حالیہ برسوں میں بالی وڈ میں بننے والی فلمیں ایسی کہانیوں پر توجہ مرکوز کیے محسوس ہوتی ہیں جہاں کسی ’غیر ملکی‘ مدمقابل کی طرف سے شدید خطرے یا کافی مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد بھارتی سپوت فتح سے ہمکنار ہوتا ہے
ایسی فلموں میں کرشماتی مردانہ اوصاف سے بہرہ مند ایک ہندو ہیرو کی فتح دکھائی جاتی ہے جو اپنا فرض ادا کرتے ہوئے کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کر کے قوم کو بچا لیتا ہے
یہ ایسی چیز نہیں جو نئی ہو۔ ماضی کے ہیروز یا واقعات کی ستائش کرتے ہوئے قوم پرستی کے جذبات کو فروغ دینا بالی وڈ کا پرانا فارمولا ہے جس کے ابتدائی خدوخال مراٹھی تھیٹر کے ابتدائی برسوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
انیسویں صدی میں مراٹھی تھیٹر نے تاریخی واقعات پر مبنی ڈرامے سٹیج کیے جن کا اثر آج بھی نظر آتا ہے۔
ان کہانیوں کا لبِ لباب تھا 1645ع سے 1818ع تک برصغیر پاک و ہند کے پیشتر حصے پر محیط عظیم مراٹھا (مرہٹہ) سلطنت کی کہانیوں کو دوبارہ سنانا۔
برصغیر پر برطانوی راج کے دوران مقبول عام ڈراموں نے ’شدت پسند‘ سیاسی رہنما بال گنگا دھر تلک (1856-1920) کے مکمل آزادی یا حق حکمرانی کے مطالبات کو آگے بڑھانے میں مدد فراہم کی
مرہٹوں کا ہر وقت سائے کی طرح ساتھ موجود ماضی ڈرامہ نگاروں کے لیے تحریک کا ایک بڑا ذریعہ بن گیا اور اس نے ابھرتی ہوئی ہندو قوم پرستی کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا
آج بالی وڈ نئی قومی دیو مالا تخلیق کرنے کے راستے پر گامزن ہے، جس کا بھرپور اظہار نئی بننے والی فلم ’83‘ میں نظر آتا ہے، جو 1983ع کے دوران کرکٹ ورلڈ کپ میں بھارتی کرکٹ ٹیم کی اولین جیت پر مبنی فلم ہے، جسے فلموں کی اصطلاح میں ’اسپورٹس بائیوپک‘ (sports biopic) کہا جاتا ہے
اس فلم کے دوران ہم نئے کپتان کپل دیو (جن کا کردار اداکار رنویر سنگھ نے نبھایا ہے) کی قیادت میں بھارتی کرکٹ ٹیم کو کئی مہینوں تک لڑتے اور بالآخر ویسٹ انڈیز کو لارڈز کرکٹ گراؤنڈ میں شکست سے دوچار کرتے ہوئے دیکھتے ہیں
بظاہر فلم میں عام سے نوجوان بھارتی کھلاڑیوں کی ٹیم کرکٹ کے میدان میں ایسی جیت سے ہمکنار ہوتی ہے، جس کے ساتھ ملک کی عزت اور مردانہ افتخار وابستہ ہے
بات محض اتنی نہیں کہ یہ فلم 1983 کے کرکٹ ورلڈ کپ کی تاریخ بیان کرتی ہے، بلکہ اس میں اور بھی بہت کچھ بین السطور کہا گیا ہے
ایک پراپیگنڈا آلۂ کار کی طرح یہ فلم کھیل سے بھارتیوں کی محبت کو ان کی توجہ سمیٹنے کے لیے استعمال کرتی اور قوم پرستانہ مقاصد کو پورا کرتی ہے
کھیل، مردانہ طاقت کے اظہار کا ایک ذریعہ
قوم پرستانہ مقاصد کے اس جشن کی سب سے بھرپور جھلک ’83‘ میں پیش کردہ صنفی رویوں میں ملتی ہے
فلم کے مرکزی کردار ٹیم کے کپتان کپل دیو 1980ع کی دہائی کے مشہور اسپورٹس ہیرو ہیں۔ ان کی صداقت اور شریفانہ رویہ اس بات کی ضمانت ہے کہ ہر عمر کے لوگ ان سے پیار کریں
فلم میں ان کی مردانہ وجاہت نمایاں طور پر دکھائی گئی ہے کہ کس طرح وہ مشکل میں گھری قوم کے لیے زبردست قوت ثابت ہوتے ہیں
لیکن اس مردانہ وجاہت میں ہندو قوم پرستانہ مردانگی کے موروثی تصور کی جھلک نظر آتی ہے
فلم کے بین السطور میں مردوں کی خواتین اور دیگر اقلیتی برادریوں پر برتری نظر آتی ہے اور معاشرے کے ان پسے ہوئے طبقوں سے وابستہ افراد کے ماتحت ہونے کے ’معمول‘ پر یقین پیش کیا گیا
فلم ’83‘ میں کلب کے اندر جشن مناتے ہوئے ایسا مذاق دکھایا جاتا ہے، جس سے مردانہ بالادستی کا تاثر پیدا ہوتا ہے
ہر کھلاڑی اپنی مردانہ حیثیت کو ایک مثالی بیٹے کے طور پر پیش کرنے کے لیے ساری صلاحیتیں کھپاتا نظر آتا ہے تاکہ اس کے والد کو اس پر فخر ہو
اس ٹیم کے کھلاڑی ایک ایسے ذمہ دار خاوند ہیں، جو اپنی بیوی کی رکھوالی کرتے اور اس کی ضروریات پوری کرتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ مادرِ وطن کے سچے سپوت ہیں، جن سے پوری قوم والہانہ عقیدت رکھتی ہے اور بےپناہ پیار کرتی ہے
کھلاڑیوں کے جنگجویانہ جذبے کو اجاگر کرنے کے لیے انہیں ’آزادی کی جنگ لڑنے والے سپاہی‘ (freedom fighters) اور کپل دیو کے مشہور بلے کو ان کی ’تلوار‘ کہا جاتا ہے
گویا اس فلم میں سیاسی جذبات سے لبریز زبان پیش کی گئی ہے، جو مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے کچھ ہندو رہنماؤں کے مطالبات سے ہم آہنگ نظر آتی ہے
فلم میں یہ بھی دکھایا گیا کہ ایک مثالی بھارتی خاتون کو کیسا برتاؤ کرنا چاہیے۔ ایسی خاتون کو بھی قوم پرستانہ نظریات کے مطابق پیش کیا گیا ہے، جس کا نچوڑ یہ ہے کہ بھارتی خواتین کو باوقار، شائستہ اور اعلیٰ اقدار کا حامل ہونا چاہیے
فلم کی کہانی کے مطابق بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپل دیو کی اہلیہ رومی (جن کا کردار مشہور اداکارہ دیپکا پڈوکون ادا کر رہی ہیں) اپنے خاوند کا حوصلہ بڑھانے والی خاتون ہیں
وہ عملی طور پر کھیل سے وابستہ کسی سرگرمی کا باقاعدہ حصہ نہیں، بلکہ اپنے شوہر کے لیے تالیاں پیٹنے والی فرماں بردار قسم کی ماتحت عورت ہیں
ان کی ذمہ داری یہ کہ وہ کھیل کے میدان سے ہار کر واپس آنے والے مایوس کپل دیو کو ان کے قومی فرض کی اہمیت یاد دلائیں اور مختلف طریقوں سے اکسائیں
فلم میں ایک جگہ وہ اپنے خاوند سے کہتی ہیں: ’اپنے اندر موجود اس چھوٹے سے بچے کے لیے ہی کھیل لو۔‘
چھوٹے بچے کا یہ استعارہ پوری فلم میں استحصالی انداز میں چلتا نظر آتا ہے، جو نوجوان نسل کی امیدوں اور خوابوں کو مجسم کرتا اور ان کے حصول کے لیے جذبہ مہیا کرتا ہے
یہ نوجوان جیتنے کی خاطر معصومیت اور پاکیزگی جیسے اوصاف سے محروم ہو جاتا ہے
’83‘ کے دوران فلم کے ناظرین سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی امیدوں اور مایوسیوں کو فلم کے بنیادی مقصد سے ہم آہنگ کر دیں اور بالآخر مل کر بھارتی ہیروز کو جتوانے کے لیے ان کی پشت پناہی کریں
فلم ’83‘ میں حریف ٹیموں اور دیگر قومیتوں کے درمیان قوم پرستانہ بیان بازی پر مبنی مخصوص رنگ دکھایا گیا ہے
ویسٹ انڈیز کے شائقین چمکیلے لباس پہنے افریقی ڈرموں کی تھاپ پر رقص کرتے نظر آتے ہیں، بھارتی شائقین اپنے اختلافات بھلا کر ٹیم کے لیے ایک ہو جاتے ہیں
ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی چیونگم چبا رہے ہیں، جبکہ بھارتی معمول کے مطابق دور دراز دیس سے کال کر کے فون پر اپنے اہلِ خانہ سے بات چیت کر رہے ہیں
یہ دقیانوسی تصور ہندو قوم پرستی کے موجودہ رجحانات سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے اور اس کا تعلق 1980 کی دہائی کے دوران ملکی صورت حال سے بہت کم ہے
موجودہ قوم پرستانہ لہر کی ترجمان
بالی وڈ عالمی سطح پر بھارتی ثقافت کو سمجھنے کے لیے ایک عینک کی طرح ہے اور سفارتی تعلقات کو برقرار رکھنے میں بھارت کی سب سے زیادہ موثر نرم طاقت (soft power) ثابت ہوا ہے
حالیہ برسوں میں واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ بالی وڈ اکثر دائیں بازو کی کٹر قوم پرست بی جے پی حکومت کے نظریاتی پراپنگنڈے کے آلہ کار کے طور پر کام کر رہا ہے
گذشتہ کئی برسوں میں بننے والی بائیوپک فلموں اور تاریخی شخصیات پر بننے والی فلموں میں اس قوم پرستانہ الوطنی کے کارناموں کا جشن منایا جاتا ہے
بھارت میں فرقہ وارانہ تشدد کے بڑھتے ہوئے تماشے اور بالی وڈ کے ہیروز کو کرائے کے فوجیوں کے طور پر پیش کرنے کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یہ سوال کرنا بنتا ہے کہ فلم ’83‘ خود اپنے بارے میں اور اپنے ناظرین کے بارے میں کیا کچھ بتاتی ہے
’83‘ محض کھیل کے واقعات کو دوبارہ پیش کرنے تک محدود نہیں۔ یہ قوم پرستی کی ابھرتی ہوئی موجودہ لہر اور بالی وڈ کے سیاسی میدان میں فریق بننے کی پوشیدہ امنگوں کی ترجمانی ہے
ایسا لگتا ہے ہندو مردانہ بالادستی کا جشن مناتی یہ فلم مقبول اور متنازع رہنما نریندر مودی کی گرفت اور سیاسی استحصال کی پردہ پوشی کرتے ہوئے ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سرگرداں ہے.
نوٹ: اس تحریر کی مصنفہ رادھیکا راگھو نیوزی لینڈ کی یونیورسٹی آف اوٹاگو میں صنفی مطالعات اور سوشیالوجی کی لیکچرر ہیں. یہ تحریر ’دا کنورسیشن‘ میں چھپی تھی اور یہاں اس کا ترجمہ انڈپینڈنٹ اردو کے شکریے کے ساتھ شایع کیا جا رہا ہے.