نئی دہلی – سنہ 1978ع میں کالج میں پڑھنے اور بڑے خواب دیکھنے والے ایک نوجوان، جنہوں نے اچانک اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑ دی تھی، آج ایشیا کے امیر ترین افراد میں گنے جاتے ہیں. اس داستان کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ان کی کامیابی کی داستان میں موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا نام بھی جگہ جگہ ملتا ہے
یہ کہانی ہے بھارتی بزنس مین گوتم اڈانی کی، 8 فروری کو ان کی دولت کا تخمینہ ساڑھے اٹھاسی بلین ڈالر لگایا گیا
امریکی کمپنی بلوم برگ کی جانب سے 8 فروری کو ارب پتی افراد کی فہرست میں بتایا گیا ہے کہ اس دن گوتم اڈانی نے بھارت کے امیر ترین شخص مکیش امبانی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، جن کی دولت کا تخمینہ اس دن کے حساب سے ستاسی اعشاریہ نو ارب ڈالر تھا، لیکن صرف ایک ہی دن بعد مکیش امبانی پھر آگے نکل گئے تھے
واضح رہے کہ مکیش امبانی بھارت کی ریلائنس انڈسٹریز کے چیئرمین ہیں
گھر کے راشن سے لے کر کوئلے کی کانوں تک، ریلوے، ہوائی اڈے، بندرگاہوں سے لے کر بجلی بنانے کے کارخانوں تک گوتم اڈانی کے درجنوں کاروبار ہیں۔ ان کی اس کاروباری کامیابی کا راز کیا ہے اور اڈانی اور مودی کے درمیان کیا تعلق ہے؟
میڈیا میں گوتم اڈانی کی زندگی پر شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق انہوں نے سنہ 1978ع میں کالج کی پڑھائی ادھوری چھوڑ دی تھی۔ اس وقت انہوں نے پڑھائی چھوڑ کر ممبئی کے ہیرا بازار کا رخ کیا تھا
گوتم اڈانی کی قسمت کی کہانی نے اس وقت پلٹا کھایا جب ان کے بھائی نے انہیں بھارتی شہر احمد آباد بلایا۔ ان کے بھائی نے اس وقت ایک پلاسٹک ریپنگ کمپنی خریدی تھی، جو چل نہیں پا رہی تھی۔ کمپنی کو جو خام مال درکار تھا، وہ ناکافی تھا
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گوتم اڈانی نے کانڈلا پورٹ پر پلاسٹک گرینوئلز کی درآمد شروع کر دی۔ سنہ 1988ع میں اڈانی انٹرپرائز لمیٹڈ بن گئی، جو دھاتوں، زرعی اور ٹیکسٹائل مصنوعات کی ٹریڈنگ کرتی تھی۔ چند ہی سال میں اس کاروبار میں اڈانی ایک بڑا نام بن گیا
1994ع میں اڈانی کمپنی کا اسٹاک نیشنل سٹاک ایکسچینج اور بمبئی اسٹاک ایکسچینج پر درج ہوا تو اس وقت اس کے ایک شیئر کی قیمت ڈیڑھ سو روپے تھی، لیکن یہ محض ایک شروعات تھی
سنہ 1995ع میں اڈانی گروپ نے ریاست گجرات کے ساحل پر مندرا پورٹ پر کام شروع کیا۔ تقریباً بیس ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلی یہ پورٹ آج بھارت کی سب سے بڑی نجی بندرگاہ ہے، جو اڈانی گروپ کی ملکیت ہے
اس پورٹ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت میں سامان کا ایک چوتھائی حصہ اسی بندرگاہ سے گزرتا ہے۔ آج بھارت کی سات ریاستوں (گجرات، مہاراشٹرا، گوا، کیرالا، آندھرا پردیش، تامل ناڈو اور اوڈیسہ) میں تیرہ بندرگاہوں پر اڈانی گروپ موجود ہے
گجرات کے مندرا پورٹ پر کوئلے سے چلنے والا ایک بہت بڑا پاور اسٹیشن اور ایک خصوصی اقتصادی زون بھی قائم ہے۔ اس کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ بندرگاہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ کوئلہ ان لوڈ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے
یہ بندرگاہ ایک خصوصی اقتصادی زون کے تحت بنائی گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کی پروموٹر کمپنی کو کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑے گا
اس خصوصی اقتصادی زون میں پاور پلانٹس، نجی ریلوے لائن اور نجی ہوائی اڈہ بھی موجود ہے
جنوری سنہ 1999ع میں اڈانی گروپ نے ول ایگری بزنس گروپ ولمار کے ساتھ مل کر خوردنی تیل کے کاروبار میں بھی قدم رکھ دیا
آج اڈانی-ولمار کمپنی ملک میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والا فارچون خوردنی تیل تیار کرتی ہے۔ فارچون آئل کے علاوہ، اڈانی گروپ اشیائے خوردونوش کے شعبے میں درجنوں مصنوعات تیار کرتا ہے جیسے آٹا، چاول، دالیں، چینی وغيره
سنہ 2005ع میں اڈانی گروپ نے فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کے ساتھ مل کر ملک میں بڑے بڑے سائلوز بنانا شروع کر دیے، جن میں اناج کو بڑے پیمانے پر ذخیرہ کرنے کی صلاحیت تھی
ابتدائی طور پر بیس سال کے معاہدے کے تحت اڈانی گروپ نے ملک کی مختلف ریاستوں میں ایسے ذخیرے تیار کیے، جن کے ساتھ ہی ساتھ بھارت بھر میں ان یونٹس سے ڈسٹری بیوشن سینٹرز تک غذائی اجناس کی نقل و حرکت میں سہولت فراہم کرنے کے لیے نجی ریلوے لائنیں بھی تعمیر کی گئیں
آج کی تاریخ میں اڈانی ایگری لاجسٹکس لمیٹڈ نا صرف فوڈ کارپوریشن آف انڈیا بلکہ مدھیہ پردیش ریاست کا اناج بھی اپنے ڈپوز میں رکھتا ہے۔ اس میں فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کا 5.75 لاکھ میٹرک ٹن اور حکومت مدھیہ پردیش کا تین لاکھ میٹرک ٹن اناج شامل ہے
گوتم اڈانی کی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ قربت سنہ 2002ع سے ظاہر ہوئی، جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے
جب گجرات میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تو کاروباری ادارے کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹریز (CII) سے وابستہ صنعت کاروں نے حالات کو کنٹرول کرنے میں ناکامی پر مودی پر تنقید کی
اس وقت نریندر مودی گجرات کو سرمایہ کاروں کی پسندیدہ منزل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے
ایسے میں گوتم اڈانی ان کی مدد کو آئے، جنہوں نے گجرات کے دیگر صنعت کاروں کو مودی کے حق میں کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے سی آئی آئی کے متوازی ایک اور ادارہ قائم کرنے کا بھی انتباہ دیا تھا
سیاستدان مودی اور بزنس مین اڈانی کے درمیان تعلق اس وقت مزید ابھر کر سامنے آیا، جب مارچ 2013 میں نریندر مودی کو امریکا میں وارٹن اسکول آف بزنس کے ایک پروگرام میں کلیدی مقرر کے طور پر مدعو کیا گیا، لیکن اساتذہ اور طلبا کے احتجاج کے بعد یہ دعوت نامہ منسوخ کر دیا گیا
اس کے فوری بعد معلوم ہوا کہ اڈانی گروپ اس ایونٹ کا اہم اسپانسر تھا، جس نے مودی کو دیے جانے والے دعوت نامے کی منسوخی کے بعد اس تقریب کی مالی معاونت سے ہاتھ کھینچ لیا
فارچون انڈیا میگزین کے مطابق سال 2010ع میں، اڈانی نے آسٹریلیا کی لنک انرجی سے 12,147 کروڑ میں کوئلے کی ایک کان خریدی تھی۔ گیلی بیسٹ کوئین آئی لینڈ کی اس کان میں 7.8 بلین ٹن کے معدنی ذخائر ہیں، جو ہر سال 60 ملین ٹن کوئلہ پیدا کر سکتے ہیں
انڈونیشیا میں تیل، گیس اور کوئلہ جیسے قدرتی وسائل وافر مقدار میں موجود ہیں، لیکن انفراسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے ان وسائل سے مناسب فائدہ اٹھانا ممکن نہیں تھا
2010ع میں اڈانی گروپ نے انڈونیشیا کے جنوبی سماٹرا سے کوئلے کی نقل و حمل کے لیے $1.5 بلین کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ اس کے لیے وہاں کی صوبائی حکومت کے ساتھ جنوبی سماٹرا میں تعمیر کیے جانے والے ریل منصوبے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے
اس وقت انڈونیشیا کے سرمایہ کاری بورڈ نے کہا کہ اڈانی گروپ پچاس ملین ٹن کی صلاحیت کے ساتھ کول ہینڈلنگ پورٹ بنائے گا اور جنوبی سماٹرا جزیرے کی کوئلے کی کانوں سے کوئلہ نکالنے کے لیے ڈھائی سو کلومیٹر لمبی ریل لائن بھی بچھائے گا
اڈانی ایمپائر کا ٹرن اوور سنہ 2002ع میں 765 ملین ڈالر تھا، جو سنہ 2014 میں بڑھ کر دس بلین ڈالر ہو گیا
سال 2015ع کے بعد اڈانی گروپ نے فوج کو دفاعی آلات کی فراہمی کا کام بھی شروع کیا۔ کچھ عرصے بعد قدرتی گیس کے شعبے میں اڈانی کے کاروبار کو وسعت ملی اور سنہ2017ع میں سولر پی وی پینل بھی بنانا شروع کردیے
اڈانی گروپ نے سنہ 2019ع میں ہوائی اڈوں کے شعبے میں قدم رکھا۔ آج اڈانی گروپ بھارت کے شہر احمد آباد، لکھنؤ، منگلورو، جے پور، گوہاٹی اور ترواننت پورم کے چھ ہوائی اڈوں کی جدید کاری اور آپریشن کا ذمہ دار ہے۔ اڈانی گروپ پچاس سال تک ان تمام چھ ہوائی اڈوں کو چلائے گا
یہی نہیں بلکہ گوتم اڈانی کی زیر قیادت اڈانی گروپ ممبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ لمیٹڈ میں 74 فیصد حصص رکھتا ہے، جو دلی کے بعد بھارت کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ ہے
اڈانی سے کئی تنازعے بھی جڑے ہوئے ہیں، بھارت کی گجرات حکومت پر ملک کی سب سے بڑی بندرگاہ مندرا کے لیے اڈانی گروپ کو انتہائی سستے داموں زمین دینے کا الزام لگا
فروری 2010 میں اڈانی کے بھائی راجیش اڈانی کو مبینہ طور پر کسٹم ڈیوٹی سے بچنے کے الزام میں گرفتار بھی کیا گیا تھا، وہ اڈانی گروپ کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں
سنہ 2014 میں آسٹریلیا کے فیئر فیکس میڈیا نے ایک تحقیقاتی رپورٹ کی جس میں گجرات کے ایک ہاؤسنگ پروجیکٹ پر کام کرنے والے چھ ہزار کارکنوں کی مبینہ حالت زار پر رپورٹ شائع کی گئی اور اڈانی گروپ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ ان کارکنوں کو اڈانی گروپ کے لیے کام کرنے والے ٹھیکیداروں نے کام پر رکھا تھا، تاہم اڈانی گروپ نے کہا کہ اس نے کوئی قانون نہیں توڑا
اڈانی گروپ کو آسٹریلیا میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ کارمائیکل کول مائن ریاست کوئنز لینڈ، شمالی آسٹریلیا میں واقع ہے، جہاں اڈانی کی کمپنی کو کوئلہ نکالنے کی اجازت ملی لیکن اس سلسلے میں اڈانی گروپ کو مقامی طور پر کافی مخالفت کا سامنا ہے
بہرحال ان دنوں بھارت کے مختلف حلقوں میں کئی حوالوں سے مودی اور اڈانی کے تعلقات بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں.