پشاور – خیبر پختون خواہ کے دارالحکومت پشاور کے سلیم اللہ نے ایک مہینہ پہلے آئی فون ایکس خریدا، جو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی( پی ٹی اے) سے رجسٹر نہیں تھا
وہ فون کا ٹیکس (چھیالیس ہزار روپے) ادا کرنے کے لیے پیسے جمع کر رہے تھے، کہ حکومت نے ٹیکس بڑھا کر دوگنا کر دیا، جسے ادا کرنا اب سلیم اللہ کو ممکن نہیں لگ رہا
سلیم اللہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے موبائل فونز پر ہفتے کو ریگولیٹری ڈیوٹی تقریباً دوگنی کرنے پر پریشان ہیں
انہوں نے بتایا کہ موبائل فون خریدنے کے لیے انہوں نے اپنی تنخواہ سے تھوڑی تھوڑی رقم بچائی تھی، لیکن اس پر ڈبل ٹیکس دینا ان کے بس کی بات نہیں
سلیم کا کہنا ہے کہ عجیب بات ہے کہ میں نے اپنا فون 72 ہزار روپے میں خریدا، لیکن اب اس پر 75 ہزار روپے ٹیکس لاگو ہے، جو حکومت کی طرف سے عوام کے ساتھ زیادتی ہے
ان کے مطابق ’شاید پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پر موبائل فون کی قیمت سے زیادہ اس پر ٹیکس ہے۔‘
دل جان آفریدی پشاور میں آئی فونز کے بڑے ڈیلرز میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے سلیم کی گفتگو سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھانے سے متوسط طبقہ زیادہ متاثر ہوگا کیونکہ یہی طبقہ زیادہ تر استعمال شدہ موبائل خریدتا ہے، جس کی قیمت قدرے کم ہوتی ہے
دل جان نے بتایا کہ آئی فون کے استعمال شدہ سیون پلس ماڈل کی قیمت آج کل تقریباً چالیس ہزار روپے ہے۔ نئے احکامات کے بعد سیون پلس موبائل پر ٹیکس تقریباً بتیس ہزار روپے بنتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ سیون پلس کی قیمت دس ہزار روپے ہے اور باقی اس کے اوپر ٹیکس عائد ہے
دل جان نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں موبائل امپورٹر کے لیے ایک موبائل سیٹ پر ٹیکس تقریباً اٹھائیس ہزار روپے ہے، لیکن ایک عام شہری سے، جو اپنے لیے یا کسی رشتہ دار کے لیے موبائل سیٹ باہر سے لے کر آتا ہے ٹیکس اَسی ہزار تک ہے
انہوں نے بتایا کہ ان کی یونین نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس ٹیکس میں اضافے پر حکومتی نمائندوں کے ساتھ بات کریں گے، کیونکہ اس سے ان کے کاروبار پر اثر پڑ رہا ہے
وہ کہتے ہیں ’عموماً میری دکان پر دن میں دو سو تک گاہک آتے ہیں، جس میں سے تقریباً بیس لوگ خریداری کرتے ہیں، لیکن کل (جمعے) کو جب سے ٹیکس میں اضافہ ہوا ہے گاہک بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں۔‘
واضح رہے کہ ٹیکس میں اضافے کے حوالے سے جاری سرکلر میں دو قسم کے لوگوں کے لیے الگ الگ ٹیکس رکھے گئے ہیں۔ اس میں ایک وہ ہیں جو بیرون ملک سے اپنے ساتھ موبائل فون لے کر آتے ہیں۔ وہ اپنے پاسپورٹ پر دو مہینوں تک موبائل فون کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے ساتھ رجسٹر کر سکتے ہیں، جبکہ دوسری رجسٹریشن قومی شناختی کارڈ کے ذریعے ہے
پاسپورٹ پر موبائل فون رجسٹر کرنے کا ٹیکس شناختی کارڈ پر رجسٹرڈ کرنے سے قدرے کم ہے
ایف بی آر کے موبائل فون ڈیلرز کو جاری سرکلر کے مطابق پاسپورٹ پر تیس ڈالرز تک قیمت والے موبائل فون پر 430 روپے (شناختی کارڈ پر 550 روپے) جبکہ تیس سے سو ڈالرز تک تین ہزار دو سو روپے (شناختی کارڈ پر 4323 روپے) ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہوگی
سرکل کے مطابق ایک سو سے دو سو ڈالرز تک نو ہزار آٹھ سو روپے (شناختی کارڈ پر 11561 روپے) دو سو ڈالرز سے زائد قیمت والے موبائل فون پر ریگولیٹری ڈیوٹی کے ساتھ خریدار کو سیلز ٹیکس بھی دینا ہوگا
دو سو سے ساڑھے تین سو ڈالرز تک بارہ ہزار دو سو روپے (شناختی کارڈ پر 14661) ریگولیٹری ڈیوٹی اور 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہوگا
اس طرح ساڑھے تین سو سے پانچ سو ڈالرز تک سترہ ہزار آٹھ سو روپے (شناختی کارڈ پر 23420 روپے) ریگولیٹری ڈیوٹی اور 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہوگا
پانچ سو ڈالر سے زائد قیمت پر 17فیصد سیلز ٹیکس کے ساتھ ستائیس ہزار چھ روپے (شناختی کارڈ پر 37007 روپے) ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہوگی
دل جان سے جب پوچھا گیا کہ نئے ٹیکسز کے بعد اب آئی فون موبائل پر ٹیکس کتنا ہوگا، تو ان کا کہنا تھا کہ آئی فون ایکس میکس اور اوپر کے تمام موبائل فون پانچ سو ڈالرز سے زائد قیمتوں والے ہیں، تو اس پر اب پاسپورٹ پر تقریباً تریسٹھ ہزار اور شناختی کارڈ پر تقریباً اَسی ہزار روپے ٹیکس بنتا ہے، جو پہلے بالترتیب چھتیس ہزار اور چھیالیس ہزار روپے تھا
پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے دسمبر 2021 کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں اٹھارہ کروڑ سے زائد سبسکرابئر (جن کے نام سم رجسٹرڈ ہوں) موجود ہیں، جس میں سے دس کروڑ سے زائد تھری اور فور جی استعمال کرتے ہیں
ایف بی آر کے مطابق موبائل فونز پر ٹیکس لگانے کے بعد ان کی اسمگلنگ بہت حد تک کنٹرول ہوگئی ہے
ایف بی آر کی 2020ع کے ایک رپورٹ کے مطابق جب سے موبائل رجسٹریشن کا سلسلہ شروع ہوا ہے، موبائل کی درآمدات میں اضافہ ہوا ہے
رپورٹ کے مطابق 2019ع میں موبائل فونز کی کمرشل امپورٹ دو کروڑ اَسی لاکھ سے زائد تھی، جبکہ 2018 میں مجموعی طور پر ایک کروڑ ستر لاکھ سے زائد موبائل درآمد کیے گئے، جو 2019ع میں تقریباً 64 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے
ایف بی آر کی اس رپورٹ کے مطابق موبائل فونز پر ٹیکس عائد کرنے کے بعد مقامی سطح پر موبائل مینوفیکچرنگ میں بھی اضافہ ہوا
ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق 2018ع میں مقامی سطح پر پاکستان میں موبائل فونز کے پچاس لاکھ سے زائد یونٹس بنائے گئے، جو 2019ع میں بڑھ کر ایک کروڑ سے زائد ہوگئے
رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ موبائل پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنا ہے، کیونکہ مقامی سطح پر بننے والے موبائل سیٹ پر یہ ڈیوٹی عائد نہیں
ایف بی آر کے 2019ع میں جاری اعداد شمار کے مطابق جولائی سے دسمبر 2019ع تک سب سے زیادہ تقریباً چوالیس لاکھ وہ موبائل فون درآمد کیے گئے، جن کی قیمت تیس ڈالرز سے کم تھی، جو تمام درآمد شدہ موبائل فونز کا 48 فیصد بنتا ہے
اسی طرح تیس ڈالرز سے ایک سو ڈالرز تک کی قیمت کے درمیان سینتیس لاکھ سے زائد، سو سے دو سو ڈالرز کے درمیان کی قیمت کے نو لاکھ تک، ساڑھے تین سو ڈالرز سے پانچ سو ڈالرز تک کے 2897 جبکہ پانچ سو ڈالرز سے زائد قیمت کے بیس ہزار سے زائد یونٹس درآمد کیے گئے
استعمال شدہ موبائل فونز کے صارفین کہتے ہیں کہ ان فونز کی اصل قیمت سے زیادہ ان پر ٹیکس ہے
اس حوالے سے ایف بی آر کے ترجمان عدنان اکرم باجوہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا
پشاور میں موبائل فونز کا کاروبار کرنے والے محمد نبی نے بتایا کہ پہلے سے موبائل فون پر ٹیکس عائد کرنے سے کاروبار ٹھپ ہو گیا، لیکن اب ٹیکس میں اضافے سے یہ کاروبار مفلوج ہو جائے گا کیونکہ ان کے یہاں زیادہ تر متوسط طبقے کے لوگ استعمال شدہ سیٹ خریدتے ہیں
محمد نبی نے بتایا، ’ہمارے پاس باہر سے منگوائے گئے استعمال زدہ آئی فون کے سینکڑوں سیٹ پڑے ہیں، جو دھرے رہ جائیں گے کیونکہ مجھے نہیں لگتا خریدار ڈبل ٹیکس پر آئی فون موبائل خریدے گا۔‘
مقامی سطح پر موبائل فون مینو فکچرنگ کے حوالے سے محمد نبی نے بتایا کہ ان فونز کا معیاراچھا نہیں ہوتا، لہٰذا حکومت کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ ملک میں اچھی کمپنیوں کو موقع دے.