کراچی – دھابیجی میں مختلف دیہاتوں کو فوجی مشقوں، تربیت گاہوں اور فائرنگ رینج فیلڈ بنانے کے حوالے سے جاری نوٹیفکیشن کے خلاف دائر درخواستوں پر جواب دینے کے لیے سندھ ہائی کورٹ نے سیکریٹری دفاع کو نوٹس جاری کردیا ہے
تقریبا ایک سو پندرہ درخواست گزاروں نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں فائرنگ رینج فیلڈ اور دیگر فوجی تربیتوں کے لیے زمین کی اجازت دینے کے باعث ان کے گوٹھ متاثر ہو رہے ہیں
جسٹس سید حسن اظہر رضوی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سیکریٹری دفاع کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کی ہدایت کی ہے
ملٹری اسٹیٹ افسر کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ دھابیجی میں پچاس ہزار چھ سو ایکڑ زمین وزارت دفاع کے لیے مختص تھی اور یہ ہی زمین فوجی حکام کو فائرنگ رینج اور فوجی مشقوں کے مقاصد کے لیے 2004ع میں جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق الاٹ کی گئی ہے
ان کا مزید کہنا تھا کہ پچاس ہزار چھ سو ایکڑ میں سے ساڑھے تیرہ ہزار ایکڑ زمین سندھ حکومت کی جانب سے بغیر کسی معاوضے کے دفاعی مقاصد کے لیے وزارت دفاع کو ٹرانسفر کی گئی، جس کی ریونیو اتھارٹیز کی جانب سے ملکیت بھی تبدیل کردی گئی ہے
ان کا مزید کہنا تھا کہ درخواست گزاروں کا دعویٰ قانونی حقداری دستاویزات کے بغیر ہے اور متنازع زمین وفاقی حکومت کی ملکیت ہے، وفاقی حکومت اور وزارت دفاع کی پیشگی اجازت کے بغیر سندھ حکومت یا اور کسی محکمے کی جانب سے دائرہ اختیار استعمال کرنے کی کوشش کرنا غیر قانونی ہے
تاہم ڈپٹی اور اسسٹنٹ کمشنر ملیر اور بن قاسم نے اپنی رپورٹس میں کہا ہے کہ وزارت دفاع کے دعووں کی بنیاد پر دھابیجی فائرنگ رینج فیلڈ کے حکام نے پچاس ہزار سے اکیاون ہزار ایکڑ زمین کے ارد گرد پلر بنا دیے ہیں اور اس علاقے میں مختلف منظور شدہ گاؤں، قبولی زمین، قبرستان اور کئی تالاب بھی موجود ہیں
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سندھ یوٹیلائزیشن ڈپارٹمنٹ نے ابتدائی طور پر ساڑھے تیرہ ہزار ایکڑ زمین 99 سال کے لیے دھابیجی فائرنگ فیلڈ رینج بنانے کے لیے وزارت دفاع کو لیز کی تھی، اور سال 2000ع میں گورنر سندھ نے زمین کو مفت میں استعمال کرنے کی اجازت دی تھی، تاہم زمین سندھ حکومت کو ملکیت رہے گی
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت نے دیھ ڈانڈو اور دیھ کوٹیرڑو میں وزارت دفاع کو صرف ساڑھے تیرہ ہزار ایکڑ زمین لیز کی تھی، جس میں گاؤں، قبولی زمین اور قبرستان شامل نہیں تھے
مختیارکار ملیر نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ درخواست گزار پندرہ دیہاتوں کے رہنے والے ہیں، جو کہ مبینہ نوٹیفکیشن سے متاثر ہوئے ہیں
درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ وہ اور ان کے آباد و اجداد ان گوٹھوں میں 1820ع سے رہ رہے ہیں اور ان کے مالکانہ حقوق کو گوٹھ کے رہائشیوں کی حیثیت سے وقتاً فوقتاً تسلیم کیا جاتا رہا ہے اور ان میں سے کچھ گوٹھوں کو تیس سال کی لیز دی گئی ہے، جبکہ سندھ حکومت نے درخواست گزاروں کے گوٹھوں کو منظور کرنے اور ریگولرائز کرنے کے لیے ایک نوٹیفکیشن بھی جاری کیا تھا
تاہم ان کا کہنا ہے کہ اب ہمیں زرعی زمین کاشت کرنے اور گھر بنانے کی اجازت نہیں ہے
درخواست گزاروں نے رہائشی علاقوں اور آبادیوں کو فیلڈ فائرنگ رینج اور فوجی تربیتوں، مشقوں کے لیے استعمال کی اجازت دینے والے نوٹیفکیشن کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ منوورز، فیلڈ فائرنگ رینج اینڈ آرٹلری پریکٹس 1938 ایکٹ کی شق 10 کے تحت ایسا نہیں کیا جاسکتا
درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی کہ قرار دیا جائے کہ مبینہ نوٹیفکیشن، 1938 کے ایکٹ، 1972 کے کالونائزیشن ایکٹ اور 1894 ایکیوزیشن ایکٹ میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق جاری نہیں کیا گیا.