حوثیوں کے بھرتی کیے گئے دو ہزار بچے لڑائی میں ہلاک ہوئے

ویب ڈیسک

صنعاء – اقوام متحدہ کے ماہرین نے ایک نئی رپورٹ میں بتایا ہے کہ یمن کی حوثی ملیشیا کی جانب سے جنگ کے میدان میں اتارے گئے دو ہزار بچے جنوری 2020ع سے مئی 2021ع کے دوران ہلاک ہوئے اور ایرانی حمایت یافتہ باغی گروہ اب بھی بچوں کو لڑائی کے لیے ہتھیار استعمال کرنے کی تربیت دے رہا ہے

تفصیلات کے مطابق خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہفتے کو جاری کی گئی اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی رپورٹ میں ماہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے بعض اسکولوں کے سمر کیمپس اور ایک مسجد کی تحقیق کی، جہاں حوثیوں نے بچوں کو جنگ کے لیے بھرتی کرنے کے سلسلے میں اپنے نظریے کا پرچار کیا

یمن کی صورت حال کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ماہرین کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حوثیوں کی جانب سے اپنے زیر اثر علاقوں میں یمنی بچوں کی بھرتی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس مقصد کے لیے مساجد اور اسکولوں سے ناجائز فائدہ اٹھایا جا رہا ہے

واضح رہے کہ گزشتہ سات برس سے انتہا پسند حوثی ملیشیا یمن کی حکومت سے برسر پیکار ہے، جس میں بڑے پیمانے پر کم عمر بچوں کو بھی بھرتی کیا جاتا ہے

رپورٹ میں چار رکنی ماہرین کے پینل نے بتایا کہ ”ایک کیمپ میں سات برس تک کے کم عمر بچوں کو بھی ہتھیار صاف کرنا اور راکٹ سے بچنا سکھایا جا رہا تھا۔“

ماہرین کے مطابق دس ایسے کیس سامنے آئے، جن میں بچوں کو ثقافتی کورسز کے نام پر جنگ کے لیے لے جایا گیا، جبکہ نو ایسے واقعات دیکھے گئے جہاں انسانی بنیادوں پر ملنے والی امداد اس لیے نہیں دی گئی کہ ان خاندانوں کے بچے جنگ میں حصہ لے رہے ہیں یا نہیں

رپورٹ کے مطابق ایسے اساتذہ تک بھی امداد نہیں پہنچنے دی گئی، جنہوں نے حوثی نصاب پڑھانے سے انکار کیا تھا، جبکہ جنگ کی تربیت دینے کے لیے بھرتی کیے گئے ایک بچے پر جنسی تشدد کا ایک کیس بھی سامنے آیا

ماہرین کے پینل نے بتایا کہ ان کو ایسی فہرست موصول ہوئی، جس کے مطابق سنہ 2020ع میں کم از کم ایک ہزار چار سو چھ بچے لڑائی میں ہلاک ہوئے

جبکہ ایک فہرست جنوری سے مئی 2021ع تک کی ہے، جس دوران حوثیوں کے بھرتی کیے پانچ سو باسٹھ بچے میدان جنگ میں مارے گئے

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق حوثیوں نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں ڈرون طیارے ، میزائل اور دھماکا خیز آلات اکٹھا کیے

اسی طرح واضح کیا گیا ہے کہ حوثی ملیشیا نے گذشتہ برس بڑے پیمانے پر سمندری بارودی سرنگیں بھی بچھائیں

یاد رہے کہ اقوام متحدہ میں یمن کے نائب مندوب مروان نعمان نے ستمبر 2021ء میں بتایا تھا کہ حوثی ملیشیا نے 2014ء کے بعد سے پینتیس ہزار سے زیادہ یمنی بچوں کو بھرتی کیا۔ ان میں سترہ فیصد کی عمر گیار برس سے بھی کم تھی، جب کہ چھ ہزار سات سو سے زیادہ بچے اب بھی لڑائی کے محاذوں پر موجود ہیں

یمن میں انسانی حقوق کا نیٹ ورک یہ تصدیق کر چکا ہے کہ یمنی بچوں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی کے لگ بھگ اکیس ہزار واقعات سامنے آئے۔ علاوہ ازیں جنوری 2017ء سے مارچ 2021ء تک حوثیوں کے ہاتھوں تینتالیس ہزار سے زیادہ یمنی بچے جبری ہجرت اور نقل مکانی کا شکار ہوئے

یاد رہے کہ چند برس قبل یمن میں باغی حوثی ملیشیا کے سربراہ عبدالملک الحوثی کی جانب سے یہ ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ لڑائی کے محاذوں پر جھونکے جانے کے لیے بھرتی کیے گئے بچوں کی لاشوں کی تصاویر شائع نہ کی جائیں۔ یہ ہدایت باغی ملیشیا کے ہاتھوں ہزاروں بچوں کی بھرتی پر عوامی غم وغصّے میں شدید اضافے کے بعد سامنے آئی تھی

اس سلسلے میں حوثیوں کی سپریم کونسل کے سربراہ محمد الحوثی کی دستخط شدہ ایک دستاویز بھی افشا ہوئی تھی، جس میں مقتول حوثیوں کی تصاویر شائع کرنے والے ادارے کو ہدایت دی گئی کہ پندرہ برس سے کم عمر مقتولین کی تصاویر ہر گز شائع نہ کی جائیں

علاوه ازیں ایک سال قبل بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بھی انکشاف کیا گیا تھا کہ یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا نے 2014ع کے بعد 10 ہزار 300 نابالغ بچوں کو جنگ کے لیے جبری طور پر بھرتی کیا

رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ اگر اقوام متحدہ کی طرف سے یمن میں جاری سیاسی بحران کا کوئی حل نہیں نکالا جاتا، تو اس صورت میں بچوں کے جنگ کا ایندھن بننے کے خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں

یورو مڈل ایسٹ برائے ہیومن رائٹس اور ‘فریڈم فارہیومن رائٹس ‘سام’ کی طرف سے جنگ کے لیے بچوں کی بھرتی روکنے کے 2021 کے عالمی دن 12 فروری کے موقعے پر جاری رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ حوثی ملیشیا بچوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جنگ میں جھونک رہی ہے۔ حوثی اپنے زیرِ تسلط علاقوں میں جنگجوؤں کی کمی پوری کرنے کے لیے بچوں کو بھرتی کر رہی ہے۔ لڑائی کے دوران سیکڑوں بچے ہلاک ہوچکے ہیں

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سنہ 2018ع، 2019ع اور 2020ع کے دوران ایرانی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہ حوثی ملیشیا کی طرف سے کم عمر بچوں کو جنگ میں بھرتی کرنے کے لیے باقاعدہ مہمات چلائی گئیں۔ بھرتی کیے گئے ہزاروں بچوں کو 52 عسکری ٹریننگ مراکز میں جنگی تربیت دی گئی۔ ان مہمات میں صعد، صنعا، المحویت، الحدیدہ، تہامہ، حجہ اور الذمار گورنریوں سے اسکولوں میں پڑھنے والے ایسے بچوں کو بھی بھرتی کیا گیا جن کی عمریں محض دس سال تھیں۔

رپورٹ کے مطابق حوثی ملیشیا اپنے زیرانتظام علاقوں میں قائم پناہ گزین کیمپوں، یتیم خانوں اور عام شہری آبادی سے دس سے سترہ سال کی عمر کے بچوں کو بھرتی کرتی رہی ہے۔ حوثی ملیشیا شہریوں کی غربت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر ڈیڑھ ڈالر ماہانہ اجرت پر ان کے بچوں کو جنگ کے لیے بھرتی کرتی چلی آ رہی ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close