بھارت: جہاں حجاب، پہننے والوں سے زیادہ مخالفین پر بوجھ بن گیا..

ویب ڈیسک

کرناٹکا – بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹکا میں طالبات کو کالجوں میں حجاب سے روکنے کا مسئلہ گھمبیر ہوتا جا رہا ہے جہاں ایک اور کالج میں مسلمان طالبات کو حجاب کے ساتھ داخلے کی اجازت نہیں دی گئی

اس ضمن میں کالج پرنسپل کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ریاست کے بجائے غیر ریاستی عناصر کے کہنے پر کیا جا رہا ہے، جس سے ریاستی رٹ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے

جب کہ کچھ حلقوں کا ماننا ہے کہ یہ دراصل ریاستی اقدام ہی ہے، جسے بظاہر غیر ریاستی عناصر کے دباؤ کا شاخسانہ دکھایا جا رہا ہے

ہندوستان ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ کرناٹکا کے ضلع اڈوپی کے ساحلی علاقے کنڈاپور میں ستائیس مسلم طالبات کو سرکاری کالج میں داخلے سے روک دیا گیا

سوشل میڈیا میں اس کی وڈیو بھی گردش کر رہی ہے

وڈیو میں سنا جا سکتا ہے کہ ایک طالبہ انتظامیہ سے درخواست کر رہی ہے کہ ان کو امتحانات کی تیاری کے لیے کلاس میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے، لیکن کالج کے پرنسپل ان کو حجاب کے ساتھ داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیتے ہیں

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ باحجاب طالبات کے داخلے پر پابندی کا فیصلہ سو سے زائد طالبات کی جانب سے زعفرانی چادریں اوڑھنے کے بعد کیا گیا، جو ہندو مذہب کا نشان ہے اور مذکورہ طالبات نے بھنڈارکر کالج میں مسلمان طالبات کے باحجاب ہونے پر احتجاج کیا

اس حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جب پرنسپل نے طالبات سے حجاب اتار کر کلاس میں آنے کی بات کی، تو طالبات کی جانب سے سوال اٹھایا گیا کہ حکومت نے کنڈاپور کے سرکاری کالجوں میں حجاب پر پابندی لگانے کا کوئی حکم نہیں دیا

کالج کے پرنسپل راماکرشنا کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہ کالج ڈولپمنٹ کمیٹی کے صدر اور بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پالیمنٹ ہالاڈی سرینیواس شیٹھی کے احکامات کی پیروی کر رہے ہیں

پرنسپل نے بتایا ”شیٹھی نے انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ مخصوص یونیفارم کے علاوہ کسی اور اضافی چیز پہننے کی اجازت نہ دیں۔“

واضح رہے کہ پابندی کے اس واقعے سے ایک ہی دن قبل زعفرانی رنگ (ہندوؤں کا علامتی رنگ) کی چادریں اوڑھے انتہا پسند ہندو نوجوانوں کے ایک گروہ نے بغیر کسی روک ٹوک کے اس کالج کے اندر آ کر مسلمان خواتین کے حجاب پہننے پر احتجاج کیا تھا

کرناٹک ریاست میں کم از کم تین دیگر کالجوں میں ایسے ہی احتجاج ہو چکے ہیں

دوسری جانب شیٹھی نے اخبار دی ہندو کو بتایا کہ انہوں نے طالبات کے والدین سے ملاقات اور انہیں اپنے بچوں کے لیے موجودہ ڈریس کوڈ پر عمل کرنے کے لیے کہا، جیسا کہ یونیفارم پہننا، جب تک متعلقہ حکومتی محکموں کی جانب سے اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا

انہوں نے دعویٰ کیا کہ چند طالبات کالج میں کئی روز سے حجاب پہن کر کلاسز لے رہی ہیں اور دیگر طالبات کو اس پر شکایات ہے اور انہوں نے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے

بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ جیسا کہ صورت حال خراب ہورہی تھی اور جب کالج میں لڑکوں کو چادریں اوڑھے دکھا گیا تو میں نے بدھ کو والدین کا اجلاس طلب کیا

انہوں نے کہا کہ حجاب پہن کر کالج آنے والی طالبات کے والدین سے بھی بات کی ہے

ان کا کہنا تھا کہ میں نے ان سے اپنے مذہب پر اپنے گھروں میں عمل کرنے اور اس کو کمرہ جماعت تک نہ لے کر جانے کی بات کی اور واضح کیا کہ کمرہ جماعت میں حجاب یا زعفرانی رنگ کی چادریں نہیں ہوں گی اور طلبہ کو مخصوص کیا ہوا یونیفارم پہننا ہوگا

حجاب کی وجہ سے پابندی کا نشانہ بننے والی طالبات کا کہنا ہے کہ ہم نے تو سرکاری کالج میں اس لیے داخلہ لیا تھا کیونکہ ہم پرائیویٹ کالج کی فیس نہیں دے سکتے۔ جب دوسرے لوگ اپنی اپنی مذہبی رسومات پر عمل کر سکتے ہیں تو ہم پر ہی پابندی کیوں لگائی جا رہی ہے؟

اس معاملے پر گذشتہ کئی ماہ سے مسلمان خواتین کا احتجاج بھی جاری تھا۔ مسلمان خواتین کا کہنا تھا کہ بھارت کا آئین ان کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ جو چاہیں پہن سکتی ہیں۔ دوسری جانب بھارت میں مسلمان اقلیت میں اس تنازعے نے خوف اور غصے کو بھی جنم دیا ہے

ہندوستان ٹائمز کے مطابق کنڈاپور کے تعلیمی اداروں میں گزشتہ برس 28 دسمبر کے بعد مذہبی عدم برداشت کا یہ پانچواں واقعہ ہے

اس سے پہلے ہونے والا واقعہ بھی اسی ضلع میں پیش آیا تھا۔ کرناٹک کے بارے میں اکثر ماہرین کا ماننا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا گڑھ سمجھا جانے والا یہ علاقہ ہندو قوم پرست پالیسیوں اور ہندووتا نظریے کی لیبارٹری ہے۔ کرناٹک میں بی جے پی ہی برسر اقتدار جماعت ہے

یاد رہے کہ 28 دسمبر 2021 کو کرناٹکا کی گورنمنٹ خواتین پی یو کالج کی چھ طالبات کو حجاب کرنے پر داخلے پر پابندی عائد کردی تھی

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کے بعد بھنڈارکر کالج میں تازہ واقعہ پیش آنے تک دیگر دو کالجوں میں بھی حجاب کے خلاف احتجاج کیا گیا، ایک اسکول کے پرنسپل کو طلبہ کی جانب سے مبینہ طور پر جمعہ کی نماز ادا کرنے پر معطل کردیا گیا

بتایا گیا کہ طالبات کو حجاب کے بغیر کالج میں داخلے پر پابندی کے واقعات کرناٹکا کے دیگر تعلیمی اداروں میں بھی پیش آئے ہیں

دوسری جانب بھارتی کی ریاست کرناٹک میں حجاب کرنے والی مسلمان خواتین پر حکومتی کالج کی جانب سے پابندی کا تنازع اب ہائی کورٹ پہنچ چکا ہے

جن مسلمان طالبات کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی تھی انہوں نے کئی دنوں تک احتجاج کیا اور ان میں سے پانچ نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے اور استدعا کی ہے کہ انہیں حجاب کے ساتھ کلاس میں جانے کی اجازت دی جائے

اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ گائیڈ لائنز میں پری یونیورسٹی کالجز میں یونیفارم کا ذکر نہیں ہے

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ایک اور طالبہ نے اسی طرح کی درخواست الگ سے دائر کی ہے، جو رپورٹ کے مطابق 8 فروری کو سماعت کے لیے مقرر کر دی گئی ہے

اس درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ بھارت کا آئین ان کے اس بنیادی حق کا تحفظ کرتا ہے کہ وہ کیا پہنیں

دونوں درخواستوں میں کالج کی انتظامیہ اور دیگر پر طالبات پر مذہبی شناخت چھوڑنے پر دباؤ ڈالنے کا الزام عائد کیا گیا ہے، درخواست گزاروں نے مؤقف اپنایا کہ مذہبی اور سماجی اور ثقافتی معاملہ ہے اور یہ معاملہ کالج کے قواعد اور تعلیم کے راستے میں حائل نہیں ہوتا

دونوں ہی درخواستوں میں کیرالا ریاست کی عدالت کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں مسلمان طالب عملوں کو ایک داخلہ امتحان کے لیے سکارف پہننے کی اجازت دی گئی تھی

ریاست کے وزیر تعلیم نگیش بی سی نے کالج انتظامیہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ کالج میں زعفرافی چادر اوڑھنے اور اسکارف پہننے جیسے دونوں اقدامات پر پابندی ہونی چاہیے

انہوں نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ حکومت جلد ہی کرناٹکا ہائی کورٹ میں اس حوالے سے اپنا مؤقف دے گی، جہاں اگلے ہفتے دونوں درخواستوں کی سماعت ہوگی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close