اسلام آباد – الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کے رہنما فیصل واوڈا کو نااہل قرار دیتے ہوئے سینیٹ کی نشست کا نوٹیفیکیشن واپس لینے کا حکم بھی جاری کر دیا ہے، جس کے مطابق اب فیصل واوڈا سینیٹر بھی نہیں رہیں گے
الیکشن کمیشن نے 23 دسمبر 2021 کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ فیصل واوڈا نے الیکشن کمیشن کو اپنی شہریت سے متعلق غلط بیان حلفی جمع کرایا تھا
مختصر فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کو تاحیات نااہل کیا ہے، ان کی نااہلی آرٹیکل 62 ون ایف کےتحت ہوئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ فیصل واوڈا اب ’صادق و امین‘ نہیں رہے
بدھ کے روز چیف الیکشن کمیشن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کا مختصر فیصلہ سنایا۔ چیف الیکشن کمشنر نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ دو ماہ میں فیصل واوڈا کو وصول کردہ تنخواہیں اور مراعات واپس کریں
الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ فیصل واوڈا نے اپنا جرم چھپانے کے لیے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیا
تاہم فیصلے میں درج ہے کہ فیصل واوڈا فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں
کیا فیصل واوڈا تاحیات نااہل ہوئے ہیں؟
الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 63 ون سی کا بھی حوالہ دیا جو کہ دہری شہریت سے متعلق ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کا بھی حوالہ دیا جو کہ تاحیات نااہلی سے متعلق ہے
الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ فیصل واوڈا کی نااہلی تاحیات نااہلی کے قانون کے تحت کی گئی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے بیان حلفی میں حقائق چھپائے تھے
انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کی نااہلی کا فیصلہ سپریم کورٹ کے ماضی میں دیے گئے فیصلوں کی روشنی میں کیا ہے جس میں سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو حقائق چھپانے پر تاحیات نااہل قرار دیا تھا
دوسری جانب، فیصل واوڈا کے وکیل اختر عباس کا کہنا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمشین نےصرف ایک فوٹو کاپی پر ان کے مؤکل کو نااہل قرار دیا ہے
انہوں نے کہا کہ ’درخواست گزاروں کی طرف سے الیکشن کمیشن میں ان کے موکل کے خلاف دہری شہریت رکھنے کے معاملے پر کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے گئے تھے۔‘
کیس کا پس منظر
دو سال قبل 21 جنوری 2020ع کو الیکشن کمیشن میں مخالف امیدوار عبدالقادر مندوخیل، میاں فیصل اور آصف محمود کی جانب سے درخواستیں دائر کی گئی تھیں، جن میں موقف اپنایا گیا کہ فیصل واوڈا نے عام انتخابات 2018ع میں کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت غلط حلف نامہ جمع کرایا اور قومی اسمبلی کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت اپنی امریکی شہریت چھپائی
اس کے علاوہ فیصلے کے مطابق فیصل واوڈا نے جائدادیں خریدنے کی منی ٹریل نہیں دی، ان کے ذرائع چھپائے اور ٹیکس بھی ادا نہیں کیا
دو برس قبل تین فروری 2020 کو ان درخواستوں پر سماعت کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ الیکشن کمیشن نے متعدد سماعتوں پر فیصل واوڈا سے دہری شہریت چھوڑنے کی تاریخ پوچھی لیکن فیصل واوڈا نے اس حوالے سے کبھی جواب نہیں دیا۔ فیصل واوڈا نے الیکشن کمیشن کے سامنے کہا تھا کہ وہ پیدائشی امریکی شہری ہیں
سماعت کے دوران فیصل واوڈا کے وکیل بیرسٹر معید نے اپنے موکل کی پیدائش کا سرٹیفکیٹ کمیشن میں جمع کروایا تھا جس کے مطابق سینیٹر فیصل واوڈا امریکی ریاست کیلیفورنیا میں پیدا ہوئے اور وہ پیدائشی طور پر امریکی شہری ہیں۔ ان کے مطابق کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے قبل فیصل واوڈا نے غیر ملکی پاسپورٹ منسوخ کروا دیا تھا اور فیصل واوڈا نے کوئی جھوٹ نہیں بولا
عام انتخابات میں ریٹرننگ افسر کے سامنے پیش ہوتے وقت انہوں نے منسوخ شدہ پاسپورٹ دکھایا تو آر او نے انہیں کلیئر کر دیا
سماعتوں کے دوران الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا سے سوال کیا تھا کہ آپ کے پاس امریکہ کی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ تو ہوگا۔ فیصل وواڈا نے جواب دیا کہ انہیں پاکستان یا امریکا کے قانونی پیپر ورک کا زیادہ علم نہیں، اس حوالے سے وہ کم معلومات رکھتے ہیں
درخواست گزاروں نے الیکشن کمیشن میں سرٹیفکیٹ کی فوٹو کاپی جمع کرائی جس کے مطابق فیصل واوڈا نے 25 جون 2018 کو دہری شہریت چھوڑی۔ جبکہ فیصل واوڈا کے مطابق یہ تاریخ مئی کے مہینے کی تھی۔ فیصل واوڈا نے درخواستوں گزاروں کی جانب سے جمع کرائے گئے سرٹفیکیٹ کی کاپی یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ اس طرح کی کئی فوٹو کاپیاں وائرل ہیں۔‘
درخواست گزاروں نے الیکشن کمیشن میں یہ موقف بھی اپنایا کہ امریکی قونصل خانہ فیصل واوڈا کی جانب سے شہریت چھوڑنے کا سرٹیفیکیٹ انہیں نہیں دیتا، لہٰذا الیکشن کمیشن امریکی قونصل خانے سے اس حوالے سے معلوم کرے، جس پر الیکشن کمیشن نے کہا کہ قونصل خانہ ان کے ماتحت نہیں اس لیے کمیشن ان کوہدایت جاری نہیں کر سکتا
فیصل واوڈا نے سینیٹر منتخب ہونے کے بعد یہ بھی استدعا کی کہ کیونکہ یہ درخواستیں اس وقت کی ہیں، جب وہ رکن قومی اسمبلی تھے، لہٰذا انھیں مسترد کیا جائے۔
فیصل واوڈا جب سینیٹر منتخب ہوئے تو الیکشن کمیشن نے مخالف درخواست گزاروں کی وہ درخواست مسترد کر دی، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ فیصل واوڈا کی بطور سینیٹر کامیابی کا نوٹی فیکشن روکا جائے۔ الیکشن کمیشن نے مرکزی کیس کا حتمی فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے درخواست مسترد کی تھی
واضح رہے فیصل واوڈا نااہلی کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی زیر سماعت رہا ہے۔ فیصل واوڈا کے قومی اسمبلی سے استعفے اور سینیٹر منتخب ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجواتے ہوئے الیکشن کمیشن کو کیس کا فیصلہ کرنے کا کہا تھا
”فوجی بوٹ اور پستول فیم“ فیصل واوڈا
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بدھ کو نااہل قرار دیے جانے والے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رکن فیصل واوڈا کراچی کی ایک مشہور کاروباری شخصیت ہیں
اڑتالیس سالہ فیصل واوڈا کا تعلق کراچی سے ہے۔ ان کے والد ایک تاجر تھے جو بیرون ملک کپڑے کی مصنوعات برآمد کرتے تھے
فیصل واوڈا بھی سیاست میں آنے سے قبل والد کے کاروبار سے منسلک ہو گئے۔ ان کے قریبی حلقوں کے مطابق ’فیصل واوڈا شوکت خانم کینسر ہسپتال کے ڈونر کے طور پر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے قریب ہوئے۔‘
12 مئی 2007 میں کراچی میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی تحریک اور تشدد کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی بھی مقامی سیاست میں متحرک ہو گئی۔ اسی دوران فیصل واوڈا نے بھی اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا
فیصل واوڈا کی ایک وجہ شہرت ان کے جارحانہ بیانات ہیں۔ اس کے علاوہ وہ عوامی مقامات پر اپنے منفرد انداز کی وجہ سے بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کے ابتدائی بیانات ایم کیو ایم کے خلاف ہوتے تھے۔ اس کے بعد صوبے کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھی ان کی تنقید کی زد میں آگئی
ان کے پاکستان اور بیرون ممالک میں متعدد کاروبار ہیں، جن میں پرتعیش گاڑیوں کی درآمد بھی شامل ہے۔ انہیں کئی بار کراچی کی سڑکوں پر ہیوی بائیک چلاتے دیکھا گیا ہے۔ بعض لوگوں کے خیال میں انہیں خبروں میں رہنے کا فن آتا ہے
سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا ٹی وی سکرین پر 2017ع کے بعد تواتر سے نظر آئے۔ ابتدا میں ان کے نام کے ساتھ منفرد ذات واوڈا کے باعث وہ لوگوں کی توجہ کا مرکز رہے۔ پھر وہ اپنی غیرمعمولی سرگرمیوں اور متنازع بیانات کے باعث خبروں کا حصہ بنتے رہے ہیں
جب نومبر سنہ 2018 میں کراچی میں چینی قونصلیٹ کے باہر دہشت گردی کا واقعہ ہوا تھا، تو فیصل واوڈا بلٹ پروف جیکٹ پہنے، ہاتھ میں پستول لیے سکیورٹی فورسز کے ساتھ متاثرہ علاقے میں گھومتے ہوئے دکھائی دیے گئے تھے، جس کے بعد ان پر کافی تنقید کی گئی تھی
مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا وہ دہشت گردوں سے مقابلہ کرنے آئے ہیں اور وہ ملک کے لیے لڑیں گے۔ فیصل واوڈا کے اس عمل پر انہیں سوشل میڈیا پر آڑھے ہاتھوں لیا گیا اور ان کی کئی میم بنائی گئیں
فروری 2019ع میں جب پاکستانی فضائیہ نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھارتی طیارہ مار گرایا اور بھارتی فضائیہ کے پائلٹ ابھیندن کو گرفتار کیا گیا تو وفاقی وزیر فیصل واوڈا پستول لے کر اس جگہ پر پہنچ گئے، جہاں پر بھارتی جہاز کا ملبہ پڑا ہوا تھا
فیصل واوڈا نے پستول کے ساتھ بھارتی جہاز کے ملبے پر پاؤں رکھ کر پاکستانی پرچم کے ساتھ تصویریں بنوائیں
فیصل واوڈا کو سوشل میڈیا پر ایک بار پھر اس وقت سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا جب وہ ایک ٹاک شو میں فوجی بوٹ لے کر آ گئے اور اس کو اپنے سامنے میز پر رکھ کر اپوزیشن جماعتوں پر تنقید کرنے لگے
14 جنوری 2020 کو مقامی نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کے اینکر پرسن کاشف عباسی کے پروگرام ’آف دا ریکارڈ‘ میں شرکت کے دوران فیصل واوڈا نے اچانک میز کے نیچے رکھے ہوئے ایک بوٹ کو ٹیبل رکھ دیا
اس پر پروگرام میں شریک پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ اور مسلم لیگ ن کے بیریسٹر جاوید عباسی احتجاجاً اٹھ کر چلے گئے
اس پروگرام کے بعد سوشل میڈیا پر فیصل واوڈا پر شدید تنقید کی گئی اور انہیں ’بوٹ والی سرکار‘ کہہ کر پکارا گیا۔ ان دنوں آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی حمایت کرنے پر اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کے مقبول نعرے ’ووٹ کو عزت دو‘ کو #بوٹکوعزتدو‘ ہیش ٹیگ کا ٹرینڈ بنا کر ن لیگ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا
وزیراعظم عمران خان نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے فیصل واوڈا سے وضاحت طلب کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر دو ہفتوں کے لیے کسی بھی ٹی وی شو میں شرکت پر پابندی لگا دی
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے ٹی وی پروگرام میں بوٹ لانے والے معاملے پر نوٹس لیتے ہوئے ’آف دا ریکارڈ‘ پروگرام پر دو ماہ کے لیے کی پابندی عائد کر دی تھی۔ کاشف عباسی کو بھی دو ماہ کے لیے کسی بھی ٹی وی چینل پر آنے سے روک دیا تھا
یہ معاملہ لاہور کی ایک مقامی عدالت بھی پہنچا جہاں ایک وکیل رانا نعمان نے فیصل واوڈا کے خلاف قومی سلامتی کے اداروں کی تضیک کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کرانے کے لیے درخواست دی۔ اس پر عدالت نے تھانہ پرانی انار کلی کے ایس ایچ او کو فیصل کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا
اس سے قبل جون 2019 میں ایک نجی چینل جیو نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل واوڈا نے کہا کہ اگر ملک میں پانچ ہزار بندوں کو سرعام لٹکا دیا جائے تو بائیس کروڑ لوگوں کی قسمت بدل جائے گی
اس پر حامد میر نے انہیں آئین اور قانون کے تحت پانچ ہزار لوگوں کو لٹکانے کا مشورہ دیا تو فیصل نے کہا کہ اس طرح تو بیس نسلیں گزر جائیں گی مگر ان کی خواہش پر عمل نہیں ہوسکے گا
اس بات پر بھی سوشل میڈیا صارفین نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا
جبکہ نومبر 2019 میں فیصل واوڈا اور اس وقت کے میئر کراچی وسیم اختر کے درمیان الفاظ کی جنگ کا خاصہ چرچا رہا۔ یہ جنگ اس وقت شروع ہوئی جب فیصل واوڈا نے کراچی کے صحافیوں سے گفتگو میں وفاق میں اپنی اتحادی جماعت کے وسیم اختر پر کرپشن کے الزامات لگائے
اس غیرضروری بیان سے حکومت کے لیے سیاسی مشکلات پیدا ہوئیں جب وسیم اختر نے فیصل کو ’ان گائیڈیڈ میزائل‘ (بغیر ہدف کا ہتھیار) قرار دیا۔ ویسم اختر نے وزیراعظم سے اپیل کی وہ انہیں سمجھائیں ورنہ ایم کیو ایم حکومت کے ساتھ نہیں چل سکتی
ابھی واضح نہیں کہ آیا الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہلی کے بعد وہ پاکستان کے سیاسی افق پر موجود رہیں گے یا نہیں۔ تاہم تاریخی طور پر اس قسم کے عدالتی فیصلے کم ہی کسی کو سیاست سے دور رکھ پائے ہیں.