لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل، سپریم کورٹ نے راوی اربن ڈولپمنٹ منصوبہ جاری رکھنے کی اجازت دے دی

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – سپریم کورٹ نے راوی اربن ڈولپمنٹ منصوبہ کالعدم قرار دیے جانے کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے پنجاب حکومت کو منصوبے پر کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جسٹس اعجاز الحسن کی سربراہی پنجاب حکومت کی جانب سے دائر اپیل کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ جن زمینوں کے مالکان کو ادائیگی ہوچکی ہے، ان زمینوں پر کام جاری رکھا جا سکتا ہے، جب کہ جن زمین مالکان کو ابھی ان کی زمین کی قیمت ادا نہیں کی گئی، وہاں کام نہ شروع کیا جائے

یاد رہے کہ 25 جنوری 2022 کو لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شاہد کریم نے دریائے راوی منصوبے کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران منصوبے پرمختلف اعتراضات لگا کر اسے کالعدم قرار دیا تھا اور اس منصوبے پر مزید کام کرنے سے روک دیا تھا

انہوں نے راوی اربن ڈولپمنٹ اتھارٹی (روڈا) کو حکم دیا تھا کہ وہ اس منصوبے کے لیے حاصل کیا گیا پانچ ارب روپے کا قرض پنجاب حکومت کو فوری طور پر واپس کرے

لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس منصوبے کے لیے حاصل کی جانے والی ایک لاکھ سات ہزار ایکڑ زرعی اراضی کا نوٹیفیکیشن بھی کالعدم قرار دیا تھا

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ راوی اربن ڈولپمنٹ اتھارٹی کی متعدد شقیں خصوصاً دفعہ چار آئین سے متصادم ہیں اور اس کا نوٹیفیکیشن غیرقانونی ہے

ہائی کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس منصوبے کا ماسٹر پلان مقامی حکومت کی مشاورت کے بغیر بنایا گیا اور زرعی اراضی حاصل کرنے کے 1894 کے ایکٹ کی خلاف ورزی کر کے زرعی زمین حاصل کی گئی، جبکہ کلیکٹر زمین حاصل کرنے میں قانون پر عمل کرنے میں ناکام رہے

لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد پنجاب حکومت نے دو روز قبل لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ پیر کے روز سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے منصوبے پر کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی

راوی اربن ڈولپمنٹ پراجیکٹ کے متاثرہ درخواست گزاروں کے وکیل شیراز ذکا نے بتایا ”ہمیں معلوم تھا کہ یہی ہونا ہے۔ حکومت پنجاب نے دو روز قبل اپیل جمع کروائی اور آج فیصلہ بھی آ گیا۔ اس فیصلے سے سپریم کورٹ نے یہ عندیہ دے دیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم ہی ہونا ہے۔“

ان کا کہنا تھا کہ ”ہم اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔ جب عدالت میں جج ہی ایسے بیٹھے ہوں گے، کہ وہ کسانوں کا استحصال ہونے دیں گے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ یہاں امیروں کے لیے اور قانون ہے اور غریبوں کے لیے اور قانون ہے۔ ان عہدیداروں کی زمینیں کوڑیوں کے بھاؤ بکتیں تو معاملہ کچھ اور ہوتا۔ یہ زمینیں کسانوں کی ہیں اور سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پبلک انٹرسٹ کے منصوبوں میں عدالتوں کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور اسی بنیاد پر انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا ہے۔“

سپریم کورٹ نے آج کی سماعت میں حکومتی اپیلوں پر فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ اس موقع پر بنچ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس سے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر نہ کرنے کی وجہ بھی پوچھی۔ اس پر، احمد اویس نے نشاندہی کی کہ سپریم کورٹ راحت حاصل کرنے کا حتمی فورم ہے

اس پر سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ وہ اس بات کا جائزہ لے گی کہ آیا انٹرا کورٹ اپیلیں کی جا سکتی ہیں، یہ بھی کہا کہ کیس میں مدعا علیہ ایک ماہ کے اندر کیس میں اضافی دستاویزات جمع کر سکتے ہیں

جمعے کو ایڈوکیٹ جنرل احمد اویس نے سپریم کورٹ میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی جانب سے اپیل دائر کی تھی۔ جس میں صوبائی حکومت نے موقف اپنایا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ اس بات پر غور کرنے میں ناکام رہی کہ روڈا آرڈیننس پہلے ہی لاہور ڈولپمنٹ اتھارٹی کے 2015 کے ماسٹر پلان کو اپنا چکا ہے اور ان تمام اسکیموں کا احاطہ کر چکا ہے، جو راوی ریور فرنٹ اربن ڈولپمنٹ پروجیکٹ کے منصوبے کے دائرہ کار میں آتی ہیں

درخواست میں یہ بھی لکھا گیا کہ لاہورہائی کورٹ نے روڈا ایکٹ کی بعض شقوں کو غیر آئینی قرار دے کر بیس بلین ڈالر کے منصوبے کو قلم کے زور پر سمیٹ دیا۔ سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کی روشنی میں لاہور ہائی کورٹ مداخلت کرسکتا ہے، نہ ہی اس طرح پورے ترقیاتی عمل کو روک سکتا ہے

صوبائی حکومت نے اپنی درخواست میں استدعا کی کہ لاہور ہائی کورٹ اس بات کی تعریف کرنے میں ناکام رہا کہ پنجاب انوائرمنٹ پروٹیکشن ایکٹ 1997 کے سیکشن 12 کے تحت پروجیکٹ کے لیے ماحولیاتی اثرات کی تشخیص پہلے ہی دی جا چکی ہے، اس لیے کیس کو غیر ضروری اور مبہم تنازعات پر آگے نہیں بڑھانا چاہیے تھا

جمعہ کے روز ہی وزیر اعظم عمران خان نےمنصوبے کی جگہ سے ایک وڈیو پیغام ریکارڈ کروایا اور اربوں ڈالر کے منصوبے کے بارے میں تفصیلی بریفنگ بھی دی گئی

وزیر اعظم کا کہنا تھا ”منصوبے کا مقصد ہاؤسنگ سوسائٹیز کا قیام نہیں بلکہ بلکہ اسلام آباد کے بعد ایک پلانڈ شہر کا قیام ہے۔“

انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ تقریباً چالیس مختلف صنعتوں کو فائدہ دینے کے ساتھ ساتھ سینکڑوں ملازمتیں پیدا کرے گا، جب کہ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس منصوبے کے لیے پندرہ بلین ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری پہلے ہی پاکستان پہنچ چکی ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close