کراچی – پاکستان میں نظام حکومت کون سا ہونا چاہیے، پارلیمانی یا صدارتی؟ یوں تو پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں ہر تھوڑے عرصے بعد یہ معاملہ زیرِ بحث آتا رہا ہے، لیکن اس بار سوشل میڈیا پر ایک طبقے کی جانب سے ملک میں صدارتی نظام حکومت رائج کرنے کے مطالبے کی گونج شدت کے ساتھ سنائی دے رہی ہے
اس بار معاملات کچھ مختلف اس لیے بھی ہیں کہ مقامی ذرائع ابلاغ پر ’آئیے صدارتی نظام کو ووٹ دیں‘ کے عنوان کے تحت مہم بذریعہ ٹی وی اشتہارات چلائی جا رہی ہے
ماضی میں جب بھی ملک میں سیاسی حکومت کسی بحران کی زد میں آتی ہے، تو ایک خاص طبقہ اس کا قصوروار پارلیمانی نظام حکومت اور مافیاز کو قرار دیتے ہیں۔ تاہم کئی منتخب نمائندے اور سابق وزرائے اعظم پارلیمانی نظام کی حمایت میں سامنے آ جاتے ہیں، اور پھر یہ بحث چلتے چلتے خود ہی کچھ عرصے کے لیے دم توڑ جاتی ہے
حالیہ مہم کے حوالے سے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کو دیے گئے ایک بیان میں وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ حکومت جانے اور صدارتی نظام کی باتیں محض قیاس آرائیاں ہیں اور یہ کہ وہ ایسی باتوں پر توجہ نہیں دیتے
تاہم اس حوالے سے چلنے والی تازہ مہم کے دوران حکمراں جماعت پی ٹی آئی کے حمایتی متعدد ٹوئٹر اکاؤنٹس ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کا مطالبہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور اُن کے پیغامات سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ وزیر اعظم عمران خان کو ایک نئے نظام میں صدر کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں
سوشل ميڈیا پر صدارتی نظام کے نفاذ کی مہم چلانے والوں کی جانب سے مختلف سلوگن سامنے آئے ہیں، ’ویژن فار پاکستان‘ نامی تنظیم کے اشتہار کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے: ’کبھی نافذ ہی نہیں ہوا صدارتی نظام، جو پاکستان میں حقیقی قیادت پیدا کر سکتا ہے۔‘
حتیٰ کہ اس اشتہار میں صدارتی نظام کے خدوخال کی وضاحت بھی کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ صدر کو 51 فیصد ووٹ لینا ہوں گے، سینیٹ کے انتخابات براہ راست ہوں گے، مضبوط سینیٹ وفاق کو مستحکم بنائے گا اور پارلیمان میں مخصوص 20 فیصد سیٹیں ختم ہو جائیں گی
اس مہم میں ایک ویب سائیٹ کا حوالہ دیا گیا ہے کہ جہاں شہریوں کے ووٹ ’ذمہ دار حلقوں کو آمادہ کریں گے کہ وہ ملک میں صدارتی نظام نافذ کرنے کے لیے آئین میں تبدیلی کریں۔‘
پاکستان کے آئین کے مطابق ملک میں پارلیمانی نظام نافذ ہے اور قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ صدارتی نظام کے نفاذ کے لیے آئین میں ترامیم درکار ہوں گی، جس کے لیے دونوں ایوانوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ، میں دو تہائی اکثریت چاہیے ہوگی
دوسری جانب پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان بذات خود ملک میں صدارتی نظام لانا چاہتے ہیں
اکثر سوشل میڈیا کی خبریں مقامی ذرائع ابلاغ میں جگہ بنا لیتی ہیں، لیکن اس بار ٹی وی چینل پر چلنے والے اس اشتہار نے سوشل میڈیا پر ہونے والی اس روایتی بحث میں جیسے ایک نئی روح پھونک دی ہے
سوشل میڈیا پر ہونے والی بحث کو دیکھا جائے تو اس معاملے پر لوگوں کی رائے میں واضح تقسیم نظر آتی ہے، جہاں اس کے حامی اپنے دلائل دے رہے ہیں، وہیں چند صارفین ایسے بھی ہیں جو اس مہم کی شدید مخالفت کر رہے ہیں
پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ کہتی ہیں کہ انہیں معلوم نہیں آیا صدارتی نظام رائج کرنے کی مہم سیاسی حربہ ہے یا فریب
آئین کا حوالہ دیتے ہوئے نفیسہ شاہ کا کہنا ہے کہ میں نے پارلیمنٹ کے 442 قانون سازوں میں سے ایک کے طور پر اپنے وفاقی جمہوری اور پارلیمانی آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھایا ہے
ملک میں صدارتی نظام کی افواہوں پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا ہے کہ ہم پاکستان کے آئین، وفاقی پارلیمانی نظام میں کسی قسم کی مداخلت اور رد و بدل کو قبول نہیں کریں گے اور ہر شہری اپنے اس آئین اور وفاقی پارلیمانی نظام کے دفاع کے لیے سیسہ پلائی دیوار بنے گا
قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ یہ مطالعہ پاکستان کا لیکچر نہیں بلکہ ہم پاکستان کی روح کے بارے میں بات کررہے ہیں کہ پاکستان کے وفاق کے بارے میں کون لوگ اس طرح کی خبریں چلاتے ہیں
انہوں نے مزید کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر کے دورِ حکومتوں کا جواب دینے کے لیے پیپلز پارٹی، نواز شریف کے دور حکومت کا جواب دینے کے لیے ہم یہاں موجود ہیں لیکن یہ قوم فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے برسوں کا حساب کس سے مانگے. قوم یحیٰی خان کے 4 سال، ضیاالحق کے 11 برسوں اور مشرف کے 9 برسوں کا جواب کس سے پوچھے
انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کا پارلیمانی نظام ہے جو سیاسی جماعتوں اور قیادت کو عوام کا جوابدہ ٹھہراتا ہے، جبکہ صدارتی نظام ایک ڈکٹیٹیر پیدا کرتا ہے اور کسی بھی لحاظ سے موزوں نہیں ہے
اینکر ابصا کومل کہتی ہیں کہ جو لوگ صدارتی نظام کے فوائد کی مہم چلا رہے ہیں انہیں یاد رکھنا ہوگا کہ ’پاکستان کے وجود کے تیس سال تک آمرانہ تجربے ہوتے رہے اور آخری تجربہ سنہ 2008 میں ناکام ہوا۔‘
پبلک پالیسی کے ماہر مشرف زیدی نے طنز کرتے ہوئے لکھا کہ وہ لوگ جو اسے نئے خیال کے طور پر پیش کر رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ’پاکستانی احمقانہ رویے کو برداشت ضرور کر سکتے ہیں لیکن وہ خود احمق نہیں۔‘
رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے سوال کیا کہ ’یہ تشہیری مہم کون چلا رہا ہے اور کیوں؟۔۔۔ یہ وفاق کی بقا کے لیے تباہ کن ہوگا۔‘
صحافی فخر درانی نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ’ایک بات ذہن نشین کر لیں: جو شخص چار سال میں کچھ نہیں کر سکتا وہ 40 سال میں بھی کچھ نہیں کرے گا۔ چاہے آپ اسے صدر لگا دیں، امیر المومنین بنا دیں یا جمہوری نظام ختم کر کے مکمل آمریت نافذ کر دیں۔‘
ٹوئٹر پر ان کا دعویٰ ہے کہ ’یہ صدارتی نظام والا شوشہ صرف نااہلی چھپانے اور عوام کی توجہ بٹانے کے ایک حربے سے زیادہ کچھ نہیں۔‘
تاہم ٹوئٹر پر صارفین کی ایک بڑی تعداد صدارتی نظام لانے کے حق میں بھی دکھائی دے رہی ہے۔ چاہے وہ حکمراں جماعت تحریک انصاف کو سپورٹ کرتے ہوں یا پاکستان تحریک لبیک کو
اس حوالے سے ٹوئٹر پر مختلف ٹرینڈز بھی چلائے جا رہے ہیں، جیسے #ملککیبقااسلامینظام اور #صدارتینظاملاؤترقیپاؤ
اینکر اویس منگل والا اس حوالے سے ایک منفرد مثال پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میرے دادا نے گاڑی چلاتے ہوئے ایک حادثہ کیا تھا۔ میرے والد نے جب ڈرائیونگ کی تو ان سے بھی حادثہ ہوا۔ میرا بھائی بھی گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے حادثہ کر چکا ہے۔ تو اب میں اور میری آنے والی نسلیں کبھی گاڑی نہیں چلائیں گی۔ صدارتی نظام کے مخالفین بس ایسی ہی بونگیاں مار رہے ہیں۔‘
اس ٹویٹ کے جواب میں صارف جاوید راؤ کا خیال ہے کہ ’ایک اناڑی جسے سائیکل دی تو حادثہ کیا، موٹر سائیکل ملی تو حادثہ کیا، گاڑی ملی تو حادثہ کیا۔ اب صدارتی نظام کے حامی یہ بونگی مار رہے ہیں کہ انہیں ٹرک دے دیا جائے تو کامیاب ہو جائے گا۔‘
گاڑی اور حادثے کی ان مثالوں سے قطع نظر، کچھ لوگوں صدارتی نظام لانے میں واقعی سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں۔ زہرہ لیاقت کہتی ہیں کہ ’اگر صدارتی نظام نہیں آئے گا تو پھر عمران خان جیسے ہزاروں بھی آ جائیں تو نظام چینج نہیں ہوگا۔‘
’اس ملک کو سدھارنے کے لیے صدارتی نظام ضروری ہے۔ اس کے ذریعے ہی ہر قسم کے مافیا پر قابو پایا جا سکتا ہے۔‘
دریں اثنا طارق افغان لکھتے ہیں کہ ’بات اہلیت کی ہے۔ صدارتی یا پارلیمانی نظام کی نہیں۔‘
جبکہ حنا نامی صارف نے طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’کوئی مانے نہ مانے صدارتی نظام سوشل میڈیا پر آ چکا ہے۔‘