گجرات – بھارتی ریاست گجرات کی ایک عدالت نے اٹھائیس مسلم نوجوانوں کو تیرہ برس قید کے بعد باعزت بری کر دیا
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان بے گناہ شہریوں کو زر تلافی اور ان کی زندگیاں برباد کرنے والوں کو سزائیں ملنا چاہییں
واضح رہے کہ ان اٹھائیس افراد کے باعزت بری کیے جانے کا واقعہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ بھارتی عدلیہ میں یہ روش عام ہے
بھارتی صوبے گجرات کے شہر احمد آباد میں 26 جولائی 2008ع کو ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار 77 افراد میں سے 28 مسلم نوجوانوں کو ایک خصوصی عدالت نے منگل 8 فروری کے روز باعزت بری کر دیا
اس حوالے سے قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ دیگر 49 قصور وار افراد میں سے بھی بیشتر کو رہائی مل جائے گی، کیونکہ وہ اپنے جرائم کے لیے مقررہ سے زیادہ مدت کی سزائیں پہلے ہی کاٹ چکے ہیں
احمد آباد کی عدالت کے فیصلے کے بعد بھارت میں ایک بار پھر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ بے گناہی کے باوجود زندگی کے بہت سے قیمتی سال جیل میں برباد کر دیے جانے کے لیے قصور وار کون ہیں اور کیا ان قصور وار عناصر کو کوئی سزا بھی ملے گی؟ کیا باعزت بری کیے جانے والے بے گناہ شہریوں کو کبھی کوئی زر تلافی بھی ملے گا؟
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ دنیا کے ہر مہذب ملک میں بے گناہ ثابت ہو جانے پر متعلقہ ملزم یا ملزمان کو زر تلافی کے طور پر مالی معاوضہ دینے کا نظام موجود ہے، لیکن بھارت میں قانونی طورپر اس کی گنجائش ہونے کے باوجود عملاً ایسا ممکن ہی نہیں
ساؤتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکیومینٹیشن سینٹر کے ڈائریکٹر روی نائر کا کہنا ہے کہ قانوناً اور اصولاً کسی بھی بے گناہ شخص کو ایک دن بھی جیل میں نہیں رکھا جانا چاہیے۔ لیکن بھارت میں پندرہ، بیس حتیٰ کہ اٹھائیس برس تک بھی کسی بے گناہ کو جیل میں رکھا جاتا ہے۔ اس کی برسوں کی زندگی اس سے چھین لی جاتی ہے لیکن کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا۔ پھر ایسے شہریوں کو جھوٹے الزامات میں پھنسانے والے پولیس اہلکاروں یا دیگر افراد کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔‘‘
روی نائر نے کہا کہ بھارت میں بڑی تعداد میں مسلم نوجوان جیلوں میں بند ہیں، ان میں سے بہت سے کئی کئی برسوں بعد بے گناہ ثابت ہونے پر رہا ہو جاتے ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ مسلم تنظیمیں اس بارے میں کچھ نہیں کر رہیں حالانکہ میں نے خود بار ہا ان کی توجہ اس طرف دلائی ہے
روی نائر کہتے ہیں کہ بے گناہ ثابت ہو جانے کے باوجود لوگ زر تلافی کی خاطر کوئی کیس اس لیے نہیں کرتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کیس میں فیصلہ آنے میں مزید تیس برس لگ جائیں گے
ان کا کہنا تھا ”مغربی اور یورپی ممالک میں جج فیصلہ سناتے ہی یہ بھی لکھتے ہیں کہ اگر کیس غلط ہے تو ریاست معاوضہ ادا کرے۔ مہذب معاشروں میں ایسا ہی ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ بے گناہوں کی زندگیوں کے جیلوں میں تباہ ہو جانے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے خلاف مقدمات کی سماعت تیز رفتار ہو۔ ”ہم مغربی ملکوں کی مثال سامنے رکھ سکتے ہیں۔ انگلینڈ میں کوئی کیس درج ہونے کے فوراﹰ بعد ہی مقدمہ شروع کرنے کی تاریخ دے دی جاتی ہے اور سماعت شروع ہونے کے بعد ایک ہفتے کے اندر اندر فیصلہ ہو جاتا ہے۔ لیکن بھارتی عدالتوں میں تو تاریخ پر تاریخ ملتی ہے۔ یہ مذاق بن گیا ہے۔ اس میں سرکار ی وکیل، وکیل صفائی اور جج سب شامل ہیں۔‘‘
تاہم روی نائر کا کہنا ہے کہ اس کے لیے صرف حکومت کو ہی قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اس بارے میں سماج کے اندر سے بھی کوئی مؤثر آواز بلند نہیں ہو رہی
انسانی حقوق کے اس سرکردہ کارکن کے خیال میں جب کوئی کیس غلط ثابت ہو جائے، تو پولیس کے خلاف بھی قانونی کارروائی ہونا چاہیے
وہ کہتے ہیں ”جو بدنیتی سے کسی بھی بے گناہ شخص کو جیل میں ڈال دیتی ہے اور اس کے خلاف ٹاڈا اور یو اے پی اے جیسے سیاہ قوانین کے تحت مقدمہ درج کر لیتی ہے۔‘‘
روی نائر نے اس صورت حال میں تبدیلی کے لیے پولیس کے محکمے میں اصلاحات پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا ”پولیس میں اصلاحات صرف پولیس کی یونیفارم تبدیل کرنے سے نہیں کی جا سکتیں۔ اس کے لیے ریاست اور حکومت کو مضبوط قوت ارادی کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور سماجی اور غیر سرکاری تنظیموں کو بھی پوری شدت سے اپنی کوششیں کرنا ہوں گی۔‘‘