قصہ دو شہر – 6

مشتاق احمد یوسفی

آسمان سے اُترا، کوٹھے پہ اٹکا

معاف کیجیئے، یہ قصہ شاید میں پہلے بھی سنا چکا ہوں.. آپ بور تو نہیں ہو رہے؟ ہر بار تفصیلات میں کچھ فرق آ جائے تو حافظے کا قصور ہے۔ غلط بیانی مقصود نہیں۔ باوا سے کبھی ہم ناٹک دیکھنے کی فرمائش کرتے تو وہ منیجر کو رقعہ لکھ دیتے کہ بچوں کو بھیج رہا ہوں۔ اگلی سیٹوں پر جگہ دیجیئے۔ بعد کو تو میں خود ہی رقعہ لکھ کے باوا کے دستخط بنا دیتا تھا۔ یہ بات ان کے علم میں تھی۔ اس لیے کہ ایک دن جھنجھلا کر کہنے لگے ”جعلی دستخط بناتے ہو تو بناؤ، کم از کم املا کی غلطیوں سے تو مجھے رسوا نہ کرو۔ صحیح لفظ ”براہِ کرم“ ہے ”برائے کرم“ نہیں۔ ہمیشہ میٹنی شو میں بھیجتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ میٹنی شو میں کھیل کا مخرب اخلاق اثر، ٹکٹ کی قیمت کی طرح آدھا رہ جاتا ہے۔ سب مجھے بچہ سمجھتے تھے، مگر اندر قیامت کی کھدبد مچی تھی۔ منی بائی جب اسٹیج پر گاتی تو ایک سماں بندھ جاتا تھا۔ یہ وہ داغ والی منی بائی حجاب نہیں، جس پر انہوں نے پوری مثنوی لکھ ڈالی۔ غضب کی آواز، بلا کی خوبصورت، پلک جھپکنے، سانس بھی لینے کو جی نہیں چاہتا تھا کہ اس سے بھی خلل واقع ہوتا تھا۔ کیا شعر ہے وہ اچھا سا؟ ”وہ مخاطب بھی ہیں، قریب بھی ہیں۔“ آپ کو تو یاد ہوگا۔

(لقمہ) ان کو دیکھوں کہ ان سے بات کروں

شکریہ، صاحب، حافظہ بالکل چوپٹ ہو گیا ہے۔ محفل میں اول تو شعر یاد نہیں آتا۔ اور آ بھی جائے تو پڑھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ بالکل بے محل تھا، جیسا کہ اس وقت ہوا۔ دونی خفت ہوتی ہے۔ اس وقت دراصل ”نظارے کو یہ جنبشِ مژگاں بھی بار ہے“ والا شعر پڑھنا چاہتا تھا۔ خیر، پھر کبھی.. اس دن آپ نے بڑے تجربے کی بات کہی کہ بچپن کے بعد صرف ایک مصرعے پر قناعت کرنی چاہیے۔ تو صاحب جس وقت منی بائی استاد داغ کی غزل گاتی تو نہ اسے ہوش رہتا، نہ سننے والوں کو:

اک جوش تھا کہ محوِ تماشائے جوش تھا

مانا کہ داغ بحثیت عاشق، نرا رند شاہد باز ہے اور اس کا معشوق زنِ بازاری.. لیکن پیرایہ اظہار بازاری نہیں۔ زبان جمنا میں دھلی قلعہ معلیٰ کی ہے۔ محاورہ اور روز مرہ داغ کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ مگر غضب یہ کیا کہ بچھانے کی چیز کو اوڑھ کر بستر صلائے عام پر دراز ہو گئے۔ حضرتِ داغ جہاں لیٹ گئے لیٹ گئے۔ بقول آپ کے مرزا عبدالودود بیگ کے، کلامِ داغ آسمانِ فصاحت سے اُترا، کوٹھے پہ اٹکا۔ وہاں سے پھسلا تو کولہے پہ آ کے مٹکا۔ لیکن فراق گورکھپوری کی سراسر زیادتی ہے کہ ”اس شخص نے حرمزدگی کو genius کا مقام عطا کر دیا۔“ آپ نے تو خیر وہ زمانہ نہیں دیکھا، مگر آج بھی، کسی بھی محفلِ موسیقی میں، داغ کی غزل پِٹ نہیں سکتی۔ دیکھنے والوں نے داغ کی مقبولیت کا وہ زمانہ دیکھا ہے جب مولانا عبدالسلام نیازی جیسے عالمِ بے بدل کو شاعری کا شوق چرایا تو داغ کے شاگرد ہو گئے۔ عقیدت کا یہ عالم کہ کوئی استاد کو شعر پڑھتا تو سبحان اللہ کہہ کر وہیں سجدے میں چلے جاتے، تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ ”زہرِ عشق“ میں منی بائی نے داغ کی پانچ غزلیں گائیں۔ پانچوں لاجواب اور پانچوں کی پانچ بے محل۔ صاحب، سن 47ء کے بعد رنڈیاں تو ایسی گئیں جیسے کسی نے لوکا لگا دیا ہو۔ اب ویسی شائستہ طوائفیں کہاں۔ مگر یہ بھی صحیح ہے کہ اب ویسے قدر داں بھی نہیں رہے۔ نہ وہ غزنوی میں مذاق۔ الخ۔ ارے صاحب، آپ سے اس کم بخت الخ کا مطلب پوچھا تھا۔ آج تک بتا کے نہ دیا۔ اور یہ جو آپ کہتے ہیں کہ آپ کو فارسی بالکل نہیں آتی، تو یہ واقع میں سچ ہے یا محض رسمی کسرِ نفسی؟

چاندی کا کُشتہ اور چنیوٹ کی چلم

خوب یاد آیا۔ ہمارے ایک جاننے والے تھے، میاں نذیر احمد، چنیوٹ برادری سے تعلق تھا۔ چمڑے کے کاروبار کے سلسلے میں اکثر بمبئی جاتے رہتے تھے۔ وہاں ریس کا چسکا لگ گیا۔ گھوڑوں سے جو کمائی بچ رہتی، اس میں غریبامؤ گزر بسر کرتے۔ گلنار طوائف کے ساتھ دو بول پڑھوا لیے تھے۔ حجِ بیت اللہ کے بعد خود تائب ہوئی سو ہوئی، میاں نذیر احمد کو بھی بہت سی علتوں سے توبہ کروا دی اور ان کے دن بھی پھر گئے۔ وہ جو ادھیڑ عمر میں طوائفوں کی صورت پر پھٹکار برسنے لگتی ہے اور آواز پھٹا بانس ہو جاتی ہے، وہ کیفیت قطعی نہیں تھی۔ میلاد شریف خوب پڑھتی تھی۔ آواز میں غضب کا سوز تھا۔ جب سفید دوپٹے سے سر ڈھانکے لہک لہک کر جامی کی نعت یا انیس کا مرثیہ پڑھتی تو لحن میں ہزار حلاوتیں، ہزار عقیدتیں گھول دیتی۔ ہم چھپ چھپ کر سنتے۔ محرم میں کالے کپڑے اس پر کھلتے تھے۔ پاکستان آ گئی تھی۔ برنس روڈ پر ادیب سہارنپوری کے فلیٹ سے ذرا دور چھوٹا سا تین کمروں کا فلیٹ تھا۔ میاں صاحب جاڑوں میں بھی ململ کا کرتا پہنتے اور صبح ٹھنڈے یخ پانی سے غسل کر کے لسی پیتے تھے۔ مشہور تھا کہ فوری طاقت کے ہوکے میں ڈھیر سارا رُوپ رس یعنی چاندی کا ادھ کچا کشتہ کھا بیٹھے تھے۔ گلنار کی چھوٹی بہنیں منی اور چنی بھی آفت کی پرکالہ تھیں۔ آپ نے بھی تو ایک دفعہ کسی چھوٹی الائچی اور بڑی الائچی کا ذکر کیا تھا، بس کچھ ویسا ہی نقشہ تھا۔ افسوس اب کھانوں میں بڑی الائچی کا استعمال ختم ہوتا جا رہا ہے۔ حالانکہ اس کی مہک، اس کا ذائقہ ہی اور ہے۔ آپ تو خیر بڑی الائچی سے چڑتے ہیں۔ مجھے تو کسی طرف سے بھی کاکروچ جیسی نہیں لگتی۔ تو صاحب منی بیگم کا چہرہ اور بھرے بھرے بازو کچھ ایسے تھے کہ کچھ بھی پہن لے، ننگی ننگی سی لگتی تھی۔ یو نو واٹ آئی مین، چنی بیگم فارسی غزلیں خوب گاتی تھی۔ لوگ بار بار فرمائش کرتے۔ وہ بھی عموماً بیٹھ کر گاتی تھی۔ کبھی داد کم ملتی یا یوں ہی ترنگ آتی تو یکایک اٹھ کھڑی ہوتی۔ دونوں سارنگیئے اور طبلچی (اس زمانے میں سارنگی اور طبلہ بجانے والے کو سارنگیا اور طبلچی کہتے تھے۔ یعنی طبلہ بجانا ہی کہا جاتا تھا۔ طبلہ بجانے والا اپنے ہنر سے شرمندہ نہیں تھا۔ طبلے کو ”نوازنے“ اور طبلہ نواز کہلانے کی ضرورت ابھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔) بھی اپنے اپنے زرین پٹکے کس لیتے اور استادہ ہو کر سنگت کرتے۔ محفل میں دو تین چکر رقصاں لگاتی، پھر قلبِ بساط پر کھڑے ہو کر ایک ہی جگہ پھرکی کی مانند تیزی سے گھومنے لگتی۔ زر دوزی کی لشکارا مارتی پشواز ہر چکر کے بعد اونچی اٹھتے اٹھتے تابہ کمر پہنچ جاتی۔ یوں لگتا جیسے جگنوؤں کا ایک ہالہ رقص میں ہے۔ لے اور گردش تیز، اور تیز ہوتی، کرن سے کرن میں آگ لگتی چلی جاتی۔ پھر ناچنے والی نظر نہ آتی۔ صرف ناچ نظر آتا تھا۔

کچھ نہ دیکھا پھر بجز اک شعلہ پُر پیچ و تاب

اور جب یکایک رکتی تو پشواز سڈول ٹانگوں پر امر بیل کی طرح ترچھی لپٹتی چلی جاتی۔ سازندے ہانپنے لگتے اور کھرن (وہ سیاہ حلقہ جو طبلے پر ہوتا ہے) پر طبلچی کی تناتی ہوئی انگلیوں سے لگتا خون اب ٹپکا کہ اب ٹپکا۔

دیکھیے میں پھر بھٹک کر اسی لعنت مارے بازار میں جا نکلا۔ آپ نے نوٹس لینے بند کر دیئے، بور ہو گئے؟ یا میں واقعات کو دہرا رہا ہوں؟ وعدہ ہے، اب کسی طوائف کو، خواہ وہ کتنی ہی آفتِ جاں کیوں نہ ہو، اپنے اور آپ کے درمیان حائل نہ ہونے دوں گا۔ صاحب، ہماری تو باتیں ہی باتیں ہیں۔

باتیں ہماری یاد رہیں، پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا

پرسوں آپ لندن چلے جائیں گے۔ میر ہی نے بے ثباتی پر اپنے ایک شعر میں مجمعِ یاران کو ”مجلسِ رواں“ کہا ہے کہ یہاں ہر یار سفری اور ہر صحبت گزراں ہے۔ تو صاحب، ذکر میاں نذیر احمد کا ہو رہا تھا۔ میاں صاحب کانپور کے 104 ڈگری ٹمپریچر سے گھبرا کر مئی کا مہینہ بڑی پابندی سے چنیوٹ کی 104 ڈگری میں گزارتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ چنیوٹ کی لُو کانپور کی لُو سے بہتر ہوتی ہے۔ ہم لوگ آپس میں شیکسپیئر کے گیت کی درگت بناتے تھے :

",Blow, blow thou Chiniot "loo

Thou art not so unkind

As local specimens of mankind

Who couldn’t care who’s who!

میاں صاحب اکثر فرماتے کہ قدرت کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ چنیوٹ کی گرمی میں سال بھر کے جمع شدہ فاسد خیالات پسینے کی راہ خارج ہو جاتے ہیں۔ روزے کبھی ریس اور بیماری کی حالت میں بھی نہیں چھوڑے۔ مئی جون میں بھی ایک ڈلی لاہوری نمک کی چاٹ کر حقے کے معدے تک اُتر جانے والے کش سے افطار کرتے۔ پہلے تین چار مرتبہ یوں ہی امتحاناً گڑگڑاتے، جیسے سنگت کرنے سے پہلے ستار بجانے والے مضراب سے تاروں کی کساوٹ کو اور طبلچی ہتھوڑی سے طبلے کے رگ پٹھوں کو ٹھونک بجا کے ٹیسٹ کرتا ہے۔ پھر ایک ہی سسکی بھرے کش میں سارے تمباکو کا انس (ست۔ جان) نکال لیتے۔ بلکہ اپنی جان سے بھی گزر جاتے۔ س س س سوع سوع، سو سو وووو۔۔۔ ووو، ہاتھ پیر ڈھیلے پڑ جاتے، تھنڈے پسینے آنے لگتے، پُتلیاں اُوپر چڑھ جاتیں۔ پہلے بے ست، پھر بے سدھ ہو کر وہیں کے وہیں پڑے رہ جاتے۔ گلنار انہیں شربت انار پلا کر نماز کے لیے کھڑا کرتی۔ حقے کی نے پر چنبیلی کے ہار اور نیچہ پر خس لپٹی ہوتی۔ تمباکو تیز اور کڑوا، بے پناہ پسند کرتے تھے۔ قوام لکھنؤ سے منگواتے۔ چاندی کے منھال دلی کے ایک سادہ کار سے گھڑوائی تھی۔ مٹی کی چلم اور توا (مٹی کو گول ٹکیا جو تمباکو اور انگاروں کے درمیان رکھتے ہیں) ہمیشہ چنیوٹ سے آتا تھا۔ فرماتے تھے بادشاہو، اس مٹی کی خوشبو الگ سے آتی ہے۔

لاہور میں آج بسنت ہے

میاں نذیر احمد شنکرات کے دن کڑکڑاتے جاڑے میں ململ کا کُرتا پہنے ننگے سر چھت پر پتنگ ضرور اڑاتے۔ یہ بھی ان کا بھولپن ہی تھا کہ ململ کے کُرتے کو جوانی کا سرٹیفکیٹ اور اشتہار سمجھ کر پہنتے تھے۔ ہم تین چار لڑکے چوری چھپے ان کی خوشبودار مرواریدی معجونیں فقط مٹھاس کے لالچ میں کھاتے، مگر دل ہی دل میں ان کے معجزانہ اثرات کے ہفتوں منتظر رہتے۔ میاں صاحب لحاف صرف اس وقت اوڑھتے جب بلبلا کے جاڑے سے بخار چڑھتا۔ یو پی کے جاڑے کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ حقارت سے کہتے ”بادشاہو، یہ بھی کوئی سردی ہے۔“ دراصل لاہور کے جاڑے کے بعد وہ صرف ملیریا کے جاڑے کے قائل تھے۔ آپ کے مرزا عبدالودود بیگ بھی تو یہی الزام لگاتے ہیں نا، کہ یو پی کے کلچر میں جاڑے کو رج کے celebrate کرنے کا کوئی تصور نہیں۔ جب کہ پنجاب میں گرمی کے اس طرح چونچلے اور غمزے نہیں اٹھائے جاتے, جس طرح یو پی میں۔ صاحب، یو پی میں جاڑے اور پنجاب میں گرمی کو محض سالانہ سزا کے طور پر برداشت کیا جاتا ہے۔ کم و بیش اسی نوع کا فرق برسات میں نظر آتا ہے۔ پنجاب میں بارش کو فقط اس لیے انگیز کرتے ہیں کہ اس کے بغیر فصلیں نہیں اُگ سکتیں۔ جب کہ یو پی میں ساون کا واحد مقصد و مصرف یہ نظر آتا ہے کہ کڑھائی چڑھے گی، درختوں پر آم اور جھولے لٹکیں گے اور جھولوں میں کنواریاں بالیاں۔ پنجاب میں درختوں پر آم یا کچھ اور لٹکنے کی ایسی خوشی صرف طوطوں کو ہوتی ہے۔

اور انگلینڈ میں بارش کا فائدہ جو سال کے 345 دن ہوتی ہے (بقیہ بیس دن برفباری ہوتی ہے) آپ یہ بتاتے ہیں کہ اس سے شائستگی اور خوش اخلاقی فروغ پاتی ہے۔ مطلب یہ کہ جو گالیاں انگریز بصورتِ دیگر ایک دوسرے کو دیتے وہ اب موسم کو دیتے ہیں۔

شنکرات کے دن میاں نذیر احمد پیچ ویچ تو کیا خاک لڑاتے، بس چھ سات پتنگیں کٹوا اور ڈور لٹوا کر، اپنا اور اپنے سے زیادہ دوسروں کا، جی خوش کر لیتے تھے۔ ہر پتنگ کٹوانے کے بعد لاہور کے مانجھے کو بے تحاشا یاد کرتے۔ ارے صاحب، پتنگ کٹتی نہیں تو اور کیا۔ پیچ کانپور میں لڑاتے اور قصے لاہور کے بسنت کے رنگ رنگیلے آسمان کے سناتے جاتے۔ نظر بھی خاصی کمزور ہو چلی تھی لیکن عینک صرف نوٹ گننے اور مچھلی کھاتے وقت طوعاً و کرعاً لگا لیتے تھے۔ عینک نہ لگانے کا ایک ضمنی نتیجہ یہ نکلتا کہ جس پتنگ کو وہ حریف کی پتنگ سمجھ کر بے تحاشا ”کھینچ“ کرتے، وہ دراصل ان کی اپنی ہی پتنگ نکلتی جو چند لمحوں بعد پہلے ہی مخالف رگڑے سے کٹ کر ہوا میں لالچی کی نیت کی طرح ڈانواں ڈول ہونے لگتی۔ ڈور یکایک لجلجی پڑ جاتی تو انہیں پتہ چلتا کہ کٹی پتنگ تیری، ڈور اب سمیٹا کر۔ میاں صاحب اکثر فرماتے کہ پتنگ اور کنکوے بنانے میں تو بے شک لکھنؤ والوں کا جواب نہیں، لیکن بادشاہو، ہوا لاہور ہی کی بہتر ہے۔ سچ پوچھو تو پتنگ لاہور ہی کی ہوا میں پیٹا چھوڑے (جھول کھائے) بغیر ڈور پہ ڈور پیتی اور زور دکھاتی ہے۔ پتنگ کے رنگ اور مانجھے کے جوہر تو لاہور ہی کے آسمان میں کھلتے اور نکھرتے ہیں۔ کانپور میں ”وہ کاٹا“ اس طرح کہتے ہیں، جیسے معذرت، بلکہ تعزیت کر رہے ہوں۔ لاہور کے ”بو کاٹا“ میں پچھڑے ہوئے پہلوان کی چھاتی پر چڑھے ہوئے پہلوان کا نعرہ سنائی دیتا ہے۔ بلکہ پسینے میں شرابور جسم سے چمٹی ہوئی اکھاڑے کی مٹی تک نظر آتی ہے۔

میاں صاحب کی چرخی لاہور ہی کے ایک زندہ دل پکڑتے، جو حلیم کالج کانپور میں لیکچرار تھے۔ عبدالقادر نام تھا۔ شاعری بھی کرتے تھے۔ دونوں مل کر پتنگ کو مبالغے کا مانجھا اور یادوں کی الجھی سلجھی تل چانولی (دو رنگی) ڈور ایسی پلاتے کہ چرخیاں کی چرخیاں خالی ہو جاتیں اور پتنگ آسمان پہ تارا ہو کے لاہور کی چوبرجی پہ جا نکلتی، جس نے ان کے وہ دن دیکھے تھے، جب کوئی شے سادہ و بے رنگ نظر نہیں آتی:

غبار گلگوں ہے، آب رنگیں، زمیں ہے سرخ اور ہوا شہابی

(ہوا شفق پوش، باغ و صحرا محیط ہے رنگِ لالہ و گل۔ (سراج اورنگ آبادی) اس پر مرزا کہتے ہیں کہ نوجوانی میں زیبرا بھی ملٹی کلرڈ دکھائی دیتا ہے۔)

خوابِ نیم روز

اب یہ چڑھی پتنگ جو کچھ راوی پار دیکھتی، اس کا حال کچھ ان دونوں زندہ دلانِ لاہور کی، کچھ بشارت اور رہا سہا اس عاجز داستاں و پاستان طراز کی زبانی سنیے:

لاہور میں آج بسنت ہے۔ آیا بسنت پالا اُڑنت۔ جاتی رُت نے عجب سماں باندھا ہے۔ بسنتی لباس اور رخساروں پر اُترتے جاڑے کی سرخی غضب ڈھا رہی ہے۔ کھیتوں میں چار سُو سرسوں پھولی ہے۔ گلاب اور دیر سے کھلنے والے گل داؤدی کی اپنی الگ بہار ہے۔ سرسوں، پتنگ، تتلی، پیرہن، پھول، رخسار… ایک گلستاں نظر آتا ہے گلستاں کے قریب۔

ہاں، لاہور میں آج بسنت ہے۔ رنگ ہوا سے یوں ٹپکے ہے جیسے شراب چواتے ہیں۔ بسنت اور برسات میں لاہور کا آسمان آپ کو کبھی بے رنگ، اکتایا ہوا اور نچلا نظر نہیں آئے گا۔ لاڈلے بچے کی طرح چیخ چیخ کے ہمہ وقت اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے اور توجہ کا طالب ہوتا ہے، کہ ادھر دیکھو۔ اس وقت مجھے ایک اور شوخی سوجھی ہے۔ کیسے کیسے رنگ بدلتا ہے.. کبھی تاروں بھرا.. بچوں کی آنکھوں کی مانند جگمگ جگمگ.. کبھی نوری فاصلوں پر کہکشاں کی افشاں اور کبھی اودی گھٹاؤں سے زرتار باراں.. کبھی تانبے کی طرح تپتے تپتے ایکا ایکی امرت برسانے لگا اور خشک کھیتوں اور اداس آنکھوں کو جل تھل کر گیا.. ابھی کچھ تھا، ابھی کچھ ہے.. گھڑی بھر کو قرار نہیں.. کبھی مہرباں، کبھی قہرِ بداماں.. پل میں اگن کنڈ، پل میں نیل جھیل.. ذرا دیر پہلے تھل، ہیہڑ، صحراؤں کا غبار اٹھائے، لال پیلی آندھیوں سے بھرا بیٹھا تھا.. پھر آپی آپ دھرتی کے گلے میں بانہیں ڈال کے کھل گیا، جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ سمندر جھاگ بادلوں کے بجرے پگھلے نیلم میں پھر تیرنے لگے۔ کل شام ڈھلے جب شفق پھولی تو یوں لگا، جیسے زمین اور آسمان کا وہ ملگجا سا سنگم جو دہکتے سورج کو نگل گیا، اب سدا یوں ہی تمتماتا رہے گا۔ پھر گرم ہوا ایکا ایکی تھم گئی۔ ساری فضا ایسے دَم سادھے کھڑی تھی کہ پتا نہیں ہلتا تھا۔ دیکھتے دیکھتے بادل گِھر آئے اور پچھلے پہر تک بجلی کے ترشول آسماں پر لپکتے، لہراتے رہے۔ پر آج سہ پہر نہ جانے کیا دل میں آئی کہ اچانک ایسا مور پنکھی نیلا ہوا کہ دیکھے سے رنگ چھوٹے۔ پہر رات گئے تک اپنی شفاف نیلاہٹیں راوی کی چاندنی میں گھولتا رہا۔

لاہور کے آسمان سے زیادہ خوب صورت اور زیادہ خوش رنگ و شوخ ادا تو صرف ایک چیز ہے۔ وہ ہے لاہور کی گل زمین۔ چار سو برس پہلے بھی یہ زمین فلک رنگ ایسی ہی تھی۔ جبھی تو نور جہاں نے کہا تھا :

لاہور را بہ جان برابر خریدہ ایم،
جاں دادہ ایم جنتِ دیگر خریدہ ایم

سو نور جہاں نے تو جان کے عوض جنتِ لاہور میں دو گز زمین خرید لی۔ مگر زندہ دلانِ لاہور نے اس جاندادہ ہوائے لاہور کو یاد رکھنے کی طرح یاد نہ رکھا۔ نور جہاں کے قطعہ جنت میں اب ابابیلوں کا بسیرا ہے۔

لیکن صاحبو، دھنک کے اس پار وہ خوابوں کا شہر تو اب شہر دو قصہ ہو گیا اور اس کی تلاش میں جو شہزادہ چوتھی کھونٹ نکل گیا تھا، وہ کبھی کا دو لخت ہوا۔ اب یہ بستی اور، زمین اور ہے۔ یہ ہرکس و ناکس پر گئے دنوں کے رُوپ سروپ کے بھید بھاؤ اور لبھاؤ نہیں کھولتی۔ انہیں دیکھنے کے لیے پیری کی آنکھ اور بچپن کی رنگین دوربین (Kaleidoscope اسے بچپن کی حیرت بین یا دھنک درشن کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اس میں کانچ کے رنگ برنگے ٹکڑے ہوتے ہیں، جو ہر جنبش کے ساتھ طرح طرح کے رنگ، شکلیں اور پیٹرن اختیار کرتے چلے جاتے ہیں) چاہیے۔ یہ ہوں تو پھر ہر شہر، شہر دو قصہ دکھلائی دیتا ہے۔

خواب نیم روز ختم ہوا۔ اب بقیہ کہانی بشارت کی زبانی انہی کے داستاں در داستاں انداز میں سنیے۔ طول دینا ہی مزہ ہے قصہ کوتاہ کا۔ جہاں تک قلم اور یاد داشت ساتھ دے گی، ہم ان کا مخصوص محاورہ اور لہجہ، اور لہجے کی للک اور لٹک، جوں کی توں برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے۔ وہ ایک دفعہ کہانی شروع کر دیں تو ان کا جملہ معترضہ اور غیر متعلق جزئیات بھی الگ اپنی کہانی سنانے لگتے ہیں۔ ہنکارا بھرنے کی مہلت بھی نہیں دیتے۔ مرزا ایسے شکنجے میں جکڑے جانے کو کہانی کاٹھ کہتے ہیں۔ کولرج کے Ancient Mariner نے جب اپنی آسیبی کہانی شروع کی، تو شادی کے جشن اور دعوت میں جانے والا مہمان ایسا مسحور ہوا کہ شادی وادی سب بھول گیا۔ مبہوت کھڑا سنتا رہا۔ بس کچھ ایسا ہی احوال ہمارا بھی ہوا :

میں ابنِ بطوطہ، میرا لکھا مخطوطہ

تو صاحب، میاں نذیر احمد کا مکان بھی دیکھنے گیا۔ کیسی کیسی یادیں وابستہ ہیں، اس مکان سے، مگر اب پہچانا نہیں جاتا۔ خاصی فیس ”لفٹنگ“ ہوئی ہے۔ تین ایئر کنڈیشنر چل رہے تھے۔ برآمدے میں ایک سن رسیدہ سردار جی کنگھا ہاتھ میں پکڑے جوڑا باندھ رہے تھے۔ صرف یہی ایسا مکان ہے جو پہلے سے بہتر حالت میں نظر آیا۔ میں نے اپنا تعارف کرایا اور غایتِ آمد بیان کی تو خوشی خوشی اندر لے گئے۔ بڑی خاطریں کیں۔ دیر تک اپنی جنم بھوم گوجرانوالہ کا حال احوال پوچھتے رہے۔ میں گھڑ گھڑ کے سناتا رہا۔ اور کیا کرتا؟ ایک سال پہلے منی بس میں گوجرانوالہ سے گزرا تھا۔ اس ایک اسٹیپ شاٹ کو انلارج کر کے اردو کا بیسٹ سیلر سفر نامہ بنا دیا۔ خیر، آپ تو ایسے سفر نامے چٹخارے لے کر پڑھتے ہیں۔ یہ تو مانا کہ بقول آتش :

سفر ہے شرط، مسافر نواز بہتیرے،
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہیں

لیکن اس سفر نویسوں کی رال سے رقم کی ہوئی داستانوں سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ بس آدمی ایک دفعہ اپنی منکوحہ سے پنڈ چھڑا کے گھر سے نکل پڑے، پھر عیش ہی عیش ہیں۔ قدم قدم پہ شجر سایہ دار، ہر شجر میں ہزارہا شاخیں اور ہر شاخ پر چار چار عفیفائیں اس انتظار میں لٹکی پڑ رہی ہیں کہ جیسے ہی ڈان جوآن نیچے سے گزرے اس کی جھولی میں ٹپک پڑیں :

ہزار بازنِ امیدوار راہ میں ہے

گویا دیس دیس اور شہر شہر ہی نہیں، بلکہ ”خانہ بخانہ، در بدر، کوچہ بہ کوچہ، کو بہ کو“ اس نا سفر جنسی فتوحات کی Odyssey بن جاتا ہے، جس میں مسافر ہر روز ہر عورت کو جو اس کا راستہ کاٹے اس کے کیفر (بد) کردار تک، یعنی اپنی آغوش تک، پہنچا کر دم لیتا ہے۔

جاری ہے


  1. قصہ دو شہر – 1

  2. قصہ دو شہر – 2

  3. قصہ شہر دو – 3

  4. شہر دو قصہ – 4

  5. قصہ دو شہر – 5


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close