بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جلتی آگ پر آسام کے وزیر اعلیٰ نے پھر تیل چھڑک دیا

ویب ڈیسک

آسام – ایک ایسے وقت جب بھارت میں دانشوروں اور سرکردہ شخصیات نے وزیر اعظم نریندر مودی سے اقلیتوں کے خلاف نفرت انگيز بیانات پر کنٹرول کے لیے مداخلت کی اپیل کی ہے، بی جے پی کے ایک رہنما نے ایک بار پھر اسی طرز کے نفرت انگیز بیان سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جلتی آگ پر تیل چھڑک دیا ہے، جس پر ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے

دانشوروں کے ایک گروپ کے مطابق بھارت میں اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات میں اضافہ تشویش ناک ہے

بھارتی ریاست آسام کے وزیر اعلی ہمنتا بسوا شرما کو ریاست تلنگانہ میں اپنی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کارکنان سے خطاب کرنا تھا، تاہم انہوں نے اپنے خطاب کا بیشتر وقت مغلوں، نظاموں اور ریاست سے تعلق رکھنے والے مسلم سیاسی رہنما اسد الدین اویسی کے خلاف بیان بازی پر صرف کیا

بی جے پی کے رہنما اور آسام کے وزیر اعلیٰ نے چند واقعات اور اشخاص کو علامت کے طور پر پیش کرتے ہوئے بھارت میں مسلمانوں کے خاتمے کی

ان کا کہنا تھا ”جیسے کشمیر کی دفعہ 370 کا خاتمہ ہو گيا، جیسے رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہو گيا ہے، اسی طرح یہاں نظام اور اویسی کا نام و نشان بھی مٹ جائے گا۔ اس میں اب زیادہ وقت باقی نہیں ہے۔ بھارتی تاریخ بتاتی ہے کہ بابر، اورنگزیب اور نظام بہت دنوں تک زندہ نہیں رہ سکتے۔“

ان کا مزید کہنا تھا، "ہمیں ایک ایسے نئے بھارت کی تعمیر کرنی ہے، جس میں کسی ”اویسی“ کی جگہ نہیں ہوگی، جس میں ”اورنگ زیب“ کی جگہ نہیں ہوگی، جس میں ”بابر“ کے لیے جگہ نہیں ہوگی۔ جس بھارت میں کوئی بھی ”نظام“ کی تاریخ نہیں پڑھے گا، بلکہ ہمارے اپنے رہنماؤں کی تاریخ پڑھائی جائے گی۔“

واضح رہے کہ تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد پر تقسیم ہند سے قبل تک نظام نے برسوں تک حکمرانی کی تھی اور ان کا اشارہ انہیں کی جانب تھا

سوشل میڈیا پر اس متنازعہ بیان پر کافی بحث ہوئی اور بہت سے افراد نے اسے اشتعال انگیز قرار دیا

اس موقع پر آسام کے وزیر اعلیٰ نے بھارت کو نئی سمت دینے کے لیے وزیر اعظم مودی کی تعریف کی اور ریاست تلنگانہ میں بے روزگاری جیسے مسائل پر بھی بات کی، تاہم یہ نہیں بتایا کہ جب سے مودی بھارت کے وزیر اعظم بنے ہیں اسی وقت سے ملک میں بے روز گاری کا سنگین مسئلہ شروع ہوا اور اس وقت ملک ایک بحران سے گزر رہا ہے

دھرم سنسد میں مسلمانوں کے قتل عام کی ہدایات پر مبنی تقاریر کے بعد چند روز قبل ہی بھارت کے بہت باوقار اور معروف ادارے ‘انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ‘ (آئی آئی ایم) کے طلبہ اور اساتذہ نے وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک خط لکھ کر انہیں ملک میں نفرت انگیز تقریروں اور اقلیتوں پر حملوں کے خلاف خبردار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی اس معاملے میں خاموشی نفرت کی ایسی آوازوں کو مزید تقویت اور حوصلہ دے رہی ہے

وزیر اعظم کے دفتر کو بھیجے گئے اس خط پر 183 افراد نے دستخط کیے ہیں۔ بہت سے طلبہ کے ساتھ ساتھ اس پر دستخط کرنے والوں میں آئی آئی ایم بنگلور کے 13 فیکلٹی ارکان اور آئی آئی ایم احمد آباد کے تین فیکلٹی ممبرز بھی شامل ہیں

اس مکتوب میں لکھا گیا تھا ”جناب وزیر اعظم صاحب، ہمارے ملک میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت پر آپ کی خاموشی ہم سب کے لیے بہت ہی مایوس کن ہے، جو اپنے ملک کے کثیر الثقافتی ڈھانچے کی قدر کرتے ہیں۔ آپ کی خاموشی نفرت سے بھری آوازوں کو تقویت بخشتی ہے اور ملک کی یکجہتی اور سالمیت کے لیے خطرہ ہے۔“

دانشوروں نے لکھا تھا، ”ہمارے ملک میں اب ایک خوف کا ماحول ہے۔ حالیہ دنوں میں گرجا گھروں سمیت بہت سی عبادت گاہوں میں توڑ پھوڑ ہوتی رہی ہے، اور ہمارے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے خلاف تو ہتھیار اٹھانے کی بھی آوازیں آ رہی ہیں۔ یہ سب کچھ بغیر کسی کارروائی کے ڈر سے کیا جا رہا ہے اور ایسا کرنے والوں کو قانونی استثنیٰ حاصل ہے۔“

یہ امر اہم ہے کہ سن 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہندوتوا کے انتہاپسندانہ نظریات کا پرچار کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی پر الزام عائد کیا جاتا رہا ہے، کہ وہ ملک میں مسلم اور دیگر اقلیتوں پر مظالم کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے۔ تاہم بی جے پی اپنے خلاف اس الزام کی تردید کرتی آئی ہے

گزشتہ ماہ ہی ہری دوار میں انتہا پسند ہندوؤں کی ایک ‘دھرم سنسد‘ (مذہبی اجلاس) کے موقع پر متعدد ہندو مذہبی رہنماؤں نے عام لوگوں سے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھا لینے اور ان کے قتل عام اور نسل کشی کے لیے کہا تھا، جس میں بی جے پی کے رہنما بھی موجود تھے

اس سے متعلق کئی وڈیوز بھی وائرل ہو چکی ہیں اور تمام مقررین واضح طور پر پہچانے جا سکتے ہیں۔ پولیس نے اس کی تفتیش کی تو بات کی تھی تاہم ابھی تک کسی رہنما کو گرفتار نہیں کیا گيا ہے۔ اسی لیے مسلمانوں نے اس معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے اور عدالت نے بھی اس پر سماعت کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close