بلوچستان میں جبری گمشدگیاں: ’اللہ نے دو بیٹے دیے، انسانوں نے دونوں چھین لیے‘

ویب ڈیسک

کوئٹہ – ’اللہ نے مجھے دو بیٹے دیے، لیکن انسانوں نے دونوں کو چھین لیا۔ اب بڑھاپے میں سہارا بننے کے لیے میری کوئی نرینہ اولاد نہیں رہی۔‘

یہ الفاظ ہیں، پاکستان میں صوبہ بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے مند میں رہنے والے حاجی ناصر کے، جن کے پینتیس سالہ بڑے بیٹے اسد ناصر کی لاش ایک ماہ قبل ایرانی بلوچستان سے ملی ہے

واضح رہے کہ ایک دہائی قبل سنہ 2010ع میں حاجی ناصر کے چھوٹے بیٹے یاسر بھی مبینہ طور پر لاپتہ ہو گئے تھے اور گمشدگی کے چند ماہ بعد ان کی لاش ضلع کیچ کے علاقے مرگاپ سے ملی تھی

حاجی ناصر کا کہنا ہے ”میرے دونوں بیٹوں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا، اگر انہوں نے کوئی جرم کیا تھا تو ان کو عدالت میں پیش کر کے سزا دلوائی جاتی۔“

حاجی ناصر کے مطابق اُن کے بڑے بیٹے کو مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز نے ان کے گھر سے حراست میں لیا تھا

اسد ناصر کی لاش کی ایرانی بلوچستان سے برآمدگی پر ضلع کیچ کے ڈپٹی کمشنر حسین جان بلوچ کا کہنا ہے کہ اُن کی ہلاکت کیچ میں نہیں، بلکہ ایران میں ہوئی جس کے بعد ایرانی حکام نے ہی اسد کی لاش کو پاکستانی حکام کے حوالے کیا

اُن کا کہنا ہے کہ اسد ناصر کے لواحقین نے اب تک نہ تو سرکاری حکام سے کسی قسم کا رابطہ کیا ہے اور نا ہی اس معاملے کی ایف آئی آر درج کروائی ہے

پینتیس سالہ اسد ناصر شادی شدہ تھے اور تین بچوں کے باپ تھے، جن کی عمریں چار سے چھ سال کے درمیان ہیں

اسد کے والد حاجی ناصر کا کہنا ہے کہ اسد اللہ ناصر نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی تھی، جس کے بعد ملازمت نہ ملنے کے باعث وہ ایک دکان چلا رہے تھے

حاجی ناصر نے دعویٰ کیا کہ یکم جولائی 2019 کی رات جب ہم اپنے گھر کے صحن میں سوئے ہوئے تھے، تو اچانک گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو وردی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس سکیورٹی فورسز کے اہلکار باہر کھڑے تھے

وہ کہتے ہیں ”انہوں نے میرے بڑے بیٹے اسد ناصر کے بارے میں پوچھا تو میں نے ان کو بتایا کہ وہ گھر میں موجود ہیں اور سو رہے ہیں۔“

حاجی ناصر کے مطابق ”وہ گھر میں داخل ہو گئے اور اسد ناصر کا ہاتھ پکڑ کر انہیں ایک طرف کر لیا۔ پھر کمروں کی تلاشی لی گئی۔ اس کے بعد وہ اسد ناصر کو لے جانے لگے تو ان کی والدہ اور بہنوں نے رونا اور چلانا شروع کیا کہ اسے مت لے جاﺅ، اس نے کوئی جرم نہیں کیا۔“

حاجی ناصر نے دعویٰ کیا کہ اس موقع پر سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے جواب دیا کہ ”آپ لوگ فکر نہ کریں، انہیں صبح چھوڑ دیا جائے گا.“ لیکن اسے نہیں چھوڑا گیا

حاجی ناصر کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس واقعے کے بعد بیٹے کی ماورائے آئین و قانون گرفتاری کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کروائی۔ اس کی وہ دو وجوہات بیان کرتے ہیں۔ پہلی یہ خوف، کہ کہیں اُن کے بیٹے کو مبینہ دوران حراست نقصان نہ پہنچایا جائے اور دوسری سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے دی جانے والی یہ یقین دہانی کہ تفتیش کے بعد اسد کو چھوڑ دیا جائے گا

وہ کہتے ہیں”ہمیں کہا گیا کہ بیٹے کو تین ماہ بعد چھوڑ دیا جائے گا“

حاجی ناصر کے مطابق وہ کیچ سے تعلق رکھنے والے صوبائی اور وفاقی وزرا سے ملے اور اپنے بیٹے کی بازیابی کی درخواست کی۔ ’اُن سب نے مجھے تسلی دی کہ میرا بیٹا بازیاب ہو جائے گا۔‘

دو سال کا عرصہ گزر گیا۔ اسد ناصر گھر واپس نہیں آئے، تو حاجی ناصر نے ایک بار پھر علاقے کے بااثر سیاسی افراد سے ملاقات کی، تاکہ ان کے بیٹے کی گھر واپسی کو ممکن بنایا جا سکے۔ ’میں نے ان لوگوں سے دوبارہ ملاقات کی تو مجھے بتایا گیا کہ میرا بیٹا تین ماہ بعد واپس آ جائے گا۔‘

کچھ عرصہ قبل اسد ناصر کی دو چھوٹی بہنوں اور ان کے بیٹے کی جانب سے جاری کردہ وڈیوز بھی سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئیں تھیں ، جن میں وہ اسد ناصر کی بازیابی کے لیے وفاقی اور صوبائی وزرا سے اپیل کرتے دکھائی دیتے ہیں

حاجی ناصر کے مطابق ان کی اہلیہ اس عرصے میں صدمے سے یادداشت کھو بیٹھی ہیں

حاجی ناصر نے بتایا کہ اسد ناصر کے بیٹے کی اپیل پر مبنی وڈیوز تین چار ماہ پرانی اور اُس وقت کی ہیں، جب انہیں بیٹے کی موت کی اطلاع نہیں ملی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پوتے کی اپیل پر ان کا والد زندہ تو نہیں آیا، لیکن لاش ضرور آ گئی۔‘

حاجی ناصر نے الزام عائد کیا کہ اُن کا بیٹا تربت میں زیرِ حراست تھا، مگر بعدازاں اس کی میت کو بلوچستان سے متصل ایرانی علاقے میں پھنیک دیا گیا۔ جبکہ سرکاری حکام اس الزام کی تردید کرتے ہیں

حاجی ناصر کہتے ہیں کہ ’کیا بلوچستان کی زمین تنگ تھی، کہ لاش کو پھینکنے کے لیے جگہ نہیں ملی۔‘

حاجی ناصر کے مطابق اسد ناصر کی لاش ایران کے علاقے پیر کہور سے ملی تھی، جو پاکستانی سرحد سے تقریباً تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے

انہوں نے بتایا کہ جس علاقے سے لاش برآمد ہوئی وہاں پر ہماری واقفیت ہے۔ وہاں پر لوگوں نے لاش کے ساتھ ایک پرچی دیکھ کر ہمیں اطلاع دی

حاجی ناصر کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس علاقے میں تین افراد کو گولیاں ماری گئی تھیں، جس سے ناصر سمیت دو افراد ہلاک ہو گئے تھے، لیکن ایک شخص زندہ بچ گیا تھا، جو اب ایرانی حکام کی حراست میں ہے۔ ’ہمیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس شخص کو زاہدان لے جایا گیا ہے جہاں علاج معالجے کے بعد اس کو تفتیش کے لیے تہران منتقل کیا جائے گا۔‘

حاجی ناصر کے مطابق ردیگ کے سرحدی پوائنٹ پر دو لاشیں پاکستانی حکام نے ایرانی حکام سے وصول کیں اور پھر انہیں ورثا کے حوالے کیا گیا

دوسری جانب لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم ”وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز“ کے چیئرمین نصراللہ بلوچ کے مطابق اسد ناصر کا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تھا، جو حکومت کو بھی دی گئی تھی

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایران میں زندہ بچ جانے والا شخص جس کا نام وہ محمد خان بتاتے ہیں ’اس کا نام بھی لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہے اور حکومتی کمیشن میں بھی ہے۔‘

دوسری جانب بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا لانگو نے دو روز قبل ایک پریس کانفرنس کے دوران دو بچوں کی ہلاکت کے واقعے پر موقف اپنایا تھا کہ چند عناصر سکیورٹی فورسز پر بے بنیاد الزام لگاتے ہیں، جب کہ ملک میں امن سکیورٹی فورسز کی قربانیوں سے ہی قائم ہوا

جبکہ کیچ کے ڈپٹی کمشنر حسین جان بلوچ نے بتایا کہ اسد ناصر سمیت دونوں افراد کی ہلاکت کیچ میں نہیں، بلکہ ایران میں ہوئی۔ ان افراد کی لاشیں ایرانی حکام نے پاکستان کے حوالے کیں، جس کی باقاعدہ ڈاکومینٹیشن بھی کی گئی۔ یہ بات واضح ہے کہ یہ لوگ کیچ میں نہیں مارے گئے بلکہ ایران میں ہلاک ہوئے

ڈپٹی کمشنر حسین جان بلوچ کے مطابق پاکستانی حکام نے دو افراد کی لاشیں وصول کی تھیں، جن میں سے ایک اسد ناصر اور دوسرے فرد کا تعلق قلات سے تھا، بعدازاں دونوں لاشیں ورثا کے حوالے کر دی گئی تھیں

ان کا کہنا تھا کہ اسد ناصر کے رشتہ داروں کی جانب سے تاحال مقامی انتظامیہ سے رابطہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی کوئی ایف آئی آر درج کروائی گئی

حاجی ناصر کے لیے یہ پہلی بار نہیں کہ انہیں ایسے صدمے سے گزرنا پڑا ہو۔ سنہ 2010ع میں ان کے چھوٹے بیٹے یاسر، جو میٹرک کے بعد ایف اے کرنے گوادر گئے تھے، ایک دوست سمیت لاپتہ ہو گئے تھے

حاجی ناصر کے مطابق ان کے بیٹے کے دوست کو چند دن بعد چھوڑ دیا گیا تھا، لیکن آٹھ ماہ بعد یاسر کی لاش ضلع کیچ کے علاقے مرگاپ سے ملی تھی

حاجی ناصر کے مطابق ان کے دونوں بیٹوں کا تعلق زمانہ طالب علمی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) سے رہا تھا۔ لیکن وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کے دونوں بیٹوں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا۔ اگر انھوں نے کوئی جرم کیا تھا تو ان کو عدالت میں پیش کر کے سزا دلوائی جاتی

وہ کہتے ہیں”اب میرا کوئی بیٹا نہیں رہا ۔ اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے دیے تھے، جن کو انسانوں نے مجھ سے چھین لیا۔ اب میری صرف چھ بیٹیاں ہیں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close