لاہور – لاہور پولیس گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران شہر میں بارہ ہلاکتوں کو وڈیو گیم پلیئر اننون بیٹل گراؤنڈ (پب جی) جا شاخسانہ بتاتی ہے، لیکن کیا پولیس کا خیال درست ہے؟
پنجاب پولیس نے صرف لاہور شہر میں مبینہ طور پر پب جی کی وجہ سے بارہ ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو باقاعدہ خط ارسال کیا ہے کہ اس گیم پر پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) کے ذریعے فوری پابندی عائد کی جائے
یاد رہے کہ ہمسایہ ملک بھارت میں اس گیم پر 2020ع میں پابندی عائد کی گئی تھی۔ پب جی اور اسی طرح کی ایپس پر بھارتی حکومت نے بچوں میں لت، مالی نقصان، خود کو نقصان پہنچانے، خودکشیوں اور قتل کے مسائل کے علاوہ قومی سلامتی اور ڈیٹا پرائیویسی کی خلاف ورزیوں سے متعلق خدشات پر پابندی عائد کی تھی
سینٹرل پولیس آفس نے وفاقی حکومت کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ پب جی گیم کی وجہ سے گذشتہ ماہ ایک نوجوان نے مبینہ طور پر اپنی والدہ اور بہنوں سمیت گھر کے چار افراد کو قتل کر دیا۔ اسی طرح خط میں ماضی کے چار مختلف واقعات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے
پی ٹی اے ترجمان خرم مہران کے مطابق پنجاب پولیس کے خط پر حکومت نے فی الحال گیم پر پابندی کی ہدایت نہیں کی اور جب کہا جائے گا تو فیصلہ کیا جائے گا
اکثر والدین نے بھی اس گیم سے متعلق پریشانیوں سے آگاہ کیا ہے، جبکہ پب جی گیم کھیلنے والے نوجوان اس پر پابندی کے خلاف ہیں
ایس ایس پی انویسٹیگیشن لاہور عمران کشور کہتے ہیں کہ آن لائن گیم پب جی کے جنون میں مبتلا نوجوان منع کرنے پر اپنوں کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے اور ایسے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں
نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ دن میں دو گھنٹے سے زیادہ اس گیم کا کھیلنا خطرے کی نشانی بن سکتا ہے۔ نوجوان اکثر اس وقت کو ذہن میں نہیں رکھتے
نفسیاتی ماہرین کے مطابق اس کھیل کے کئی نقصانات ہیں، جیسا کہ یہ آپ کی فطرت کو جارحانہ بناتا ہے، سماجی بے چینی بڑھتی ہے، ڈپریشن کا باعث بن سکتی ہے اور سونے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے
اس کے برعکس میں اس کھیل کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ نظر کو بہتر کرتا ہے، ٹریک کرنے کی صلاحیت بڑھتی ہے اور ملٹی ٹاسکنگ کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے
لاہور پولیس کے ریکارڈ کے مطابق گذشتہ ماہ 18 جنوری کو کاہنہ میں ایک لیڈی ہیلتھ ورکر کو ان کے تین بچوں سمیت قتل کرنے پر چھان بین کی تو مقتولہ کے 14 سالہ بیٹے زین علی کو حراست میں لیا گیا جس نے مبینہ طور پر اس گیم سے متاثر ہو کر یہ واردات کی
پینتالیس سالہ ناہید مبارک، ان کا بیس سالہ بیٹا تیمور سلطان اور بیٹیاں پندرہ سالہ ماہنور فاطمہ اور دس سالہ جنت کاہنہ کے علاقے ایل ڈی اے چوک میں اپنے کثیرالمنزلہ مکان کے ایک کمرے میں مردہ پائے گئے تھے
جبکہ پولیس رکارڈ کے مطابق ایک اور واقعے میں نواں کوٹ میں مبینہ طور پر ملوث پب جی گیم کے جنون میں مبتلا رانا بلال نشے کا عادی بھی تھا
ملزم پب جی اور ویگو گیمز پر لاکھوں فالوورز کا دعویٰ کرتا تھا اور خود کو پب جی اور بیگو لائیو کا اسٹار بتاتا تھا
ملزم نے گھر والوں سے جھگڑا کیا کہ انہوں نے اس کے ساتھ ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے کا فراڈ کیا، جس کی وجہ سے ملزم نے طیش میں آ کر والدہ، بہن، بھائی، بھابی اور ملازم پر فائرنگ کر دی
پولیس ریکارڈ کے مطابق گیمز کے جنون کا اثر ملزم پر اس قدر تھا کہ اس نے اپنے ملازم اور دوست کو پب جی گیم اور بیگو لائیو کے اسٹائل میں تعاقب کر کے ہمسائے کے گھر جا کر واش روم میں قتل کیا
دوسری جانب اس کھیل کو کھیلنے سے منع کرنے پر بھی بعض نوجوانوں کی جانب سے منفی ردعمل سامنے آتا ہے، جو بغض اوقات انتہائی شدید نوعیت کا ہوتا ہے
ایسے ہی ایک کیس میں لاہور میں ملتان روڈ کے رہائشی سولہ سالہ نوجوان نے اپریل 2021ع کو مبینہ طور پر والدین کی جانب سے وڈیو گیم کھیلنے سے منع کرنے پر خودکشی کر لی تھی
25 جون، 2020ع کو شمالی چھاؤنی میں ایف ایس سی کے طالب علم بیس سالہ جونٹی نے خود کشی کی۔ ہنجروال کے علاقے مصطفیٰ ٹاؤن میں مبینہ طور پر بہت زیادہ پب جی کھیلنے والے سولہ سالہ زکریا یوسف نے بھی اپنی زندگی خود ختم کر لی
یکم جولائی، 2020ع کو لاہور میں پب جی گیم نے ایک اور جان لی، جب غازی روڈ کی پنجاب سوسائٹی میں ایک اٹھارہ سالہ نوجوان نے خود کشی کرلی
پولیس کے مطابق شہریار نے بڑے بھائی کے پب جی گیم کھیلنے سے منع کرنے پر خودکشی کی تھی
متوفی شہریار اور اس کے بھائی شعیب کا تعلق کوئٹہ سے تھا اور دونوں ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ شعیب نے پولیس کو بتایا کہ شہریار زیادہ تر پب جی گیم ہی کھیلتا رہتا تھا
لاہور پولیس کے مطابق جون، 2020ع کو شہر میں چار روز میں دو نوجوانوں نے مبینہ طور پر پب جی کھیلنے سے منع کرنے پر خودکشی کی، جس کے بعد پولیس نے فیصلہ کیا کہ ایسی تمام پرتشدد گیمز اور آن لائن پیجز کو بلاک کرنے کے لیے پی ٹی اے کو درخواست دی جائے گی
لاہور پولیس ان واقعات کو واقعاتی شواہد کی بنا پر پب جی گیم سے جوڑ رہی ہے، اس پر پابندی ایک حل ہو سکتا ہے لیکن ان واقعات کی مختلف پہلوؤں سے جامع تحقیقات کی بھی ضرورت ہے
ایس ایس پی عمران کشور کا کہنا ہے کہ پب جی گیم کے جنون میں مبتلا ہونے والوں کے ہاتھوں اپنی اور دوسروں کی جان لینے جیسے واقعات کو روکنے کا واحد حل اس گیم پر پابندی ہے، کیونکہ ایسے جرائم کو روکنے سے قبل پہلے سے کوئی اقدام ممکن نہیں
لاہور کے علاقے گلبرک کے رہائشی صفدر عباس بتاتے ہیں کہ ان کے دو سولہ اور اٹھارہ سالہ بیٹے آن لائن گیم پب جی کا جنون کی حد تک شوق رکھتے ہیں
صفدر عباس نے کہا ’ان کی والدہ انہیں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھی بہت مشکل سے سکول کالج بھیجتی ہیں۔ دن رات وہ جسمانی گیمز کی بجائے موبائلز لے کر بیٹھے رہتے ہیں لیکن ان کا جنون اس حد تک نہیں کہ وہ کسی کو منع کرنے پر نقصان پہنچائیں ابھی نوجوان ہیں آہستہ آہستہ خود ہی سمجھ جائیں گے۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ وہ پب جی جیسی آن لائن گیمز کو بچوں کے لیے برا نہیں سمجھتے، البتہ جنون کسی بھی چیز کا غلط ہے
وہ کہتے ہیں ’بہتر ہے ایسی ایپلیکشنز استعمال کرنی چاہییں جس سے ان کی تربیت اور معلومات یا شعور میں بھی اضافہ ہو۔ اس لیے پابندی مسئلہ کا حل نہیں کیونکہ اگر اس پر پابندی لگی تو کوئی اور گیم آجائے گی تو کس کس گیم پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔‘
جبکہ شادمان کالونی کے رہائشی اور پب جی گیم کے شوقین ایک نوجوان ابراہیم عبداللہ نے بتایا کہ آن لائن گیمنگ سے شوق پورا ہونے کے ساتھ دوستوں سے آن لائن رابطے میں رہنے کا موقع ملتا ہے
ان کا کہنا ہے ’یہ ایک شوق ہے لیکن اسے جنون بنانا غلط ہے۔ فارغ وقت میں گیم کھیلنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن جہاں تک پابندی کا تعلق ہے تو یہ مسئلہ کا حل نہیں پہلے بھی ٹک ٹاک یا آن لائن گیمز پر پابندی لگائی گئی تو شوقین دوسری آن لائن گیموں کے طرف راغب ہوگئے۔‘
دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو پاکستان اور دنیا بھر میں ہلاکتیں محض پب جی کی وجہ سے ہی نہیں ہوئیں، بلکہ ٹک ٹاک اور محض بہترین سیلفی بنانے کی کوشش میں بھی ہوئیں ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کی تربیت کے دوران نفسیاتی اصولوں کو بھی مدنظر رکھا جائے.