکھانے میں کامیاب نہیں۔ سہیل وڑائچ کے بقول، گزشتہ عام انتخابات کے دوران بھی ٹی ایل پی کو مسلم لیگ نون کا ووٹ بینک کم کرنے کے لیے میدان میں اتارا گیا تھا، لیکن زیادہ کامیابی نہیں مل سکی تھی۔ وہ تیسرے نمبر پر زیادہ ووٹ لینے والی جماعت ضرور تھی لیکن نشست ایک بھی حاصل نہیں کر سکی تھی۔‘
سہیل وڑائچ کا خیال ہے کہ ’آئندہ عام انتخابات میں بھی وہ زیادہ سے زیادہ بعض نشستوں پر پانچ سے چھ ہزار ووٹ لے سکتی ہے، نشست اب بھی جیتتی دکھائی نہیں دیتی، کیونکہ گزشتہ کئی انتخابات سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ اب مذہبی جماعتوں کو ووٹ نہیں دیتے، ہمدردیاں ضرور رکھتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ ٹی ایل پی نون لیگ یا کسی جماعت کے لیے مشکلات کھڑی کرے گی، غلط ہوگا۔‘
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’حکمران جماعت پی ٹی آئی ہو، مسلم لیگ نون یا پیپلز پارٹی، جو بھی ٹی ایل پی سے اتحاد کرے گا، انہیں سیٹ دینا پڑے گی، تو جو جماعت نشست جیتنے کی پوزیشن میں نہیں، اسے کوئی جماعت نشستیں دے کر سیاسی اتحاد کیوں بنائے گی؟‘
دوسری جانب صحافی و تجزیہ کار سلمان غنی نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹی ایل پی سوائے ایک پریشر گروپ کے زیادہ اہمیت نہیں بنا سکی، سیاست میں کامیابی کا پیمانہ نشستیں حاصل کرنا ہوتا ہے، لیکن ابھی تک کسی بھی الیکشن میں تحریکِ لبیک نشست حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہیں جس مقصد کے لیے تیار کیا گیا تھا، وہ پہلے حاصل ہوا اور نہ ہی اب ہو سکتا ہے۔‘
سلمان غنی کے بقول ’شیخ رشید نے ٹی ایل پی کی پندرہ سے پچیس تک نشستیں لینے کا جو بیان دیا ہ، ے وہ سیاسی دھوکہ ہے جو وہ لوگوں کو دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کیا ان کے بیانات سے خوفزدہ ہوگی، جو ان کی اصلیت جانتے ہیں، کہ وہ غیر سنجیدہ بیان بازی کرتے رہتے ہیں۔ البتہ ایسے بیانات دینے سے انہیں گریز کرنا چاہیے، وہ ملک کے وزیر داخلہ ہیں لوگوں کو ان کے وہ بیانات بھی یاد ہیں جو انہوں نے ٹی ایل پی کے اسلام آباد مارچ کے دوران رکاوٹیں کھڑی کر کے دیے، اس وقت انہیں انتہا پسند نظر آنے والی جماعت آج اگر پنجاب میں سیاسی قوت بنتی دکھائی دے رہی ہے، تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔‘
سلمان غنی نے کہا کہ ’ٹی ایل پی نے اگر سیاسی میدان میں کامیاب ہونا ہے تو پہلے انہیں سیاسی رویہ رکھنے والی جمہوری جماعت بن کر دکھانا ہوگا۔ یہ ثابت کرنا ہوگا کہ سخت گیر موقف رکھنے کی بجائے عام شہریوں کے مسائل حل کرنے میں وہ سنجیدہ ہیں۔ جماعت اسلامی جیسی جماعت پنجاب میں سیاسی طور پر مستحکم نہیں ہوسکی تو ٹی ایل پی فوری کیسے موثر نتائج حاصل کر سکتی ہے؟‘