نئی دہلی – امریکی قیادت میں نیٹو ممالک اور روس کے درمیان یوکرین کے معاملے پر بڑھتے ہوئے تنازعے کے باعث اس وقت بھارت کی سفارتی حکمتِ عملی دوراہے پر کھڑی نظر آتی ہے، کیونکہ اسے اپنے دو اہم سٹریٹجک شراکت داروں امریکا اور روس کے درمیان توازن قائم کرنے کی آزمائش کا سامنا ہے
جیسا کہ امریکا کی ہمیشہ سے یہ فطرت رہی ہے، اس لیے وہ اس معاملے میں بھارت کو اپنے ساتھ دیکھنا چاہتا ہے، لیکن دوسری بھارت اسٹریٹجک طور پر روس کے بھی بہت قریب ہے اور طویل عرصے سے روسی دفاعی ساز و سامان اور ہتھیاروں کا خریدار رہا ہے، اس لیے اب بھی روس پر اس کا انحصار برقرار ہے
ادہر سرحدی کشیدگی کے باعث بھارت اور چین کے تعلقات بھی اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں، جس کی وجہ سے روس کا تعاون حاصل کرنا اس کے لیے اور بھی ضروری ہو جاتا ہے
یہی وہ صورت حال ہے، جس کی وجہ سے امریکا اور روس کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں بھارت نے 31 جنوری کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یوکرین کشیدگی پر بحث کے لیے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، لیکن جب بات چیت ہوئی تو وہاں موجود بھارتی نمائندے نے اس کشیدگی کو کم کرنے اور خطے میں دیرپا امن و استحکام کی رسمی اپیل پر ہی اکتفا کیا
روس اور امریکا کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے درمیان بھارر کی یہ بھرپور خواہش ہے کہ اس کے سٹریٹجک شراکت دار آپس میں نہ ٹکرائیں کہ کہیں دلی کو کسی ایک کی طرفداری نہ کرنی پڑ جائے، کیونکہ ایسے میں اس کا طویل عرصے سے قائم اسٹریٹجک خود مختاری کا مؤقف خطرے میں پڑ جائے گا
اس حوالے سے سفارتی ماہرین میڈیا میں اس معاملے میں کھل کر اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں
بھارتی فوج کے ریٹائرڈ میجر جنرل ہرش ککڑ یکم فروری کو ایک مقامی انگریزی اخبار دی اسٹیٹسمین میں لکھتے ہیں”بھارت کے لیے غیر جانبدار رہنا بہترین آپشن ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کی غیر جانبداری نے امریکا کو پریشان کر دیا ہے۔ اگر ہندوستان آکس (امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا کے اتحاد) کا رکن تھا، تو اسے لازماً امریکا کا ہی ساتھ دینا ہوتا“
بھارت اپنی فوجی ضروریات کے لیے روس پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے اور اپنا 55 فیصد فوجی ساز و سامان روس سے خریدتا ہے۔ بھارت روس سے S-400 میزائل سسٹم خریدنا چاہتا ہے، لیکن امریکہ نے اس پر اعتراض کیا ہے
امریکا اس معاہدے کو منسوخ کرنے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈال رہا ہے، لیکن بھارت کا مؤقف ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی آزاد ہے اور وہ ہتھیاروں کی خریداری کے معاملے میں قومی مفاد کو ترجیح دیتا ہے
نئی دہلی، بیجنگ کے ساتھ اپنے حل طلب سرحدی تنازعے پر کواڈ گروپ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے امریکا کے ساتھ اتحاد کا بھی خواہاں ہے
حکومت کے حامی بھارتی نیوز چینل زی نیوز نے بھی اپنے ایک پروگرام میں بھارت کے اس ’مخمصے‘ پر بات کی ہے
پروگرام میں بحث کی گئی کہ یوکرین کے معاملے میں نریندر مودی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، کیونکہ امریکی صدر جو بائیڈن اور روسی صدر ولادی میر پیوتن دونوں ہی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ’دوست‘ ہیں
پروگرام میں کہا گیا کہ بھارت اور امریکا کی بڑھتی ہوئی دوستی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ روس کے ساتھ اس کی پرانی دوستی کہیں سے بھی کمزور پڑ گئی ہے
ایسے میں اگر یوکرین کے معاملے میں روس کی امریکا کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا اور اگر اس پر پابندیاں لگائی گئیں تو چین کے ساتھ اس کی قربتیں مزید بڑھ جائیں گی۔ جس کی وجہ سے روس اور چین کے درمیان فوجی تعاون بھی تیزی سے بڑھے گا
بھارت اگر یوکرین کے معاملے میں خفیہ طور پر امریکا کا ساتھ دینے کی کوشش کرتا ہے، تو نئی دہلی کو روس کی جانب سے اسلحہ فراہمی پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے
واضح رہے کہ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع کے معاملے میں روس نے اب تک کسی کا ساتھ نہیں دیا ہے۔ بھارت کو امید ہے کہ روس مستقبل میں بھی اس معاملے میں غیر جانبدار رہے گا. لیکن یہی امید یوکرین کے معاملے پر روس، بھارت سے بھی رکھتا ہے، دوسری جانب امریکا امید کیے ہوئے ہے کہ بھارت کی حمایت اس کے پلڑے میں آئے
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار رنجے سین نے 22 جنوری کو انگریزی اخبار ’دی ٹریبیون‘ میں لکھا کہ ”امریکا اب تک بھارت کا سب سے اہم اسٹریٹجک پارٹنر رہا ہے۔ اگر بھارت کو چین کا مقابلہ کرنا ہے تو اس کے لیے امریکا کے ساتھ شراکت داری ضروری ہے۔ اگر امریکا کے ساتھ تعلقات مضبوط رہے تو بھارت چین کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں آ جائے گا۔ لیکن روس کے اندر بھارت-امریکا اتحاد کے بارے میں خدشات برقرار ہیں اور کم نہیں ہو رہے ہیں۔“
ساتھ ہی بھارت کی یہ بھی کوشش ہوگی کہ ہر حال میں افغانستان جیسی صورتحال سے بچا جا سکے۔ امریکا وہاں سے نکل آیا ہے اور چین نے طالبان کو تسلیم کرنے میں بڑی تیزی دکھائی ہے، جس کی وجہ سے چین نے افغانستان میں سرمایہ کاری کے معاملے میں بھارت پر برتری حاصل کر لی اور وہاں بھارتی منصوبے خطرے میں پڑ گئے۔ نئی دہلی نے افغانستان، پاکستان، عراق، ایران، لیبیا اور یہاں تک کہ چین میں بھی امریکی پالیسیوں کی قیمت ادا کی ہے
اسی تناظر میں روس میں بھارت کے سابق سفیر کنول سبل نے 21 جنوری کو اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’کیا ہندوستان امریکا پر دباؤ ڈال سکتا ہے کہ وہ یوکرین کو نیٹو کی رکنیت نہ دے۔ کیا وہ روس کو یوکرین پر حملہ نہ کرنے پر راضی کر سکتا ہے؟‘
بھارت کی تشویش ایک اور معاملے پر بڑھے گی کیونکہ یوکرین کشیدگی کی وجہ سے امریکا کی توجہ ایشیا پیسیفک خطے سے مشرقی یورپ کی طرف ہٹ جائے گی
یاد رہے کہ نومبر 2020 میں یوکرین کریمیا میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ میں ایک قرارداد لایا۔ اس وقت بھارت نے اس تجویز کے خلاف ووٹ دیا تھا
اس سے قبل سنہ 2014ع میں منموہن سنگھ کی حکومت نے کریمیا کے الحاق کے بعد روس پر عائد مغربی پابندیوں کی مخالفت کی تھی
تاہم یوکرین کے بحران پر 31 جنوری کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کے مستقل نمائندے ٹی ایس تریمورتی کے بیان کی مختلف تشریح کی جا رہی ہے
انڈیا کے معروف انگریزی اخبارات میں سے ایک انڈین ایکسپریس نے لکھا کہ ’بھارت نے اپنے بیان میں ’تمام ممالک کے جائز سکیورٹی مفادات‘ کی بات کی ہے۔ لیکن عام تاثر یہ لیا گیا کہ یہ بیان روس کے مفادات کی وکالت میں تھا‘
اسٹریٹجک اور بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار تنوی مدن نے بھارتی وزارت خارجہ کی ایک ٹویٹ کا حوالہ دیا جس میں یوکرین کے بحران کے ’پرامن حل‘ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ’ایسا لگتا ہے کہ بھارت کھل کر یہ کہنے جا رہا ہے: ولادیمیر، ایسا کچھ نہ کریں۔‘
فی الحال تو ایسا لگتا ہے کہ روس، یوکرین کے معاملے میں بھارت ’انتظار کرو اور دیکھو‘ کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے، لیکن اگر روس نے جارحانہ رویہ اختیار کیا اور امریکا کے ساتھ اس کی کشیدگی ایک بڑے تنازعے میں بدل گئی تو بھارت کو ٹھوس مؤقف اختیار کرنا پڑے گا، اور یہی وہ بات ہے جو اس کے لیے سب سے بڑی مشکل بنی ہوئی ہے. دوسرے الفاظ بھارت کے لیے صورتحال ”ایک ہی وقت میں دو خربوزے ایک ہاتھ میں پکڑنے“ جیسی ہے.