کیلیفورنیا – انسانی آنکھیں مسلسل سامنے آنے والے مناظر کی بہت زیادہ تفصیلات حاصل کرتی رہتی ہیں اور دماغ کے لیے ان کا تجزیہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا
ایک طرف ہماری آنکھوں کے سامنے مسلسل تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، جس کی وجہ روشنی اور دیگر عناصر ہوتے ہیں، جبکہ دوسری جانب ہماری بینائی کے اندر بھی مسلسل تبدیلیاں آتی ہیں جس کی وجہ پلک چھپکنا، آںکھوں اور جسم کا متحرک ہونا ہوتا ہے
اس کا اندازہ لگانے کے لیے ایک فون کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھیں اور چلتے پھرتے اور دیکھتے ہوئے لائیو وڈیو رکارڈ کریں
اس سے برآمد ہونے والا نتیجہ آپ کو عندیہ دے گا کہ ہمارا دماغ کسی طرح ہماری ہر نظر کے تجربے سے نمٹتا ہے
دراصل دماغ اس کے لیے ایک منفرد میکنزم کو استعمال کرتا ہے، جو ہماری بینائی کے استحکام کی وضاحت بھی کرتا ہے
اس میکنزم کا انکشاف ایک نئی تحقیق میں ہوا جس کے مطابق ہمارا دماغ خودکار طور پر ہماری بینائی کو مستحکم رکھتا ہے اور یہ چونکا دینے والا طریقہ ہوتا ہے
درحقیقت ہم جو کچھ بھی دیکھتے ہیں، وہ اوسطاً پندرہ سیکنڈ پہلے کا ہوتا ہے، اس طرح دماغ تمام حصوں کو آپس میں جوڑ دیتا ہے تاکہ ہمیں محسوس ہو کہ بینائی ایک مستحکم ماحول میں کام کررہی ہے
‘ماضی میں رہنے’ سے یہ وضاحت بھی ہوتی ہے کہ کسی وجہ سے اکثر ہم وقت کے ساتھ اپنے ماحول میں آنے والی تبدیلیوں پر توجہ مرکوز نہیں کر پاتے
آسان الفاظ میں ہمارا دماغ ایک ٹائم مشن کی طرح کام کرتا ہے جو ہمیں چند سیکنڈ پہلے کے وقت میں واپس بھیجتا ہے، تاکہ روزمرہ کی سرگرمیاں ہمارے لیے مسائل نہ بن سکیں
اس کے برعکس اگر دماغ ریئل ٹائم میں سب کچھ اپ ڈیٹ کرے تو دنیا ہماری نظروں کے لیے ایک افراتفری کا مقام ہوگی جس میں روشنی، سائے اور حرکت کا مسلسل تحرک ہوگا، جو ہمارے لیے ناقابل برداشت ہوگا
امریکا کی کیلیفورنیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہمارے دماغ کو ارگرد کے مناظر کے حوالے سے بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے تو وہ ماضی سے چپکا رہتا ہے، کیونکہ وہ حال کا عندیہ دیتا ہے، اس طرح وہ تفصیلات کو ری سائیکل کرتا ہے جو زیادہ برق رفتار، زیادہ بہتر ہوتا ہے اور اسے کم کام کرنا پڑتا ہے.