کراچی – ”او پروردگارا… تیرے ہلمند نے ہے تجھے پکارا… خودکشی میں اگر نہ ہوتا آخرت کا خسارا، تو تیرا ہملند گردن میں پھندا ڈال کے جھول جاتا… خود کو مار دیتا اور کھوپڑی میں سیسہ اُتار لیتا… اپنے لب سی جاتا اور زہر کا پیالہ پی جاتا۔“
یہ مکالمے ہیں ڈرامہ سیریل ’سنگِ ماہ‘ کے، جس کی پہلی پہلی قسط گزشتہ شب نشر ہوئی. ڈرامے میں ہملند خان کا کردار معروف گلوکار عاطف اسلم ادا کر رہے ہیں
’سنگ ماہ’ کی پہلی قسط کو 7 اور 8 جنوری کو سینماؤں میں پیش کیا گیا جب کہ ٹی وی پر اس کی پہلی قسط کو 9 جنوری کو نشر کیا گیا
ڈرامے میں جہاں ایک طرف گلوکار عاطف اسلم ’سنگ ماہ‘ میں ڈیبیو کر رہے ہیں، وہیں اس کی دیگر کاسٹ میں ثانیہ سعید، سامیہ ممتاز، نعمان اعجاز اور ان کے بیٹے زاویار اعجاز، کبریٰ خان، ہانیہ عامر اور میکال ذوالفقار شامل ہیں
اس ڈرامے کے ہدایت کار سیفی حسن ہیں، جنہوں نے سنہ 2016 میں نشر ہونے والے سنگِ ماہ کے پہلے سیزن ’سنگ مرمر‘ کی ہدایات کاری کی تھیں
’سنگِ مرمر‘ کی طرح ’سنگِ ماہ‘ کی کہانی بھی پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کی فرسودہ روایات اور رسم و رواج کے گرد گھومتی ہے اور اس ڈرامے میں قبائلی روایت ’غگ‘ یا ’ژغ‘ پر روشنی ڈالی گئی ہے
میگا کاسٹ ڈرامے ’سنگ ماہ‘ کی پہلی قسط نے جہاں کئی شائقین اسے سراہ رہے ہیں ، وہیں بعض پشتون، ڈرامے سے ناخوش دکھائی دیے اور انہوں نے ڈرامے کی کہانی اور کرداروں کی پیش کش پر برہمی کا اظہار کیا ہے
ڈرامے کے مرکزی موضوع ’غگ‘یا ’ژغ‘ کی رسم کیا ہے؟
غگ پشتو زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی آواز لگانے یا اعلان کرنے کے ہیں۔ یہ قدیم روایت بیشتر قبائلی علاقوں میں رائج تھی. اس روایت کے تحت جس بھی مرد کو کوئی خاتون پسند آ جاتی تھی، تو وہ اس خاتون کے گھر آ کر شادی کا اعلان کر دیتا تھا کہ یہ خاتون اب میری ہے، اسے غگ یا ژغ کہتے ہیں
اس رسم کے تحت اگر برادری کا کوئی شخص کسی خاتون سے شادی کا اعلان کرتا ہے، تو برادری کا کوئی اور شخص اس خاتون کے لیے رشتہ نہیں بھجواتا اور اس خاتون کے لیے شادی کے رشتے آنا بند ہو جاتے تھے
اس روایت یا رسم کے زیادہ تر واقعات بھی جنوبی علاقوں خاص طور پر جنوبی وزیرستان میں پیش آتے رہے ہیں
اس روایت کے تحت اس میں خاتون، اس کے والدین یا رشتہ داورں کی رضامندی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی تھی
اس فرسودہ روایت کے تحت بعض اوقات لوگوں کا مقصد خاتون سے شادی کرنا نہیں ہوتا تھا بلکہ خاتون کے خاندان کو تنگ کرنا یا اپنی شرائط پر ان سے معاملات طے کرنا ہوتا تھا
یہ رسم بنیادی طور پر جنوبی وزیرستان سے شروع ہوئی اور پھر صوبے کے دیگر علاقوں تک پھیل گئی
کلچر ثقافت اور تاریخی واقعات پر گہری نگاہ رکھنے والے شیر عالم شنواری کے مطابق یہ ایک انتہائی بدترین رسم تھی، جسے 2012 میں ایک قانون کے تحت قابل گرفت جرم بنا دیا گیا ہے
شادی کا کیا طریقہ ہوتا ہے؟
قبائلی علاقوں خاص طور پشتون علاقوں میں یہ رسم پائی جاتی تھی۔ اس کے تحت لڑکے کے گھر والے پہلے تو رشتہ مانگنے کے لیے لوگ بھیجتے تھے جسے جرگہ بھی کہا جاتا تھا۔ شیر عالم شنواری کے مطابق لڑکی والوں کی جانب سے انکار کی صورت میں لڑکے والے پھر غگ یعنی پکار یا اعلان کرتے تھے، جس میں لڑکی کے گھر والوں کے فیصلے کو چیلنج کیا جاتا تھا
اس غگ کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ علاقے کے کوئی اور لوگ پھر اس لڑکی کا رشتہ نہیں بھیجتے اور اگر کوئی بھیجے تو پھر دشمنیاں شروع ہو جاتیں اور لوگ قتل کیے جاتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ غگ بظاہر عوامی سطح پر اعلان ہوتا تھا کہ باقی لوگ رشتہ نہ بھیجیں
شیر عالم شنواری کے مطابق ایسی صورتحال میں خاتون اور اس کے گھر والے بُری طرح متاثر ہوتے تھے۔ اور یا تو وہ خاتون ہمیشہ کے لیے گھر بیٹھ جاتی اور اس کا رشتہ کہیں نہیں ہو پاتا تھا یا ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ لڑکی کو کوئی نقصان پہنچا دیا جاتا جس سے اس لڑکی کے رشتے سے باقی لوگ گریز کرتے
اگرچہ اس قانون یعنی غگ ایکٹ کے بعد اور قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد اس طرح کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن پھر بھی کہیں اکا دکا ایسے واقعات پیش آ ہی جاتے ہیں
غگ ایکٹ کب منظور ہوا؟
اس روایت کے خاتمے کے لیے اگرچہ مختلف ادوار میں آواز اٹھائی گئی، لیکن سنہ 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے اس فرسودہ روایت کے خلاف عملی اقدامات کرتے ہوئے قانون سازی کی اور صوبائی اسمبلی سے یہ قانون منظور کروایا تھا
اس قانون کے تحت جرم ثابت ہونے پر زیادہ سے زیادہ سات سال اور کم سے کم تین سال قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے
عوامی نیشنل پارٹی کی سابق رکن صوبائی اسمبلی ستارہ ایاز، جنہوں نے غگ ایکٹ کے قانون کی منظوری میں اہم کردار ادا کیا تھا، سنہ 2019 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس فرسودہ رسم کے بارے میں بہت شکایات آ رہی تھیں جس پر سنہ 2012 میں اس کے خلاف قانون سازی پر کام شروع کیا گیا تھا
ستارہ ایاز کے مطابق اب بھی اس بارے میں آگاہی نہیں ہے کہ یہ رسم قابل سزا جرم بن چکی ہے اور حکومت کو اس سلسلے میں آگاہی مہم شروع کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ پولیس تھانوں اور متعلقہ محکموں کو بھی معلومات ہونی چاہییں کہ غگ اور ژغ اب ایک قابل گرفت جرم ہے
ڈرامہ ”سنگِ ماہ“ میں اسی ’غگ‘ جیسی رسم اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے سنگین مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے
سوشل میڈیا پر ردِعمل
ڈرامہ سیریل سنگِ ماہ میں ‘غگ’ یا ‘ژغ’ کی فرسودہ قبائلی روایت پر روشنی ڈالنے کے لیے اس ڈرامے اور ڈائیلاگز کی تعریف کی جا رہی ہے
میگا کاسٹ ڈرامے ’سنگ ماہ‘ کی پہلی قسط نے جہاں شائقین کے دل جیت لیے، وہیں بعض پشتون، ڈرامے سے ناخوش دکھائی دیے اور انہوں نے ڈرامے کی کہانی اور کرداروں کی پیش کش پر برہمی کا اظہار بھی کیا
پہلی قسط میں عاطف اسلم کے کردار ’ہلمند‘ کی تعریف کی گئی اور لوگوں نے نہ صرف ان کی ڈراما ڈیبیو اداکاری کو سراہا بلکہ ڈرامے کی کہانی، مکالموں، کرداروں کی پیش کش اور منظر کشی کو بھی سراہا
زیادہ تر شائقین نے عاطف اسلم کی اداکاری کی تعریف کی مگر ساتھ ہی لوگوں نے ثانیہ سعید سمیت دیگر اداکاروں کے کرداروں کو بھی سراہا اور ڈرامے کی پہلی قسط نشر ہونے کے بعد ٹوئٹر پرمختلف اداکاروں کا نام ٹاپ ٹرینڈ پر بھی رہا
حریم نے ڈرامے کی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھا کہ انھیں بہت خوشی ہے کہ اس ڈرامے میں غگ جیسے حساس مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے
افشاں نے ٹویٹ کیا ’سنگِ ماہ ایک مختلف قسم کا ڈرامہ ہے اس جیسا ڈرامہ ہم نے پاکستانی ٹی وی پر پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘
ایک صارف نے لکھا کہ ’سنگ ماہ ایک ایسا ڈرامہ ہے جو غگ جیسی فرسودہ رسم کے خلاف بنایا گیا ہے اور یہ ایک ایسی رسم ہے جس میں مرد کو حق دیا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی لڑکی کو اپنی ملکیت بنا سکتا ہے۔‘
مگر جہاں لوگوں نے ’سنگ ماہ’ کی تعریفیں کیں، وہیں خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے افراد نے ڈرامے کی کہانی اور اس کے کرداروں کی پیش کش پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈرامے پر ’پشتونوں کو غلط انداز میں پیش کرنے‘ کا الزام عائد کیا
پشتون افراد نے ’سنگ ماہ’ کی پہلی قسط دیکھنے کے بعد ٹوئٹس کیں کہ جہاں ڈرامے کے مرد کردار کو منظور پشتین کی طرح کی ٹوپی پہنا کر غلط کام کرتے دکھایا گیا ہے، وہیں ثانیہ سعید کو صوابی کی خواتین کے لباس میں پیش کرکے انہیں بھی نامناسب انداز میں پیش کیا گیا
کچھ افراد نے ڈرامے کے کرداروں کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’غگ‘ کی رسم (زبردستی شادی) پر بنے قبائلی روایتی ڈرامے کے کرداروں، کہانی اور مناظر کی پیش کش یقینی طور پر بہترین ہے
کچھ شائقین نے سوال کیا کہ ’سنگ ماہ‘ میں جو "غگ” کا رواج دکھایا گیا ہے وہ پختونخوا کے کونسے علاقے کی ترجمانی کر رہا ہے؟ ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ وہاں اس قسم کی کوئی رسم نہیں ہے
کچھ لوگوں نے ڈرامے میں ثانیہ سعید کے کردار کو پہنائی گئی چادر کی تاریخی اہمیت پر بھی بات کی اور لکھا کہ انہیں ڈراما دیکھ کر ہی معلوم ہوا کہ سن 1800 میں صوابی والوں کی سکھوں کے ساتھ جنگ میں جو لوگ زخمی ہوئے تھے انہیں خواتین نے اپنے سفید دوپٹوں میں ڈھانپا تھا اور آج تک وہاں کی عورتیں اس خون آلود رنگ کی چادر اوڑھتی ہیں
وہیں بعض لوگوں نے ڈرامے میں پشتونوں کو غلط انداز میں دکھانے کو بنگالیوں کے ساتھ ناانصافی کے ساتھ بھی جوڑا۔