برسٹل – برطانوی سائنسدانوں نے ایک تازہ تحقیق سے دریافت کیا ہے کہ کم عمری میں سگریٹ نوشی شروع کرنے والوں کی عادت، ان کی تیسری نسل میں موٹاپے کو جنم دے سکتی ہے
بظاہر یہ نتائج عجیب و غریب لگتے ہیں، لیکن یہ نتائج مفروضے پر مبنی قطعاً نہیں ہیں، بلکہ ان کے لیے ماہرین نے دہائیوں کے دوران، نسل در نسل صحت اور روزمرہ عادات سے متعلق جمع کی گئی معلومات کا تجزیہ کیا ہے
برسٹل یونیورسٹی، برطانیہ میں کی گئی اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ تیرہ سال یا اس سے کم عمر میں سگریٹ نوشی شروع کرنے والے مردوں (لڑکوں) کی پوتیوں کو سترہ اور چوبیس سال کی عمر میں زائد وزنی (اوور ویٹ) اور موٹاپے جیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا
ان کی نسبت جن مردوں (لڑکوں) نے تیرہ سے سولہ سال کی عمر میں سگریٹ نوشی شروع کی تھی، ان کی پوتیوں میں یہ مسائل دیکھے نہیں گئے
اسی طرح بہت کم عمری میں سگریٹ نوشی کی ابتداء کرنے والے لوگوں کی پڑنواسیوں (نواسیوں کی بیٹیوں) میں بھی سترہ اور چوبیس سال کی عمر میں جسمانی چربی زیادہ دیکھی گئی
اس تحقیق میں حیرت انگیز بات یہ سامنے آئی کہ لڑکوں یعنی پوتوں، نواسوں اور پڑنواسوں وغیرہ میں اپنے بزرگوں کی سگریٹ نوشی کے ایسے کوئی اثرات نہیں دیکھے گئے
ماہرین کو یہ مشاہدہ بھی ہوا کہ درمیان کی نسلوں نے سگریٹ نوشی کی ہو یا نہ کی ہو، ہر صورت میں بڑے بزرگوں کی اس عادت کے نتائج تیسری اور چوتھی نسل میں ظاہر ہو رہے تھے
یہ اپنی نوعیت کا وسیع مطالعہ ضرور ہے، لیکن ایسا نہیں کہ یہ اس حوالے سے سب سے پہلا مطالعہ ہے
یاد رہے کہ قبل ازیں 1990ع کی دہائی میں ایک تحقیق کے دوران جمع کیے گئے اعداد و شمار کے تجزیئے سے معلوم ہوا تھا کہ جن لڑکوں (مردوں) نے گیارہ سال کی عمر میں سگریٹ نوشی شروع کردی تھی، تو ان کے بیٹے بلوغت کی عمر کو پہنچے پر زیادہ وزنی اور زیادہ موٹے ہوگئے تھے جبکہ ان میں جسمانی چربی کی مقدار بھی دوسرے لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ تھی
آن لائن ریسرچ جرنل ’سائنٹفک رپورٹس‘ میں شائع ہونے والی اس تحقیق سے اتنا تو معلوم ہوا ہے کہ اگر کسی خاندان کے بزرگ، بہت کم عمری میں تمباکو اور سگریٹ نوشی شروع کردیں تو اس کے اثرات کئی نسلوں تک پہنچتے ہیں، لیکن اس کی وجہ اب تک واضح نہیں ہو سکی
اس تحقیق کی مرکزی مصنفہ پروفیسر ڈاکٹر جین گولڈنگ ہیں، جنہوں نے واضح کیا ہے کہ یہ تمام نتائج صرف ایک ڈیٹا سیٹ (اعداد و شمار کے ایک مجموعے) کی بنیاد پر اخذ کیے گئے ہیں
البتہ جب تک اسی طرح کے دوسرے ڈیٹا سیٹس سے یہ بات ثابت نہ ہوجائے، تب تک ان نتائج کو حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا.