لندن – متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کے خلاف تشدد پر اکسانے کے مقدمے کی سماعت دوسرے ہفتے میں داخل ہونے پر میٹروپولیٹن پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ایک جاسوس کانسٹیبل سے کنگسٹن اپون تھیمز کی عدالت میں جرح کی گئی
لندن کی کنگسٹن کراؤن کورٹ جو ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے مقدمے کی سماعت کر رہی ہے، کو پیر کے روز بتایا گیا کہ ملزم الطاف حسین نے اپنی پارٹی ورکروں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے بغاوت کا اعلان کر دیا ہے اور پارٹی ورکر اس ‘جہاد’ میں زندگیاں قربان کرنے کے لیے گھروں سے نکل آئیں
واضح رہے کہ برطانیہ کی کراؤن پراسیکیوشن نے ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کے خلاف 22 اگست 2016 کو لندن سے خطاب کے ذریعے لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے الزام میں ٹیررازم ایکٹ 2006 کے تحت فرد جرم عائد کر رکھی ہے
پولیس افسر نے عدالت کو 2019ع میں لندن کے علاقے ایجویئر میں متحدہ قومی موومنٹ کے انٹرنیشنل سیکریٹریٹ پر چھاپے کے دوران حاصل ہونے والے شواہد سے متعلق آگاہ کیا
پولیس افسر نے کورٹ کو بتایا کہ ملزم الطاف حسین کے لندن کے علاقے مل ہلز میں واقع گھر اور ایجویئر روڈ پر واقع ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپے کے دوران انہیں الطاف حسین کی اپنے کارکنوں کے خطابات کی ریکارڈنگ اور نوٹس ملے
جیوری کے سامنے الطاف حسین کی دو متنازع تقاریر کا متن پڑھ کر سنایا گیا، جو استغاثہ کے مطابق وہ تقاریر ہیں، جن کے ذریعے الطاف حسین نے مبینہ طور پر لوگوں کو تشدد پر اکسایا
افسر نے چھاپے کے دوران ایک بی ٹی انٹرپرائز کے وائس رکارڈر کی برآمدگی سے متعلق بتایا، جس کے ڈجیٹل مواد کی بعد فرانزک کے ذریعے جانچ کی گئی
اس رکارڈر سے آڈیو کالز کرنا اور رکارڈ کرنا ممکن تھا، جس کے ذریعے لندن سیکریٹریٹ سے رابطہ کیا جاتا تھا
زیادہ تر فون کالز اردو زبان میں تھیں، لہٰذا تفتیش کاروں نے واقعات کی ٹائم لائن اور ٹرانسکرپٹ بنانے کے لیے مترجمین کی مدد لی
جرح کے دوران استغاثہ اور پولیس گواہ نے رکارڈر کے مواد کے ساتھ ساتھ آڈیو کیسٹ ٹیپس کا حوالہ دیا، جو پولیس نے برآمد کی تھیں
ٹائم لائن کو ترتیب دینے کے لیے دفتر سے برآمد ہونے والی نوٹ بکس سے بھی مدد لی گئی، استغاثہ نے تشدد کی حوصلہ افزائی کے لیے اس کا حوالہ بطور ثبوت پیش کیا
یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ تحقیقات کے دوران کراؤن پروسیکیوشن سروس کی جانب سے 2019ع کے اوائل میں پاکستانی حکام کو درخواست کا ایک خط بھیجا گیا تھا، افسر نے تحقیقات کے سلسلے میں پاکستان کا دورہ کیا تھا، جہاں انہیں کچھ اشیا فراہم کی گئیں
سماعت کے دوران رکارڈ شدہ کالز کا ٹرانسکرپٹ کا بار بار حوالہ دیا گیا، جس میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم رہنما عامر خان کے درمیان ہونے والی گفتگو کا تفصیلی جائزہ لیا گیا
الطاف حسین نے بار بار ایم کیو ایم کے کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل، سندھ پولیس کو ”ٹھیک“ کرنے اور اس وقت کے ڈی جی رینجرز بلال اکبر کا مقابلہ کرنے کے لیے کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرنے کی بات کی
ایک کال کے دوران الطاف حسین نے کہا کہ ’ڈی جی رینجرز کو ساٹھ افراد کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا جانا چاہیے، رینجرز ہیڈکوارٹر کے اندر گھسنے اور بلال اکبر کو باہر نکالنے کے لیے مجھے پانچ لاکھ لوگوں کی ضرورت ہے‘
الطاف حسین نے دعویٰ کیا کہ سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر نے پارٹی کو قربانی کی کھالیں اور فطرانہ لینے سے روک کر پارٹی کے فنڈز ختم کر دیے ہیں
ٹرانسکرپٹ کے مطابق پارٹی کارکنوں کے ساتھ دیگر کالز میں ایک نامعلوم شخص نے کہا کہ ’اگر بھائی حکم دیں تو یہ آج ہی ہو جائے گا۔‘
ٹرانسکرپٹ میں الطاف حسین نے ایک موقع پر یہ بھی کہا کہ ’جو ٹی وی چینلز ایم کیو ایم کو برابھلا کہتے ہیں، ان سے کہو کہ وہ اپنا کیمرہ لے کر چلے جائیں۔‘
انہوں نے خاص طور پر جیو اور اے آر وائی پر غصے کا اظہار کیا اور دھمکی دی کہ ان کے مالکان کو گدھے پر بٹھا کر پورے شہر میں پریڈ کرائیں
استغاثہ کی جانب سے بارہ رکنی جیوری کو بتایا گیا کہ الطاف حسین نے اپنے پارٹی کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ سندھ رینجرز کے ہیڈکوارٹر اور تین نجی ٹی ویژن چینلز، آے آر وائی، جیو، اور سما کے دفاتر پر دھاوا بول دیں اور ان کی نشریات بند کرا دیں
ان کالز میں الطاف حسین نے گلشن، کورنگی اور ملیر کے سیکٹر انچارجز سے متعدد بار ہدایات دیں کہ ان میں سے ہر ایک پچاس ہزار افراد کو لائیے تاکہ ایک بڑا ہجوم اکٹھا ہو سکے
ٹرانسکرپٹ کے مطابق الطاف حسین نے کہا کہ ’چاہے سو، دو سو یا پانچ سو افراد کی قربانی بھی دینی پڑے، لیکن ڈی جی رینجرز کو باہر نکالیں کیونکہ اس نے ہمارے سینکڑوں کارکنان کو ’شہید‘ کیا ہے‘
ٹرانسکرپٹ کے مطابق الطاف حسین نے کہا کہ ’روز مرنے سے ایک بار مرنا بہتر ہے، آئیں دیکھتے ہیں کہ وہ ہم میں سے اور کتنوں کو مار سکتے ہیں، ایک دن میں وہ جتنے مار سکتے ہیں، انہیں مارنے دیں تاکہ ہم جہاد میں شامل ہو سکیں
الطاف حسین کی اس تقریر کو آدھے گھنٹے سے زیادہ عدالت میں چلایا گیا جس کی بنیاد پر ان کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا ہے
الطاف حسین کی تقریر ابھی جیوری کو سنائی جا رہی تھی کہ عدالت کا وقت ختم ہو گیا، جس کے بعد سماعت ملتوی کر دی گئی.