کراچی پر قبضہ کرنے کے لیے سندھ کے تالپور حکمرانوں نے تین حملے کیے، جس کے دوران تین ماہ تک محاصرہ کیا گیا لیکن انھیں ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا
لیکن 183 برس قبل ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج نے صرف تین گھنٹوں کی بمباری اور بغیر کسی جانی نقصان کے اس شہر پر قبضہ کر لیا۔ اگلے چار سال کے بعد انگریز سرکار پورے سندھ پر قابض ہو گئی اور یہ قبضہ 108 برسوں تک جاری رہا
کراچی حملے میں شریک ایک سپاہی جے ایچ ڈبلیو ہال نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’سینز ان سولجرز لائف‘ میں تحریر کیا ہے، کہ وسطی ایشیا میں جنگ کے آغاز پر، جس کی قیادت لیفٹیننٹ جنرل سر جان کین کو دی گئی تھی، ایسٹ انڈیا کمپنی کی کوشش تھی کہ شاہ شجاع ملک کو کابل کے تخت پر بٹھایا جائے، جو کہ ان کے خیال میں حقیقی وارث تھے لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ کراچی پر قبضہ کیا جائے جو سندھ کی کنجی تھا
کراچی دریائے سندھ کے دہانے پر واقع تھا۔ ’ہرمیجسٹی‘ بحری جہاز ویزلی کو ایڈمرل سر فریڈرک میٹلینڈ کی قیادت میں کراچی جانے کا حکم جاری کیا گیا۔ اس سے قبل کچھ کی بندرگاہ مانڈوے سے 40 ریجمنٹ کے سپاہیوں کو سوار کرنے کی ہدایت کی گئی
عروس البلاد کراچی کے مصنف ڈاکٹر عارف شاہ گیلانی لکھتے ہیں کہ ویزلی نامی جہاز بمبئی کی گودی میں تیار کیا گیا تھا۔ اس کی ہمراہی میں کانسٹس، بیرینک، یوفریٹس، آلگرنن نامی جنگی جہاز اور کشتیاں تھیں
برگیڈیئر ویلیئٹ کی کمان میں یہ چالیسویں برّی رجمنٹ تھی، جو بائیس سو مرہٹا سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ توپ خانہ اس کے علاوہ تھا
جے ایچ ڈبلیو ہال کے مطابق چار فروری سنہ 1839ع کو بحری بیڑہ کراچی کے قریب پہنچا اور منہوڑا کے قلعے کے قریب لنگر انداز ہوا۔ منہوڑا سمندر کے ساتھ پہاڑوں میں ایک مضبوط قلعہ تھا۔ اس کی موجودگی اس طرح سے تھی کہ کسی بھی جہاز کے بندرگاہ تک پہنچنے میں یہ رکاوٹ بنتا تھا۔ اس قلعے کو پتھروں سے تعمیر کیا گیا تھا جہاں سے دور تک نگاہ رکھی جاسکتی تھی
’پانچ فروری کو برطانوی جھنڈے کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے لیے کیپٹن گرے کو بھیجا گیا جس پیشکش کو قلعے کے اہلکاروں نے مسترد کر دیا۔ اس کے بعد کمانڈنگ افسر کو روانہ کیا گیا جنھوں نے انھیں متنبہ کیا اور جواب میں انھوں نے ایک گھنٹے کی مہلت دی۔ بحری جہاز میں سوار سپاہیوں میں بے چینی تھی کہ اب کیا نتیجہ نکلے گا۔ کشتیاں تیار ہوچکی تھیں سپاہی اسلحے سمیت تیار تھے۔
’ایک گھنٹے کے تجسس کے بعد قلعے پر فائر کا حکم جاری کیا گیا اور کشتیوں میں سوار سپاہی فائرنگ اور گولہ باری کرتے قلعے میں پہنچ گئے جہاں انھیں پتا چلا کہ وہاں سے محافظ فرار ہو چکے ہیں اور کسی انسانی جان کے ضیاع کے بغیر اتنا بڑا قلعہ قبضے میں لے لیا گیا۔‘
جے ایچ ڈبلیو ہال کے مطابق منہوڑا کے بعد سپاہیوں نے پیدل آگے بڑھنا شروع کیا مگر دلدلی کیچڑ میں ایک سے ڈیڑھ فٹ تک دھنس گئے۔ لیکن وہ پھر بھی آگے بڑھتے رہے اور یوں ایک کلومیٹر کا فاصلہ نو گھنٹے میں طے کیا گیا۔ اسلحے، بارود اور دیگر اشیا سے وزن اور بھی بڑھ گیا تھا لیکن شہر میں جب پہنچے تو ہتھیار ڈالے جا چکے تھا۔‘
کراچی پر دھوئیں کے بادل
شہر سے ایک ڈیڑھ کلومیٹر دور واقع قلعے پر بمباری سے دھویں کے بادل امڈ آئے جس سے شہری خوفزدہ ہوگئے۔ اس کا ذکر سیٹھ ناؤ مل نے اپنی یادداشتوں میں کیا ہے جو سنہ 1915 میں شائع ہوئی تھیں
ناؤ مل لکھتے ہیں کہ ’ایک صبح میں نور خان کے ٹنڈی کیمپ میں بیٹھا تھا کہ کراچی سے چٹھی آئی کہ انگریزوں کے کئی جنگی جہاز بندرگاہ پر آئے تھے اور منہوڑے کے قلعے پر ایسی گولہ باری کی کہ تین گھنٹوں میں قلعے کی دیوار کو گرا دیا اور توپوں کا سیاہ دھواں شہر پر بادل کی طرح چھا گیا۔‘
’دن کو رات کر دیا گیا اور ایسے حالات میں کراچی میں میروں کے عملدار نواب خیر محمد، حاجی اللہ رکھیو اور دیگر میرے بڑے بھائی پریتم داس کے پاس آئے اور کہا کہ دھوئیں نے لوگوں کا سانس لینا بھی دشوار کر دیا ہے اور ان میں انگریزوں سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے، لہٰذا توپ زنی بند کروانے کے لیے کوششیں کی جائیں۔‘
ناؤ مل کے مطابق اس عرصے میں دو تین انگریز عملدار کنارے پر آئے اور جب ان کے بھائی کو پتا چلا تو وہ ان سے ملنے گئے، جہاں میروں کے لوگ بھی حاضر ہوئے۔ انگریز عملدار کے ساتھ مل کر اس کی رہائش گاہ پر پہنچے اور وہاں سے گھڑسوار فوج کی چھاؤنی کے لیے کوئی جگہ ڈھونڈنے گئے رام باغ کے درمیان میں جو میدان ہے وہ انہوں نے پسند کیا اور دوسرے روز فوج کو اتار کر منزل انداز کیا گیا۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’میرے رشتے داروں کو سامان اتار کر حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی وہ یہ سامان چٹھی پر بوقت ضرورت دیتے تھے اور یہ بغیر کسی اجورے (معاوضے) سے کرتے تھے، میں انھیں لکھتا تھا کہ ان کی خدمت کریں اور تقاضے پورے کیے جائیں۔‘
’اس طرح حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے میراں سندھ کے نمائندوں نواب خان محمد خان نظامانی اور حاجی اللہ رکھیو نے شکست مان لی۔ سات فروری 1839ع کو ایک معاہدہ تیار کیا گیا جس کی رو سے گورنر قلعے اور کراچی کا شہر مکمل قبضہ برطانوی فوج کے حوالے کر دے گا۔‘
’حسب منشا برگیڈیئر ویلینٹ کی ماتحت فوج شہر کی نواح میں ڈیرہ ڈال سکے گی اور مقامی حکومت بوقت ضرورت مروجہ شرح پر کشتیاں اونٹ اور دیگر اقسام کی نقل و حرکت فراہم کرے گی اور برطانوی فوج کے لیے خورد و نوش کا سامنا مہیا کرے گی، ان شرائط کی تکیمل پر مذکورہ بالا برطانوی فوج قلعہ اور شہر کے باشندوں کی حرمت کرے گی اور وہ آزادی سے حسب دستور اپنا کاروبار کر سکیں گے اور ان کے بحری جہاز بے خوف و خطر بندرگاہ میں آ جا سکیں گے۔‘
جے ایچ ڈبلیو ہال نے اپنی یادداشتوں میں تحریر کیا ہے کہ ’ہماری آمد پر مقامی لوگ پہلے خوفزدہ اور محتاط تھے اور کچھ دنوں کے بعد جب انھوں نے دیکھا کہ یہ فرنگی خطرناک نہیں تو وہ دودھ اور مچھلی وغیرہ بیچنے کے لیے لانے لگے، تازہ فروٹ کی سستے داموں خریداری پر فریقین کو فائدہ ہوا تھا۔‘
جنگ کے بعد کالرا
کراچی میں گندگی اور غلاظت کا حوالہ انگریزوں کے قبضے سے قبل بھی ملتا ہے۔ جے ایچ ڈبلیو ہال کے مطابق ‘کراچی بے قاعدگی سے بنا ہوا شہر تھا، گلیاں تنگ تھیں مکانات مٹی سے بنے ہوئے تھے، علاقہ انتہائی خستہ تھا، چند باغات تھے لیکن ان کے آس پاس بھی گندگی کے ڈھیر تھے جن پر اونٹوں، کتوں اور بلیوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔
ان کے مطابق ’شہر کے اندر دو سے تین ہزار گھر ہوں گے جبکہ دو بازار یا مارکیٹیں تھیں۔ زیادہ تر مچھلی اور چمڑے کا کاروبار تھا، اگر یورپی معیار پر پرکھا جائے تو کچھ کاریگر کمال کے ذہین اور ماہر تھے۔ ان کے پاس بڑی کشتیاں تھیں جس پر وہ انڈیا اور مسقط سے کپاس، نیل اور دیگر اشیا کی تجارت کرتے تھے جو اندرون سندھ کے علاقوں سے لائی جاتی تھیں۔ کشتیوں کے پاس اپنے تحفظ کے لیے اسلحہ بھی موجود تھا۔‘
’کیمپوں میں رہائش کی کم گنجائش، سخت موسم اور خوراک کی قلت کی وجہ سے کالرا (یا ہیضے) کی بیماری پھیل گئی، جس سے یورپی سپاہیوں کی ہلاکتیں ہونے لگیں۔ دن میں کبھی تین تو کبھی چار سے پانچ کی تدفین ہوتی تھی اس وقت طبی سہولیات محدود تھیں اور ہلاک ہونے والوں میں سے تین افسران اور چھتیس سپاہی شامل تھے۔‘
اس سے قبل رچرڈ برٹن نے اپنی تنصیف ’سندھ میں آمد‘ میں کراچی کا نقشہ یوں کھینچا تھا کہ ’کراچی پہنچتے ہی تین حواس نئے اثرات سے دوچار ہوتے ہیں اور تین اعضا یعنی کان، ناک اور آنکھ ناخوشگوار طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے تنگ و تاریک گلیاں جن میں سے بیک وقت گدھے کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں گزر سکتی یہاں گندگی اور نجاست ہوا کے حوالے کی جاتی ہے اور کوئی جس چیز کو گھر کے اندر ضروری نہیں سمجھتا اسے گھر کے سامنے ڈھیر کر دیتا ہے اور پھر اس کی صفائی کا انتظام پرندوں اور کتوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔‘
شہر کا کمزور قلعہ اور بندرگاہ
برطانیہ کے قبضے سے ایک سال قبل سیاح کارلیس نے لکھا تھا کہ ’کراچی بندرگاہ متعدد ندیوں اور نالوں کا نتیجہ ہے جو قریب میں پہاڑیوں سے نکل کر ساحل کی جانب بہتے ہیں اور ساحل کا نشیبی حصہ کاٹ کر پانچ میل لمبی خلیج بناتے ہیں اور شمالی حصے میں جہاں دلدل اور جھیلیں ہیں یہ خلیج دس میل لمبی ہو جاتی ہے اور اس کا کچھ حصہ جہاز رانی کے قابل ہے باقی حصہ پانی اتر جانے کے بعد کسی حد تک پایاب ہو جاتا ہے۔‘
’اس پہاڑی نما چٹان کی چوٹی پر جس کو منہوڑا کہتے ہیں ایک قلعہ، ایک مسجد اور چند دیگر عمارتیں ہیں۔ بندرگاہ کی حفاظت گول مینارہ کرتا ہے جو ان عمارتوں سے آدھ میل دور واقعہ ہے۔ کیاماڑی اور منہوڑا کا درمیانی علاقہ کراچی کی اصلی بندرگاہ ہے اور اسی علاقے میں ہر قسم کے جہاز لنگر انداز ہو سکتے ہیں۔‘
چارلس میسن، جس نے سنہ 1830ع میں یہاں کا دورہ کیا تھا، مزید لکھا کہ ’قلعہ منوڑہ کے گرد برج بنائے گئے ہیں، دیوار کے اندر جگہ جگہ توپوں کے لیے سوراخ بنے ہوئے ہیں اور جوکھیو قبیلے کے ایک سو سپاہی شہر کے گورنر حسن خان کے حکم سے تعینات ہیں اور قلعے کے اندر میٹھے پانی کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ حفاظتی دستے کے لیے پانی شہر سے لانا پڑتا ہے اور اس مقام سے تھوڑا آگے وہ پہاڑی آتی ہے جس پر قلعہ تعمیر کیا گیا۔‘
’یہاں پتھر کا ایک برج ہے جس پر چار توپیں نصب شدہ ہیں جو اندر آتے ہی جہاز کے بائیں جانب ہیں۔ بندرگاہ اور شہر کا حفاظتی انتظام انتہائی کمزور ہے اس کو تباہ بھی کیا جا سکتا ہے اور نظر انداز بھی کیا جاسکتا ہے کیونکہ لشکر ریت کے نشیبی علاقے میں اتر سکتا ہے اور منوڑہ کو محض قلت آب کے باعث ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ ’شہر کے باسیوں کو قلعے کے برجوں پر ناز ہے جن پر بے کار اور زنگ خوردہ چالیس توپیں جمائی گئی ہیں۔
قلعے میں شگاف پڑ گئے ہیں اور یہ بیرونی حملے کی تاب نہیں لا سکتا۔ بہت سے برج مٹی کے تودے ہیں اور دیوار میں اتنے بڑے شگاف پڑے ہوئے ہیں کہ لوگ ان کو رفع حاجت کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔‘
لیفٹیننٹ ہنری پوٹنجر جو 1809 میں کراچی آئے تھا اپنے سفر نامے ’بلوچستان و سندھ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سنہ 1797 میں تعمیر کردہ یہ قلعہ خلیج کے طور پر استعمال کیا جائے تو دشمن کا کوئی جہاز بندرگاہ میں داخل نہیں ہو سکتا لیکن اس کی قلعہ بندیاں بہت کمزور اور بے قاعدہ ہیں اور اکثر جگہوں پر یہ پانچ چھ فٹ سے زیادہ بلند نہیں اور ایک گھڑسوار نہایت آسانی سے ان کے اوپر سے جست لگا کر اندر آ سکتا ہے۔‘
سوانح قائد اعظم کے محقق رضوان احمد اپنی کتاب ’جناح پونجا‘ میں ایک جرمن سیاح کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’تالپور دور میں کراچی شہر کے اطراف مٹی کی اونچی اونچی فصیلیں تھیں، یہ فصیلیں اتنی چوڑی تھیں کہ ان پر سے دو بیل گاڑیاں آ جا سکتی تھیں۔ فصیلِ شہر کے دو دروازے تھے، ایک میٹھا در اور دوسرا کھارا در کہلاتا تھا، دونوں دروازوں پر پولیس کی چوکیاں قائم تھیں۔‘
’شہر کو ڈاکوؤں سے محفوظ رکھنے کے لیے غروبِ آفتاب کے بعد یہ دروازے بند کردیے جاتے تھے مگر دروازے بند ہونے سے قبل نغارے بجائے جاتے تھے تاکہ وہ لوگ جو شہر سے باہر گئے ہیں نغاروں کی آواز سن کر واپس آ جائیں۔‘
بمبئی فوج کے کیپٹن ایس وی ڈبلیو ہارٹ نے سنہ 1870ع میں ’دے رپورٹ آن ٹاون اینڈ پورٹ آف کراچی‘ میں لکھا تھا کہ شہر کی آبادی تقریباً تیرہ یا چودہ ہزار ہوگی، مکان مٹی کے گارے سے بنائے گئے ہیں اور لکڑی کے ڈھانچوں پر مٹی سے لپائی کی گئی ہے۔‘
’چھتیں بیٹھی ہوئی ہیں، بیشر مکانات ایک منزلہ ہیں اگرچہ سہ منزلہ بھی ہیں۔ صرف چند مکانات کی لپائی چونے سے کی گئی ہے لیکن یہ لپائی بھی بارش کی ہلکی سے فوار سے غارت ہو جاتی ہے البتہ مکانات بادگیر اور روشندانوں سے لیس ہیں، یہ روشندان ہوا کے رخ بنائے گئے ہیں اور تھوڑے ہی عرصے میں مضافات کافی پھیل گئے ہیں۔‘
ہارٹ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’شہر اور اس کے مضافات میں اکیس مسجدیں، تیرہ خانقاہیں اور چونتیس مندر تھے۔ اس کے علاوہ چند مدارس تھے، ہندو لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہ تھا، مسلمان لڑکیوں کو ناظرہ پڑھایا جاتا تھا۔‘
کراچی غلاموں کی تجارت کا مرکز
کراچی کی بندرہ گاہ سیاہ فام غلاموں کی تجارت کا مرکز بھی رہی ہے۔ کراچی پر برطانوی قبضے سے قبل سنہ 1838 میں برطانوی حکومت کے اشارے پر کراچی آئے تھے جن کو ناؤ مل نے مدد فراہم کی تھی۔ کیپٹن ایس ہارٹ اپنی رپورٹ ‘ٹاؤن اینڈ پورٹ آف کراچی’ میں لکھتے ہیں کہ ’کراچی غلاموں کی تجارت کی بڑی منڈی ہے یہاں بڑی تعداد میں افریقی غلام مسقط سے درآمد کیے جاتے ہیں، ان دنوں مسقط غلاموں کی تجارت کا عالمی مرکز ہے جبکہ کراچی میں ساڑھے چھ سو سالانہ غلام درآمد کیے جاتے ہیں جن میں سے تین چوتھائی لڑکیاں ہوتی ہیں
غلاموں کی درآمد پر حکومت ساڑھے پانچ روپے فی غلام کے حساب سے محصول وصول کرتی ہے، جس سے حکومت کو سالانہ 600 سے 700 روپے آمدنی ہوتی ہے۔‘
کراچی کی منڈی میں مرد غلاموں کی قیمت عورتوں سے نسبتاً زیادہ ہوتی تھی
مرد غلام کی قیمت ایک سو روپے سے چھ سو روپے تک ہے مگر غلام عورت کی قیمت ایک سو ستر سے ڈھائی سو روپے تک ہے۔ انھیں گھروں میں کام کاج کے لیے خریدا جاتا ہے جبکہ مرد غلاموں کی مختلف محنت طلب کاموں کے انجام دہی کے لیے خریداری کی جاتی ہے اور ان غلاموں میں کم عمر بچے بھی ہوتے ہیں جنھیں شیدی کہا جاتا ہے جبکہ برنس لکھتے ہیں کہ ان کی اولاد کو گڈا کہتے تھے۔
اس کے علاوہ کپڑے، چمڑے خشک مچھلی اور شراب کی صنعتوں کے علاوہ کچھ لنگیوں، چوڑیوں، کھلونوں اور ٹوپیوں کی صنعتیں بھی شامل ہیں، یہ اشیا خلیجی ریاستوں کو بھیجی جاتی تھیں اور ان کے لیے خام مال چین سے آتا تھا
الیگزینڈر ایف بیلے اپنی کتاب ’کراچی پاسٹ، پریزنٹ اینڈ فیوچر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اگرچہ کراچی میں نہایت نفیس اور جاذب نظر ٹوپیاں اور لنگیاں تیار کی جاتی تھیں لیکن حیدرآباد میں تیار کی گئیں ٹوپیوں اور لنگیوں کا معیار بہت بلند تھا۔‘
کراچی کا کاروبار ناؤمل کے خاندان کے ہاتھ میں تھا۔ ناؤمل اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ’ہمارے خاندان کے پاس کراچی میں بڑی کوٹھی کے کاروبار کے لیے پچاس یا ساٹھ ہر قسم اور ہر سائز کی کشتیاں ہوتی تھیں، جو ہندوستان کے مغربی ساحل کے بندرگاہوں پر کرایہ لے کر جاتی تھیں اور عربستان، ایران اور بلوچستان کے کناروں پر آنا جانا ہوتا تھا۔‘
’اس کے علاوہ ان کے پاس یورپی نمونے کے بحری جہاز بھی تھے، جن کا تعلق مسقط اور کلکتے کی کوٹھیوں سے ہوتا تھا۔ بحری قزاقوں کے خوف کے باعث ہر ایک جہاز توپوں، بارود اور دیگر جنگی اسباب سے مسلح ہوتے تھے۔‘
کراچی کا تالپوروں کے سامنے سرینڈر
کراچی انگریزوں سے قبل خان آف قلات، کلہوڑو اور بعد میں تالپور گھرانے کے زیر انتظام رہا۔ کلہوڑو حکمران میاں غلام شاہ نے سنہ 1721 میں بڑی جرات اور ہمت کر کے اس بندرگاہ کو میر نصیر خان والی قلات سے چھین کر پرگنہ ٹھٹہ میں شامل کر دیا تھا لیکن بعد میں لاڑکانہ کے قریب خان آف قلات کے بھائی زیرک خان کے قتل کے بیانے میں واپس کر دیا۔
ناؤ مل لکھتے ہیں کہ ’سنہ 1792 اور 1793 کے درمیان میر فتح علی نے کراچی پر 15 ہزار بلوچوں، سپاہیوں کے ساتھ حملہ کیا، جو توپوں اور گولہ بارود سے مسلح تھے انھوں نے اپنی چھاؤنی لیاری ندی کی دوسری طرف بنائی، شہری قلعے کے اندر رہتے تھے۔ سیٹھ بل رام داس کی نگرانی میں دفاع کیا گیا جو بارود اسلحہ جہازوں کی حفاظت پر مامور تھا وہ استعمال کیا گیا۔‘
’تالپوروں کی فوج ڈھائی ماہ شہر کا گھیراؤ کر کے بیٹھی رہی شہر کے باسی قلعے کے اندر تھے، جہاں کافی سامان جمع تھا اس کے علاوہ سمندر کا راستہ کھلا تھا اس لیے انھیں کھانے پینے کی تکلیف نہیں تھی لیکن اس وقت روٹی پکانے اور پینے کے لیے میھٹا پانی لیاری ندی سے لایا جاتا تھا لیکن اس عرصے میں کھارے پانی پر گزارہ کرنا پڑا۔ ڈھائی مہینے کے بعد بالاخر فوج بیزار ہوکر حیدرآباد لوٹ گئی۔‘
چند ماہ کے بعد میر فتح خان کے حکم پر دوسری فوج نے لیاری کے کنارے چھاؤنی لگائی اور قلعے پر توپ زنی شروع کی، یہ گھیراؤ تین ماہ جاری رہا اور اس کے بعد وہ ایک بار پھر ناکام لوٹے۔
میر فتح علی خان نے تیسری بار فوج بھیجی اور ان دنوں سیٹھ دریانو مل سے میر کرم علی کی دوستی تھی۔
انھوں نے اس کو خط بھیجا کہ ہمیں معلوم ہوا کہ کراچی میں خان آف قلات کی کوئی بھی حفاظتی فوج نہیں اس میں لڑائی کا دم نہیں۔ یہ سن کر افسوس ہوا کہ آپ نے ہمارے لوگوں کی مخالفت کی اپنے جہاز کا گولہ بارود ہماری فوج کے خلاف استعمال کیا۔
اس خط کے بعد دریانو نے قلات کے خان کو خط لکھا کہ کراچی پر تیسرا حملہ ہوا ہے، رعایا میں مقابلے کی طاقت نہیں لہٰذا مزید فوج بھیجیں۔ خان آف قلات کا جواب آیا کہ اگر تم دفاع کرسکتے ہو تو کرو۔
اس جواب کے بعد دریانو مل نے ایک مشروط خط میر کرم علی کو لکھا کہ کراچی میں بلوچ سپاہی جو سرکش طبقہ ہے کو داخل نہ کیا جائے، نواب ان کے مشورے سے کاروبار حکومت چلائے گا، جس کو مان لیا گیا اور شہر کی چابیاں میروں کے لوگوں کے حوالے کر دی گئیں۔
ڈاکٹر، سر درد کی گولی اور کراچی کوٹھی
مغل بادشاہ جہانگیر نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو پورے انڈیا میں کوٹھیاں قائم کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ سندھ میں ٹھٹھہ میں یہ کوٹھی قائم کی گئی لیکن بعد میں بند کردی گئی تاہم انگریزوں کا سفارتی بنیادوں پر اس کی بحالی کا سلسلہ جاری رہا۔
الیگزینڈر برنس اپنی کتاب دربار آف میرس میں لکھتے ہیں کہ اس کو گجرات کے علاقے کچھ کے سفیر نے بلایا کہ میر مراد کی طبیعت ناز ساز ہے اس کے علاج کے لیے ان کی خدمات چاہتے ہیں وہ ان کے ساتھ روانہ ہوگئے اور حیدرآباد پہنچے۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’انھوں نے میر مراد علی کو دیکھا تو اس کو کوئی مہلک مرض نہیں تھا۔ میر اس وقت تک گولی نہیں کھاتا جب تک حکیم نہ کھائے لہٰذا انھیں بھی یہ کڑوی گولی نگلنا پڑی لیکن بعد میں یہ ذمہ داری ایک ملازم پر عائد کردی گئی اور سخت پرہیز، علاج معالجے اور مرہم پٹی سے وہ صحت یاب ہونے لگے۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ ’انھوں نے سمجھا کہ میں کوئی بڑا ماہر حکیم ہوں، میں نے کوئینین کا استعمال کیا جو بخار کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ میروں کے ایک بچے کو بخار ختم نہیں ہو رہا تھا اس پر بھی آزمایا، میروں کو جب کوئینین کے اثرات کا معلوم ہوا تو انھوں نے کوئینین کی بوتل رکھ لی اور جب بیمار ہوا تو مجھے بھی نہیں دی گئی۔ ان کا خیال تھا کہ گولی کے ساتھ شاید اس بوتل کا بھی جادو ہے۔ میروں کا خیال تھا کہ میں جوانی کی کھوئی ہوئی طاقت بھی بحال کرسکتا ہوں۔‘
میر انگریز ڈاکٹری سے اس قدر متاثر تھے کہ انھوں نے ان سے شرائط میں ایک ڈاکٹر بھی مانگا تھا۔
گل حسن کلمتی ’کراچی سندھ جی مارئی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ناتھن کرو سنہ 1799 میں بحری جہاز کے ذریعے کراچی پہنچا اس کے ساتھ ایک جمعدار، دو سپاہی ایک ڈاکٹر اور کمپنی کا جھنڈا تھا۔ اس کا خوش دلی سے خیرمقدم نہیں کیا کیونکہ کراچی میں تاجروں کا رہنما دریانو مل ان کی آمد سے ناخوش تھا کیونکہ وہ سمجھ چکا تھا انگریزوں کا اصل مقصد کراچی کے بعد سندھ پر قابض ہونا ہے۔‘
ناتھن کرو حیدرآباد پہنچا، جہاں اس نے ٹھٹھہ اور کراچی میں کوٹھیاں قائم کرنے کی اجازت طلب کی۔ میروں نے کہا کہ صرف فقط ٹھٹھہ کی بات ہوئی تھی۔ کراچی میں بھوجو مل کے بیٹے دریانو مل بردارز کا کنٹرول تھا۔ بھجوانی انگریزی مخالف تھے انھیں معلوم تھا کہ اس اقدام سے ان کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ میروں نے کراچی کے قبضے کے وقت وعدہ کیا تھا کہ ان سے مشورہ کیا جائیگا۔
اسی دوران آغا اسماعیل خان جو وزیر اعظم آغا ابراہیم کا بیٹا تھا، جس کی ہمدردیاں انگریزوں کے ساتھ تھیں۔ اس نے کرو کو مشورہ دیا کہ دوئم میر غلام علی سے ملاقات کرے اور تحفے دیگر اپنی طرف مائل کرے۔ یہ ملاقات فائدہ مند ہوئی۔ میر غلام علی نے کرو سے ایک ڈاکٹر مانگا اور توپخانے بشمول ماہر توپجی فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا تاکہ امر کوٹ کا قلعہ جودھپور کے قبضے سے واپس لیا جائے۔
کرو نے اُنھیں یقین دہانی کروائی۔ اس موقع پر کپڑوں، گھڑیال، شکار کے لیے بندوقوں کا تحفہ پیش کیا گیا۔
کرو کو کراچی میں کوٹھی کی اجازت مل گئی۔ ڈاکٹر مبارک اپنی کتاب دے انگلش فیکٹری میں لکھتے ہیں کہ کراچی قلعے کے باہر فیکٹری کے لیے بغیر اجورے زمین الاٹ کی گئی اور ٹیکس سے استثنیٰ دیا گیا۔
کلمتی لکھتے ہیں کہ سندھ میں یہ بات مشہور ہوئی کہ ڈاکٹر کی ایک ڈاکٹر اور سر کی گولی کے لیے سندھ انگریزوں کے حوالے کر دیا گیا، بعد میں ٹیپو سلطان کی ہلاکت آس پاس کے بدلتے حالات اور انگریزوں کا اثر رسوخ بڑھنے پر میروں نے کرو سے کوٹھی بند کروا دی۔
کیا ناؤ مل نے میروں سے والد کا انتقام لیا؟
کراچی میں بھجوانی خاندان انگریزوں کو کوٹھی دینے پر پہلے ہی ناراض تھا لیکن اس کے بعد ایک اور واقعہ ہوا جس نے اس خطے کی تاریخ تبدیل کر دی، جس میں ناؤ مل کے خاندان پر توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا۔
ناؤ مل لکھتے ہیں کہ ’سنہ 1831 سے 1832 کے درمیان ایک دن نصرپور کے ایک ہندو مزدور جس نے بیٹا استاد کے پاس پڑھنے کے لیے بٹھایا تھا، استاد کی سختی کی وجہ سے بیزار ہو کر پڑوس کی مسجد کے دروازے کے برابر میں کھڑا ہو گیا۔ کچھ مسلمانوں کی نظر اس پر پڑی اور اسے اندر بٹھا دیا، جس پر ہندو دکانداروں نے اپنی دکانیں مسلمانوں کے لیے بند کر دیں اور سودا سلف دینے سے انکار کیا۔‘
’یہ خبر جب کراچی پہنچی تو ناؤ مل کے مطابق مسلمانوں نے انتقام لینے کے لیے لیاری ندی میں جو کنویں تھے، جہاں سے ہندو پینے کا پانی بھرتے تھے انھیں پلید کر دیا اور دوسرے روز نورل شاہ نامی ایک سید ان کے محلے بدشد بولتا گزرا جس پر ان کے چھوٹے بھائی کی تلخ کلامی ہوئی اور نورل شاہ نے اس پر توہین مذہب کا الزام عائد کیا۔‘
’مسلمانوں کے ہجوم اکٹھے ہوئے اور ہندوؤں نے دکانیں بند کر دیں۔ نورل شاہ نے ٹھٹھہ، شاہ بندر، مٹیاری، حیدرآباد اور ہالا میں جا کر مسلمانوں کو بھڑکایا اور سندھ صوبے کو مذہبی جوش کے شعلوں نے لپیٹ لے لیا۔ اس دوران ان کا بھائی پرسررام جیسملیر چلا گیا۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ ’مسلمان بڑی تعداد میں آ کر حیدرآباد میں جمع ہوئے اور میر مراد پر زور دیا کہ وہ سیٹھ ہوت چند کو فرمان جاری کرے کہ وہ بیٹے پراسرام کو حیدرآباد روانہ کرے جبکہ پراسرام کراچی میں نہیں تھا۔ میر مراد نے دوسرا فرمان بھیجا کہ بیٹے کے بدلے ہوت چند حاضر ہو۔ سیٹھ ہوت چند اندازاً دو ہزار ہندوؤں کو ساتھ لے کر خود حیدرآباد روانہ ہوا اور فرمان کے ساتھ سیٹھ کی حفاظت کے لیے ایک فوجی دستہ بھی آیا تھا۔‘
’مسلمان زبردستی سرکشی سے کام لینے لگے، جنھیں میر مراد نے روکا لیکن مسلمان میر مراد کی بیٹی کے پاس پہنچے جو پگدار کے وارث کی بیوی تھی، اس کو منت سماجت کر کے اپنے طرف کیا اور قرآن دے کر والد کی طرف بھیجا۔ میر انکار تو نہیں کر سکا اور کہا کہ سیدوں کو سمجھاؤ کہ حیدرآباد میں کوئی زیادتی نہ کریں اور انھیں نصرپور کے پیر کی طرف بھیجتا ہوں جبکہ نصرپور کے قاضی نے انھیں سننے سے انکار کر دیا۔‘
مسلمان ہوت چند کو اغوا کرکے حیدرآباد لائے وہاں سے شاہ بندر میں باگانی لے کر روانہ ہوئے جہاں انھیں نورل شاہ کے ایک عزیز متلو شاہ کے پاس رکھا گیا، دس گیارہ دن گزر گئے سیٹھ ہوتھ چند نے ایک دن بھی کھانا نہیں کھایا وہ بھنے ہوئے چنے کھاتا، جو ایک ملازم انھیں دیتا، جو چھپ کر وہاں آتا تھا۔
وہاں مسلمانوں نے سوچا کہ انھیں زبردستی مسلمان کیا جائے لیکن پچاس سے زائد عمر کے شخص کی سنت کرنا مشکل تھا اس لیے وہ کوشش میں تھے کہ کوئی راستہ نکل آئے۔ ہندو تاجروں کے احتجاج اور جیسلمیر کے راجاؤں کے افسوس کے بعد میر مراد پچھتائے اور اس کی رہائی کا حکم جاری کیا۔
ناؤ مل لکھتے ہیں کہ ’کراچی پر انگریزوں کے قبضے کے بعد میر نور محمد نے انھیں طلب کیا اور چارپائی پر بٹھایا۔
’اس وقت وہاں میر نصیرخان بھی موجود تھا۔ نور محمد نے مخاطب ہو کر کہا کہ سیٹھ ناؤ مل والد کا انتقام اچھی طرح لیا اب تو خوش ہوئے تو انھوں نے اس کو جواب دیا کہ سائیں ایسے کیوں کہہ رہے ہیں، ایسے الفاظ کیوں استعمال کر رہے ہیں۔‘
ناؤ مل پر بعض مسلمان تاریخ نویس غداری کا الزام عائد کرتے ہیں، ان میں محمد عثمان دموہی بھی شامل ہیں۔
ان کے مطابق ’ناؤ مل کا والد سندھ کو خیرباد کہہ کر راجستھان چلا گیا اور انگریزوں کی سازش میں شریک ہوگیا جبکہ سندھ میں ناؤ مل انگریزوں کو مسلط کرنے کے لیے ان کا مخبر بن گیا بلکہ انگریزوں کے سندھ پر قبضے کرنے کے مذموم منصوبے کی کامیابی کے لیے بے دریغ اپنی دولت لٹانے لگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ محض ناؤ مل اور اس کے خاندان کی غداری کی وجہ سے سندھ انگریزوں کی غلامی کا شکار ہوا۔‘
’کراچی سندھ کی مارئی‘ کے مصنف گل حسن کلمتی لکھتے ہیں کہ ’مسلمان اور ہندو جو ساتھ رہتے تھے اس واقعے سے ان کا اتحاد متاثر ہوا۔ ہندوؤں خاص طور پر تاجروں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا اور ان کے لیے انگریزوں سے زیادہ کوئی اور مضبوط سہارا نہیں تھا۔‘
گل حسن میروں کے اندرونی کمزوریوں اور خامیوں کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’کراچی میں میران کی طرف سے کوئی باقاعدہ تربیت یافتہ فوج موجود نہیں تھی۔ قلعے کی حفاظت کے لیے اسی سپاہی رکھے ہوئے تھے جو مقامی سرداروں نے بیگار پر دیے تھے جس کے بدلے سرداروں اور وڈیروں کو جاگیریں ملی تھیں، سپاہیوں کو یہ سہولت تھی کہ کھانے پینے کا سامنا مفت ملتا تھا۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’میروں کی ٹیکس کے علاوہ کراچی میں دلچسپی نہیں تھی۔ وہ دگنا ٹیکس لیتے لیکن ترقی کے لیے کچھ نہیں دیا جاتا۔ شہر میں کوئی رستہ درست نہیں تھا، صفائی کا کوئی بندوست نہیں تھا۔ گورنر اور نواب زیادہ تر ایران سے آئے تھے جبکہ چھوٹے ملازم بھی مقامی نہیں تھے جن کا مقصد ٹیکس کی وصولی اور تنخواہ کا حصول تھا، اگر شہر کو مقامی لوگوں کے حوالے کیا جاتا تو ان کی دلچسپی زیادہ ہوتی۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو