محققین نے متنبہ کیا ہے کہ آب ہوا کے بحران اور بدلتے موسمی حالات کے باعث ایمیزون کے جنگلات کا بڑا حصہ اپنی منفرد پہچان کھو کر جنگل سے ایک ایسے کھلے میدان میں تبدیل ہو سکتا ہے, جس میں اکا دکا درخت ہی اگے ہوں.
بارشوں کے سہارے جیتے جنگلات بارشوں کے کم ہونے اور نمی کی سطح میں ہونے والی تبدیلیوں کے معاملے میں انتہائی حساس ہوتے ہیں. اس کے علاوہ آگ اور طویل خشک سالی کے نتیجے میں ان علاقوں میں درخت ناپید ہو سکتے ہیں، ایمیزون کے بارے میں سوچا جا رہا تھا کہ ایسی تبدیلیاں ممکنہ طور پر ابھی کئی دہائیاں دور ہیں
لیکن نئی تحقیق کے مطابق بدلتے موسمی حالات اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، جس خطرے کو ابھی دہائیوں کے فاصلے پر سمجھا جا رہا تھا، وہ خطرہ ایمیزون کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے
جریدے نیچر کمیونی کیشنز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ، ایمیزون رین فاریسٹ کا کم از کم چالیس فیصد علاقہ اب اس مقام پر پہنچ چکا ہے، جہاں یہ اکا دکا درخت رکھنے والا میدان بن جائے گا
اگرچہ ایمیزون کے جنگل کو کھلے میدان میں تبدیل ہوتے ہوتے بھی دہائیاں لگ جائیں گی، لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ اگر ایک بار یہ عمل شروع ہو گیا تو اسے روکنا انتہائی مشکل ہوگا
جنگلات، درختوں سے خالی میدان کے مقابلے میں نہ صرف مختلف اقسام کے جانوروں کی حفاظت کرتے ہیں بلکہ ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے میں بہت بڑا کردار بھی ادا کرتے ہیں
بدلتے موسمی حالات اور آب و ہوا کی وجہ سے ایمیزون کے کچھ حصوں میں پہلے کی نسبت بہت کم بارش ہورہی ہے۔ کمپیوٹر ماڈلز اور اعداد و شمار کے تجزیوں پر مبنی اسٹاک ریزیلیئینس سینٹر کے زیر اہتمام اس تحقیق کے مطابق تقریبا چالیس فیصد جنگل میں بارش اس سطح پر پہنچ چکی ہے جہاں رین فاریسٹ کی جگہ کھلے میدان (سوانا) موجود ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
پچھلے سال ، برازیل کے صدر ، جیر بولسنارو نے متنبہ کیا تھا کہ آگ اور لاگرز کی وجہ سے ایمیزون کی مسلسل تباہی سے بارشیں جنگل سے اپنا رخ بدل سکتی ہیں ۔ اس سال ایمیزون میں لگنے والی آگ ایک دہائی میں بدترین آگ تھی ، پچھلے سال کے مقابلہ میں آگ کے ہاٹ سپاٹ میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اس مطالعے کے مرکزی مصنف ایری اسٹال کا کہنا ہے کہ رین فاریسٹ کی ماحولیات اگرچہ وہ صحیح آب و ہوا میں بارشوں کا اپنا ایک نظام پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، لیکن غیر موافق حالات میں ان کے خشک ہونے کا بھی خطرہ موجود ہے.
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا "جیسے جیسے جنگلات ایک خطے میں بڑھتے اور پھیلتے ہیں اس سے بارش متاثر ہوتی ہے۔ جنگلات اپنی بارش کا باعث بنتے ہیں کیونکہ پتے پانی کے بخارات کو پروڈیوس کرتے ہیں اور یہ بارش برسنے کا سبب بنتے ہیں اور بارش کا مطلب ہے کم آگ اور زیادہ جنگلات!
لیکن اگر بارش کا سبب بننے والے بڑے علاقے تباہ ہوجاتے ہیں تو اسی کے مطابق اس خطے میں بارش کی شرح میں کمی آتی ہے۔
اسٹال کا کہنا تھا کہ خشک موسمی حالات جنگل اور ماحولیاتی جی بحالی کو مشکل بنا دیتے ہیں ، ایک بار جب جنگلات کے سکڑنے کا عمل حد عبور کر جائے اور یہ لکڑی اور گھاس کے میدان میں تبدیل ہوجائے تو قدرتی طور پر اس کے سابقہ حالت کی طرف لوٹنے کا امکان نہیں ہے۔
تحقیق کے دوران انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ اگر گرین ہاؤس گیس کا اخراج بڑھتا رہا تو کیا ہونے کا امکان ہے؟ پتہ چلا کہ درختوں کی معدومی کے بعد جنگلات کی افزائش کی صلاحیت بہت کم ہوجائے گی۔
اس مقالے کے شریک مصنف ، اسٹاک ہوم ریزیلیئینس سینٹر کے انگو فیٹزر کا کہنا ہے کہ اب ہم سمجھ گئے ہیں کہ تمام براعظموں میں برساتی جنگلات عالمی سطح پر تبدیل ہوتے موسمی حالات کے حوالے سے انتہائی حساس ہیں اور بدلتے موسمی حالات سے ان کی موافقت پیدا کرنے کی صلاحیت تیزی سے ختم ہو سکتی ہے۔ ایک بار یہ صلاحیت ختم ہوجانے کے بعد ، ان کی بازیافت کو اپنی اصل حالت میں واپس آنے میں کئی دہائیاں لگیں گی۔ برساتی جنگلات ہی جنگلی حیات کی آماجگاہ اور ان کے پنپنے کی جگہ ہیں، اگر یہ جنگلات ختم ہو گئے تو یقینی طور پر جنگلی حیات ہمیشہ کے لیے معدوم ہو جائے گی.