سیاسی یا انسانی مسئلہ
کچھ لوگ ان اسکیموں کے حق میں اور کچھ لوگ مخالفت میں بیان بازیوں کو سیاسی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ مسئلہ سیاسی لوگوں کا پیدا کردہ ہے، لیکن یہ خالصتاََ انسانی مسئلہ ہے۔ اس کے اثرات سیاست پر کم اور عام لوگوں پر مکمل پڑیں گے۔ کیونکہ فطرت کی تباہی سے براہ راست انسان متاثر ہوا کرتے ہیں۔ اگرچہ سیاست بھی لوگوں کے لیے کی جاتی ہے، جب لوگ متاثر ہونگے تو لازماََ سیاست بھی متاثر ہوگی۔ لیکن یہ مسئلہ خالصتاََ انسانی مسئلہ ہے اور اسے انسانیت کے فائدے کے لیے حل ہونا چاہیے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی قانون ہے نہیں، اگر ہے بھی تو وہ اس قدر موثر نہیں!
تو سوال یہ ہے کہ قانون کون بنائے گا؟ اکثر دیکھا گیا ہے کہ قانون وہ لوگ بناتے ہیں، جو قانون کی الف بے سے بھی واقف نہیں، جنہیں ہم منتخب نمائندے کہتے ہیں اور وہ ہر چیز کو اپنے مفادات کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس کے لیے باقائدہ ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دی جائے اور وہ تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد قانون بنائے اور حتمی شکل ایوان کو بھیج دیں اور وہاں سے اس کی منظوری لے لیں۔ لیکن مسئلہ اس قانون پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔
مجھے امید تو نہیں کہ منتخب نمائندوں کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی پیش رفت کی جائے (اگرچہ انہی ایوانوں میں ایماندار لوگوں کی کمی بھی نہیں ہے، مگر شاید اکثریت سے محرومی ان کی راہ میں رکاوٹ ہے) البتہ مجھے اتنا گمان ہے کہ کوئی نہ کوئی درد مند اس سلسلے میں پیش رفت کرے گا۔ اگر حالات اس کے حق میں ہوئے تو پیش رفت کے بہتر نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔ لیکن میں ایک مرتبہ پھر یہی کہوں گا کہ یہ سیاسی مسئلہ ہرگز نہیں ہے، یہ انسانی مسئلہ، اسے اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
ذمہ دار کون؟
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ”بحریہ ٹاؤن“ کو سندھ سرکار کا انتظامی اور ادارہ جاتی تعاون حاصل ہے، بلکہ سندھ سرکار نے تمام اداروں اور انتظامیہ کو اس بات پر پابند کیا ہے کہ وہ بحریہ ٹاؤن کے سرپرست اعلیٰ کے ہر حکم کی تعمیل میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔ غالباََ اس ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ ادارے اور انتظامیہ احکامات کے بجا آوری میں پیش پیش ہیں، کیونکہ اس حکم کی تعمیل میں انہیں تصور سے زیادہ فائدہ بھی ملتا ہے۔
بات کو گھما پھرا کر کہنے کی ضرورت نہیں، کہ ذمہ دار کون ہے۔ بحریہ ٹاؤن، جو پہاڑوں کو مسمار کرنے اور ماحولیات کو بھاری مشینوں کے ذریعے کچلنے میں مصروف ہے، اس کی براہ راست ذمہ دار وہ سیاسی پارٹی ہے، جو سندھ میں برسرِ اقتدار ہے۔ اس پارٹی کی بنیادی پالیسی میں مقامی لوگوں کے لیے کسی قسم کی رعایت کی کوئی گنجائش نہیں البتہ مقامی لوگوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس پارٹی کے مقامی رہنما بھی وقتی لالچ میں استعمال ہورہے ہیں (یہ بات بھی سننے میں آئی ہے کہ ان مقامی رہنماؤں کو ”دبئی وزٹ“سے خریدا جاتا ہے) جہاں تک دیگر پارٹیوں کا تعلق ہے، جن میں ایک پارٹی کراچی میں اکثریت کی دعویدار ہے، اس کے مفادات تو براہ راست بحریہ ٹاؤن سے منسلک ہیں، اس سے کسی قسم کی امید نہیں۔ برسر اقتدار پارٹی کے مقامی رہنما یا تو مکمل بے حس ہیں یا پھر انتہائی نااہل ہیں اور ان نااہلوں پر وتایو فقیر کا وہ واقعہ سوفیصد صادق آتا ہے، جس میں وہ کہتا ہے ”میں تمہیں جو ناپسندیدہ لقب دینے والا تھا وہ تو تم پہلے سے ہی ہو“۔ اس لیے ہم سندھ سرکار کو ہی ان تباہ کاریوں کا ذمہ دار جانتے ہیں۔ البتہ وہ تمام لوگ قابل تحسین ہے (خواہ ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو) جو فطرت کی تباہی پر تشویش کا شکار ہیں۔
ماحولیاتی تباہی
اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کسی زمانے میں ملیر جنّت نظیر ہوا کرتا تھا۔ ہر طرف سرسبز اور لہلہاتے کھیت ہوا کرتے تھے۔ بارشیں اپنے مقررہ وقت پر ہوا کرتی تھیں، کیونکہ قدرتی ماحول برقرار تھا۔ جب کراچی شہر میں درختوں کی جگہ عمارتیں اگنا شروع ہوئیں اور ان عمارتوں کو بنانے کے لیے ریتی و بجری کی ضرورت پڑی، جسے ملیر ندی سے حاصل کیا جانے لگا۔ بے دریغ ریتی بجری نکالنے سے زیر زمین آبی ذخائر متاثر ہوئے۔ رفتہ رفتہ کھیت ویران ہونے لگے۔ یہ تو ابتدا تھی اس فطرت میں دخل اندازی کی.. جب مداخلت زیادہ ہوئی تو بارشیں کم ہونے لگیں۔
کراچی کے میدانی علاقوں کے لوگ کھیتی باڑی سے منسلک تھے اور کوہستان کی معیشت کا دارومدار گلہ بانی پر تھا۔ جب بارشیں کم ہونا شروع ہوئیں تو ایک طرف کھیت ویران ہونے لگے اور دوسری طرف کوہستان میں چارے کی کمی پیدا ہوئی۔
موجودہ وقت میں اس صورتحال نے تشویش ناک صورت اختیار کرلی ہے۔ رہی سہی کسر ان بھاری مشینوں نے پوری کرلی، جو ترقیاتی اسکیموں کے نام سے فطرت کو تباہ کر رہے ہیں۔ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے دیہی علاقوں میں پانی کی قلت تو ہے ہی، لیکن شہر کے بیشتر حصے آج بھی واٹر سپلائی سے محروم ہیں ان علاقوں میں پانی کی حصول کا واحد ذریعہ بورنگ ہے۔ چند سال پیشتر ان علاقوں میں پانی پچاس فٹ زیرزمین دستیاب ہوا کرتا تھا۔ مگر اب وہ پانی ایک سو بیس فٹ پر بھی بمشکل دستیاب ہے، یعنی پانی تین گنا نیچے جاچکا ہے۔ جبکہ دیہی علاقوں میں زیر زمین پانی اب چھ سو فٹ گہرائی تک چلا گیا ہے. افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ سال کاٹھور اور گڈاپ کے پیشتر علاقوں میں بارش کے بجائے صرف اولے پڑے اور کراچی شہر میں کئی لوگ ”جول“ (لو لگنے کی بیماری) سے زندگیوں سے محروم ہوئے۔یہ سب ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات ہیں۔
فطرت کُشی
کراچی شہر کی بیشتر اسکیموں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تمام قانونی تقاضے پورے کئے بغیر شروع کی جاتی ہیں۔ اکثر و بیشتر جب وہ منصوبے مکمل ہوتے ہیں، تب جاکر انتظامیہ کاروائی کا ارادہ کرتی ہے. ایسی صورت میں اسے اکثر و بیشتر تنقید کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ لیکن جو اسکیمیں کوہ باران کے سلسلہ میں شروع کی جاچکی ہیں، وہ عالمی قوانین کے منافی ہیں۔ عالمی قوانین کے مطابق پہاڑوں کو مسمار کرنے کی بالکل اجازت نہیں اور قدرتی ماحول میں مداخلت بھی غیر قانونی ہے، لیکن یہاں پہاڑوں کو بلڈوز کیا جارہا ہے اور ندی نالوں کی ہئیت تبدیل کی جارہی ہے، یہ سب کچھ فطرت کُشی کے مترادف ہیں۔ جنگلی حیات چرند پرند سب اس عمل سے تو متاثر ہونگے ہی، لیکن سب سے زیادہ ان پہاڑوں میں رہنے والے متاثر ہونگے۔
لوگ اسے خواہ ترقیاتی منصوبوں کا نام دیں یا عوامی منصوبے کہیں، لیکن حقیقت میں نہ یہ عوامی منصوبے ہیں اور نہ ہی ترقیاتی منصوبے ہیں (اس بات سے انکار نہیں کہ ان منصوبوں میں کچھ لوگوں کا ذاتی فائدہ تو ہے۔ لیکن عام آدمی کو اس سے کوئی فائدہ نہیں) ان منصوبوں سے مقامی لوگ نہ صرف اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے، بلکہ مستقبل میں یہ علاقے ان کے لیے نو گو ایریا بن جائیں گے۔ البتہ اس بات کے سو میں سے ایک فیصد امکان نہیں، گمان ہے کہ یہاں بسنے والوں لوگوں کی آئندہ نسل کو ان خوبصورت روڈوں پر جاڑو دینے کے لیے بطور نوکر رکھا جائے۔
در حقیقت یہ منصوبے فطرت کُشی کے منصوبے ہیں۔ ممکن ہے یہ بات آج عام لوگوں کی سمجھ میں نہ آئے، خاص طور پر ان لوگوں کی سمجھ میں، جو اپنی دنیا میں مگن ہوں اور ان کا دنیا سے اس قدر رابطہ نہیں ہے۔ لیکن جو باشعور ہیں وہ تشویش میں مبتلا ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ تمام اسکیمیں ”فطرت کُشی“ کے زمرے میں آتی ہیں۔
بڑی تباہی کے خدشات
دنیا میں ہر عمل کا کوئی نہ کوئی رد عمل سامنے آتا ہی ہے، خواہ وہ منفی ہو یا کہ مثبت ہو۔ جب انسان فطرت کو تہہ و بالا کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو فطرت کی طرف سے بھی اس سے کئی گنا زیادہ رد عمل سامنے آتا ہے۔
بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے کے نام سے جس طرح فطرت کُشی کا عمل جاری ہے، پہاڑوں پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں، وہ پہاڑ، جنہیں زمین کی میخیں یعنی کیل کہا گیا ہے، جو قدرت کی طرف سے زمین کا توازن برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جب زمین کا توازن بگڑ جائے گا تو وہ پورا علاقہ بگڑنے کا خطرہ موجود ہوگا۔
کراچی جو کہ ایک گنجان آباد شہر ہے اور وہ انہی پہاڑوں کے دامن میں ہے، جنہیں بلڈوز کیا جا رہا ہے۔ اگر خدانخواستہ اس عمل کا رد عمل سامنے آیا تو اس آبادی کا وہ حشر ہوگا، جس کا عام طور پر تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو، لیکن انسان ازل سے اپنی تباہی کا سامان خود کرتا چلا آ رہا ہے۔
ہم حکومت سندھ و مرکزی حکومت اور اس کے اداروں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس تشویش ناک صورتحال پر فوری اقدام کریں۔ اور اس شہر کے باشعور لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بھی اپنا کردار ادا کریں، کیونکہ وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ اور ساتھ ساتھ ماہرین موسمیات اور ایسے ہی دیگر ماہرین سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس صورتحال پر غور کریں۔
جو لوگ ذرہ برابر بھی سمجھ اور شعور رکھتے ہیں، ان کے لیے یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ وہ بارہا اپنی اس تشویش کا اظہار مختلف طریقوں سے کر چکے ہیں۔ لیکن اب تک اس طرف کسی نے توجہ نہیں دی۔ خاص طور پر پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرونک میڈیا، سب خاموش ہیں۔