سات جولائی 2021 دلیپ کمار، چھ فروری 2022 لتا منگیشکر۔ کہنے کو کیا بچا؟ مگر دونوں جس شعبے سے وابستہ تھے وہی شعبہ اس اصول پر زندہ ہے کہ ’دی شو مسٹ گو آن‘
مجھے 60 برس میں یہ تو پتہ نہ چل سکا کہ لتا سرسوتی دیوی کا اوتار تھی کہ بلبلِ مشرق، کہ بھگوان کی آواز، کہ بھارت رتن،کہ جنوبی ایشیا کی امِ کلثوم، کہ نورجہاں کی دو طرفہ پرستار، کہ کیا کچھ، کیا کچھ، کیا کچھ….
بس اتنا جانتا ہوں کہ جب پورا جملہ بھی ادا نہیں کر پاتا تھا تب لتا منگیشکر صبح سات بجے ریڈیو سیلون کی لہروں پر سوار ہو کر میرے گھر کے مرفی ریڈیو گرام میں اترتی تھیں اور ساڑھے سات بجے رخصت ہو جاتی تھیں۔ میں سکول کی طرف اور میرے والد دوکان کی طرف چل پڑتے
جب کوئی پوچھتا ہے کہ تمھیں لتا کا کون سا گیت سب سے زیادہ بھاتا ہے تو لاجواب ہو جاتا ہوں۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ کوئی آپ سے پوچھے کہ آپ کو آئینے کا کوئی کونا پسند ہے یا درمیان؟
اس دنیا میں مذہبی، سیاسی، سماجی و اقتصادی طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ناممکن ہے۔ ہاں مگر موسیقی وہ چمتکار ہے جس کے سامنے سب کالے گورے، امیر غریب، ناخواندہ و خواندہ ایک ہی صف میں ڈھیر ہیں
کیسے ممکن ہے کہ اس جنوبی ایشیا کا کوئی کونا اور کوئی زی روح لتا کی آواز سے بچ گیا ہو۔ ایسا دعویٰ یا جھوٹا کر سکتا ہے یا پھر کوئی بہرہ…
کبھی تو کسی ویگن یا بس میں سفر کیا ہو گا۔ کبھی تو کسی شادی میں شرکت کی ہو گی، کبھی تو کار میں ریڈیو سنا ہو گا، کبھی تو کوئی فلم دیکھی ہو گی، کبھی تو ویرانے میں ہوا کی لہروں پر آتے کسی گیت پر دھیان دیا ہو گا۔ کبھی تو کسی ری مکس سے مچاٹا ہوا ہوگا
کبھی تو کسی راہ چلتے کی گنگناہٹ پر غور کیا ہوگا ، کبھی تو محبوب کے فراق میں کوئی استھائی دل میں اتری ہو گی، کبھی تو یاد کیا ہوگا کہ دادا ابا کس گیت پر چلتے چلتے رک جاتے تھے یا نانی اماں کا سروتا چھالیہ کاٹتے کاٹتے اچانک کیوں تھم سا جاتا تھا۔اس ’کبھی تو‘ کے سفر میں کیا لتا سے فرار ممکن ہے؟
اور پھر اس کا کیا کروں کہ جو لوگ موسیقی کو شرعاً مکروہ سمجھتے ہیں وہ بھی آدھی سے زیادہ نعتوں، منقبتوں اور بھجنوں کی طرز پر غور کیے بغیر انجانے میں لتا کے سحرناک مدار میں پھنس جاتے ہیں۔ گویا لتا سے بچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے
پر ہماری نسل اگر اس اعتبار سے خوش قسمت ہے تو محمد رفیع، مکیش، کشور، مناڈے، مہدی حسن، نورجہاں، آشا اور لتا بھی تو خوش قسمت ہیں۔ وہ اس زمانے میں ہزاروں گیت گا گئے جب وقت میں ٹھہراؤ تھا، کان پائیدار تھے، ذرائع ابلاغ کی یکساں رفتار برقرار تھی، توجہ کو یادادشت کے گھر میں جگہ بنانے کے لیے وافر گنجائش کی رعایت میسر تھی
مصرعے کے معیار، دھن کے اتار چڑھاؤ اور آواز کے زیروبم اور ساز سے نکلتے نشیب و فراز پر دھیان دینے کے لیے سمے کی عیاشی موجود تھی۔ گھڑی، کپڑا، جوتا، ذائقہ اور دھن پائیداری کے تصور میں قلعہ بند تھے اور مارکیٹنگ کو اس قلعے میں سیندھ لگانے کا موقع نہیں مل پا رہا تھا
تب تک ڈسپوزایبل کلچر نے ذوقِ جمالیات میں زہر نہیں گھولا تھا، عجلت کے عفریت نے فطری سمجھ کو نہیں نگلا تھا۔ دھیرج اور رچاؤ سے لطف کشید کرنا سستا بھی تھا اور آسان بھی
اس پس منظر میں دہائیوں سے نسل در نسل دلوں پر راج کرنے والے یہی محمد رفیع، مکیش، کشور، مناڈے، مہدی حسن، نورجہاں، آشا اور وہی لتا منگیشکر اسی آواز، انداز اور بھاؤ کے ساتھ پچھلے دس برس میں سامنے آتے تو یقین جانیے سولہویں سے سترہواں گانا بمشکل مل پاتا
کوئی نہ کوئی بدتمیز ڈسٹری بیوٹر یا میوزک انڈسٹری کا مارکیٹئر منہ پر کہہ مارتا کہ بھئی بہت گا لیا اب پبلک ڈیمانڈ بدل گئی ہے۔ یا تو ”شٹائیل“ چینج کرو یا بس اسٹیج اور فنکشنز پکڑو
مگر گھر جا کر وہی کم بخت ’پبلک ڈیمانڈیا‘ کمرہ بند کر کے ہاتھ میں گلاس پکڑ کے یہی سنتا ہے ’رسک بلما دل کیوں لگایا‘۔
عجیب داستاں ہے یہ
کہاں شروع کہاں ختم
یہ منزلیں ہیں کون سی
نا وہ سمجھ سکے نہ ہم
(حوالہ : بی بی سی اردو)