اسلام آباد – پاکستان کی قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتوں میں ایک بار پھر قربتیں بڑھنے لگی ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم سے الگ ہونے والی پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی قیادت ایک بار پھر باہم میل ملاقاتوں میں مصروف ہو چکی ہے
ان حالات میں پی ٹی آئی حکومت کے قیام میں اہم کردار ادا کرنے والے اور اب پی ٹی آئی سے باغی رہنما جہانگیر ترین کے گزشتہ دنوں لاہور میں خواجہ سعد رفیق کی بیٹی کی شادی میں شرکت اور اس موقع پر ان کے ذومعنی بیان کو بھی خاصی اہمیت دی جا رہی ہے
تقریب میں جہانگیر ترین، عون چوہدری، ایاز صادق، چوہدری پرویز الٰہی، حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی، خورشید شاہ سمیت کئی رہنماؤں نے شرکت کی
اس موقع پر اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی کی آمد پر حمزہ شہباز نے گلے لگا کر انہیں خوش آمدید کہا۔ تقریب میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز حکمراں جماعت کے بانی اراکین میں شامل جہانگیر ترین رہے
تقریب میں صحافی نے جہانگیر ترین سے پوچھا کیا ”جہانگیر ترین کا طیارہ کبھی نون لیگ کی طرف جا سکتا ہے“ تو جہانگیر ترین نے جواب دیا ”طیارہ تو کسی بھی طرف جاسکتا ہے، جو ہونا ہوا وہی ہوگا۔“
اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بھی موقع پر ایک جملہ شامل کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت عمران خان کے سوا سب ہی مسکراتے رہيں تو اچھا ہے۔
ادہر حزب اختلاف جماعتوں کے پارلیمانی پارٹیوں کے مشترکہ اجلاس کے بعد شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات، لیگی رہنما شیخ روحیل اصغر کے روایتی عشائیے میں بلاول بھٹو زرداری کی اچانک آمد اور لیگی رہنماوں سے بے تکلفی اور سابق صدر آصف زرداری کی جانب سے ن لیگ کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے کا سلسلہ رک جانے اور ان ہاؤس تبدیلی کے حق میں بیان دینے کے بعد حزب اختلاف اتحاد کے کورٹ میں قدرے یکسوئی کا ماحول ہے
پارلیمانی راہداریوں میں ان ملاقاتوں کی بنیاد پر یہ سرگوشیاں بھی ہو رہی ہیں کہ حزب اختلاف اتحاد، تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف زرداری نے بھی ایک روز قبل اس کی حمایت میں بات کی ہے، اور ان ملاقاتوں کو بھی وہ اہمیت دے رہے ہیں۔ پی پی قیادت کا موقف ہے کہ پارلیمان کی حد تک یکساں جدوجہد پر اتفاق ہو چکا ہے اور قیادت مل کر ان ہاؤس تبدیلی کا لائحہ عمل طے کرے گی
اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ نون کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال کا کہنا ہے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی ایوان میں حکومت کے خلاف یکساں موقف رکھتے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر بھی باہمی بات چیت جاری ہے۔ ”عمران خان کو ہٹانے کے لیے ہم کسی سے بھی ہاتھ ملانے کو تیار ہیں“
نون لیگ کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین ان ہاؤس تبدیلی پر فیصلہ کریں گے۔ آئینی طریقہ یہی ہے کہ پارلیمنٹ قائم رہے اور ان ہاؤس تبدیلی لائی جائے۔ حکومت اعتماد کھو چکی ہے پارلیمنٹ کے اندر ہی تبدیلی لائی جائے گی اور کوئی غیر آئینی اقدام نہیں اٹھایا جائے گا
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ آئین میں ان ہاؤس تبدیلی کا آپشن موجود ہے۔ پیپلزپارٹی سمیت اپوزیشن کا پارلیمنٹ میں مثالی اتحاد ہے۔ ان ہاؤس تبدیلی سے متعلق جلد متفقہ فیصلہ ہوگا
اپوزیشن کے ایک اور رہنما کے مطابق اپوزیشن قیادت حالات کا جائزہ لے رہی ہے اور جوں ہی حالات سازگار ہوں گے، تحریک عدم اعتماد آ جائے گی اور کامیاب بھی ہوگی
جب ان سے سوال کیا گیا کہ ”سازگار حالات“ کیا ہوتے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ ’صحافی کو تو پتہ ہوتا ہے کہ ”سازگار حالات“ سے کیا مراد ہے، یعنی ”جب گرین سگنل مل جائے تب حالات سازگار ہو جاتے ہیں۔“
اس حوالے سے اب پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف بھی نون لیگ سے مختلف نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی نفیسہ شاہ کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم سے نکلنے کے باوجود پیپلز پارٹی کا پارلیمنٹ کے فلور پر نون لیگ کے ساتھ رویہ ایک اتحادی کا ہی رہا ہے۔ دونوں جماعتوں کے پاس ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔ یقیناً سب کی خواہش ہے کہ عمران خان کو اقتدار سے الگ کیا جائے کیونکہ ان کی موجودگی ملک کے لیے نقصان دہ ہے اور ان سے ملک چلایا بھی نہیں جا رہا
انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد ہو یا پھر ان ہاؤس تبدیلی، یہ آپشنز موجود ہیں اور قیادت ہی فیصلہ کرے گی کہ ان آپشنز کا استعمال کب کرنا ہے
انہوں نے تصدیق کی کہ ’دونوں بڑی جماعتیں اس معاملے پر غور و خوض میں مصروف ہیں۔‘
عمران خان کو اقتدار سے الگ کرنے کے سب سے بڑے حامی مولانا فضل الرحمان ہیں اور پارلیمان میں اپوزیشن جماعتوں کو دوبارہ متحد کرنے بھی مولانا کے کردار کا بار بار ذکر آ رہا ہے
اس حوالے سے جے یو آئی کا کہنا ہے کہ مولانا نے ہمیشہ اپوزیشن اتحاد کو جوڑنے میں کردار ادا کیا ہے اور اب بھی کہیں نہ کہیں ان کی رہنمائی موجود ضرور ہے
جے یو آئی کے رہنما حافظ حمد اللہ کے مطابق ’ناجائز حکومت کے خاتمے کے لیے ہر کوشش کا نہ صرف ساتھ دیں گے بلکہ اس میں قائدانہ کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔‘
بدھ کو اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’تحریک عدم اعتماد پر مولانا فضل الرحمن سے بات ہوئی ہے۔ پی ڈی ایم اجلاس میں معاملہ زیر غور لائیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس آپشن پر غور کر کے اتفاق رائے سے چلیں گے
پاکستان مسلم ن کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ حکومت کے خلاف تمام آئینی، قانونی اور سیاسی ہتھیار استعمال کیے جائیں
اپوزیشن کی چھوٹی جماعتیں پہلے ہی پارلیمنٹ کے اندر قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کے ہر متفقہ فیصلے کی حمایت کا اعلان کر چکی ہیں
خیال رہے کہ گذشتہ سال سینیٹ انتخابات کے دوران قومی اسمبلی میں اسلام آباد سے حفیظ شیخ کی شکست کے بعد وزیراعظم عمران کان نے رضا کارانہ طور پر قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا تھا۔ وہ قومی اسمبلی سے رضا کارانہ طور پر اعتماد کا ووٹ لینے والے دوسرے وزیراعظم ہیں. ان سے قبل نواز شریف نے 1993 میں سپریم کورٹ سے بحالی کے بعد ایوان سے رضاکارانہ اعتماد کا ووٹ لیا تھا
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ پارلیمانی تاریخ میں دو وزرائے اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی جو ناکام ہوئی۔
یکم نومبر 1989 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد بارہ ووٹوں سے ناکام ہوئی اور اگست 2006 میں شوکت عزیز کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی ناکام رہی تھی.