قصہ شہر دو – 3

مشتاق احمد یوسفی

غریب غرانے لگے

اور آبادی؟ الامان، الحفیظ… بارہ ماسی میلے کا سماں ہے۔ زمین سے ابلے پڑتے ہیں۔ بازار میں آپ دو قدم نہیں چل سکتے، جب تک کہ دائیں بائیں ہاتھ اور کہنیاں نہ چلائیں۔ خشکی میں کھڑی تیراکی کہیے، جہاں کہنی مارنے کی بھی گنجائش نہ ہو، وہاں لوگ ایک جگہ سے دوسرے جگہ محض بھیڑ کے دھکے سے پہنچ جاتے ہیں۔ لکھوکھا آدمی فٹ پاتھ پہ سوتے ہیں۔ وہیں ہو مرحلے سے گزر جاتے ہیں۔ مگر فٹ پاتھ پہ سونے والا کسی سے دبتا ہے نہ ڈرتا ہے۔ نہ حکومت کو برا کہنے سے پہلے مڑ کر دائیں بائیں دیکھتا ہے۔ ہمارے زمانے کے غریب واقع میں مسکین ہوتے تھے۔ اب غریب غراتے بہت ہیں۔ سائیکل رکشہ کو تو پھر بھی راستہ دے دیں گے، مگر کار کے سامنے سے ذرا جو ہٹ جائیں۔ عزیز الدین وکیل کہہ رہے تھے کہ ہمارے ہاں سیاسی بیداری بہت بڑھ گئی ہے۔ واللہ اعلم، میں نے تو یہ دیکھا کہ جتنی غریبی بڑھتی ہے، اتنی ہی ہیکڑی بھی بڑھتی جاتی ہے۔ بلیک کا پیسا وہاں بھی الغاروں ہے، مگر کسی کی مجال نہیں کہ امارت کی نمائش کرے۔ شادیوں میں کھاتے پیتے گھرانوں تک کی خواتین کو سوتی ساڑھی اور چپل پہنے دیکھا۔ مانگ میں اگر سیندور نہ ہو تو واللہ بیوہ کا گمان ہو۔ چہرے پر قطعاً کوئی میک اپ نہیں۔ جب کہ اپنے ہاں یہ حال کہ ہم مرغی کی ٹانگ کے بھی ہاتھ نہیں لگاتے جب تک اس پر روژ نہ لگا ہو۔ صاحب، آپ نے طارق روڈ کے لال بھبوکا چکن تکے دیکھے ہیں؟ کانپور میں، میں نے اچھے اچھے گھروں میں دریاں اور بید کے صوفہ سیٹ دیکھے۔ اور بعض تو وہی ہیں، جن پر ہم پینتیس سال پہلے اینڈا کرتے تھے۔ صاحب، رہن سہن کے معاملے میں ہندوؤں میں اسلامی سادگی پائی جاتی ہے۔

جو ہونی تھی سو بات ہو لی، کہارو!

کہنے کو تو آج بھی اردو بولنے والے اردو ہی بولتے ہیں۔ مگر میں نے ایک عجیب تبدیلی محسوس کی۔ عام آدمی کا ذکر نہیں، اردو کے پروفیسروں اور لکھنے والوں تک کا لہجہ نہیں رہا، جو ہم آپ چھوڑ آئے تھے۔ کرارا پن، کھڑا پن، وہ کڑی کمان والا کھٹکا جاتا رہا۔ دیکھتے دیکھتے ڈھلک کر ہندی کے پنڈتائی لہجے کے قریب آ گیا ہے۔ singsong لہجہ You know what I mean یقین نہ آئے تو آل انڈیا ریڈیو کی اردو خبروں کے لہجے کا کراچی ریڈیو یا میرے لہجے سے موازنہ کر لیجیئے۔ میں نے پائنٹ آؤٹ کیا، تو انعام اللہ برملائی سچ مچ آفنڈ ہو گئے۔ ارے صاحب وہ تو ذاتیات پر اتر آئے.. کہنے لگے ”اور تمہاری زبان اور لب و لہجے پر جو پنجاب دی چھاپ ہے؟ تمہیں نظر نہیں آتی، ہمیں آتی ہے۔ تمہیں یاد ہوگا، 3 اگست 1947ء کو جب میں تمہیں ٹرین پر سی آف کرنے گیا تو تم سیاہ رامپوری ٹوپی، سفید چوڑی دار پاجامہ اور جودھپوری جوتی پہنے ہاتھ کا چلو بنا بنا کر آداب تسلیمات کر رہے تھے۔ کہو، ہاں، کلے میں پان، آنکھوں میں ممیرے کا سرمہ، ململ کے چنے ہوئے کرتے میں عطرِ گِل، (عطرِ گِل بارش کے پہلے چھینٹوں سے بھیگی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو کا عطر جو اُترتی گرمیوں میں لگاتے تھے۔ اب جسم قبر میں پہنچ کر ہی زمین کی خوشبو میں نہاتے ہیں۔) کہو ہاں، تم یہاں سے چائے کو چاء، گھاس کو گھانس اور چاول کو چانول کہتے ہوئے گئے۔ کہو ہاں، اور جس وقت گارڈ نے سیٹی بجائی، تم چنبیلی کا گجرا گلے میں ڈالے کوپ میں سے گرم چاء پرچ میں ڈال کے، پھونکیں مار مار کے سٹرسٹر پی رہے تھے۔ اس وقت بھی تم کراچی کو کرانچی کہہ رہے تھے۔ کہہ دو کہ نہیں۔ اور اب تین decades of decadence (عشرہ ہائے انحطاط) کے بعد سر پر سفید بالوں کا ٹوکرا رکھے ٹخنے تک حاجیوں جیسا جھابڑ جھلا کرتا پہنے، ٹانگوں پر گھر دار مشکیزے پھڑکاتے، کراچی کے کنکریٹ جنگل سے یہاں تیرتھ یاترا کو آئے ہو تو ہم تمہیں پنڈت پانڈے دکھلائی دینے لگے۔ بھول گئے تم؟ تم یہاں سے اماں، اور اے حضت کہتے گئے تھے اور اب سائیں سائیں کہتے لوٹے ہو۔“ صاحب مہمان تھا بقول آپ کے اپنی بے عزتی خراب کروا کے چپکے سے اٹھ کر رکشا میں گھر آ گیا:

جو ہونی تھی سو بات ہو لی، کہارو!
چلو لے چلو میری ڈولی، کہارو!

ہم چُپ رہے، ہم ہنس دیئے..

لکھنؤ اور کانپور اردو کے گڑھ تھے۔ بے شمار اردو اخبار نکلتے تھے۔ خیر، آپ تو مان کے نہیں دیتے۔ مگر صاحب ہماری زبان سَنَد تھی۔ اب یہ حال ہے کہ مجھے تو سارے شہر میں ایک بھی اردو سائن بورڈ نظر نہیں آیا، لکھنؤ میں بھی نہیں۔ میں نے یہ بات جس سے کہی، وہ آہ بھر کے یا منھ پھیر کے خاموش ہو گیا۔ شامتِ اعمال، یہی بات ایک محفل میں دہرا دی تو ایک صاحب بپھر گئے۔ غالباً ظہیر نام ہے.. میونسپلٹی کے ممبر ہیں.. وکالت کرتے ہیں.. نجانے کب سے بھرے بیٹھے تھے.. کہنے لگے ”لِلّہ، ہندوستانی مسلمانوں پر رحم کیجیئے.. ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیجیئے.. پاکستان سے جو بھی آتا ہے، ہوائی جہاز سے اترتے ہی اپنا فارن ایکسچینج اچھالتا، یہی رونا روتا آتا ہے.. جسے دیکھو، آنکھوں میں آنسو بھرے شہرِ آشوب پڑھتا چلا آ رہا ہے۔ ارے صاحب، ہم نصف صدی سے پہلے کا کانپور کہاں سے لا کے دیں۔ بس جو کوئی بھی آتا ہے، پہلے تو ہر چیز کا موازنہ پچاس برس پہلے کے ہندوستان سے کرتا ہے۔ جب یہ کر چکتا ہے، تو آج کے ہندوستان کا موازنہ آج کے پاکستان سے کرتا ہے۔ دونوں مقابلوں میں چابک دوسرے گھوڑے کے مارتا ہے، جتواتا ہے اپنے ہی گھوڑے کو۔“ وہ بولتے رہے، میں مہمان تھا، کیا کہتا، وگرنہ وہی (سندھی) مثل ہوتی کہ گئی تھی سینگوں کے لیے، کان بھی کٹوا آئی۔

لیکن ایک حقیقت کا اعتراف نہ کرنا بد دیانتی ہوگی۔ ہندوستانی مسلمان کتنا ہی نادار اور پریشان روزگار کیوں نہ ہو، وہ مخلص، با وقار، غیور اور پُر اعتماد ہے۔

نشور واحدی سے لمبی لمبی ملاقاتیں رہیں۔ سراپا محبت، سراپا خلوص، سراپا نقاہت۔ ان کے ہاں شاعروں اور ادیبوں کا جماؤ رہتا ہے۔ دانشور بھی آتے ہیں۔ مگر دانشور ہیں، دانا نہیں۔ سب یک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ اردو بہت سخت جان ہے۔ دانشوروں کو اردو کا مستقبل غیر تاریک دکھلائی پڑتا ہے۔ بڑے بڑے مشاعرے ہوتے ہیں۔ سنا ہے ایک مشاعرے میں تو تیس ہزار سے زیادہ سامعین تھے۔ صاحب مجھے آپ کی رائے سے اتفاق نہیں کہ جو شعر بیک وقت پانچ ہزار آدمیوں کی سمجھ میں آ جائے وہ شعر نہیں ہو سکتا، کچھ اور شے ہے۔ بے شمار سالانہ سمپوزیم اور کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ سنا ہے کئی اردو ادیبوں کو پدم شری اور پدم بھوشن کے خطاب مل چکے ہیں۔ میں نے کئیوں سے پدم اور بھوشن کے معنی پوچھے تو جواب میں انہوں نے وہ رقم بتائی جو خطاب کے ساتھ ملتی ہے۔ آج بھی فلمی گیتوں، ذو معنی ڈائیلاگ، قوالی اور آپس کی مار پیٹ کی زبان اردو ہے۔ سنسکرت الفاظ پر بہت زور ہے۔ مگر آپ عام آدمی کو سنسکرت میں گالی نہیں دے سکتے۔ اس کے لیے مخاطب کا پنڈت اور ودوان ہونا ضروری ہے۔ صاحب، بقول شخصے، گالی، گنتی، سرگوشی اور گندہ لطیفہ تو اپنی مادری زبان میں ہی مزہ دیتا ہے۔ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ اردو والے کافی پُر امید ہیں۔ ثقیل ہندی الفاظ بولتے وقت اندرا گاندھی کی زبان لڑکھڑاتی ہے، تو اردو والوں کی کچھ آس بندھتی ہے۔

جاری ہے


  1. قصہ دو شہر – 1

  2. قصہ دو شہر – 2


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close