کراچی – 14 اگست 1969 کو کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں پی ڈبلیو ڈی اور حیدرآباد کی ٹیموں کے درمیان قائداعظم ٹرافی کا سہ روزہ میچ شروع ہوا
اس میچ میں ایک سولہ سالہ لڑکا اپنے فرسٹ کلاس کریئر کا آغاز کر رہا تھا۔ اس نے میچ کے تینوں دن اپنی غیر معمولی اور خدا داد صلاحیتوں کا ایسا بہترین مظاہرہ کیا، کہ ہر شخص یہی کہنے پر مجبور ہو گیا کہ یہ لڑکا پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم میں اپنی جگہ بنانے میں ضرور کامیاب ہوگا
یہ کرکٹر آفتاب بلوچ تھے، جنہوں نے پی ڈبلیو ڈی کی واحد اننگز میں نویں نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے 77 رنز ناٹ آؤٹ کی شاندار اننگ کھیلی اور ارشد بشیر کے ساتھ نویں وکٹ کی ناقابل شکست شراکت میں 162 رنز جوڑے
آفتاب بلوچ نے یہیں پر بس نہیں کی، بلکہ اپنی آف اسپن بولنگ کے جادو سے حیدرآباد کی پہلی اننگز میں صرف 33 رنز دے کر چھ کھلاڑیوں کو چلتا کیا اور دوسری اننگز میں انہوں 46 رنز دے کر چھ وکٹیں حاصل کر کے اپنی ٹیم کی ایک اننگ اور 233 رنز کی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا
آفتاب بلوچ کا دوسرا فرسٹ کلاس میچ بھی اس اعتبار سے یادگار رہا کہ انہوں نے قلات کے خلاف اپنی پہلی فرسٹ کلاس سنچری اسکور کرنے کے ساتھ ساتھ چار وکٹیں بھی حاصل کیں
آفتاب بلوچ کی شاندار فارم اگلے دو میچوں میں بھی موجزن دکھائی دی، انھوں نے کوئٹہ کے خلاف 104 اور سرگودھا کے خلاف پہلی اننگز میں 120 اور دوسری اننگز میں 51 رنز اسکور کر کے اپنی دھاک بٹھا دی
اسی سیزن میں پاکستان کے دورے پر آنے والی نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے خلاف آفتاب بلوچ کی سلیکشن یقینی ہو چکی تھی
عبدالحفیظ کاردار فیصلہ کر چکے تھے کہ اس نوجوان کو ٹیسٹ کرکٹ میں مزید انتظار کیے بغیر موقع دینا ہے اور یوں ڈھاکہ میں کھیلے گئے تیسرے ٹیسٹ میں آفتاب بلوچ نے 16 سال اور 221 دن کی عمر میں اپنے ٹیسٹ کریئر کا آغاز کیا
اس وقت ان سے کم عمری میں ٹیسٹ کیپ حاصل کرنے والے صرف مشتاق محمد تھے جنھوں نے سنہ 1959ع میں ویسٹ انڈیز کے خلاف 15 سال اور 124 دن کی عمر میں ٹیسٹ کریئر کی ابتدا کی تھی
آفتاب بلوچ نے اپنے اولین ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 25 رنز بنائے۔ ڈھاکہ ٹیسٹ کے بعد آفتاب بلوچ کو اگلا ٹیسٹ کھیلنے کے لیے پانچ سال انتظار کرنا پڑا
یہ اس وقت ممکن ہوا جب سنہ 1975ع میں پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے خلاف لاہور میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں انہیں پاکستانی ٹیم میں شامل کر لیا گیا
اس میچ کی دوسری اننگز میں آفتاب بلوچ نے اینڈی رابرٹس، بوائس، ہولڈر اور لانس گبز کے تجربہ کار بولنگ اٹیک کے خلاف ناقابل شکست 60 رنز اسکور کیے
آفتاب بلوچ نے یہ ذمہ دارانہ اننگ ایک ایسے وقت میں کھیلی تھی، جب پاکستانی ٹیم پہلی اننگز میں پندرہ رنز کے خسارے کے بعد دوسری اننگز میں بھی مشکلات سے دوچار تھی
اس موقع پر آفتاب بلوچ نے مشتاق محمد کے ساتھ 116 رنز اور کپتان انتخاب عالم کے ساتھ 40 رنز کی شراکت بنا کر صورتحال کو بہتر بنایا تھا، جس کے نتیجے میں پاکستانی ٹیم ویسٹ انڈیز کو 359 رنز کا ہدف دے کر میچ ڈرا کرنے کی پوزیشن میں آ گئی تھی
حیران کن طور پر آفتاب بلوچ اس ٹیسٹ کے بعد مزید ٹیسٹ کرکٹ نہ کھیل سکے اور ان کی کرکٹ صرف ڈومیسٹک کرکٹ تک محدود ہو گئی
اپنے ان دو ٹیسٹ میچوں کے درمیانی عرصے میں انہوں نے سنہ 1974ع میں پاکستانی ٹیم کے نمبر دو وکٹ کیپر کے طور پر انگلینڈ کا دورہ کیا۔ وسیم باری کی موجودگی کے باعث انہیں چند کاؤنٹی میچوں میں ہی کھیلنے کا موقع مل سکا
آفتاب بلوچ کا شمار دنیا کے ان آٹھ بلے بازوں میں ہوتا ہے ، جنہوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں چار سو یا اس سے زائد رنز کی اننگز کھیلی ہیں۔ ویسٹ انڈیز کے برائن لارا اور آسٹریلیا کے بل پونسفرڈ نے دو مرتبہ یہ اعزاز حاصل کیا ہے
آفتاب بلوچ کو بہرحال یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ فرسٹ کلاس کرکٹ کی ایک اننگز میں چار سو یا زائد رنز بنانے والے دنیا کے سب سے کم عمر بلے باز ہیں۔ اس وقت ان کی عمر صرف بیس سال تھی
یہ 20 فروری 1974 کی بات ہے، جب آفتاب بلوچ نے قائد اعظم ٹرافی میں سندھ کی طرف سے کھیلتے ہوئے بلوچستان کے خلاف 428 رنز کی شاندار اننگز کھیلی جس میں 25 چوکے شامل تھے
جب میچ کے تیسرے دن آفتاب بلوچ چار سو رنز کی طرف بڑھ رہے تھے، تو لوگوں کے ذہن میں حنیف محمد کے 499 رنز کا ورلڈ رکارڈ موجود تھا
خود حنیف محمد نیشنل اسٹیڈیم میں موجود تھے، تاہم آفتاب بلوچ ان کا یہ رکارڈ توڑنے میں کامیاب نہ ہو سکے
انگریز مصنف رچرڈ ہیلر نے اپنی کتاب ”وائٹ آن گرین“ میں لکھا ہے کہ جب حنیف محمد نے 499 رنز کی اننگز کھیلی تھی تو انہیں اس وقت دس ہزار روپے کا سرکاری انعام ملا تھا
جبکہ آفتاب بلوچ کی 428 رنز کی اننگز پر انہیں محض پانچ سو روپے انعام میں ملے، جبکہ اس زمانے میں انہیں فرسٹ کلاس میچ کھیلنے کے ایک دن کے صرف تیس روپے ملا کرتے تھے
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اننگز میں آفتاب بلوچ کے ساتھ بیٹنگ کرنے والے سولہ سالہ نوجوان بیٹسمین جاوید میانداد نے اپنی پہلی فرسٹ کلاس سنچری بنائی تھی
آفتاب بلوچ کے والد محمد شمشیر بلوچ، جو ایم ایس بلوچ کے نام سے مشہور تھے، فاسٹ بولر کی حیثیت سے رانجی ٹرافی میں اور پھر پاکستان بننے کے بعد فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلے تھے
آفتاب بلوچ کا کہنا تھا کہ ان کے والد ان کے کوچ تھے، جن سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا تھا، اس کے علاوہ انہوں نے مشہور کوچ ماسٹر عزیز سے بھی رہنمائی لی تھی
آفتاب بلوچ کے بڑے بھائی کریم اللہ بلوچ نے بھی چار فرسٹ کلاس میچ کھیلے تھے
آفتاب بلوچ نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں بیس سنچریاں اور پینتالیس نصف سنچریاں اسکور کیں، تاہم ان کا فرسٹ کلاس کریئر صرف بتیس سال کی عمر میں اختتام کو پہنچا
بعدازاں وہ پاکستانی انڈر-19 ٹیم کے مینیجر اور جونیئر سلیکشن کمیٹی کے رکن بھی رہے
آفتاب بلوچ گذشتہ کئی روز سے ہسپتال میں زیر علاج تھے، جہاں آخری چند روز سے انہیں وینٹیلیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ پیر (25 جنوری) کے روز اڑسٹھ برس کی عمر میں ان کی روح پرواز کر گئی.