والد کی گرفتاری پر ذہنی مریض بننے والے نو سالہ ننھے عمار نے راہ تکتے تکتے آنکھیں موند لیں۔۔۔

ویب ڈیسک

ایک طرف ٹی وی پر ملک کی سب سے بڑی عدالت کی کاروائی لائیو ٹیلی کاسٹ کی جا رہی تھی اور دوسری جانب ایک بچہ اپنے گرفتار باپ سے ملنے کی حسرت لیے اس دنیا کو چھوڑ گیا

یہ ایک نو سالہ بچے کی ایسی دلدوز کہانی ہے، جو کسی بھی حساس انسان کے دل کو درد اور آنکھوں کو آنسوؤں سے بھر دیتی ہے

لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما میاں عباد فاروق کا نو سالہ معصوم بیٹا اپنے والد کی گرفتاری پر اس قدر دلشکستہ ہوا، کہ بالآخر اپنے والد کی راہ تکتے تکتے اس کے دل نے دھڑکنا بند کر دیا

عمار عباد کو پیر کے روز لاہور میں ان کے آبائی علاقے گنج بخش ٹاون میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اپنے والد کی راہ تکتے دنیا چھوڑ جانے والے عمار کے جنازے پر ان کے والد عباد فاروق جو پولیس کی تحویل میں ہیں، ان کو بھی پیرول پر رہا کر کے جنازے میں شرکت کی اجازت دی گئی

گرفتار پی ٹی آئی رہنما عباد فاروق کے بھائی کا کہنا ہے کہ ان کا نو سالہ بھتیجا والد کی گرفتاری کے بعد دماغی بیماری میں مبتلا ہوا اور پھر اس کی طبیعت خراب ہوتی رہی، جس کے بعد وہ انتقال کر گیا

انہوں نے کہا کہ عمار عباد والد کی گرفتاری کے بعد دماغی بیماری میں مبتلا تھا اور اپنے والد کی یاد میں روتا رہتا تھا

اس سے قبل عباد فاروق نے عمار کو جیل سے حوصلہ دیا تھا اور پریشان نہ ہونے کا پیغام دیا تھا

عمار عماد کے چچا تصور چوہدری جو کہ پنجاب کے محکمہ بورڈ آف ریوینیو کے ترجمان کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں انہوں نے بتایا ”عمار کو کسی قسم کی کوئی بیماری لاحق نہیں تھی۔ وہ ایک متحرک بچہ تھا نو مئی کے واقعات کے بعد پولیس نے جب 16 مئی کو عباد فاروق کو گرفتاری کے لئے چھاپے مارے تو بچے کو دماغی عارضہ لاحق ہوا۔ وہ اس سے پہلے بالکل ٹھیک تھا“

خیال رہے کہ عباد فاروق کو پولیس نے نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں 10 مئی کو گرفتار کیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ جیل میں ہیں۔ تاہم ان کے خاندان کے افراد کا الزام ہے کہ پولیس اس کے بعد بھی گھر پر چھاپے مارتی رہی ہے

دوسری طرف پولیس اس طرح کے الزامات اور گھر میں بار بار چھاپوں کی تردید کر رہی ہے۔ آئی پنجاب پولیس کے ترجمان سید مبشر حسن کا کہنا ہے ”پولیس پر بے بنیاد الزام لگائے جا رہے ہیں بچہ پہلے ہی موذی مرض میں مبتلا تھا۔ بچے کی موت سے پولیس کا یا کسی اور کا کوئی لینا دینا نہیں ہے“

میاں عباد فاروق کے بیٹے عمار کی وڈیو گزشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی، جس میں انہیں انتہائی بری حالت میں دیکھا جا سکتا تھا۔ پی ٹی آئی رہنمائوں کا کہنا تھا کہ عماد فاروق کے بیٹے کی حالت 9 مئی کے بعد بگڑی ہوئی ہے اور وہ گھر میں بار بار چھاپوں کے باعث خوفزدہ ہو کر دماغی مریض بن گیا

عمار کی اس سے قبل کی کچھ وڈیوز بھی منظر عام پر آئی تھیں، جن میں انہیں صحت مند کھیلتے اور ہنستے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے

چند روز قبل پاکستان تحریک انصاف نے دعویٰ کیا تھا کہ سیاسی دباؤ کی وجہ سے میاں عباد فاروق کے بیمار بیٹے عمار عباد کو ہسپتال انتظامیہ نے وینٹی لیٹر دینے سے بھی انکار کر دیا۔ پی ٹی آئی رہنمائوں کا کہنا تھا کہ اس ملک میں انسانیت بالکل ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے

ان کی موت پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جاری آفیشل بیان میں کہا گیا ہے کہ ’میاں عباد فاروق کے نابالغ بچے کی موت ایک بے رحمانہ قتل، اس کا ذمہ دار وہ جنگلی نظام ہے جو اس وقت ریاست پر قابض ہے۔ آئین و قانون کی بالادست حیثیت کو ختم کر کے سیاسی کارکنان اور ان کے اہل خانہ کے لیے ملک کی زمین تنگ کر دی گئی ہے۔‘

تحریک انصاف نے چیف جسٹس آف پاکستان سے عمار عباد کی موت سے جڑے حقائق کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے

عمار عباد کے انتقال پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فرخ حبیب نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر بیان میں کہا ”بہت افسوس کی بات ہے کہ عمار اپنے قید والد میاں عباد فاروق کی تلاش میں چل بسے۔ سوشل میڈیا پر بار بار اپیلیں کی گئیں کہ معصوم عمار کو اس کے والد سے ملنے دیا جائے، لیکن پتھر چہرے والے ظالم کے دل میں رحم نہیں آیا۔“

فرخ حبیب نے کہا ”ہر کسی کے بچے ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں جبر کا نظام زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ اللہ کی لاٹھی خاموش ہے لیکن بے اثر نہیں ہے۔ ننھے عمار کو اللہ کی عدالت میں ضرور انصاف ملے گا۔“

واضح رہے کہ پی پی 149 لاہور سے تحریک انصاف کے امیدوار میاں عباد فاروق اس وقت 9 مئی کے مقدمات میں نامزد ہیں اور جیل میں ہیں

اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر ملک کے نظام اور ذمہ داران کے خلاف شدید غم و غصّے کا اظہار کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ یہ کیسا ملک ہے، جہاں ایک معصوم بچہ والد کی گرفتاری کے لئے بار بار پڑنے والے چھاپوں کے بعد ذہنی مریض بن کر ہسپتال پہنچا اور پھر اسے اپنے گرفتار والد سے ملنے بھی نہیں دیا گیا اور آخر کار وہ اپنے رب کے حضور پیش ہوگیا

سوشل میڈیا پر کچھ دل دہلا دینے والی وڈیوز اور تصاویر بھی اس حوالے سے موجود ہیں، جو ہمارے نظام پر نوحہ کناں ہیں

ملک کو آزاد ہوئے پون صدی بیت گئی لیکن اس کے حکمران اندھی جہالت، کم عقلی اور حاکمانہ ذہنیت سے ابھی تک باہر نہیں نکل سکے، بھارت چاند پر پہنچ گیا اور ہم اپنی سیاسی مخالفین سے جیلیں بھرنے کے لئے تگ ود و کر رہے ہیں۔ عوام کو مسائل سے نجات دلانے اور ملک کو بہتری کی طرف لے کر جانے کے بجائے سیاسی انتقام اور نفرت کی آگ میں جھونکا جا رہا ہے

اسی طرح کے ظلم کا ایک اور واقعہ ایک ماہ قبل پی ڈیم ایم کے دورِ حکومت میں بھی پیش آیا تھا، جب نو مئی واقعات کے بعد پولیس کے کریک ڈاؤن میں گرفتار کیے گئے چودہ سالہ بچے ارسلان نسیم اور اس کے خاندان پر پنجاب پولیس نے ظلم کی انتہا کر دی تھی

ایک طرف جشنِ آزادی منائی جا رہی تھی اور دوسری طرف سوشل میڈیا پر ایک واقعے کی تفصیلات گردش کر رہی تھیں، جس کے مطابق لاہور میں ایک چودہ سالہ بچے ارسلان نسیم کو ضمانت کے باوجود پولیس نے دوبارہ 9 مئی کے واقعے کے تناظر میں گرفتار کرنے کی کوشش کی

پولیس جب چودہ سالہ پی ٹی آئی سپورٹر کو رہائی کے بعد دوبارہ گرفتار کرنے آئی۔ گھر سے بچہ برآمد نہ ہونے پر پولیس نے اس کے والد محمد نسیم کو حراست میں لیا اور مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا۔ تشدد کی وجہ سے ہارٹ اٹیک سے والد کی موت واقع ہو گئی

چودہ سالہ بچے ارسلان نسیم کو 9 مئی واقعات کے بعد تین ماہ قبل گرفتار کیا گیا تھا، جو رہائی ملنے پر اپنے گھر پہنچا تھا۔ پولیس اہلکار چودہ سالہ بچے ارسلان نسیم کو دوبارہ سے گرفتار کرنے کے لئے اس کے گھر آ گئی، جس پر ارسلان نسیم کے والد نے مزاحمت شروع کر دی

پولیس اہلکاروں نے ارسلان نسیم کے گھر رات تین بجے ریڈ کیا، ارسلان نسیم کے والد بیٹے کی دوباری گرفتاری کے لیے مارے جانے والے چھاپے کے دوران ہارٹ اٹیک سے جاں بحق ہو گئے، جن کی لاش کو اس کے گھر والوں کو واپس دیتے ہوئے کہا گیا کہ بچے کو ہمارے حوالے کرو۔ پولیس نے ارسلان نسیم کے والد کا جنازہ پڑھانے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے اس کے خاندان کو فوری طور پر دفنانے کا حکم دیا

ارسلان نسیم گلبرگ ٹو میں واقع اتحاد کالونی میں رہتا تھا۔ اس کے والد محمد نسیم سکیورٹی گارڈ کی نوکری کرتے تھے، جبکہ ارسلان خود پانچ بہنوں کا اکلوتے بھائی ہے

اتحاد کالونی کے عینی شاہدین کے مطابق پولیس نے گھر پر دو روز میں چار ریڈز کیے اور گھر والوں کے ساتھ انتہائی سختی سے پیش آئے

ایک عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ”پولیس کی ریڈ کے بعد یہ لوگ گھر چھوڑ گئے تھے۔ رات کو جب دوبارہ پولیس چار گاڑیوں میں آئی تو گھر کا دروازہ توڑ کر اہلکار اندر گئے اور توڑ پھوڑ کی۔ جب نسیم صاحب کو ہسپتال لے جایا گیا تو وہاں وہ دم توڑ گئے، اس کے بعد پولیس نے تدفین کا عمل فوری کرنے کا حکم دیا۔ اور تین گھنٹے کے اندر اندر انہیں دفنا دیا گیا۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close