کراچی – آپ کو میسیج ارسال کیے ہوئے ایک گھنٹہ گزر چکا ہے، لیکن جواب جلد ملنے کی امید کے برعکس اب تک آپ کو اس کا جواب موصول نہیں ہوا
ہر گزرتے منٹ کے ساتھ آپ بے چین اور غصے کا شکار ہو رہے ہیں۔ آخر دو سیکنڈ ہی تو لگتے ہیں یہ کہنے میں کہ تھوڑی دیر بعد جواب دیا جائے گا۔ جیسے جیسے وقت مزید گزرتا ہے، آپ پریشان ہونا شروع ہو جاتے ہیں
آپ کے ذہن میں اس طرح کے خدشات آتے ہیں کہ کیا پتہ آپ کا دوست آپ سے ناراض ہو؟ کیا پتہ آپ کے پیغام کا اس نے کچھ غلط مطلب لیا ہو؟ کیا معلوم وہ کسی اور وجہ سے کسی بات پر پریشان ہو؟ یا یہ کہ وہ آپ کو اہمیت نہیں دے رہا
کئی لوگوں کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ ان کے دوست احباب ان کے پیغام کا جواب کتنی دیر میں دیتے ہیں۔ لیکن اکثر لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں اگر فوری طور پر پیغام کا جواب نا ملے تو وہ بے اطمینانی کا شکار ہو جاتے ہیں
اس بے چینی اور اضطراب کی وجہ چوبیس گھنٹے کی ڈجیٹل اویلیبلٹی یعنی ’دن کے 24 گھنٹے دستیاب رہنا‘ بتائی جاتی ہے
یعنی معاشرتی طور پر عام ہو جانے والی یہ توقع کہ جسے ہم پیغام بھیج رہے ہیں، وہ ہر وقت فون پر موجود ہوگا اور اسے جواب دینے میں دیر نہیں کرنی چاہیے
آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اس بات پر پریشان ہو جاتے ہیں، وہ بھی ایک ایسے دور میں جب کئی لوگ ذہنی صحت کے مسائل کی وجہ سے ’ڈیجیٹل ڈی ٹوکسیفیکیشن‘ سے گزرتے ہیں
لوگ آج بھی مختلف طریقوں سے پیغام رسانی کرتے ہیں۔ کچھ ہر وقت فون سے جڑے رہنا چاہتے ہیں، تو کچھ ایسے بھی ہیں، جو دن کے بیشتر اوقات موبائل سے دور رہنا پسند کرتے ہیں
لیکن جواب دینے کی مدت سے جڑی پریشانیوں اور تناؤ کی ایک وجہ معاشرتی رویے بھی ہیں
ڈجیٹل ٹیکنالوجی میں تیزی سے پیش رفت نے رابطے کے اصولوں کو یکسر بدل کر رکھ کر دیا ہے۔ اسی لیے جب ہم ایک پیغام بھیجتے ہیں تو ہر کوئی ایک اصول کے تحت جواب نہیں دیتا
دراصل تیز تر رابطے کی ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ نے لوگوں میں ”ہر وقت میسر رہنے“ کی توقع بڑھا دی ہے اور ایسا ہوتا بھی ہے
سنہ 2021ع کے ایک سروے کے مطابق تین فیصد امریکی شہریوں کا ماننا ہے کہ وہ ہر وقت آن لائن ہوتے ہیں، خصوصاً کورونا کی وبا کے دور میں
امریکا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں کمیونیکیشن کے پروفیسر اور سوشل میڈیا لیب کے ڈائریکٹر جیف ہینکاک کا کہنا ہے ”اس دباؤ کی وجہ دو چیزوں کا ملاپ ہے۔ پہلا موبائل خود، جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو میسر ہے اور جس میں رابطہ کرنے کے کئی ذریعے ہیں اور دوسرا تبدیل ہوتے معاشرتی رویے“
دوسرے الفاظ میں، لوگوں کے پاس ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کے لیے ایک سے زیادہ ذرائع ہیں اور کیوں کہ یہ ذرائع ابلاغ ہماری جیب میں ہر وقت اور ہر جگہ موجود رہتے ہیں، اسی لیے جواب دینے کا دباؤ بھی نارمل ہو چکا ہے۔ بظاہر ہم ہر وقت جواب دینے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں اس لیے دینا بھی چاہیے
ہمارے فون میں موجود سوشل میڈیا ایپس اور پلیٹ فارمز نے چوبیس گھنٹے رابطہ کاری کے تصور کو ہماری زندگی کا حصہ بنا دیا ہے۔ گھر سے بیٹھ کر یا دفتر سے دور رہ کر کام کرنے کی وجہ سے اس میں اور بھی اضافہ ہوا ہے
تیز تر جواب دینا کام کی جگہ کا اصول بن چکا ہے کیونکہ دیر سے جواب کا مطلب ہے کہ باس کی آپ سے متعلق رائے متاثر ہو گی
یونیورسٹی آف بوفیلو میں کمیونیکیشن کے پروفیسر اور سوشل نیٹ ورکس کے ماہر مائیکل اسٹیفانون کہتے ہیں ”اب چاہے پیغام دفتری معاملات کا ہو یا پھر انسٹا گرام پر تصویر پوسٹ کرنے سے متعلق، ہمیں فوری جواب دینے کی عادت ہو چکی ہے۔“
ہر وقت تنگ کرنے والا احساس
فون پر پیغام بھیجنے والا فوری طور پر جواب کی آواز نا سننے پر کیوں چڑ جاتا ہے، اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ہمارے فون ہمیں قربت کے احساس میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ایک دوسرے براعظم میں مقیم دوست بھی لگتا ہے صرف ایک ٹیکسٹ کی دوری پر ہے۔ لیکن پیغام بھیجنے والا نہیں جانتا کہ فون کے دوسرے سرے پر موجود شخص کس حال میں ہے؟
پروفیسر ہینکاک کہتے ہیں کہ جب کسی کے پیغام کا جواب نہیں آتا تو ایسے میں کچھ لوگ بہت پریشان ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ اس صورتحال کو اپنے ذہنی اضطراب سے جوڑ لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر میں آپ کو ٹیکسٹ بھیجوں اور آپ مجھے جواب نہ دیں تو میں اپنے تخیل کا استعمال کروں گا کیونکہ میرے پاس کچھ زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ جیسا کہ میں سوچوں کہ شاید وہ مجھ سے ناراض ہے یا شاید وہ مر گیا ہے۔ ہمیں دوسرے شخص کی صورتحال کا اندازہ ہی نہیں ہوتا
اور یہی بات پیغام بھیجنے والے کی پریشانی کو اپنی اہمیت کے بارے میں مذید بڑھا سکتی ہے، جس سے ایک تلخ سوچ بھی پیدا ہو سکتی ہے کہ ہر وقت تو فون پاس ہوتا ہے پھر وہ صرف یہ جواب کیوں نہیں دے سکتے کہ ابھی مصروف ہیں، بعد میں بات کر لیں گے یا پھر یہ سوچ آ سکتی ہے کہ کیا وہ اسکرین پر میرا نام دیکھ کر خوش بھی ہوئے یا نہیں؟
کوئے چیشائر یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے میں سوشل سائیکالوجی کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے منفی خیالات اس وقت زیادہ شدت اختیار کر لیتے ہیں، جب پیغام بھیجنے والے نے کوئی ہلکا پھلکا لطیفہ یا میم بھیجی ہو، جو دوسرے طرف پیغام وصول کرنے والے کے لیے بہت معمولی بات ہو
ایسے پیغامات کا تیز جواب آنے کی توقع زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا جواب دینے پر تو کوئی زیادہ وقت بھی صرف نہیں ہوتا
جبکہ اس اضطراب کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ڈجیٹل دنیا میں رویے سے متعلق کوئی ایک واضح اصول نہیں ہے۔ ایسا کوئی نظام طے ہی نہیں ہوا، جس پر اتفاق ہوا ہو کہ فون پر پیغام وصول ہونے کے بعد کتنی دیر تک جواب نہ دیے جانے کو بدتمیزی مانا جائے گا
پروفیسر چیشائر کے مطابق ”ٹیکنالوجی کی رفتار ہماری توقعات اور رویوں کے بننے سے کہیں زیادہ تیز ہے“
وہ کہتے ہیں ”رابطوں کے نئے ذرائع، جن میں آمنے سامنے بات چیت کے متبادل کے طور پر تحریری نشانات بھی متعارف کروائے گئے ہیں، جن کو سمجھنے کے لیے اپنے ذہن سے کام لینا پڑتا ہے اور اسی لیے اس طرح کی پیغام رسانی میں پریشانی اور الجھاؤ میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔“
انٹرنیٹ عام ہونے کے بعد گذشتہ پچیس سال میں اس رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور اسمارٹ فونز آنے کے بعد گذشتہ ایک دہائی میں معاملہ مزید بگڑ گیا ہے
پیغام رسانی سے جڑے نئے چیلنجز نے بہت عرصے سے قائم رابطوں کے رویوں میں بھی فرق گہرا کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر انٹرنیٹ سے پہلے کے زمانے میں کچھ لوگ فون کال یا خط کا فوری جواب دے دیتے تھے، لیکن بعض لوگ وقت لیتے تھے۔ ان رویوں کا فرق بھی عین ممکن ہے کہ ایسی ہی پریشانی کا باعث بنتا ہو، جیسا آج کے دور میں ایک ٹیکسٹ پیغام کا جواب نہ ملنے پر ہوتی ہے
لیکن پھر بھی سوال یہ ہے کہ آخر چند لوگ دوسروں کے مقابلے میں اس بات کا زیادہ اثر لے کر زیادہ کیوں پریشان ہوتے ہیں؟
اس کا ایک ممکنہ جواب یہ ہو سکتا ہے کہ چند لوگوں کی جلدی جواب موصول ہونے کی توقع ان کی قدرتی فطرت کا نتیجہ ہو
پروفیسر ہینکاک جواب کے انتظار کے انفرادی فرق کے بارے میں کہتے ہیں ”کچھ لوگ دوسروں کی نسبت جلد جواب چاہتے ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ کچھ پیغامات ایسے ہوتے ہیں، جو بھیجنے والے کے لیے اہم ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے جواب وصول ہونے کی بھی جلدی ہوتی ہے۔“
لیکن پروفیسر چیشائر کے مطابق جدید رابطہ کاری سے جڑے معاشرتی رویوں کا بھی اس فرق سے گہرا تعلق ہے، جو لوگوں کے تاخیر سے جواب ملنے پر مختلف ردعمل کی وضاحت کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ عام زندگی میں ”نوٹیفیکیشن نارمز“ طے کر لی گئی ہیں
ان نارمز کے تحت چند رویے درست مانے جاتے ہیں، جیسا کہ کس کو کیا بتانا ہے اور کب۔ مثال کے طور پر اگر آپ کسی کو کوئی بڑی خبر سُناتے ہیں تو عام طور پر فوری مبارکباد دی جاتی ہے، لیکن ردعمل میں تاخیر کو بُرا سمجھا جاتا ہے
اس کے برعکس چوبیس گھنٹوں کی ڈجیٹل دنیا میں ہر کوئی اس بات پر متفق نہیں کہ آپ کس سے رابطہ کر سکتے ہیں اور کس سے نہیں، اور اس بات پر بھی کہ جواب دینے میں کتنی جلدی کرنی چاہیے
اس دنیا کی نوٹفیکیشن نارمز طے شدہ نہیں۔ پروفیسر چیشائر کے مطابق یہ اصول کہیں پر لکھے نہیں ہوئے
اسی وجہ سے عین ممکن ہے کہ جو شخص پیغام کے جواب میں تاخیر پر اضطراب کا شکار ہو رہا ہے، وہ دوسروں پر خود سے طے شدہ اصول لاگو کر رہا ہو اور ایسے برتاؤ کر رہا ہو، جیسے اس کے اصول ہی دنیا کی رسم ہیں، جب کہ دوسری جانب موجود شخص مختلف اصول کی پاسداری کر رہا ہو
پروفیسر ہینکاک کہتے ہیں کہ اپنا ذاتی تجربہ اور خیال اس معاملے میں بہت اہم ہے، کیونکہ کسی کے پاس کوئی اور سیاق و سباق نہیں ہوتا۔ ”مجھے نہیں معلوم کہ آپ پر کیا بیت رہی ہے، اس لیے میں اپنا ذاتی خیال آپ پر اور آپ کی صورتحال پر تھوپ دوں گا۔“
آخرکار اگر جواب نہیں مل رہا تو آپ کیا کچھ کر سکتے ہیں؟ شاید ہاں اور شاید کچھ بھی نہیں
اگر آپ کو جواب میں تاخیر پر غصہ آتا ہے، تو شاید آپ کو یہ سوچنے سے مدد ملے کہ آپ خود کو خوامخواہ پریشان کر رہے ہیں اور اپنا ذاتی تجربہ اور پریشانیاں کسی دوسرے پر تھوپنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ آپ کو معلوم ہی نہیں کہ جواب میں دیر کی وجہ کیا ہے اور دوسرا شخص کس صورتحال کا شکار ہے؟ اور یہ بات ضرور ذہن نشین کر لیں کہ جو رویہ آپ درست سمجھتے ہیں، ضروری نہیں کہ سب کے لیے وہ قابلِ قبول ہو
اس معاملے سے جڑا اضطراب اور پریشانی شاید اب چوبیس گھنٹے جڑی دنیا کی زندگی کا معمول ہے
پروفیسر چیشائر کے مطابق: ایسا اس لیے ہے، کیونکہ رابطوں سے جڑی معاشرتی اقدار، جو سب کو ایک پیج پر لے آتی ہیں، خود ایک جیسی نہیں رہتیں۔ لیکن اب لوگ اس بارے میں زیادہ بات چیت کرنے لگے ہیں تو عین ممکن ہے کہ ایسا ہو جائے کہ نئی معاشرتی اقدار بھی طے ہو جائیں، کیوں کہ ایسا کھل کر بات کرنے سے ہی ممکن ہے
اس لیے اگر آپ بھی کسی ایسے دوست یا عزیز کے رویے سے پریشان ہیں، جو چاہے پیغام بھجوا رہا ہے یا اس کا منتظر ہے، تو بہتر ہوگا کہ آپ کُھل کر اس سے بات کریں
اس دوران اگر آئندہ جواب میں تاخیر پر غصے سے آپ کا خون کھولنے لگے، تو بہترین حل یہ ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے فون ہاتھ سے رکھ دیں۔ چوبیس گھنٹے جڑی رہنے والی دنیا پہلے ہی بہت اعصاب شکن ہے، اسی لیے ہمیں اپنی توقعات کی اصلاح کرنے کی بھی ضرورت ہے.