بڑھتا عالمی درجہ حرارت بچوں پر پیدائش سے پہلے اور بعد میں کیسے اثر انداز ہو رہا؟

سنگت ڈیسک

کراچی – چھ نئی تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا بحران دنیا بھر میں رحم مادر میں موجود بچوں، نومولود اور بچوں کو نقصان پہنچا رہا ہے

سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کی وجہ سے بچوں کے وزن میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جس سے آگے چل کر ان کی زندگی میں موٹاپے کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے

صرف یہی نہیں، بلکہ بڑھتے درجۂ حرارت کا تعلق بچوں کی قبل از وقت پیدائش سے بھی ہے، جس کی وجہ سے زندگی بھر کے لیے ان کی صحت متاثر ہو سکتی ہے اور چھوٹے بچوں کے ہسپتال میں داخلوں میں اضافہ ہو سکتا ہے

دیگر تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ جنگل میں لگی آگ کے دھوئیں سے بچوں میں پیدائشی نقائص کا خطرہ دو گنا ہو جاتا ہے۔ یہاں تک فوسل فیول جلانے سے، بے شک وہ نہایت کم سطح پر جلائے جائیں، ہوا میں پیدا ہونے والی آلودگی ان کی زرخیزی میں کمی کا باعث بنتی ہے

جریدے پیڈیاٹرک اینڈ پیرینٹل ایپیڈیمولوجی کے ایک خصوصی شمارے میں شائع ہونے والی ان تحقیقات میں امریکا سے لے کر ڈنمارک، اسرائیل اور آسٹریلیا تک پوری دنیا کا مطالعہ کیا گیا ہے

امریکا کی بوسٹن یونیورسٹی کے پبلک ہیلتھ اسکول سے تعلق رکھنے والے پروفیسر گریگوری ویلینیئس کا کہنا ہے کہ ”ابتدائی بچپن سے جوانی تک، ہم صحت پر آب و ہوا کے خطرات کے اہم اثرات دیکھنا شروع کر رہے ہیں۔“

وہ کہتے ہیں ”یہ ایسا مسئلہ ہے جو ہر کسی کو ہر جگہ متاثر کر رہا ہے۔ مسلسل موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ یہ واقعات اور زیادہ اور شدید ہونے جا رہے ہیں (اور اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ) وہ ہمارے لیے مستقبل میں نہیں، بلکہ آج کیوں اہم ہیں۔“

واضح رہے اس سے قبل ہونے والی تحقیق میں بھی گرم موسم اور قبل از وقت پیدائش کے درمیان تعلق دریافت ہوا تھا

دنیا بھر میں درجہ حرارت میں اضافے کو متعدد ماحولیاتی مسائل کا باعث قرار دیا جارہا ہے مگر اس کا ایک اثر حاملہ خواتین میں قبل از وقت بچوں کی پیدائش کا بھی ہے

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس (یو سی ایل اے) کی اس تحقیق میں 1969 سے 1988 کے دوران ساڑھے پانچ کروڑ سے زائد امریکی شہریوں کی پیدائش کے ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا تھا

محققین نے دریافت کیا کہ جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو بچوں کی پیدائش طے شدہ تاریخ سے اوسطاً 6.1 دن پہلے ہوجاتی ہے جبکہ یہ دورانیہ دو ہفتے پہلے تک بھی جاسکتا ہے

مجموعی طور پر جس دن درجہ حرارت 32 سینٹی گریڈ سے زیادہ ہو، اس روز شرح پیدائش میں دیگر دنوں کے مقابلے میں 5 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے

محققین کا ماننا ہے کہ گرم درجۂ حرارت کے نتیجے میں حاملہ خواتین کے ہارمونز میں تبدیلی آتی ہے جس سے بچے کی قبل از وقت پیدائش کا امکان بڑھتا ہے

ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ مستقبل قریب میں بدترین ہوجائے گا کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہیٹ ویو زیادہ عام ہوجائیں گی

محققین گرم درجہ حرارت کا حمل پر مرتب ہونے والے حیاتیاتی میکنزم کے بارے میں یقین سے کچھ کہنے سے قاصر ہیں، مگر اس حوالے سے ان کا خیال ہے کہ گرمی سے دل کی جانب سے جانے والی شریانوں پر دباﺅ بڑھتا ہے جس سے بچے کی جلد پیدائش ہوجاتی ہے

ایک اور امکان یہ ہے کہ گرم درجۂ حرارت ایک ہارمون آکسی ٹوسین کی مقدار بڑھا دیتا ہے جو کہ بچے کی پیدائش میں کردار ادا کرتا ہے

تاہم ایسے علاقے جہاں موسم پہلے ہی گرم ہو، وہاں پر یہ اثر دیکھنے میں نہیں آتا کیونکہ ممکنہ طور پر حاملہ خواتین اس درجہ حرارت کی عادی ہوتی ہیں

محققین نے دریافت کیا کہ 1969 سے 1989 کے درمیان زیادہ درجہ حرارت کے نتیجے میں سالانہ 25 ہزار بچوں کی پیدائش قبل از وقت ہوئی

محققین کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ انہوں جس ڈیٹا کا جائزہ لیا وہ تیس سال پہلے کا تھا تو اب موسم کا اثر توقعات سے زیادہ بھی ہوسکتا ہے

دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق ہر دس میں سے ایک بچے کی پیدائش قبل از وقت ہوتی ہے، جن میں سے بیشتر صحت مند بھی ہوتے ہیں مگر پیدائش اور اس کے فوری بعد مختلف پیچیدگیوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، جبکہ ان کی نشوونما بھی متاثر ہوسکتی ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close