کبڈی کے نوجوان کھلاڑی موت کے منہ میں کیوں جا رہے ہیں؟

ویب ڈیسک

کبڈی کے نوجوان کھلاڑی موت کے منہ میں کیوں جا رہے ہیں؟ یہ سوال ایک مرتبہ پھر اس وقت ابھر کر سامنے آیا، جب حال ہی میں پاکستان کے صوبہ پنجاب میں کبڈی کے نوجوان کھلاڑی ستائیس سالہ شمریز گوندل کا گزشتہ دنوں اچانک انتقال ہو گیا

شمریز گوندل کا تعلق پنجاب کے ضلع منڈی بہاؤالدین کے گاؤں سندھانوالہ سے تھا۔ وہ کبڈی کے بہترین کھلاڑی تھے اور بظاہر تندرست و توانا جسم کے مالک تھے، لیکن کچھ ہی دن پہلے کبڈی میچ کھیل کر لوٹے تو انہیں بخار ہوا۔ چونکہ بظاہر بیماری کی نوعیت اتنی شدید نہیں تھی تو کچھ دن تک تو گھر پر ہی علاج کی کوشش کی گئی، لیکن پھر انہیں ہسپتال لے جایا گیا، لیکن بدقسمتی سے وہ زندگی کی جنگ ہار گئے

شمریز کے قریبی عزیز اویس احمد بتاتے ہیں ”شمریز گوندل نے چھوٹی عمر میں ہی کبڈی کھیلنا شروع کر دی اور وہ کچھ ہی عرصے میں علاقے کے مشہور کھلاڑی بن گئے۔ یہ وقت بھی آیا کہ انہیں ضلع منڈی بہاؤالدین کا سب سے بہترین ’جھاپھی‘ مانا جانے لگا۔ وہ گاؤں کی ٹیم سے نکل کر علاقے کی ٹیموں اور ضلعی سطح پر بھی اپنے ضلع کی نمائندگی کرتے رہے، لیکن وہ اتنی جلدی دنیا سے چلے جائیں گے، یہ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا“

اویس احمد کے مطابق ”شمریز گوندل کے والد اور چچا بھی اپنے دور میں اچھے کھلاڑی تھے، جن کی وجہ سے اسے بھی کبڈی کا شوق ہوا۔ بڑے بڑے کھلاڑیوں کو میدان میں تگڑے انداز سے پکڑنے کی وجہ سے وہ جلد ہی مشہور بھی ہو گئے“

انہوں نے بتایا ”چار ماہ قبل شمریز کی شادی ہوئی تھی۔ وہ متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ زمینداری کرتے تھے، لیکن بظاہر کسی بڑی مالی پریشانی کا شکار بھی نہیں تھے“

اس سارے معاملے میں پریشانی کی بات یہ ہے کہ شمریز گوندل کبڈی کے واحد کھلاڑی نہیں ہیں، جو اس طرح اچانک فوت ہوئے بلکہ ان سے پہلے پچھلے کچھ عرصے میں کبڈی کے کئی ایک کھلاڑی اچانک موت کے منہ میں چلے گئے

ان کھلاڑیوں میں کبڈی کے بین الاقوامی کھلاڑی، پاکستان ریلوے کی کبڈی ٹیم کے سابق کپتان اور پاکستان ایئر فورس کی ٹیم کے کھلاڑی فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے مزمل بوٹا بھی شامل ہیں

چند ماہ قبل مزمل بوٹا پشاور میں کبڈی کے لیے لگائے ٹریننگ کیمپ میں موجود تھے کہ اچانک انہیں الٹیاں شروع ہوئیں۔ انہیں ہسپتال لے جایا گیا، لیکن اس دوران ان کی روح پرواز کر چکی تھی۔ ڈاکٹرز کے مطابق وہ حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے جان سے گئے

ان کے علاوہ نواز ماجو، تجمل باجوہ، عابد ہریانہ، خالد رندھاوا اور عمیر راجہ سمیت متعدد کھلاڑی ہیں، جو پچھلے کچھ عرصے میں کبڈی کھیلتے، پریکٹس کرتے ہوئے یا اچانک کسی بیماری کا شکار ہوئے اور جان کی بازی ہار گئے

آخر اس کی وجہ کیا ہے، یہ سوال جب کبڈی کے منتظم اور کوچ عرفان حیدر سے کیا گیا تو انہوں نے کہا ”پاکستان بالخصوص پنجاب میں کبڈی کے نوجوان کھلاڑیوں کی اموات کی کئی ایک وجوہات ہیں، جن میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ نوجوان کھلاڑی راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچنا چاہتے ہیں۔ وہ دیسی خوراک کے ساتھ ساتھ اضافی پروٹین کھاتے ہیں تاکہ طاقت آئے اور ہر میچ میں اس طاقت کے بل پر مخالف کو پچھاڑ سکیں۔ اس سے کچھ ہی دنوں میں علاقے میں ان کا نام تو گونجنے لگتا ہے، لیکن وہ اندر سے کھوکھلے ہوتے جاتے ہیں“

عرفان حیدر کہتے ہیں ”اس کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ کبڈی کھیلنے والے کھلاڑیوں کی اکثریت لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کو کبڈی کا شوق بھی ہوتا ہے۔ کھیل سے جو کماتے ہیں وہ اپنی خوراک پر لگاتے ہیں، لیکن ان کے گھر والے ان کو فل ٹائم کھلاڑی افورڈ نہیں کر سکتے۔ اس لیے ان کو گھر کے اندر معاشی مسائل اور خاندانی جھگڑوں کا بھی سامنا رہتا ہے۔ اس وجہ سے وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہ دباؤ اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ اچانک ہارٹ اٹیک کا شکار ہو جاتے ہیں“

اس حوالے سے شمریز گوندل کے قریبی ساتھی اور کبڈی کے کھلاڑی انیس احمد کا کہنا ہے ”اس میں کوئی شک نہیں کہ نوجوان کھلاڑی اپنی طاقت اور زور بڑھانے کے لیے بعض اوقات ادویات یا پروٹین کا استعمال کرتے ہیں، لیکن جتنا میں شمریز گوندل مرحوم کو جانتا ہوں، وہ نہ صرف اس کے مخالف تھے بلکہ اس رجحان کے خلاف آواز بھی اٹھاتے رہے ہیں“

انیس احمد کا کہنا تھا ”مقامی سطح پر ہونے والے کبڈی مقابلوں میں اضافی پروٹین کھانے کا رجحان موجود ہے، جسے روکنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے۔ جو نوجوان سمجھدار ہیں، وہ تو اس سے محفوظ ہیں لیکن باقی اپنی طاقت دکھانے کے چکر میں زہر رگوں میں انڈیل رہے ہیں“

اس سلسلے میں غذا کے متعلق بنیادی سوال یہی اٹھتا ہے کہ کب کیا کھانا چاہیے؟ ماہرِ غذائیت ڈاکٹر طیب رضا کا اس حوالے سے کہنا ہے ”کبڈی کے کوچز اور استاد دیسی غذا کے ساتھ ساتھ اب سٹیرائڈز اور پروٹین کی طرف چلے گئے ہیں، جبکہ اس کا سائنسی استعمال انہیں نہیں آتا، جس سے نوجوانوں کے اندرونی اعضا، جن میں دل جگر اور گردے شامل ہیں، وہ متاثر ہوتے ہیں“

ڈاکٹر طیب رضا کہتے ہیں ”کچھ نوجوان خالصتاً دیسی غذاؤں دودھ، مکھن، گوشت اور انڈوں پر بھی انحصار کر رہے ہیں۔ ان کو وقتی طور پر ظاہری قوت، مسل وغیرہ نظر تو آ رہے ہیں، لیکن اس کے بھی طویل المدتی نقصانات ہوتے ہیں اور ان کو اس سے بھی آگاہی نہیں ہوتی۔ اگر آپ عالمی سطح پر منظم کھیلوں کو دیکھیں تو ان کی غذا کھانے کے طریقے اور ہمارے دیسی طریقوں میں کتنا فرق ہے۔ شاید ہی آپ کو منظم کھیلوں کے نوجوان کھلاڑیوں کی اموات کی خبر ملے جبکہ ہمارے ہاں اب یہ خبریں معمول کا حصہ ہیں“

انھوں نے مزید کہا ”بے ترتیب خوراک سے قوت مدافعت پر بظاہر کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن جسم کے اندرونی اعضا کی کسی بھی خوراک کو برداشت کرنے کی قدرتی صلاحیت ہوتی ہے۔ اس لیے جب کسی بھی اتھلیٹ کو بے ہنگم خوراک دی جاتی ہے، چاہے وہ قدرتی ہی کیوں نہ ہو، اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یوں اچانک موت کی صورت میں سامنے آتا ہے“

تو کیا اس بارے میں کوچز اور نوجوان کھلاڑیوں کو آگاہی فراہم کرنے کے لیے کبڈی فیڈریشن کچھ کر رہی ہے یا نہیں؟

اس حوالے سے کبڈی فیڈریشن آف پاکستان کا موقف ہے کہ وہ گذشتہ کچھ عرصے میں نوجوان کھلاڑیوں کی اموات سے آگاہ ہے، لیکن اس کے پاس ایسا کوئی اختیار یا وسائل نہیں کہ وہ کھلاڑیوں کو سٹیرائڈز لینے سے روکنے کے لیے اقدامات کر سکے

سیکریٹری کبڈی فیڈریشن محمد سرور نے کہا ”نوجوان کھلاڑی سٹیرائیڈز اور ممنوعہ ادویات لیتے ہیں۔ قومی سطح پر تو ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں، آگاہی دی جاتی ہے، لیکچرز دیے جاتے ہیں تو کھلاڑی ان سے بچ جاتے ہیں لیکن ضلعی سطح پر تنظیمیں یہ سب نہیں کر سکتیں کیونکہ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے“

ان کا کہنا تھا ”ایک ڈوپ ٹیسٹ پر لاکھوں روپے خرچ آتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ نوجوان کھلاڑیوں کو آگاہی بھی نہیں ہوتی اور ٹیسٹ کا ڈر بھی نہیں ہوتا، اس لیے وہ زیادہ مقدار استعمال کر لیتے ہیں اور موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں“

سیکریٹری کبڈی فیڈریشن کے مطابق ”بعض اوقات قومی سطح پر بھی نوجوان کھلاڑی ممنوعہ ادویات استعمال کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔ ان کو سزائیں بھی دی گئی ہیں، جن میں ان پر کھیلنے پر پابندی، میڈلز واپس لینے سمیت دیگر سزائیں شامل ہیں۔“

اس ساری صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ کوچز اور نوجوان کھلاڑیوں کو غذا کے متعلق بنیادی معاملات اور آگاہی فراہم کی جائے، تاکہ وہ کھیلوں میں ترقی کے ساتھ ساتھ اپنی صحت اور زندگی کو بھی محفوظ بنا سکیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close