اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ 1839ء میں انگریزوں کے قبضے میں جانے سے پہلے کراچی بس مچھیروں کا ایک عام سا گاؤں تھا۔ تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے۔ درحقیقت کراچی کی تاریخ ڈھائی ہزار سال پرانی ہے اور یہ 1839ء سے قبل بھی پھلتا پھولتا کاروباری مرکز اور ترقی یافتہ قصبہ تھا۔
تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے نام اور ان کے ہجے بھی تبدیل ہوتے گئے جیسے کروچی (Crochey)، کروتچی بے (Krotchey Bay)، کرانجی (Caranjee)، کوراتچی (Koratchey)، کرراچی (Currachee)، کرراچی (Kurrachee)، اور بلآخر کراچی (Karachi)۔
موجودہ کراچی کا سب سے پرانا حوالہ 326 قبل مسیح کا ملتا جب یہاں سکندرِ اعظم کی بحریہ نے قیام کیا تھا۔ وہ فوج سکندر کے قریبی دوست ایڈمرل نیارچس کی قیادت میں انڈس ڈیلٹا سے فرات تک جارہی تھی۔ ڈین آف ویسٹمنسٹر ڈاکٹر ولیم ونسنٹ (1739ء تا 1815ء) کا کہنا ہے کہ کراچی جس کا پرانا نام کروکالا بھی تھا ’بحر ہند کی پہلی بندرگاہ تھا، جہاں کوئی یورپی بحریہ آئی تھی‘۔ انہوں نے اس کے قیام کی درست تاریخ بھی بیان کی جو 8 اکتوبر 326 قبل مسیح تھی۔
پھر نسبتاً ماضی قریب میں شاہ عبد اللطیف بھٹائی (1986ء تا 1752ء) نے ’کلاچی جو کُن‘ کا ذکر کیا ہے جس کا مطلب ہے ’کراچی کا بھنور‘ جس میں ایک سمندری بلا چُھپی رہتی ہے جو بحری سفر کرنے والوں کا حوصلہ آزماتی ہے۔ ان کی شاعری کے انتخاب ”شاہ جو رسالو“ میں اس حوالے سے”گھاتُو“ کے نام سے ایک مکمل باب یا سُر موجود ہے۔
بہرحال ان حوالوں کے باوجود بھی اٹھارویں صدی کے آواخر میں انگریزوں کی آمد اور کراچی کی ترقی سے پہلے تک کراچی کی تاریخ گمنام ہی ہے۔ اس مقام میں انگریزوں کی دلچسپی کی بنیادی وجہ کراچی بندرگاہ کا محل وقوع تھا جو برِصغیر کے انتہائی مغربی جانب موجود تھی۔ فارس کے ساتھ چپقلش اور افغانستان کے راستے ہندوستان پر روس کی چڑھائی کے خوف کے پس منظر میں یہ جگہ بہت اہمیت رکھتی تھی۔
اس اہمیت اور انگریزوں کی دلچسپی کی وجہ سے 1799ء سے 1839ء تک کئی انگریز افسران نے کراچی کا دورہ کیا اور ان کی یادداشتیں سندھ میں انگریز حکمرانی سے قبل کراچی کے معاشرے اور ثقافت پر روشنی ڈالتی ہیں۔ یہاں ان یادداشتوں کی بنیاد پر اس وقت کے کراچی کی ایک تصویر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
کراچی کا محل وقوع
چارلس میسن نے 1830ء میں کراچی کا سفر کیا اور وہ کراچی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ کچی مٹی کی دیوار سے گھرا ہوا ہے اور اس دیوار میں مینار بھی موجود ہیں جن پر توپیں نصب ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کچی مٹی کے قلعے میں ’ایک دوسرے کے بالمقابل دو دروازے ہیں، جن میں سے ایک مشرق کی جانب اور دوسرا مغرب کی جانب ہے‘۔ شہر کی مرکزی شاہراہ یا بازار ایک دروازے سے دوسرے دروازے تک جاتی ہے۔ ’کراچی کا بازار بہت تنگ ہے اور اکثر مقامات پر گرمی سے بچنے کے لیے سائبان لگا ہے۔ یہاں کئی دکانیں موجود ہیں اور یہاں کئی معتبر تاجر اور بینکر بیٹھتے ہیں‘۔
اکثر لوگ شہر کی دیوار کے اندر ہی رہتے تھے لیکن کئی غریب لوگ اس کے باہر بھی رہائش اختیار کرتے تھے۔ یہاں کے گھروں کی ایک خصوصیت حیدر آباد کے گھروں کی طرح چھتوں پر بنا ایک خاص قسم کا ہوا دان تھا جسے مُنگھ کہا جاتا تھا۔ کیپٹن مارٹن نیل گھروں کے طرزِ تعمیر کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’گھر عام طور پر مٹی سے تعمیر کردہ اور سیدھی چھتوں والے ہیں۔ چھتوں پر سمندر کے رخ پر جالیاں لگی ہیں جو ہوا اور روشنی کا باعث بنتی ہیں‘۔
1830ء میں کراچی باغات اور پھل دار درختوں سے گھرا ہوا تھا اور یہاں میٹھے پانی کے چشمے ہوا کرتے تھے۔ ایک یادداشت کے مطابق ’لیاری [لیاری ندی] کے کناروں پر ایک میل تک باغات موجود ہیں۔ زیادہ تر درخت آم کے ہیں اور کچھ املی کے درخت بھی ہیں، کہا جاتا ہے کہ یہاں کا آم بھارت کے عام آموں کی نسبت زیادہ اچھا ہوتا ہے تاہم بمبئی کے آم سے کم تر ہوتا ہے‘۔
کئی برطانوی افسران نے میٹھے پانی کی قلت کا ذکر کرتے ہوئے کراچی کے پانی کے کھارا ہونے کی شکایت کی۔ لیکن برگیڈئیر ویلینٹ نے ایک مختلف زاویہ پیش کیا، اور وہ لکھتے ہیں کہ یہاں ’کئی کنویں موجود ہیں جن کا پانی ہر طرح کے کام میں استعمال ہوسکتا ہے، ان میں سے اکثر کنویں باغات میں موجود ہیں‘۔
انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ زمینی پانی صرف دس سے بارہ فٹ کی گہرائی میں موجود ہے۔
ان کے مطابق ’ہم بہت حیران ہوئے، کیونکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ کراچی کا پانی بہت خراب ہے‘۔ ہوسکتا ہے کہ برگیڈئیر ویلینٹ یہاں بارشوں کے بعد آئے ہوں، جس وقت زمین میں پانی موجود ہوتا ہے۔
کراچی کے لوگ
1838ء میں کمانڈر کارلس نے اپنے مقالے میں کراچی کی آبادی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ یہاں تقریباً ’14 ہزار لوگ رہتے ہیں جن میں سے نصف ہندو ہیں جبکہ باقی آبادی بلوچوں، جوکھیوں، موانوں اور جتوں پر مشتمل ہے‘۔ موانا اور موہانہ سندھی زبان میں مچھیروں اور ملاحوں کو کہتے ہیں، جبکہ جت اونٹ بانوں کو کہا جاتا ہے۔ کراچی سمندر اور زمینی تجارتی راستوں کے سنگم پر موجود تھا اور اس وجہ سے ان دونوں پیشوں کی یہاں بہت اہمیت تھی۔
کراچی کے ہندو اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے کاروبار کا جال برِصغیر کے علاوہ وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے اہم تجارتی مراکز تک بھی پھیلا ہوا تھا۔
ایلگزینڈر بیلی کے مطابق ’ان تاجروں کی مختلف تجارتی مراکز جیسے مسقط، ہرات، کابل، قندھار، ملتان اور دیگر میں ایجنسیاں قائم تھیں‘۔ امیر طبقہ ہونے کے باعث پورے سندھ میں ہندو بہت بااثر تھے تاہم ہندو سندھ کے مسلم حکمرانوں پر بھروسہ نہیں کرتے تھے اور اپنی دولت دیگر علاقوں میں رکھنے کو ترجیح دیتے تھے۔
ایلگزینڈر بیلی کے مطابق وہ ’اپنا پیسہ کئی مقامات پر پھیلا دیتے تھے کہ اگر کبھی کسی گورنر کی جانب سے ان پر بھاری ٹیکس عائد کردیا جائے تو وہ آسانی کے ساتھ اور بغیر کسی بھاری نقصان کے اس علاقے سے نکل سکیں‘۔
اس معاشرے میں مسلمان متوسط طبقے یا نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے، وہ یا تو سرکاری نوکری کرتے تھے یا پھر معمولی کام انجام دے کر گزر بسر کرتے تھے۔ کمانڈر کارلس نے ایک دلچسپ چیز کی نشاندہی کی کہ سندھ کے مسلمانوں نے تو سندھ پر انگریز قبضے کو پسند نہیں کیا تاہم ہندوؤں کو اس سے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ یورپیوں کے ساتھ مسلمانوں کی دشمنی کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ ’انہیں نفرت کا جو احساس متحرک کرتا ہے وہ نفرت صرف یورپیوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ عمومی طور پر دنیا کی ہر اس چیز کے خلاف ہے جو ’سچے مذہب‘ کے فروغ میں رکاوٹ بنے‘۔
کراچی کی آبادی مذہبی طور پر روادار تھی۔ یہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کی کئی عبادت گاہیں موجود تھیں۔ 1938ء میں یہاں مسلمانوں کے پاس اکیس مساجد اور پیروں کے تیرہ مزارات تھے جبکہ ہندوؤں کے پاس بھی اتنی ہی تعداد میں مندر، دھرم شالائیں اور دیگر مقامات تھے۔ دیگر مذاہب کے لیے روادار رہنے کے ساتھ ساتھ ہندوؤں اور مسلمانوں نے اپنی الگ شناخت برقرار رکھی۔ مثال کے طور پر مسلمان داڑھیاں رکھتے تھے جبکہ ہندو شیو کرتے تھے لیکن مونچھیں رکھتے تھے۔ اسی طرح ان دونوں کے لباس میں بھی فرق ہوتا تھا۔
غلاموں کی تجارت
کراچی غلاموں کی تجارت کا بھی ایک مرکز تھا اور یہاں غلامی کو ایک ادارے کی حیثیت حاصل تھی۔ اکثر غلام عرب تاجروں کی کشتیوں میں مسقط سے لائے جاتے تھے۔ کراچی سے کھردرا کپڑا برآمد کیا جاتا تھا اور بدلے میں یہاں افریقی نسل کے غلام لائے جاتے تھے جنہیں شیدی کہا جاتا تھا۔ ایلگزینڈر کے مطابق ’نہ صرف یہاں بہت سے غلام رکھے جاتے ہیں بلکہ یہاں سے ملک بھر میں غلاموں کی فراہمی بھی کی جاتی ہے‘۔ کراچی میں آنے والے غلاموں میں تقریباً 75 فیصد لونڈیاں ہوتی تھیں۔
کراچی میں افریقی نسل کے غلاموں کی قیمت ساٹھ روپے سے ایک سو روپے ہوتی تھی اور اس کا انحصار ان کی طاقت اور شکل و صورت پر ہوتا تھا۔ لوگ کم عمر کے غلاموں کو ترجیح دیتے تھے کیونکہ بڑی عمر کے غلاموں کے بھاگ جانے کا خطرہ رہتا تھا۔ شیدی لڑکے طاقتور اور ذہین ہوتے تھے اور کراچی کا ماہی گیر طبقہ انہیں خریدتا تھا اور ان کی کشتی رانی کی صلاحیتوں کا معترف تھا۔ کسی غلام کی شادی اس کے مالک کی ہی کسی لونڈی سے ہوتی تھی، کیونکہ کسی دوسرے مالک کی لونڈی سے شادی مفادات کے تصادم کا باعث بنتی۔
حبشہ سے لائے جانے والے غلام نسبتاً اعلیٰ درجے کے ہوتے تھے۔ انہیں حبشی کہا جاتا تھا اور بازار میں ان کی قیمت ایک سو ستر سے ڈھائی سو روپے تک ہوتی تھی۔ ان میں لونڈیوں کی مانگ زیادہ ہوتی تھی اور انہیں صرف اعلیٰ طبقے کے لوگ ہی خریدتے تھے۔ مالک کو اپنی لونڈی سے شادی کا اختیار ہوتا تھا اور ان کے بچوں کو گَڈو کہا جاتا تھا، اور یہ گڈو بھی اپنی ماں کی وجہ سے غلام ہی شمار کیے جاتے تھے۔ ایلگزینڈر کے مطابق اگر کوئی گڈو کسی سندی [سندھی] سے شادی کرلے تو ان کے بچوں کو قمبرانی کہا جاتا ہے‘۔
حکومت غلاموں کی تجارت پر ٹیکس وصول کرتی تھی جو حکومتی محصولات کا ایک اہم ذریعہ تھا۔ میروں کے آخری دور میں جب انگریزوں نے غلاموں کی تجارت کے حوالے سے اپنی بندرگاہیں بند کردی تھیں، تب کراچی لائے جانے والے غلاموں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا۔ کمانڈر کارلس کے مطابق ’سال 1837ء میں مسقط اور افریقہ سے تقریباً پندرہ سو غلام کراچی لائے گئے۔
یہاں غلاموں کے حوالے سے ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انہیں گھر کے دیگر افراد کی طرح ہی رکھا جاتا تھا۔ یہ بات درست ہے کہ انہیں کم عمری میں ہی غلاموں کے تاجر، جو اکثر عرب ہوتے تھے، ان کے گھر والوں سے دُور کردیا جاتا تھا تاہم ایلگزینڈر کے مطابق ’ان کے نئے گھروں [کراچی میں] ان کے ساتھ کوئی بُرا سلوک نہیں ہوتا۔ بلکہ ایک ایسی جگہ جہاں بھاگ جانے کے بہت مواقع ہوں کسی مالک کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ غلام کے ساتھ بہتر سلوک رکھے‘۔
سیاسی انتظام
کراچی میں میروں کی جانب سے دو گورنر مقرر تھے۔ ان میں ایک گورنر عسکری معاملات کو دیکھتا تھا جبکہ دوسرا سول معاملات کا ذمہ دار تھا اور نواب کہلاتا تھا۔ گورنر کے اپنی رعایا اور علاقے پر وسیع اختیارات ہوتے تھے تاہم وہ کسی کو سزائے موت نہیں دے سکتا تھا۔ شہریوں کے پاس حیدر آباد میں میروں کے دربار میں اپیل کا حق ہوتا تھا، جہاں شکایات پر فوری کارروائی ہوتی تھی۔
کیپٹن ہارٹ نے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے جس میں نواب سید غلام شاہ نے ایک ہندو لڑکے کو جبراً مسلمان کیا۔ کراچی کے ہندوؤں نے اس کے خلاف اپیل کی اور احتجاجاً کاروبار بند رکھے۔ میروں نے اس کا فوری نوٹس لیا اور گورنر کو اس کے عہدے سے ہٹا دیا۔ ایک اور واقعے میں کراچی کے ایک نواب نے کسی نچلی ذات کے ہندو کے ساتھ بُرا سلوک کیا۔ جب یہ معاملہ حیدرآباد کے دربار میں پہنچا تو نواب کی سخت سرزنش ہوئی اور اسے اپنی غلطی کا ازالہ کرنا پڑا۔
کراچی کی طویل اور شاندار تاریخ سندھ میں انگریز دور سے کہیں زیادہ دُور تک پھیلی ہوئی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اسکالرز اور حکومت کی طرف سے اس کو مناسب توجہ نہیں دی گئی۔ اس عظیم شہر کی جڑوں کو مزید گہرائی میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
نوٹ: یہ مضمون 22 اگست 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا، جسے ادارے کے شکریے کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے