تپتی دھوپ (ترک ادب سے منتخب افسانہ)

یشار کمال (ترجمہ: کرنل (ر) مسعود اختر شیخ)

بچہ: ”اماں۔۔ اماں! کل صبح سے پہلے مجھے جگا دینا۔“

”تم پھر نہیں جاگو گے۔“

”نا جاگوں تو میرے جسم میں سوئی چبھونا، میرے بال کھینچنا، میری پٹائی کرنا۔“

پیلے چہرے والی پتلی دبلی عورت کی سیاہ آنکھوں میں خوشی سے بھرپور چمک دوڑ گئی۔ ”اور اگر تم پھر بھی نہیں جاگے تو؟“

”مجھے مار ڈالنا۔“

عورت نے اپنی پوری قوت سے بیٹے کو گود میں لے کر سینے سے دباتے ہوئے کہا، ”میری جان!“

”اگر میں پھر بھی نہ جاگا تو۔۔۔۔۔“ یہ کہہ کر بچہ سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر اچانک بول اُٹھا؛ ”تو پھر میرے منہ میں مرچیں ڈال دینا۔“

ماں نے ایک بار پھر اسی مادری شفقت کے ساتھ بچے کو چھاتی سے لگا کر بوسہ دیا۔ ماں کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔

بچے نے رُکے بغیر پھر کہا، ”دیکھو اماں۔۔ اگر میں نہ جاگا تو میرے منہ میں مرچیں ڈال دینا۔۔ ٹھیک ہے ناں؟“

ماں نے پھر کہا، ”میری جان!“

”مرچیں خوب کڑوی ہونی چاہئیں۔“ بچہ لاڈ سے بازو ٹانگیں جھاڑتے ہوئےبغیر وقفے کے چِلّاتا رہا، ”کڑوی مرچیں۔ سُرخ مرچیں۔۔ ایسی کہ میرا منہ جلا کر رکھ دیں۔ اتنا جلائیں کہ میں ایک دم اُٹھ کھڑا ہوں۔“

وہ اپنے آپ کو ماں کی گرفت سے چھڑا کر تیزی سے چھجے پر چڑھا اور بستر میں گُھس گیا۔

گرمیوں کی دم گھٹنے والی رات تھی، آسمان پر اکا دکا پیلے پیلے ستارے، ایک عدد گول مٹول چاند، بستر سے پسینے کی گھٹی گھٹی بساند۔۔۔

بچے نے اِدھر اُدھر کروٹ بدلی اور فیصلہ کر لیا؛ ’میں صبح تک سوؤں گا ہی نہیں۔‘ وہ خوش ہوگیا۔۔ صبح سویرے جونہی اماں آواز دے گی۔ ’عثمان!‘ تو وہ ایک دم اُٹھ کر اس کی گردن سے جا لپٹے گا۔ اُس پر اس کی ماں کتنی حیران ہوجائے گی۔ یہ سوچ کر وہ خوشی سے بستر میں اُچھلا کودا۔ فوراً ہی اس کی خوشی ٹھنڈی پڑ گئی۔ اور اس کی جگہ خوف نے لے لی۔

’اگر میں سو گیا تو؟‘ اس نے تسلی کی خاطر بار بار اپنے آپ سے کہا؛ ’نہیں سوتا بس! سوؤں کیوں بھلا؟ کیا پڑا ہے سونے میں؟‘

تھوڑی ہی دیر بعد اس کی ماں آکر بستر میں اُس کے پہلو میں گُھس گئی۔ بچے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی، ”میرے بیٹے سو گئے ہو کیا؟“

عثمان نے مُنہ سے ذرا بھی آواز نہ نکالی۔ ماں نے اُسے چھاتی سے لگا کر بوسہ دیا۔ عثمان کے جسم میں نیم گرم محبت، عشق اور محبت سے ملتے جلتے رُلا دینے والے کچھ جذبات گردش کر رہے تھے۔ وہ صبح ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ امّاں کتنی حیران ہوگی۔۔ اُس کا دماغ اور اس کی سوچ اسی چکر میں پڑی ہوئی تھی کہ صبح ہوتے ہی جب وہ فوراً اُٹھے گا تو اماں کس قدر حیران رہ جائے گی۔

اماں سو گئی۔ عثمان بستر پر کروٹیں بدلتا رہا۔ اُس کی پلکیں بھاری ہوتی جا رہی تھیں۔۔ مگر اس نے یُوں آسانی سےاپنی جان نہ چھوڑی۔

وہ ایک لمحے کے لیے اٹھا۔ اپنی ماں کے منہ کی طرف دیکھتا رہا۔ جو لمبے لمبے سانس لے رہی تھیں۔ چاند کی روشنی میں اس کا بالکل سفید چہرہ چمکتا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے گُندھے ہوئے گھنے بال اب اور زیادہ سیاہ نظر آرہے تھے۔ گُندھے ہوئے لمبے بال بستر کی سفیدی میں جُوڑے کی طرح گول مٹول سے دکھائی دے رہے تھے۔ وہ کافی دیر تک ماں کے بالکل سفید چہرے اور بالوں کو دیکھتا رہا۔ اُسے اب اپنا سر بوجھل محسوس ہوا۔چنانچہ وہ تکیے پر جا ٹکا۔

رات آدھی گزر چکی تھی۔ چاند کافی بلندی پر پہنچ گیا تھا۔ ہر جگہ روزِ روشن کی طرح چمک رہی تھی۔ چھجے تلے لیٹی گائے کی جگالی کی آواز اس کے دانتوں کے کرچنے کے باعث سنائی دے رہی تھی۔

اب عثمان کو خاصی گہری نیند دبوچ رہی تھی۔ بس وہ سویا کہ سویا۔ اس نے دانت بھینچ لیے۔ بازوؤں کو دانتوں سے کاٹا۔ جو کچھ کر سکتا تھا کرتا رہا۔۔ مگر اس کے باوجود نیند نے اسے پانی کی طرح چاروں طرف سے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ وہ کچھ دیر کے لیے اونچا ہو جاتا۔ غصہ کھاتا پھر مسکرا دیتا۔ غصہ کھاتا اور مسکراتا رہا۔ صبح ہونے سے کچھ دیر پہلے اس نے اپنے بازو ماں کی گردن کے گرد لپیٹ لیے۔ اب اس کے بازو ماں کی گردن کے گرد لپٹے ہوئے تھے۔

چاند مغرب کی وادی کی طرف اُتر چکا تھا۔ اُس کا کوٹہ زمین کو چھو رہا تھا۔ وہ غصے میں آ کر ڈوبنے کے قریب تھا۔

مشرق کی طرف پہاڑوں کی آڑ میں پتلی سی سفید روشنی کا گولہ آہستہ آہستہ پہاڑوں کی چوٹیوں کو روشن کر رہا تھا۔ گاؤں کے جانوروں کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ ہر چیز میں زندگی کے آثار نمایاں ہونے شروع ہوگئے۔

ماں گھٹنے ٹیڑھے کرکے بستر پر حرکت کیے بغیر نیم وا آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ بچے کا سر ایک طرف سرک گیا تھا۔ اس کی پتلی گردن اور پیلا چہرہ دکھائی دے رہا تھا۔ وہ سانس تک نہیں لے رہا تھا۔ اس کا ننھا منا چہرہ داغوں سے بھرا ہوا تھا۔۔ ماں رُک رُک کر آہ بھرتی رہی۔

ایک مرتبہ بچے نے اپنا ایک بازو ماں کی گردن سے ہٹا کر بستر پر پھینک دیا۔ بازو تھا کہ ایک انگوٹھے کی موٹائی سے زیادہ نہ تھا۔ جلد پر اتنی جھریاں تھیں کہ یوں لگتا تھا کہ جیسے ابھی گوشت ہڈیوں سے الگ ہوجائے گا۔۔۔ ماں کی آنکھیں بیٹے کے بازو میں ہی پھنس کے رہ گئیں۔ پھر ماں نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا، ”اُف میرے بچے اُف۔۔۔!“

وہ ہلی اپنے دونوں طرف مڑی۔ پھر بچے کے پہلو سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ چاند اپنا سایہ جھگی میں لگے سرکنڈوں میں ڈال رہا تھا۔

ماں نے غصے سے کہا، ’نہیں جگاتی۔۔ میں نہیں جگاتی۔ ہم بھوکے مر جاتے ہیں تو مرتے رہیں۔ ایک بچے کے کام کرنے سے کیا فرق پڑے گا۔‘ اس کی آنکھیں بچے کے دبلے پتلے بازو پر جڑی ہوئی تھیں۔ وہ حیران ہو رہی تھی کہ آج تک بچے کے اس قدر کمزور ہونے پر کبھی غور نہیں کیا۔

’ہم بھوک سے مرتے ہیں تو مر جائیں۔‘ اُس نے اپنے گندھے ہوئے لمبوں بالوں کو منہ میں ڈالا اور غصے سے انہیں چبانا شروع کر دیا۔

”کیا یہ پھر نہیں جاگا؟“ اس کے خاوند نے نیچے سے چلاتے ہوئے کہا۔

ماں نے ایسی آواز میں جواب دیا، جیسے خاوند کے سر پر ہاتھ پھیر کراس کی منت سماجت کر رہی ہو، ”کیا چاہتے ہو تو بچے سے؟ ابھی انگلی جتنا تو ہے وہ۔۔ اس کی ہڈیاں ٹوٹ جائیں گی۔ اتنی پتلی پتلی تو ہیں۔۔۔“

خاوند کو غصہ آگیا۔ ”آج اسے ہر حالت میں جاگنا ہوگا۔ تمہیں کہہ رہا ہوں میں، اُسے جاگنا ہوگا۔۔ اُسے کام کرنے کی عادت پڑنی چاہیئے، سُستی کی نہیں۔ بچوں کو بچپن میں ہی مضبوط ہونے کی عادت ڈالنی چاہیئے۔“

عورت ڈرتے ڈرتے بڑبڑائی؛ ”اس کے بازو اس قدر پتلے ہیں کہ۔۔۔۔“

اب وہ بچے کے سرہانے جا کر کھڑی ہو گئی۔ اُس کا دل کسی طرح اس بات پر راضی نہیں ہو رہا تھا کہ وہ اس بال جیسے بچے کو جگائے اور اس تپتی گرمی میں اسے کام پر بھیجے۔

نیچے سے وہی غصے بھری آواز آئی؛ ”جگاؤ اُسے، ایک مُکا لگاؤ۔۔ ہم نے مصطفی آغا کو زبان دی ہوئی ہے۔ اس آدھی رات میں وہ دوسرا بچہ کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں گے؟“

عورت بولی، ”کمینہ کہیں کا۔۔ میرا دل کسی طرح نہیں چاہتا۔ اتنا کمزور ہے کہ۔۔۔ کیا اس کے کام کرنے سے ہم امیر ہوجائیں گے؟“

مرد بولا؛ ”اگر اس نے ابھی سے کام کرنے کی عادت نہیں ڈالی تو۔۔۔۔“

عورت نے بچے کے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ پھر نرمی سے اسے کہا؛ ”میرے عثمان، اُٹھ۔ میرے عثمان! اُٹھ میرے بیٹے۔۔۔۔ دن چڑھ آیا ہے۔ میرے بیٹے عثمان۔۔۔۔“

بچہ کترایا۔ اُس نے آہستہ سے کروٹ بدلی۔

“عثمان میرے بیٹے، دن چڑھ آیا ہے۔۔۔۔“

اس نے بچے کو کندھے سے پکڑ کر کھڑا کر لیا۔ وہ اُسے اس قدر نرمی سے پکڑے ہوئے تھی کہ۔۔۔ جیسے وہ ٹوٹ کر نیچے گر پڑے گا۔ پھر اس نے بچے کو دوبارہ بستر پر لٹا دیا۔

”یہ نہیں جاگ رہا۔ بس نہیں جاگ رہا۔ کیا ذبح کردوں اسے؟“ وہ تیزی سے چھجے سے نیچے اُتر آئی۔ چھجا پالنے کی ہچکولے کھا رہا تھا۔

مرد کے منہ سے غصہ سے جھاگ نکل رہی تھی، ”خدا ہی سمجھے تجھے بھی اور اسے بھی۔۔ جاگ نہیں رہا۔“

”نہیں جاگ رہا تو میں کیا کروں بھلا؟“

مرد غصے سے سیڑھیاں پھلانگتا چھجے کے اوپر جا پہنچا۔ سخت غصے سے بچے کو دونوں بازوؤں سے پکڑ کر اٹھا لیا۔ بچہ ایک خرگوش کے بچے کی طرح اس کے ہاتھوں میں لٹک رہا تھا۔ اُس نے نیند کی غنودگی میں ’اماں۔۔ اماں۔۔۔‘ کہہ کر چلانا شروع کر دیا۔ مرد نے بچے کو چھجے سے نیچے پہنچایا اور بیوی کے حوالے کر دیا۔ بچہ صحن کی گرد میں لیٹا رہا۔

عورت بچے کی طرف دیکھتی رہی۔ دیکھتی رہی۔۔ پھر بولی، ”اللہ کسی کےبچے کو کسی کے ہاتھ نہ ڈالے۔“ یہ کہہ کر اس نے بچے کو زمین سے اُٹھا کر چھاتی سے لگا لیا۔

بچے کی آنکھیں کھل کر بڑی بڑی دکھائی دینے لگیں۔ وہ حیران ہو کر دیکھ رہا تھا۔ ماں نے اسے لے جا کر اُس کا منہ ٹھنڈے پانی سے دُھلایا۔

بچہ ہوش میں آگیا تو بولا؛ ”اماں!“

”میری جان۔۔۔“

”کیا تو نے میرے منہ میں کڑوی مرچیں ڈال دی تھیں؟“

اس اثنا میں مصطفیٰ آغا کی گاڑی آ کر ان کے گھر کے دروازے کے آگے آ کر رُکی۔

”عثمان!“

عثمان بھاگا بھاگا گیا اور کود کر گاڑی میں سوار ہو گیا۔ وہ خوشی سے پاگل ہو رہا تھا کہ اس کے منہ سے گانے نکلنے شروع ہو گئے۔

ماں نے زینب کو، جو مصطفیٰ آغا کے گھر کام کرتی تھی، ایک طرف لے جا کر کہا؛ ”تیرے قربان جاؤں زینب۔ عثمان کو سنبھال لینا۔ وہ بچہ ہے۔ ایک ہڈی ہے اور کچھ گوشت۔۔۔۔“

زینب: ”تم ڈرو نہیں باجی۔ کیا میں عثمان پر آنچ آنے دوں گی بھلا؟“

مصطفیٰ آغا کی سواری عثمان کو لے کر کھیتوں میں جا پہنچی۔ ابھی دن اچھی طرح نکلا بھی نہیں تھا۔ فصل کاٹنے والی مشین کی سیدھی لائین میں رکھے غلے کے گھٹے نمدار تھے۔ گھاس اور نمدار فصل کی خوشبو آ رہی تھی۔ غلہ اکٹھا کرنے والی گاڑی میں گھوڑا جوت کر کٹی ہوئی فصل کے گٹھے اکٹھے کرنے شروع کر دیئے گئے۔ اس گاڑی کو دو کے بجائے ایک ہی گھوڑا باندھا ہوا تھا۔ گھوڑے کی باگ عثمان کھینچ رہا تھا۔ جونہی گاڑی بھر جاتی، وہ پرندے کی تیزی کے ساتھ اسے بھگا کر خرمن والے پنڈال تک لے جاتا۔ غلے کے بنڈل گاڑی میں لادنے والے کبھی کبھار عثمان کا احوال پوچھتے؛
”کیسے ہو عثمان؟“
”زندہ ہو عثمان؟“
اس پر عثمان بڑا خوش ہوتا۔۔

اتنے میں سامنے والے پہاڑوں کے پیچھے سے ایک سرخ رنگ کے گولے کی طرح سورج نکل آیا۔ فصل کی ڈنڈیوں اور کٹی ہوئی فصل میں آھستہ آھستہ ہلکی سی دُھند اُٹھنا شروع ہوئی، جو کبھی دکھائی دیتی تھی، کبھی نظر سے اوجھل ہو جاتی تھی۔ آسمان پر سفید بادلوں کے ٹکڑے گردش کر رہے تھے۔

عثمان خرمن اور کٹی ہوئی فصل کے گھٹے بنانے والوں کے درمیان چرخی کی طرح گھوم رہا تھا۔۔ زندگی سے بھرپور جاندار عثمان۔

زینب وقتاً فوقتاً ’شاباش میرے عثمان‘ ، ’میرے شیر عثمان‘ کہہ کر اس کی ہمت بندھاتی تھی۔

دن عروج کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سارا علاقہ سورج کی روشنی میں ڈوب گیا۔ زمین پر اگی فصل کی گٹھوں پر سورج کی دھوپ تیزی سے پڑ رہی تھی۔ سورج کی کرنیں رسیوں کی طرح لمبی ہوتی چلی جا رہی تھیں۔ ہزاروں، لاکھوں کرنیں ایک دوسرے سے لپٹی، روشنی کی رسیوں کی طرح اُڑ رہی تھیں۔ فصل کے گٹھے بنانے والوں کے چہرے مٹی سے بھر گئے تھے۔ ان کے چہروں سے پسینے کے پرنالے بہہ رہے تھے۔ چاروں طرف آگ برس رہی تھی۔

عثمان کا رنگ سیاہ ہو رہا تھا۔ اُس کا چہرہ پچکا ہوا تھا۔ اس کی قمیض پسینے سے تر ہو رہی تھی۔ کہاں وہ صبح کی پُھرتی! اب عثمان چلتا تو اس کی ٹانگیں آپس میں ٹکرانے لگتیں۔ یوں لگتا تھا کہ ابھی گر کر گھوڑے کے پاؤں تلے آجائے گا۔۔ لیکن عثمان نے اپنے آپ پر قابو رکھا ہوا تھا۔

زمین تپتے سُرخ لوہے کی مانند تھی۔ ہر قدم زمین پر رکھتے ہوئے عثمان ذرا اُچھل جاتا۔ اس وجہ سے اس کی چال کچھ عجیب سی دکھائی دے رہی تھی۔

گٹھے ڈھونے والی گاڑی کے پاس آنے تک گٹھے باندھنے والی عورتیں منہ آسمان کی طرف کر کے بندھے ہوئے گٹھوں پر لیٹ کر اپنی تھکن دور کر لیتی تھیں۔

عثمان دیر تک آسمان کو دیکھتا رہا۔ ایک بادل کا ٹکڑا۔۔۔ بعض اوقات ایک سفید بادل کا سایہ لمحے بھر کے لیے لیٹے ان لوگوں کے جسموں پر پڑ کر آگے نکل جاتا۔ عثمان کی آنکھیں بادل کے سائے کا پیچھا کر رہی تھیں۔

دن اپنے عروج پر تھا۔ فصل کی ڈنڈیاں کڑاک کڑاک کر کے ٹوٹ رہی تھیں۔ پھٹی ہوئی تپتی زمین عثمان کے پاؤں تلے تھی۔ عثمان لگاتار اُچھل رہا تھا۔

اُس نے اپنی جان دانتوں تلے دبا رکھی تھی۔ وہ نیچے سے بھی جل رہا تھا اور اوپر سے بھی۔۔ اُسے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی اس کےجگر میں تپتا لوہا جھونک رہا ہے۔

گرمی۔۔۔ جیسے دنیا چندھیا گئی ہو۔ کوئی آنکھیں کھول کر دس میٹر کے فاصلے تک بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ گٹھے اٹھائے زینب نے عثمان کی طرف مڑ کر دیکھا۔ اُسے عثمان کی دونوں ٹانگیں تھر تھر کانپتی نظر آئیں۔ وہ بولی؛ ”عثمان! عثمان! یوں پیدل مت آؤ جاؤ۔ آؤ میں تمہیں گھوڑے پر بٹھاتی ہوں۔“

اُس نے عثمان کو اُٹھا کر گھوڑے کی پیٹھ پر سوار کر دیا۔ عثمان نے گھوڑا چلایا۔ اُس کی کانپتی ٹانگوں کی تھر تھراہٹ ابھی تک جاری تھی۔ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر ادھر اُدھر آتا جاتا رہا۔۔۔ زینب دور کھڑی گھٹے باندھ رہی تھی۔ عثمان گھوڑے سے چھلانگ لگا کر اترا اور زینب کی طرف بڑھا۔

زینب: ”گھوڑے کو کیوں چھوڑ دیا ہے۔۔ عثمان! اگر وہ بھاگ گیا تو؟“

”یہ دیکھو۔۔ زینب خالہ، جب میں بڑا ہوا تو تمہیں سونے کی بالیاں لے کر دوں گا۔“ اور پھر وہ بھاگتا بھاگتا گھوڑے کے پاس لوٹ گیا۔

گرمی گلا گھونٹ رہی تھی۔ ہوا نام کی ذرا بھر سرسراہٹ بھی نہیں تھی۔ گھوڑے پر بیٹھے عثمان کی ٹانگیں درد کر رہی تھیں۔ اس کے لیے گھوڑے کو ٹانگوں سے دبائے رکھنا دشوار ہو گیا۔ بس گرا۔۔ کہ گرا۔۔ اس کی آنکھیں چاروں طرف دیکھنے سے لاچار ہو چکی تھیں۔ گھوڑا وہ نہیں چلا رہا تھا بلکہ خودبخود ادھر اُدھر آ جارہا تھا۔

اتنی دیر میں دوپہر کا وقفہ آگیا۔ شدید گرمی میں کھانا کھانا۔۔۔ پانی تھا کہ خون کی طرح نیم گرم۔ زینب کے چیخنے چلانے کے باوجود عثمان اپنے منہ میں ایک لقمہ نہ ڈال سکا ، بس پانی ہی پیتا رہا۔ زینب نے عقل سے کام لیتے ہوئے پانی کا ایک گلاس عثمان کے سر پر انڈیل دیا۔ اس کے بعد عثمان ذرا ہوش میں آ سکا۔

جب کام پر جانے کے لیے سب لوگ اُٹھے تو زینب نے کہا، ”عثمان تم ادھر ہی بیٹھے رہو۔ گھوڑا کوئی اور پکڑ کر لے آئے گا۔“

عثمان نے جواب دیا، ”نہیں زینب خالہ۔ یہ نہیں ہو سکتا میں گھوڑا پکڑ لوں گا۔ میں تھکا ہوا بالکل نہیں ہوں۔“

جب گھوڑا اس کے ہاتھ سے لیا گیا تو عثمان نے بیٹھ کر دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔ ”نہیں تھکا ہوں۔۔ خدا کی قسم نہیں تھکا۔“ کی گردان کرنے لگ گیا۔ اس پر ایک بڑھیا بولی؛ ”بٹھا دو اسے گھوڑے پر۔۔۔ ذرا گرے اور گھوڑے کے پاؤں تلے آ کر کچلا جائے۔ کتے کا پلا۔۔۔“

عثمان؛ ”خدا کی قسم نہیں گروں گا۔۔۔ اللہ کی قسم میں تھکا تو نہیں ہوں کہ۔۔۔۔“

اُسے گھوڑے پر بٹھا دیا گیا۔ بٹھا تو دیا گیا پر تیسرے ہی پھیرے کے بعد اس کا سر چکرانے لگا۔ پھر ایک لمحہ آیا گھوڑے کی پیٹھ پر سیدھا لیٹ گیا۔ گھوڑے کی گردن کے بالوں پر اپنے دونوں ہاتھ ٹکا دیے۔ زینب سمجھ گئی کہ معاملہ کیا ہے۔ چنانچہ اس نے عثمان کو گھوڑے کی پیٹھ پر سے نیچے اتار لیا۔

عثمان ہوش میں نہیں تھا۔ زینب نے اسے اٹھا کر بندھے ہوئے گٹھے پر لٹا دیا، ”بیٹے میرے بیٹے ! کتنے ضدی ہو تم۔۔۔۔“

زینب پھر جا کر پانی لائی اور اُسے عثمان کے سر پر انڈیل دیا۔ خود سورج کے آگے کھڑی ہو کر عثمان کے اوپر سایہ کیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد عثمان کو ہوش آ گئی۔ شام کو چھٹی کے وقت تک وہ اسی گٹھے پر لیٹا رہا، جس پر اسے زینب نے لٹایا تھا۔ لیٹے لیٹے اپنی خالی خالی آنکھوں سے ان لوگوں کو دیکھتا رہا جو گول مٹول ہو کر کٹی ہوئی فصل کے گٹھے بنانے میں مصروف تھے۔شرم کے باعث وہ آنکھیں اوپر اٹھانے سے قاصر تھا۔

جب چھٹی ہو گئی تو زینب نے عثمان کا ہاتھ پکڑ کر اُسے گاڑی میں بٹھایا۔ بچہ ایک نرم سے کلچے کی طرح تھا۔ ”عثمان جی۔ آج تم نے بہت کام کیا۔ مصطفیٰ آغا تمہیں تمہارے حق سے بھی زیادہ ادائیگی کرے گا۔۔۔۔“

عثمان نے حیرت سے کہا؛ ”کیا سچ مچ ادا کرے گا؟“

”تم نے بہت کام کیا ہے۔۔“

یوں لگا جیسے عثمان کے جسم میں جان پڑ گئی ہو۔

خاندان کے سارے لوگ جمع ہو کر مصطفیٰ آغا کے گھر کے باہر دروازے کے آگے بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے۔ دوسری طرف گھوڑا گاڑی اور گاڑی میں جُتے گھوڑے نظر آ رہے تھے۔ گھوڑوں نے اپنے سر تازہ گھاس میں گھسیڑے ہوئے تھے۔ ان کے دانت پیسنے کی آواز سے یوں لگتا تھا جیسے گھاس اگل رہے ہوں۔ ماحول میں تازہ گھاس کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔۔

اندھیرا آھستہ آھستہ چھا رہا تھا۔ گھوڑوں سے تھوڑا ہی آگے عثمان کھڑا تھا۔ وہ کھیتوں سے آنے کے بعد وہیں کھڑا تھا۔ کچھ بے صبر سا لگتا تھا۔ کھانا کھانے والوں کی طرف نظریں جمائے دیکھ رہا تھا۔ کھانا کھانے والے عثمان کی موجودگی سے بالکل بے خبر تھے۔

عثمان انتظار کر رہا تھا۔ آخر کار اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا، وہ کھانسا۔ چاہتا تھا کہ کوئی اس کی طرف دیکھے۔ اس نے زمین پر پڑی ایک چھڑی اُٹھائی۔۔ اور اسے زور سے توڑا۔ کھانے میں مصروف لوگوں نے کوئی توجہ نہ دی۔ پھر اس نے ٹوٹی ہوئی چھڑی کے ٹکڑے اُٹھائے، پھر ان سے زمین پر گول دائرے بنانے اور لکیریں کھینچنے کو مشغول ہو گیا۔ یوں کرتے ہوئے وہ چھڑی کو زمین پر زور سے مارتا۔ چھڑی کے زمین پر زور سے لگنے سے اونچی آواز پیدا ہوتی مگر عثمان کی مراد پھر بھی پوری نہ ہو سکی۔

کھانا کھانے والے گپ بازی اور قہقہوں میں پہلے کی طرح مصروف رہے۔ عثمان کو اب غصہ آ گیا۔ اس نے چھڑی لگاتار زمین پر مارنی شروع کر دی۔ پھر زمین پر کھینچے ہوئے دائروں اور لکیروں کو پاؤں سے مٹانا شروع کر دیا۔ اچانک ایک آواز آئی۔ عثمان کے ہاتھ سے چھڑی نیچے گر پڑی۔ وہ بُت بنا کھڑا رہ گیا۔ وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا پر بھاگ نہ سکا۔

مصطفیٰ آغا کی بیگم اسے حیرت سے کہہ رہی تھی؛ ”ارے خدا کی امان عثمان۔۔۔۔ یہ عثمان کیا ہے؟ ادھر آؤ عثمان۔“

عثمان جہاں تھا، وہاں سے بالکل نہ ہل سکا۔

”آؤ۔۔ میرے عثمان۔ آؤ بیٹھ کر کھانا کھاؤ۔“

عثمان نے کوئی اہمیت نہیں دی۔ خاموش کھڑا رہا۔

”کیا تمھاری ماں نے تمہیں بھیجا تھا؟“

عثمان نے سر زمین کی طرف جھکا رکھا تھا۔ اس نے سر اوپر نہ اٹھایا۔

”تم کھیتوں سے لوٹ کر گھر ابھی تک نہیں گئے کیا؟ واہ۔ پاگل لڑکے تمہاری ماں تمہیں ڈھونڈ رہی ہوگی۔ وہ فکر کر رہی ہوگی۔۔۔۔“

اُس نے جھک کر خاوند کے کانوں میں کچھ کہا، دسترخوان پر بیٹھے لوگوں نے قہقہہ لگایا۔ عثمان کے دل میں ایک بار پھر آئی کہ ادھر سے بھاگ نکلے۔

دل میں تو آئی مگر میخوں سے زمین میں جکڑا کھڑا تھا۔ بھاگتا کیسے؟

مصطفیٰ آغا کے منہ سے نکلا؛ ”ارے زرا دیکھو میری طرف۔ میں تو عثمان کو اجرت دینا ہی بھول گیا تھا۔“ یہ کہہ کر اپنا بٹوا نکالا۔ ایک پچیس قروش کا سکا نکال کر عثمان کی طرف بڑھایا۔ عثمان نے پلک جھپکنے کی دیر میں سکہ پر قبضہ کر لیا۔ ”آہا۔۔!“ کا زور سے نعرہ لگا کر وہاں سے بھاگا۔

وہ بھاگتا بھاگتا گھر جا پہنچا۔ پھولی ہوئی سانس لے کر ماں کی گردن سے جا چپکا۔

”یہ لو!“ اس نے ماں کو کہا۔

اُس نے پچیس قروش کا سکہ عثمان سے لے لیا۔ اُس نے پانچ مرتبہ اپنے سر پر وار کر چوم لیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button