کیا اپوزيشن حکومت گرانے کے لیے فیصلہ کن اقدام کرنے والی ہے؟

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – بظاہر حکومت اور اپوزیشن میں سیاسی محاذ آرائی کا ایک نیا دور شروع ہونے کو ہے جس کا آغاز ایک طرف اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو گھر بھجوانے کے تازہ دعویٰ سے کیا گیا تو دوسری جانب خود تحریک انصاف کی جانب سے بڑے پیمانے پر عوامی رابطہ مہم اور جلسے جلوسوں کا اعلان کیا گیا ہے

جس کے بعد سوال اٹھ رہا ہے کہ یہ دور کس کے نام رہے گا اور کیا اس سیاسی کشکمش میں اپوزیشن ’اندرونی اختلافات‘ کے ہاتھوں ایک بار پھر شکست تو نہیں کھا بیٹھے گی؟

واضح رہے کہ چند دن قبل لاہور میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنماوں کے اجلاس کے بعد گذشتہ روز دو بڑی اہم پیش رفت ہوئیں۔ ن لیگ کے سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی اجلاس کے بعد سابق وزیر اعظم اور ن لیگ کے قائد نواز شریف نے اعلان کیا کہ پارٹی عمران خان کو گھر بھجوانے کے لیے قدم بڑھائے گی تو دوسری جانب سابق صدر اور شریک چیئرمین پیپلز پارٹی آصف زرداری نے حکومتی اتحادی ق لیگ کی قیادت سے ملاقات کی ہے

پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری گجرات میں حکومتی اتحادی جماعت ق لیگ کے چوہدریوں کی رہائش گاہ پہنچے اور حکومت گرانے کے لیے ق لیگ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی

گزشتہ روز مسلم لیگ ن کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں پارٹی رہنماؤں نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے پارٹی قیادت کو عملی اقدامات کرنے کا کہا ہے

ن لیگ نے اپنے اجلاس میں موجودہ حکومت سے نجات کے لیے تمام آئینی، پارلیمانی اور جمہوری فیصلوں کا اختیار نواز شریف جب کہ حکومت مخالف اقدامات کے لیے سیاسی جماعتوں سے رابطوں کا اختیار شہباز شریف کو دے دیا ہے

دوسری جانب مسلم لیگ ن کی مجلس عاملہ نے پی ڈی ایم کے 23 مارچ کو ہونے والے لانگ مارچ کی حمایت اور اس میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے

اجلاس کے حوالے سے جاری اعلامیہ کے مطابق ’شرکا میں اتفاق رائے تھا کہ عوام کی حالت زار اور ملک کی داخلی وخارجی نازک وسنگین صورت حال کے پیش نظر موجودہ حکومت کو مزید وقت نہ دیا جائے۔‘

ن لیگ کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس کے بعد لندن میں نواز شریف نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’فیصلہ کیا جا چکا ہے کہ وزیر اعظم کو گھر بھیجا جائے۔‘

نواز شریف کا مزید کہنا تھا کہ ’آج ہونے والے مسلم لیگ ن کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ مسلم لیگ ن اس ظالم حکمران سے نجات دلانے کے لیے قدم بڑھائے گی اور یہ عین وقت کی ضرورت ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سے بڑھ کر اس وقت پاکستان میں کسی کام کی اہمیت نہیں ہے۔ سب سے ضروری کام اگر ہے تو وہ یہی ہے کہ ایسے حمکران سے عوام کو نجات دلائی جائے۔‘

احسن اقبال نے کہا کہ ملک کی سیاسی اور جمہوری جماعتوں سے رابطوں پر سب کا اتفاق ہے۔ پہلے پیپلز پارٹی کی قیادت نے شہباز شریف سے ملاقات کی اور کل ایم کیو ایم کا وفد بھی شہباز شرہف سے ملاقات کے لیے آئے گا

مقامی نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں مسلم لیگ ن کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ”ن لیگ کو عمران خان کے خلاف تحریک لانے یا مہم چلانے کے لیے کسی جانب سے اشارہ نہیں ملا“

ملاقاتوں کا ٹاسک ملنے کے بعد شہباز شریف متحرک

ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف حکومت کے خلاف مزید متحرک ہو گئے ہیں اور ان ہاؤس تبدیلی میں کامیابی کے لیے انہوں نے سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتوں کا فیصلہ کر لیا ہے

مسلم لیگ ن کے صدر اپوزیشن قائدین کے علاوہ حکومتی اتحادیوں سے بھی ملیں گے۔ شہباز شریف نے اپنی پولیٹیکل ٹیم کو ملاقاتوں کا شیڈول بنانے کی ہدایت کر دی ہے

شہباز شریف لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں اہم ملاقاتیں کریں گے۔ وہ حکومتی اتحادی باپ، ق لیگ اور جےڈی اے کے قائدین سے ملیں گے

جے ڈی اے کے قائدین سے ملاقاتوں کے لئے لیگی رہنما کراچی جائیں گے، جہاں لیگی رہنماؤں کے علاوہ سندھ کی قوم پرست جماعتوں سے بھی رابطہ کریں گے۔ شہباز شریف کی پولیٹیکل ٹیم نے ملاقاتوں کے شیڈول کی تیاری شروع کردی ہے ۔ رواں ماہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی شہباز شریف اہم سیاسی رہنماؤں سے ملیں گے

شہباز شریف اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن، محمود خاں اچکزئی اور سردار اختر مینگل سے ملیں گے، اور سیاسی رہنماؤں کو ان ہاؤس تبدیلی پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے

حکومتی اتحادی مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کس طرف جائیں گی؟

گجرات کے چوہدریوں نے سابق صدر آصف علی زرداری کو پیغام دیا ہے کہ وہ کسی بھی ’سیاسی مہم جوئی‘ کا حصہ نہیں بن سکتے، کیونکہ وہ حکمران جماعت کے اتحادی ہیں اور مسلم لیگ (ق) اور پی ایم ایل این کے درمیان اعتماد کی کمی ہے

ایک روز قبل ہی چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی نے گجرات میں پی ایم ایل این کے معروف رہنما اور تاجر امجد فاروقی کے انحراف اور اپنی جماعت کی جانب سے حکمران پی ٹی آئی کی حمایت جاری رکھنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ہر اچھے اور برے حالات میں پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری لاہور میں چوہدریوں کی رہائش گاہ پہنچے، جس کا مقصد بظاہر چوہدری شجاعت کی عیادت کرنا بتایا گیا

ملاقات کے دوران پی ایم ایل (ق) پنجاب کے صدر اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی، وفاقی وزیر مونس الٰہی اور طارف بشیر چیمہ، ایم این اے چوہدری سالک حسین، شافع حسین رخسانہ بنگش بھی موجود تھے

آصف علی زرداری نے چوہدریوں کی رہائش گاہ پر دو گھنٹے گزارے اور عشائیہ میں بھی شرکت کی

یاد رہے کہ قبل ازیں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے صاحب زادے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ ہفتے کے اختتام میں پی ایم ایل این کے صدر شہباز شریف اور نائب صدر مریم نواز سے بھی ملاقات کی تھی اور پی ٹی آئی حکومت کو برطرف کرنے کے حوالے سے اختیارات پر تبادلہ خیال کیا

ملاقات کے دوران عدم اعتماد تحریک اور مشترکہ لانگ مارچ کا موضوع بھی زیر بحث رہا تھا

چوہدری برادران سے طویل ملاقات کے دوران آصف علی زرداری، چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان موجودہ سیاسی حالات اور مشترکہ مفادات سے متعلق معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا

ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری نے پی ایم ایل (ق) کے رہنماؤں کو آگاہ کیا کہ وہ اپوزشن کی حکومت کے خلاف تحریک میں شریک ہوں

آصف علی زرداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی حکمران جماعت کے خلاف ابتدائی طور پر پنجاب سے عدم اعتماد تحریک چلانا چاہتی ہے اور بعدازاں مرکز حکومت کو اختتام کی طرف دھکیلا جائے گا

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پی ایم ایل (ق) حکومت کے ساتھ اپنا اتحاد ختم کرے

ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری برادران نے اتفاق کیا کہ پی ایم ایل (ق) کو حکومت کے ساتھ متعدد تحفظات ہیں، تاہم وہ پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف کسی بھی سیاسی مہم جوئی کا حصہ نہیں بنیں گے

ذرائع یہ بھی کہنا تھا کہ پی ایم ایل (ق) کی جانب سے حکومت کو ہٹانے سے متعلق تجویز پر گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا، کیونکہ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پی ایم ایل این نے پی ایم ایل (ق) کی حمایت کے لیے کبھی براہِ راست رابطہ نہیں کیا

اتحادی جماعت نے حکومت کے خلاف عدم اعتماد تحریک پر پی ایم ایل این کے رہنماؤں کی سنجیدگی پر سوال اٹھایا، عدم اعتماد تحریک کے لیے پارلیمنٹ میں ووٹرز کی بڑی تعداد درکار ہے

ذرائع کا کہنا ہے کہ ”چوہدری برداران نے آصف علی زرداری سے کہا کہ وہ جمہوریت اور ملک کو سیاسی بحران سے بچانے کے لیے روڈ میپ فراہم کریں“

اس موقع پر آصف علی زرداری نے اپنے نعرے ’پاکستان کھپے‘ (پاکستان زندہ باد) کا حوالہ دیا

چوہدری برادران نے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین سے اتفاق کیا کہ انہیں بعد میں بھی ان سے ملاقاتیں جاری رکھنی چاہیے، وہ اب لاہور میں مقیم ہیں اور پنجابی بھی سیکھ چکے ہیں

ادہر ایم کیو ایم پاکستان کے وفد نے لاہور میں مسلم لیگ قاف کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کر کے ان کی عیادت کی ہے

ملاقات کےبعد عامر خان اور پرویز الہٰی نے میڈیا سے مشترکہ گفتگو بھی کی

عامر خان نے کہا کہ وفاق میں بھی ہم ساتھ ہیں، مشاورت کا سلسلہ جاری رہتا ہے، پی ٹی آئی کے کچھ دوستوں سے شکوے ہوتے ہیں تو مشاورت کر کے ہی آگے چلتے ہیں، مشاورت کا سلسلہ جاری رہے گا

ایک صحافی نے پرویز الہٰی سے سوال کیا کہ کیا عمران خان کو چھوڑ جائیں گے یا پانچ سال کے لیے ساتھ ہیں؟

چوہدری پرویز الہٰی نے جواب دیا کہ اس پر تو ابھی بات ہی نہیں ہوئی، ابھی دو سال رہتے ہیں، عوام کے لیے ہر وقت دھیان رہتا ہے، اسی لیے جو غلط کام ہو اس پر مل کر آواز بلند کرتے ہیں، کئی خراب چیزوں کو ہم نے ٹھیک بھی کرایا ہے، آصف زرداری نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ نے اسپتال آنے سے منع کر دیا تھا، کہ آصف زرداری نے کہا کہ چوہدری شجاعت کی عیادت کے لیے گھر آ رہا ہوں، وہ عیادت کے لیے آئے تھے یہی مرکزی مقصد تھا۔

انہوں نے کہا حکومتی کارکردگی سے مطمئن ہونے کا اندازہ ہمارے بیانات سے لگا لیں، تحریکِ عدم اعتماد کا سوال اپوزیشن سے بنتا ہے، اس کے خدوخال سامنے آ جائیں، کوئی چیز سامنے آ جائے، ابھی تو باورچی خانے میں سامان اکٹھا ہو رہا ہے، ابھی کچھ بھی پکنا شروع نہیں ہوا

ادہر ایم کیو ایم کی قیادت نے شہباز شریف سے بھی ملاقات کی، جس میں شہباز شریف نے متحدہ کو تحریک عدم اعتماد میں ساتھ دینے کی درخواست کی ہے جب کہ ایم کیو ایم نے اپوزیشن کا ایجنڈا واضح ہونے تک مہلت مانگ لی

متحدہ قومی موومنٹ کے ڈپٹی کنوینئر عامر خان اور سابق مئیر کراچی وسیم اختر شہباز شریف سے ملاقات کے لیے ماڈل ٹاؤن پہنچے جہاں شہباز شریف نے وفد کا استقبال کیا اور ملاقات کی۔ اس دوران ن لیگ کی جانب سے احسن اقبال، ملک احمد خان، خواجہ سعد رفیق، شاہ محمد شاہ اور مفتاح اسماعیل بھی شریک تھے

دونوں جماعتوں کے درمیان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے معاملے پر بات ہوئی۔ ن لیگ نے متحدہ سے تحریک عدم اعتماد کی حمایت کی درخواست کی تاہم ایم کیو ایم نے کہا کہ اپوزیشن کا ایجنڈا واضح ہونے تک کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں، معاملہ واضح ہوجائے تو بہتر فیصلہ کریں گے

ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ ہم تحریک عدم اعتماد میں حمایت کے لیے متحدہ سے ملے ہیں، ایم کیو ایم کو بتایا کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد ایک آئینی طریقہ کار ہے اس میں ایم کیو ایم ہمارا ساتھ دے

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے پاس وقت زیادہ نہیں ہے انہیں فوری فیصلہ کرنا ہوگا اگر جلد فیصلہ نہ کیا تو قوم ایم کیو ایم سے سوال کرے گی، ایم کیو ایم کو آج پہلے پاکستانی اور پھر حلیف بن کر سوچنا ہوگا ہمیں پوری امید ہے کہ ایم کیو ایم وہی فیصلہ کرے گی جو ملک و قوم کے حق میں ہوگا

ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان نے کہا کہ شہباز شریف کی ابھی پی ڈی ایم سے بات چیت ہونی ہے، اپوزیشن کی جانب سے کوئی واضح چیز سامنے نہیں آئی، کچھ سوال قبل از وقت ہیں، پہلے اپوزیشن کوئی واضح چیز سامنے لے آئے اس پر جو بھی فیصلہ بہتر ہوگا، وہ کریں گے

عامر خان نے کہا کہ شہباز شریف سے کی گئی گفتگو رابطہ کمیٹی کے سامنے رکھیں گے پھر جو بہتر فیصلہ ہوگا وہ کریں گے

ایم کیو ایم کے رہنما اسامہ قادری کہتے ہیں کہ ان کی جماعت کے پانچ بڑے مطالبات تھے، جن میں سے ایک ان کے سیل شدہ سیاسی دفاتر کو کھول کر انہیں بھی کسی بھی سیاسی جماعت کی طرح سیاست کرنے کی اجازت دی جائے مگر ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا

ان کے مطابق ان کی جماعت نہ صرف اپوزیشن جماعتوں سے رابطے رکھے ہوئے ہے اور رابطہ کمیٹی جمہوری عمل کو جاری رکھنے کے لیے اپوزیشن سے ہاتھ ملانے سے متعلق بھی فیصلہ کر سکتی ہے

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے حسن مرتضیٰ کے مطابق حکومت کے اندر بھی ایسے اراکین کی بڑی تعداد موجود ہے جو اپوزیشن سے ہاتھ ملانا چاہتی ہے، مگر جب وہ اپوزیشن میں تقسیم دیکھتی ہے تو پھر وہ پرانی تنخواہ پر کام پر راضی ہو جاتی ہے

کیا حکومتی اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی بھی اپوزيشن کا ساتھ دے گی؟

دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان عبدالرحمان کھیتران نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کے وفاقی حکومت سے اختلافات ضرور ہیں مگر ابھی وہ انتہائی اقدام پر غور نہیں کر رہے ہیں اور نہ اپوزیشن سے ہاتھ ملانے جا رہے ہیں

ان کے مطابق اس وقت ان کی پارٹی کے پانچ ایم این اے، 12 سینیٹرز اور 24 ایم پی اے ہیں مگر زبیدہ جلال کے علاوہ ان کی وفاقی کابینہ میں کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ خیال رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے جس اجلاس میں وفاقی حکومت پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے، اس میں خود وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی بھی شریک تھے

اپوزیشن کے متحرک ہونے پر حکومت کیا کہتی ہے؟

حکومت ہٹانے کے اعلانات پر حکومتی وزرا کی جانب سے کہا گیا کہ ایسی کوششیں پہلے بھی کی جا چکی ہیں۔ لیکن اس بار حکومت کی جانب سے یہ اعلان بھی کیا گیا کہ سیاسی حکمت عملی کے تحت عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا جا رہا ہے جس کے دوران بڑے اجتماعات منعقد کیے جائیں گے جن سے وزیر اعظم خود خطاب کریں گے

حکومتی وزرا کی جانب اپوزیشن پر جوابی وار اپنی جگہ لیکن حکومت اس بار کس حد تک مطمئن ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم نے بھی بڑے عوامی اجتماعات کا اعلان کر دیا ہے، اگرچہ حکومتی ترجمان کا یہ کہنا ہے کہ یہ اجتماعات خیبرپختونخوا اور پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے تناظر میں ہوں گے

کیا عمران خان خود ہی اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے؟

نواز شریف کے ترجمان محمد زبیر کا کہنا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ وزیر اعظم عمران خان خراب معاشی صورتحال کے پیش نظر خود ہی اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور پھر عوام سے کہیں کہ وہ مافیا کے خلاف اپنی جنگ لڑنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے انھیں بھاری مینڈیٹ درکار ہے

حکومت کے خلاف اپوزیشن کی فیصلہ کن تحریک؟

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے حکومت ختم کرنے کے اعلانات کے باوجود ابھی تک اُن کی حکمت عملی کچھ خاص واضح نہیں ہے

ماضی میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے متعدد بار حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کے لیے سر جوڑے ہیں، مگر اس کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے اور یوں ہر بار حکومت مخالف تحریک پر اتفاق، اختلاف میں بدلتا رہا۔ اور یہ اختلافات اس نہج پر پہنچے کہ اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ بھی متحد نہیں رہ سکا، جسے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے خیر آباد کہہ دیا

پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت کے درمیان ہونے اجلاس میں شریک پنجاب اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی رہنما حسن مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت لاہور میں مسلم لیگ کی قیادت کے سامنے یہ تجویز لے کر گئی تھی کہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے، جس سے نہ صرف لیگی قیادت نے اتفاق کیا ہے بلکہ شہباز شریف نے یہ وضاحت بھی دی ہے کہ پیپلز پارٹی کا مؤقف تو شروع دن سے ہی واضح تھا مگر مسلم لیگ ن میں حکومت کو گھر بھیجنے سے متعلق دو آرا پائی جاتی تھیں

تحریک عدم اعتماد سے متعلق بات کرتے ہوئے حسن مرتضیٰ نے کہا کہ اب ہم بہت پُرامید ہیں۔ اُن کے مطابق حکومت عددی، قانونی، سیاسی اور اخلاقی جواز کھو بیٹھی ہے

اس پیشرفت پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتوں میں تحریک عدم اعتماد پر تو اتفاق ضرور ہو گیا ہے، مگر ابھی اس کے طریقہ کار کی وضاحت آنا باقی ہے

ان کے مطابق لاہور میں پانچ فروری کو ہونے والی ملاقات میں مسلم لیگ نے تحریک عدم اعتماد پر پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کو جبکہ پیپلز پارٹی نے عوامی نیشنل پارٹی اور ق لیگ کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے

سہیل وڑائچ کے مطابق اگر یہ تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ بھی ہو سکی تو حکومت کو اس تحریک سے سخت نقصان پہنچے گا۔ ان کے مطابق جب سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو وہ تحریک ناکام ضرور ہوئی تھی مگر اس کے بعد پیپلز پارٹی انتخابات میں شکست کھا گئی تھی

سینیئر صحافی مظہر عباس نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ مسلم لیگ ن مں سب اچھا نہیں ہے۔ اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پیپلزپارٹی کی قیادت سے ملاقات پر اپنی ناراضگی کا اظہار پیپلز پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے کیا ہے

اب کیا ہوگا؟

لاہور میں ہونے والی اس حالیہ ملاقات اور اس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے یہ تو پتا چلا کہ ٹوٹے دل جڑ گئے ہیں مگر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ پلان آخر ہے کیا؟

یہ کہا جا سکتا ہے کہ ن لیگ اور پی پی پی کی قیادت کے درمیان پرجوش ملاقات ہوئی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ کچھ کیا جائے۔ اگر بات یہ ہو کہ کیا کیا جائے، تو اس کا جواب ابھی واضح نہیں اور اگر سوال ہو کہ حکومت کو گھر بھیجنے کا مقصد عملی طور پر کیسے حاصل کیا جائے گا، اس کے بارے میں ابھی خاموشی ہے۔

تازہ ترین بیٹھک میں جب سوال کیا گیا کہ اپوزیشن کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ تو اس کا جواب آئیں بائیں شائیں کی صورت میں سامنے آیا

کیونکہ مسلم لیگ ن نے بات اپنی سنٹر ایگزیکٹو کمیٹی اور نواز شریف کی طرف لڑھکا دی۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی پرانے اعلانات اور دعوے ہی سامنے آئے

اس ساری صورتحال میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان نہ صرف یہ کہ اس بیٹھک میں شامل نہیں تھے، بلکہ ان کا ابھی تک کوئی ردعمل بھی سامنے نہیں آیا۔
سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کے آپشنز کیا ہیں؟ ابھی تک دو صورتیں سامنے آئی ہیں؛ اجتجاج اور تحریک عدم اعتماد

احتجاج کی تازہ ترین صورت لانگ مارچ کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ایک لانگ مارچ کا پی ڈی ایم پلیٹ فارم سے اعلان ہوا ہے اور دوسری طرف پی پی پی نے اپنے لانگ مارچ کا علیحدہ سے اعلان کیا ہے

توقع یہ تھی تیاری کے پیش نظر دونوں پارٹیاں ایک مشترکہ تاریخ کا اعلان کریں گی مگر اس پہلو سے کوئی پلان سامنے نہیں آیا

اس کے دو ہی مطلب ہیں۔ ایک تو یہ کہ اپوزیشن کو خود بھی لانگ مارچ سے کوئی خاص امیدیں نہیں ہیں جیسے کہ اس سے پہلے تاریخ کے بعد تاریخ دینے سے ظاہر ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ اندر کھاتے کسی سرپرائز کا پلان ہے جو مناسب وقت پر سامنے آئے گا

لانگ مارچ کے بعد دوسرا آپشن تحریک عدم اعتماد ہے۔
شہباز شریف نے اتنی بات کی کہ ان کی تحریک عدم اعتماد پر پوزیشن میں لچک آئی ہے۔ مگر پوزیشن لینے اور اس کو عملی جامہ پہنانے میں جو فاصلہ ہے اس کو دور کرنے کا طریقہ سامنے نہیں آیا

یہ وہی اپوزیشن ہے جن کے سامنے مِنی بجٹ اور دیگر قوانین پاس ہوئے ہیں۔ ایسا کیا بدلے گا کہ وہ اسمبلی جس میں حکومت بارہا اپنی اکثریت ثابت کر چکی ہے، وہاں وہ اقلیت بن جائے گی؟.

اپوزیشن کی طرف سے یوسف رضا گیلانی کے انتخاب کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ مگر قومی اسمبلی میں سرپرائز دینے والے سینیٹ میں خود سرپرائز کا شکار ہو گئے۔ اس لیے یہ امر باعث حیرت نہیں کہ ن لیگ کی طرف سے عدم اعتماد کے لیے ہچکچاہٹ اور تحفظات ہی رہے ہیں

تجزیہ کاروں کے مطابق ن لیگ اور پی پی پی کی بیٹھک سیاسی میدان میں اِن رہنے کی کوشش تو ہے، مگر کیا اس کے کوئی دور رس نتائج بھی ہوں گے، یہ ابھی سامنے آنا باقی ہے

اس بیٹھک میں البتہ اگلے انتخابات میں تعاون اور ممکنہ اتحاد بظاہر قبل از وقت مگر قابل غور اعلان ہے۔ ن لیگ اور پی پی پی کے درمیان براہ راست مقابلے پر ایڈجسٹمنٹ کے علاوہ اس سے اگلے سیٹ اپ کے بارے میں دونوں کے ارادوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ یقیناً اس کے لیے دونوں نے 2008 میں اپنے مشترکہ تجربے ضرور ڈسکس کیے ہوں گے۔ مگر فی الحال تو یہی اعلان ہے کہ ٹوٹے دل جڑ چکے ہیں، مگر اس کے بعد کے اعلانات کا انتظار ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close