یہ بات بظاہر ناقابلِ فہم لگنی چاہیے کہ ایک ایسا ملک، جس کا رقبہ مغربی یورپ یا نوے فیصد ہندوستان کے برابر ہو اور اس اعتبار سے دنیا کا نواں بڑا ملک کہلائے۔ اور یہ لق و دق مملکت یورنیم کے سب سے بڑے عالمی ذخیرے پر بیٹھی ہو ، تیل اور گیس پیدا کرنے والے ممالک میں اس کا درجہ علی الترتیب گیارہواں اور تیسواں ہو۔ کوئلے ، لوہے ، مینگنیز، کروم ، نکل ، کوبالٹ ، تانبے ، سونے اور باکسائیٹ جیسی نقد آور معدنیات سے بھی مالا مال ہو
قومی آمدنی ایک سو ستر بلین ڈالر سالانہ ہو اور افراطِ زر بھی سنگل ہندسے (آٹھ اعشاریہ چار فیصد) تک محدود ہو، بے روزگاری محض چار فیصد کے لگ بھگ ہو، تعلیم اور صحت کے شعبوں پر اوسطاً چار چار فیصد اور دفاع پر ایک فیصد سے بھی کم خرچہ ہو، فی کس آمدنی پچیس ہزار تین سو ڈالر سالانہ ہو اور آبادی صرف ایک کروڑ نوے لاکھ ہو اور اٹھاون فیصد آبادی شہروں میں رہتی ہو، اوسط عمر تہتر برس ہو ، ننانوے فیصد آبادی کو صحت و صفائی اور سو فیصد کو بجلی کی سہولت میسر ہو، بجلی بھی اتنی وافر کہ برآمد کی جا رہی ہو، لگ بھگ سو فیصد آبادی لکھنا پڑھنا جانتی ہو، شرحِ آبادی میں اضافہ بھی ایک فیصد سالانہ سے کم ہو
ایسی مملکت میں کسی ایک دن بس اس لیے اچانک ہنگامے پھوٹ پڑیں کہ مایع گیس کی قیمت میں دوگنا اضافہ کردیا گیا، ناقابلِ فہم سی بات لگتی ہے! ہنگامے شروع ہونے کے تین دن بعد قیمت میں اضافہ واپس بھی لے لیا گیا، مگر بدامنی بڑھتی چلی گئی۔ اب تک اٹھارہ پولیس والوں سمیت ایک سو اڑسٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہنگاموں کا سب سے بڑا مرکز بیس لاکھ آبادی والا سب سے بڑا شہر الماتی ہے
اہم عمارتوں اور تنصیبات کا تحفظ اب روسی قیادت میں قائم شش مملکتی علاقائی سلامتی کی تنظیم (سی ایس ٹی او) کر رہی ہے، جب کہ قازق فوج امن و امان کی عمومی بحالی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ تیس برس قبل ایک آزاد مملکت بننے کے بعد سے قازقستان میں پھوٹ پڑنے والے یہ سب سے شدید ہنگامے ہیں
قازقستان سابق سوویت ریاستوں کی دولتِ مشترکہ کا اہم رکن ہے۔ ملک کی بیس فیصد آبادی روسی آبادکاروں پر مشتمل ہے۔ روسی خلائی پروگرام کی سرگرمیوں کا مرکز بھی قازق علاقہ بیکانور ہے۔یوریشیا میں روس کے بعد جغرافیائی اور معدنی وسائل کے اعتبار سے سب سے اہم ملک بھی قازقستان ہے۔ پانچ وسطی ایشیائی ریاستوں کی کل قومی آمدنی کا ساٹھ فیصد صرف قازقستان پیدا کرتا ہے
مگر خود روس کے لیے بھی اتنے شدید ہنگامے غیر متوقع تھے۔ روس کی پریشانی یوں بھی زیادہ ہے کیونکہ اس وقت یوکرین کے معاملے پر اس نے مغربی ممالک سے سینگ پھنسائے ہوئے ہیں۔ اسے خدشہ ہے کہ یوکرین کہیں ناٹو کا مستقل رکن بن کر نیا دردِ سر نہ بن جائے۔ روس کو بیلا روس میں لوکاشینکو کی طویل آمریت کا تحفظ بھی درپیش ہے اور قازقستان بھی رنگ بدلتا ہے، تو پھر صدر ولادی میر پوتن کے ستارے گردش میں آ سکتے ہیں۔ لہٰذا روس اپنی سرحدوں سے متصل سابق سوویت جنوبی یا جنوب مغربی ریاستوں میں کوئی ایسی سیاسی اتھل پتھل یا تبدیلی نہیں دیکھنا چاہتا جس کی دھمک اس کے اپنے صحن میں سنائی دینے کا خدشہ ہو
قازقستان چین کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے۔ یہ روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کی اہم کڑی ہے۔ جو چینی مصنوعات مغربی یورپ کو سڑک اور ریل کے ذریعے جاتی ہیں وہ قازقستان سے ہی گذرتی ہیں۔ لہٰذا چین بھی یہاں کوئی انہونی صورتِ حال برداشت نہیں کر سکتا۔بالحضوص نزدیکی صوبے شنجیانگ کی حساس صورتِ حال کے پیشِ نظر..
قازقستان امریکا کے لیے بھی سب سے اہم وسطی ایشیائی ریاست ہے۔ تیل اور گیس کے شعبوں میں بھاری امریکی سرمایہ کاری ہے۔ تنگیز آئل فیلڈز سے روزانہ پونے دو لاکھ بیرل تیل نکلتا ہے۔ اس کے نصف حصص کی مالک امریکی آئل اینڈ گیس کمپنی شیورون ہے۔ امریکی کمپنیوں نے بینکاری کے شعبوں اور کانکنی کے منصوبوں میں بھی خاصی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ جوں جوں چین امریکا تعلقات بگڑ رہے ہیں دونوں طاقتیں بیرونی سرمایہ کاری کے میدان میں بھی چھینا جھپٹی تیز کر رہی ہیں اور قازقستان ہر اعتبار سے روس، چین، امریکا سہ طرفہ ٹورنامنٹ کی ایک بڑی ٹرافی ہے۔ قازقوں کو بھی اس کا پورا احساس ہے، لہٰذا انہوں نے اپنی اقتصادی خارجہ پالیسی کو بہت ناپ تول کے ساتھ متوازن کر رکھا ہے تاکہ رند بھی خوش رہے وعظ بھی ناراض نہ ہو
تو پھر قازق اتنے بے چین کیوں ہیں اور سرکار قازق عوام کو براہِ راست اس بے چینی کا الزام دینے کے بجائے کیوں ’’ہزاروں غیر ملکی تربیت یافتہ دہشت گردوں‘‘ پر ڈال رہی ہے کہ جن کے بہکاوے میں ’’مٹھی بھر پرامن شہری ‘‘ بھی آ گئے۔ باقی دنیا کو تربیت یافتہ دہشت گردوں کی بریکنگ نیوز یکم جنوری کو ہنگامے پھوٹ پڑنے کے بعد ہی کیوں ملی
بات یہ ہے کہ قازق عوام دہائیوں سے جاری اقتصادی جمود کے سبب اب بولنا چاہتے ہیں اور سوویت دور کی مسلسل مسلط حکمران اشرافیہ کے چنگل سے نجات پا کر کھلی فضا میں سانس بھی لینا چاہتے ہیں۔ اس تحریک میں سب سے مقبول نعرہ ہے ’’شال کیت‘‘ یعنی بُڈھے جاؤ!
روئے سخن اکیاسی سالہ نور سلطان نذر بائیف کی جانب ہے، جو انیس سو چوراسی میں سوویت کمیونسٹ پارٹی کی قازق شاخ کے سیکریٹری جنرل بننے کے بعد اس ریاست کے ناظم رہے اور سولہ دسمبر انیس سو اکیانوے کو سوویت یونین سے الگ ہونے والی آخری ریاست کے صدر بن گئے۔ پھر انیس سو ترانونے کے آئین کے تحت فیصل آباد کا گھنٹہ گھر ہو گئے۔ ہر انتخاب میں ان کی جماعت پچانوے فیصد سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوتی رہی
ابتدائی برسوں میں نذربائیف ملک کو مذہبی دہشت گردی سے بچانے کا نعرہ لگاتے رہے۔پھر قازقستان کی معاشی ترقی کا سرچشمہ قرار پائے۔ بابائے ملت کا خطاب اپنایا۔ ہر اہم چوک میں مجسمے نصب ہو گئے۔ دولت پیدا ضرور ہوئی مگر سوویت دور کی اشرافیہ کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتی چلی گئی۔ اور پھر نذر بائیف خاندان اشرافیہ کے اندر اشرافیہ بنتا چلا گیا
سب سے بڑی بیٹی دریغہ نذر بائیوف کو ممکنہ سیاسی جانشین کے طور پر ابھارنے کی کوشش ہوئی۔ منجھلی بیٹی دینارا اور ان کے شوہر تیمور قلی بائیف اس وقت ملک کے سب سے بڑے بینک ’’ہالک‘‘ کے مالک ہیں اور ملک کا امیر ترین جوڑا کہلاتے ہیں۔ امارت آئی تو بیرونِ ملک جائیداد بھی خریدی گئی۔ نذربائیف خاندان اور حواریوں کا تیل اور گیس کی صنعت پر بھی کنٹرول بتایا جاتا ہے
مارچ دو ہزار انیس میں نور سلطان ستائیس برس کی صدارت سے سبکدوش ہو گئے مگر سب سے اہم ادارے نیشنل سیکیورٹی کونسل کی سربراہی ہاتھ ہی میں رکھی۔ انتہائی قابلِ اعتماد قاسم جمرات توکائیف کو صدر نامزد کیا گیا۔انہوں نے سیکیورٹی ایجنسی کی زمام نور سلطان کے بااعتماد ساتھی کریم مسیموف کے حوالے کر دی۔ کابینہ کی نامزدگیوں اور فیصلوں میں بھی نذر بائیف کا عمل دخل برقرار رہا۔ ان کی قومی خدمات کے اعتراف میں دارالحکومت آستانہ کا نام بھی بدل کے نور سلطان رکھ دیا گیا
فی الحال شورش و بے چینی فرو کرنے کے لیے صدر توکائیف نے نہ صرف نور سلطان کے حامی وزیرِ اعظم کو برطرف کر دیا ہے، بلکہ نیشنل سیکیورٹی کونسل کی سربراہی بھی خود سنبھال لی ہے۔ سابق سیکیورٹی چیف کریم مسیموف کو بھی غداری کے جرم میں حراست میں لے لیا گیا ہے۔ گویا توکائیف کی اقتدار پر گرفت بظاہر مضبوط ہے۔ جیسے جیسے معاملات ٹھنڈے پڑتے جائیں گے، صدر توکائیف کی شکل میں قازقستان کو ایک اور نور سلطان مل جائے گا
کیا عام قازق مستقبلِ قریب میں ایسی جمہوریت دیکھ پائیں گے، جو ان کی امنگوں کی اصل نمایندہ ہو؟ امکان کم ہے، کیونکہ قازقستان کی سرحد جتنے ممالک سے بھی لگتی ہے، ان سب میں ایک سے ایک وکھری ٹائپ کی آمریت سر چڑھ کے بول رہی ہے۔روس ، چین اور امریکا بھی ایسا قازقستان دیکھنا چاہتے ہیں، جو پارلیمانی کل کل سے آلودہ ہونے کے بجائے کسی آہنی گرفت میں رہے تاکہ اقتصادی و اسٹرٹیجک مفادات پر آنچ نہ آئے
رہے پونے دو کروڑ خواندہ قازق.. تو وہ کل کی طرح آج بھی ’’جائیں تو جائیں کہاں، سمجھے گا کون یہاں‘‘ والی کیفیت میں مچل رہے ہیں
حوالہ : ایکسپریس نیوز