نیو یارک – اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ القاعدہ، جماعت انصاراللہ اور ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کر پاکستان اور تاجکستان میں ’چین کے مفادات‘ پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے
سکیورٹی کونسل کی یہ رپورٹ تین فروری کو جاری ہوئی ہے ، جس میں پوری دنیا میں شدت پسند تنظیموں کی جون 2021 سے دسمبر 2021 تک کے معاملات کا احاطہ کیا گیا ہے
اس رپورٹ میں نام نہاد داعش، ایسٹ ترکستان موومنٹ، القاعدہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے حوالے سے بتایا گیا کہ وہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے آنے کے بعد کس طرح فعال ہو گئی ہیں
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایسٹ ترکستان اسلامک موومٹ یا ترکستان اسلامک پارٹی مغربی چین کی شدت پسند تنظیم ہے، جو چین کے صوبہ سنکیانگ اور افغانستان کے چین کے ساتھ سرحد پر فعال ہے۔ یہ گروپ صوبہ سنکیانگ کو آزاد کرنے کے لیے چین پر دباؤ ڈالتا ہے
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد نام نہاد داعش ایسٹ ترکستان موومنٹ کے لوگوں کو ایغور ٹیم کی مدد سے بھرتی کر رہی ہے تاکہ خطے میں اپنی موجودگی کو بڑھا سکے
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ افغانستان کے صوبہ قندوز کی ایک مسجد میں دھماکے میں سنگیانک کا ایغور جنگجو ملوث تھا
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ایسٹ ترکستان موومنٹ کے دو سو سے سات سو جنگجو طالبان حکومت کے آنے کے بعد افغانستان کے صوبہ بدخشاں، جہاں پر یہ گروپ فعال تھا، سے چین کے ساتھ سرحدی صوبوں بغلان اور تخار میں آ گئے ہیں
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایسٹ ترکستان موومنٹ نے طالبان کی افغانستان میں حکومت کو نیک شگون قرار دیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ طالبان حکومت کی وجہ سے ان پر سے ’دہشت گرد تنظیم‘ کا لیبل ختم ہوجائے گا اور شاید ان کو افغانستان کی شہریت بھی مل جائے
سیکورٹی کونسل کی رپورٹ میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی ) کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے تین سے پانچ ہزار سے زائد جنگجو موجود ہیں۔ تاہم ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کی بات چیت کی وجہ سے پاکستان میں حملے کم کیے ہے
اسی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس حوالے سے بھی بات چیت جاری ہے کہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے خاندان پاکستان میں اپنے علاقوں کو جا کر پرامن رہیں گے
رپورٹ میں افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی کے بارے میں بتایا گیا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد شاید القاعدہ مزید افغانسان میں فعال ہوجائے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ طالبان حکومت کے بعض سینیئر عہدے دار القاعدہ کے ساتھ ہمدردیاں رکھتے ہیں
تاہم رسول داوڑ، جو شدت پسند تنظیموں پر نظر رکھنے والے صحافی ہیں اور وہ ماضی میں شدت پسند تنظیموں کے سربراہ کے انٹریو بھی کر چکے ہیں، اس حوالے سے کہتے ہیں کہ رپورٹ میں جس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے وہ حقیقت سے دور ہے، کیونکہ ٹی ٹی پی کا ایک واضح موقف ہے کہ وہ پاکستان کے علاوہ کسی بھی ملک کے ساتھ جنگ کرنا نہیں چاہتے اور نہ ان کے معاملات میں دخل اندازی کرنے کے خواہاں ہیں
رسول داوڑ نے بتایا کہ ’ٹی ٹی پی نے آج تک پاکستان میں چین کے کسی بھی ہدف پر حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ حال ہی میں خیبر پختونخوا میں داسو ہائیڈرو واٹر پراجیکٹ میں چین کے انجینیئرز پر حملے کی ذمہ داری بھی ٹی ٹی پی نے قبول نہیں کی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ٹی ٹی پی نے چین کو ایک خط کے ذریعے بتایا تھا کہ وہ دیگر ممالک کے ساتھ ٹی ٹی پی کے خلاف محاذ نہ کھولیں کیونکہ ٹی ٹی پی کا چین کے کسی ہدف پر حملے کا نہ پہلے ارادہ تھا اور نہ ہے کیونکہ ٹی ٹی پی کی جنگ صرف پاکستانی حکومت کے ساتھ ہے
انہوں نے بتایا کہ سیکورٹی کونسل کے رپورٹ میں ایسٹ ترکستان موومنٹ کا ذکر ہے اور ساتھ میں تاجکستان کا بھی، تو ہوسکتا ہے کہ ایسٹ ترکستان موومنٹ والے تاجسکتان میں کارروائیوں کا ارادہ رکھتے ہوں
رسول دواڑ نے کہا ’تاہم جہاں تک بات ٹی ٹی پی کی ہے، تو ان کا موقف اس حوالے سے واضح ہے کہ وہ پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک کے ساتھ محاذ نہیں کھولنا چاہتے۔‘
سکیورٹی کونسل کی اس رپورٹ کے مطابق نام نہاد داعش کے پاس پچیس سے پچاس ملین ڈالرز تک کی رقم موجود ہے اور تنظیم کو فنڈنگ کا سب سے بڑا ذریعہ حوالے سے پیسے بھیجنا ہے
رپورٹ کے مطابق داعش اپنی برانچ داعش خراسان، جو افغانستان میں فعال ہے، کو بھی رقم بھیجتی ہے
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ داعش نے داعش خراسان کے لیے پانچ لاکھ ڈالرز مختص کیے ہیں اور بین الاقوامی فنانشل سہولت کاروں میں ایک اہم نام عصمت اللہ خلوزئی ہے، جنہوں نے داعش خراسان کو ستاسی ہزار ڈالرز افغانستان بھیجے
اس ساری صورتحال پر اسلام آباد میں مقیم افغان امور کے ماہر طاہر خان کا کہنا ہے کہ چین ہمیشہ شدت پسند تنظیموں کے حوالے سے حساس رہا ہے اور انہیں سنجیدہ لیتا ہے
طاہر خان نے کہا کہ جب طالبان کی حکومت افغانستان میں آئی تو چین نے طالبان کو ملاقاتوں کے دوران بتایا کہ ایسٹ ترسکتان موومنٹ کو سرحد سے دور رکھا جائے اور ان کو داعش سے بھی دور رکھیں تاکہ یہ چین کے لیے خطرہ نہ بن سکیں
طاہر خان کا کہنا ہے کہ ایسٹ ترکستان موومنٹ کی ٹی ٹی پی کے ساتھ رپورٹ میں جو بات کی گئی ہے، یہ درست بھی ہوسکتی ہے کیونکہ ٹی ٹی پی یا جو بھی شدت پند تنظیم ہے، اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے دیگر شدت پسند تنظیموں کے ساتھ تعلقات استوار کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ افغان طالبان کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ کسی بھی شدت پسند تنظیم کے جنگجوؤں کو کسی دوسرے ملک کے حوالے کریں، تاہم طالبان نے دیگر ممالک کو بتایا ہے کہ وہ شدت پسند تنظیموں کے معاملے کا سیاسی حل نکالیں گے
انہوں نے کہا ’پاکستان میں چین کے اہداف پر ماضی میں بھی حملے ہو چکے ہیں گو کہ ٹی ٹی پی نے ان کی ذمہ داریاں قبول نہیں کیں لیکن شاید وہ کسی مقصد کی وجہ سے ایسا نہیں کرتے۔ اب سیکورٹی کونسل کی رپورٹ آئی ہے، تو دنیا کے ممالک اس رپورٹ کو سنجیدہ لیں گے۔‘