گذشتہ ہفتے بلوچستان کے علاقوں پنجگور اور نوشکی میں ایف سی ہیڈکوارٹرز پر مسلح افراد کے حملوں میں نو فوجی ہلاک جبکہ بیس شدت پسند مارے گئے تھے۔ اس حملے کے دوران پنجگور میں کرفیو جیسی صورتحال ہونے کے باعث صحافیوں کے لیے شہر میں داخلہ ممکن نہیں تھا، تاہم حالات معمول پر آنے کے بعد بی بی سی ٹیم نے اس شہر کا دورہ کیا ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے شہر میں اب حالات کیسے ہیں
جب پنجگور جانے کا ارادہ کیا تو پہلا خیال یہی ذہن میں آیا کہ حکام چیک پوسٹ سے ہی واپس بھیج دیں گے کیونکہ لگ بھگ تین روز تک جاری رہنے والی اس کارروائی کے دوران پنجگور میں کرفیو کا سا سماں تھا اور کسی غیرمقامی شخص کو یہاں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی
دل میں یہی خدشات لیے میں علی الصبح چار بجے پنجگور جانے کے لیے تیار تھی۔ شاہراہ گوادر میں زیرو پوائنٹ کے مقام پر ایک سڑک تربت جبکہ دوسرا راستہ پسنی کی طرف جاتا ہے
زیرو پوائنٹ پر کھڑے سکیورٹی اہلکاروں نے گاڑی روکے بغیر ٹارچ کی روشنی سے اشارہ کرتے ہوئے آگے جانے کو کہا
تربت کے راستے میں مزید چھ چیک پوسٹیں آئیں اور اُن سب پر ایسا ہی ہوا، یعنی ٹارچ کے اشارے سے گاڑی کو روکے بغیر آگے جانے دیا گیا
پنجگور کا راستہ بلوچستان کے جنوب مغرب میں واقع دیگر علاقوں کی طرح کشادہ ہے۔ راستے کے ساتھ ساتھ ایک طرف دشت (یعنی بیابان) جبکہ دوسری طرف پہاڑی سلسلہ چلتا رہتا ہے
یہاں راستے میں گھر نہیں دکھائی دیتے، اور فون کا نیٹ ورک لگ بھگ بند ہی رہتا ہے۔ کسی چیک پوسٹ یا شہر کے پاس پہنچنے پر ہی کچھ دیر کے لیے سگنلز آتے ہیں
سفر کے دوران لگ بھگ صبح پانچ بجے سڑک پر ایرانی تیل اور ڈیزل ترسیل کرنے والی نیلی گاڑیاں، جنھیں مقامی زبان میں زمباد کہا جاتا ہے، نظر آنے لگیں
پنجگور سے متصل ایران کا شہر ’سراوان‘ ہے جہاں سے تھوک کے حساب سے واشنگ پاؤڈر، کھانے پینے کی اشیا اور خوردنی تیل لایا جاتا ہے
تربت، پنجگور، پسنی اور گوادر کی 75 فیصد تک بجلی کی کھپت بھی ایران ہی سے ہوتی ہے۔ جنوب مغرب کے سرحدی علاقوں کا تقریباً تمام تر دارومدار ایران سے آنے والی کھانے پینے کی اشیا پر ہے اور اگر یہ ترسیل روک دی جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان علاقوں میں اشیائے خورونوش کی قلت ہو سکتی ہے
دن کی روشنی ہو چکی تھی اور اسی دوران ہمیں ایک چیک پوسٹ نظر آئی۔ دو گھنٹوں کے سفر کے دوران یہ پہلی چیک پوسٹ تھی جہاں ہمیں روکا گیا اور زیادہ سوال و جواب کیے بغیر گاڑی کو آگے جانے کا کہہ دیا گیا
ہمارے ڈرائیور نے خاصے فاتحانہ انداز میں سکیورٹی چیک پوسٹس پر زیادہ روک ٹوک نہ ہونے کی وجہ گوادر میں گذشتہ دنوں ہونے والے مولانا کے دھرنے کو بتایا۔ یاد رہے کہ اس دھرنے کے بنیادی مطالبات میں ایک سکیورٹی چیک پوسٹوں پر مقامی لوگوں کی بلاضرورت روک ٹوک کا خاتمہ بھی تھا
پنجگور کے قریب پہنچتے پہنچتے سڑک پر گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ نظر آ رہا تھا۔ ایک اور گھنٹہ گزرنے کے بعد کھجور کے درخت نظر آئے اور سیدھے ہاتھ پر پنجگور شہر کا بورڈ۔ اسی بورڈ کے بالکل سامنے سڑک پنجگور کی طرف جاتی ہے
تجزیہ کار رفیع اللہ کاکڑ سے جب پنجگور کے حالات پر فون پر بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ اب حالات بہت مختلف سمت میں جا رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ حالیہ وقتوں میں ہونے والی شدت پسندی اب بلوچستان کے جنوب مغرب میں رہنے والے نوجوانوں کی سوچ کا حصہ ہے ’اور یہ کافی عرصے سے شدت اختیار کر چکی ہے۔‘
پنجگور شہر تاریخی طور پر ثقافت اور مزاحمتی شاعری کے لیے مشہور رہا ہے تاہم گذشتہ بیس برسوں میں یہاں پر شدت پسندی تیزی سے بڑھی ہے اور اب یہاں کے پڑھے لکھے نوجوان بھی اس سوچ سے متاثر نظر آتے ہیں
جب ہماری گاڑی پنجگور شہر میں داخل ہوئی تو اس وقت تک نا صرف بازار کھل چکے تھے بلکہ وہاں کافی رش بھی نظر آیا
ٹرکوں سے سامان لادنے اور اتارنے کا کام جاری تھا، کئی دکاندار اپنی دکان کا شٹر دیکھ رہے تھے، زیادہ تر دکانوں کے شٹروں پر چھروں اور گولیوں کے نشان تھے، دکاندار انھیں دیکھ رہے تھے
اسی بازار کے قریب پنجگور کا پریس کلب ہے جہاں ایک صحافی نے بتایا کہ حملے کے کچھ لمحوں بعد انھوں نے اپنے ادارے کو کئی واٹس ایپ میسج بھیجے لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ ’مجھے لگا میرے میسج انھیں نہیں ملے، بعد میں پتا چلا کہ اس خاموشی کا مطلب ہے کہ خبر ہی نہیں چلانی۔‘
اسی دوران ایک دکاندار نے اپنی دکان پر لگی گولیوں کے نشان دکھانے کے لیے ہمیں اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ دکاندار کا کہنا تھا کہ ’بیس برسوں میں میں نے ایسا حملہ نہیں دیکھا جس کے دوران اتنے دھماکے کیے گئے ہوں، پہلے بھی حالات خراب ہوتے رہے ہیں لیکن اس بار حالات سمجھ سے باہر ہیں۔‘
واضح رہے کہ یہ گنتی کے چند دکانداروں میں سے تھے جنھوں نے بتایا کہ وہ اُردو بول اور سمجھ سکتے ہیں۔ یہاں کئی لوگ مجھ سے صرف اس لیے بات کرنے سے کترا رہے تھے کیونکہ وہ ’اچھی اُردو‘ بولنا چاہ رہے تھے اور نہ بول پانے پر عاجزی سے ہاتھ جوڑ لیتے تھے
میرے اردگرد بنی بھیڑ میں سے ایک ادھیڑ عمر دکاندار نے کہا کہ ’آپ لوگوں کے چینل پر ہماری خبر نہیں آئی، بلوچستان چار روز تک غائب تھا۔‘
ابھی ہم لوگ بات ہی کر رہے تھے کہ دھماکے کی آواز سنائی دی اور کئی لوگ ’اللہ اکبر‘ کہنے لگے۔ اسی بازار کی انجمن تاجران کے صدر نے بتایا کہ گھبرانے کی بات نہیں کیونکہ ان کے مطابق ایف سی کیمپ میں دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنایا جا رہا ہے
پنجگور کے چتکان بازار سے کچھ فاصلے پر ایف سی کا وہ کیمپ موجود ہے، جہاں حملہ آوروں نے حملہ کیا تھا
ایسا پہلی بار نہیں ہے کہ بلوچ شدت پسندوں کی جانب سے خودکش حملہ کیا گیا۔ حالیہ حملے کے چار روز گزرنے کے بعد بھی دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنانے کا کام جاری تھا
اب ذہن میں سوال آیا کہ شدت پسند اتنا اسلحہ اور بارودی مواد لانے میں کامیاب کیسے ہوئے؟
حالیہ حملوں میں یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ شدت پسندوں کے پاس لڑنے کی وہ تمام تر صلاحیتیں موجود تھیں، جس کے نتیجے میں وہ پنجگور میں ہونے والی لڑائی کو طول دے سکیں اور ساتھ ہی ایک بار پھر منظم ہو سکیں
پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے اس صلاحیت کے پیچھے بھارت اور افغانستان سے بلوچ شدت پسندوں کو ملنے والی مدد کو بتایا ہے اور ساتھ ہی یہ دعویٰ کیا ہے کہ شدت پسندوں کو پاکستانی طالبان کی پشت پناہی حاصل ہے، اگرچہ اس دعوے کو شدت پسند رد کرتے ہیں
ان حملوں کے بعد پاکستان کی فوج اور شدت پسندوں کے درمیان بیانیے کی جنگ بھی دیکھنے کو ملی، جس میں جہاں شدت پسندوں نے 72 گھنٹوں تک لڑائی جاری رکھنے کا دعویٰ کیا، وہیں پاکستان کی افواج نے ایک روز کے اندر کلیئرنس آپریشن کے بارے میں اپنا اعلامیہ جاری کر دیا
اس دوران پاکستان کے نیوز چینلز اس شش و پنج میں نظر آئے کہ وہ خبر شروع کہاں سے کریں اور ختم کہاں؟
پاکستان کے لیے اس وقت بلوچ شدت پسندوں کے خلاف جنگ جیتنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ ان حملوں میں اضافے سے چین پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے پیچھے ہٹ سکتا ہے
جبکہ شدت پسند چینی سرمایہ کاری پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے غریبوں کے خلاف پراجیکٹ قرار دیتے ہیں
ماہرین نے بارہا کہا ہے کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں پنپنے والی شدت پسندی کو مقامی مدد حاصل ہے اور اگر پاکستان نے صوبے میں جاری شورش کو نہ روکا تو پاکستان کا غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کا خواب محض خواب ہی رہ جائے گا
پنجگور سے نکلتے ہوئے اب اہلکاروں کی خاصی تعداد میں نفری نظر آئی اور پھر وزیرِاعظم عمران خان اور فوج کے سربراہ کی جانب سے اہلکاروں سے ملاقات کی خبریں بھی نشر کی گئیں
تاہم جاتے ہوئے ذہن میں بوڑھے دکاندار کی بات ایک بار پھر آئی کہ ’چار دن تک بلوچستان غائب تھا۔‘
حوالہ : بی بی سی اردو