تاریخ نویسی کا اہم موضوع ماضی کی دریافت اور اس کی تشکیل نو ہے۔ ماضی کا مقابلہ ہم حال سے کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ حال بدلتا رہتا ہے اور ماضی کا حصہ بن جاتا ہے۔
لہٰذا ماضی کا سائز ہمیشہ بڑھتا رہتا ہے اور اس کا تجزیہ کرنے کے لیے مورخ کو ماضی کے ادوار کے ماخذوں کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے، جن میں دستاویزات، سکے، کتب اور ماضی کے آثار شامل ہوتے ہیں۔ مورخ کے لیے یہ بھی لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق ماضی کی تشکیل کرے۔ اگر معاشرہ پسماندہ ہوتا ہے تو اسے شاندار ماضی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اگر معاشرہ ترقی کی راہ پر ہو تو اس کے لیے ماضی کی زیادہ اہمیت نہیں ہوتی ہے
اس لیے کبھی کبھی ماضی قوموں کے لیے بوجھ بن جاتا ہے اور اس کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بن کر ترقی کے راستے سے روکتا ہے، جیسا کہ مسلمان معاشرے میں ہے، جو شاندار ماضی کے سحر میں مبتلا ہیں اور مستقبل کی راہیں تلاش کرنے میں ناکام ہیں
ماضی کو ریاست کے مفاد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ جرمن تاریخ دان لیوپولڈ فون رانکے نے کہا ہے کہ مورخ کو واقعات کو اسی طرح سے پیش کرنا چاہئے جیسا کہ وہ ہوئے تھے۔ رانکے اس نقطہ نظر سے ماضی پر کوئی تنقید نہیں چاہتا ہے کیونکہ یہ تنقید ریاست کے وجود پر ہو گی۔ اس کے علاوہ وہ ماضی کی تشکیل کے لیے ریاستی ماخذ کو استعمال کرنا چاہتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ معاشرے کے دوسرے طبقوں کو تاریخ سے محروم کر دیا جائے
نیدرلینڈز کے مشہور تاریخ دان فرینک اینکر سمتھ نے ماضی کی تشکیل کے مختلف پہلوئوں پر نظر ڈالی ہے۔ ان کے مطابق ماضی کے بارے میں ایک تو قوم کی اجتماعی یادداشت ہوتی ہے، جو نسل در نسل اور سینہ بہ سینہ چلی آتی ہے۔ دوسرے مورخ کا اپنا تجربہ ہوتا ہے۔ یہ دو مل کر ماضی کو دریافت کرتے ہیں۔ ماضی خود سے خاموش رہتا ہے اور مورخ اس کی نمائندگی کرتا ہے
اسی طرح جیسے پارلیمنٹ میں منتخب نمائندے عوام کی نمائندگی کرتے ہیں، مورخ کے لیے سب سے اہم مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر عہد کے معاشرے کی ذہنی حالت کا تجزیہ کر سکے۔ اس مقصد کے لیے مختلف تجربات کیے گئے ہیں۔ مثلاً جرمنی میں عہد وسطیٰ کی ایک آبادی کو اس کی شکل میں دوبارہ سے تعمیر کیا گیا۔ جہاں ایک خاص مدت تک رضاکار عہد وسطیٰ کے ماحول میں رہے
ان کے گھر دکانیں، شہر کی گلیاں، لباس، برتن، اوزار اور ہتھیار سب اسی عہد کے تھے۔ یہاں تک کہ یہ کوشش بھی کی گئی کہ وہ اسی عہد کی زبان بھی بولیں۔ مدت پوری ہونے کے بعد ان رضاکاروں سے انٹرویو کر کے اس بات کی کوشش کی گئی کہ اس عہد کے لوگوں کی عادات و اطوار، باہمی رشتوں اور کلچر کا مطالعہ کیا جائے تاکہ ماضی اور حال کے درمیان جو فرق ہے، واضح ہو سکے
ماضی کے سلسلے میں ہم دو رحجانات کو دیکھتے ہیں۔ ایک رحجان یہ ہے کہ ماضی کو واپس لایا جائے۔ اس کا اظہار ہمیں قدیم عہد کی عمارتوں میں نظر آتا ہے۔ پرانے مخطوطات کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ میوزیم میں ماضی کی اشیاء اور یادگاروں کو بطور نمائش رکھا جاتا ہے تاکہ لوگ ان کو دیکھ کر ماضی سے واقف ہوں۔ دوسرا رحجان یہ ہے کہ مورخ ماضی کے مقابلے میں اپنے تاثرات قلم بند کر دیتا ہے اور یہ قارئین پر چھوڑ دیتا ہے کہ وہ اپنے تخیل سے ماضی کو تعمیر کریں
ماضی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ معاشرے میں دو قسم کے ناسٹیلجیا کو پیدا کرتا ہے۔ ایک پوری قوم کا ناسٹیجلیا، جو بار بار ماضی میں پناہ لیتا ہے اور ماضی کی یادوں سے خوشی اور مسرت حاصل کرتا ہے۔ اس ناسٹیلجیا سے ماضی کی مدت کا تعین نہیں ہوتا۔ یہ طویل بھی ہوتا ہے اور کم مدت کا بھی۔ انفرادی طور پر مورخ اپنے ماضی کے بارے میں سوچتا ہے، جو اس کے بچپن، جوانی اور بڑھاپے پر مشتمل ہے۔ یہ وقت واپس تو نہیں آ سکتا مگر اس کی یادیں اس کو زندہ رکھتی ہیں اور یہ یادیں اس کی زندگی کا اہم حصہ بن جاتی ہیں۔ بعض اوقات وہ ان کے سہارے اپنی زندگی گزارتا ہے
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ماضی کو صرف حکمران طبقوں تک محدود رکھا جائے؟ ان کے ماضی کو زندہ رکھا جائے، اس پر کتابیں لکھی جائیں ان کی یادگاروں کے ذریعے ان کے کلچر کو یاد کیا جائے تاکہ معاشرے پر ان کے اثرورسوخ اور اقتدار کا غلبہ رہے
لیکن کیا اس ماضی کے مقابلے میں ان عام لوگوں کے ماضی کو فراموش کر دیا جائے، جن میں کسان، مزدور اور کاریگر وغیرہ شامل ہیں۔ جب ان کا کوئی ماضی نہیں ہو گا تو ان میں تاریخی شعور بھی نہیں ہو گا۔ اس کے بارے میں جرمن فلسفی نطشے نے اپنی کتاب ”دا یوز اینڈ ابیوز آف دا ہسٹری‘‘ میں لکھا ہے کہ عوام کی مثال جانوروں کے گلے کے مترادف ہوتی ہے، جنہیں نہ تو ماضی کا احساس ہوتا ہے اور نہ حال کا اور نہ ہی یہ وقت کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے جانور آرام سے اپنا چارہ کھاتے ہیں۔ ادھر سے ادھر آتے جاتے ہیں اور بے خبری کے عالم میں آرام و اطمینان سے اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ یہی حال عوام کا ہے جو ماضی اور حال اور وقت سے بے خبر ہو کر تاریخ اور ماضی سے بے گانہ ہو کر اپنی زندگی گزار دیتے ہیں
نطشے کے اس نقطہ نظر کی تردید یورپ کے بدلتے سیاسی حالات نے کی۔ فرانس کے مورخ ژول میشلے نے کہا کہ فرانس میں انقلاب کے بعد نیا انسان پیدا ہوا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اب تک معاشرے میں، جہاں بادشاہت تھی، امراء کا طبقہ تھا اور چرچ کی بالادستی تھی۔ ان پابندیوں سے آزاد ہو کر انسان نے اپنے آپ کو پہچانا۔ اسے اپنی ذات کا علم ہوا، اپنی طاقت کا احساس ہوا کہ وہ معاشرے کو بدل سکتا ہے
صنعتی انقلاب نے معاشرے کی ساخت کو مزید تبدیل کیا اور عام انسان میں نہ صرف تاریخ کا شعور پیدا ہوا بلکہ یہ احساس بھی پیدا ہوا کہ طبقاتی معاشرے میں اپنے حقوق کے لیے لڑنا ہے۔ جب عوامی تاریخ میں عوام کو ماضی کی تشکیل میں حصہ دار بنایا تو اب اس پر سے حکمران طبقوں کی اجارہ داری ختم ہو گئی۔ عوام نے اپنے ماضی میں ہونے والے استحصال، جبر اور ظلم کا جائزہ لیا تو ان میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ حکمرانوں کی بالادستی ختم کر کے معاشرے میں اپنا وقار قائم کرے
تاریخ کی سچائی کو واضح کرنے کے لیے نہ صرف تحریری تاریخ کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ تاریخی ناول بھی اس میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ تاریخی ناولوں اور کتابوں میں فرق یہ ہے کہ مورخ اپنی بات کے لیے ثبوت یا شہادت دیتا ہے جبکہ ناول نگار آزاد ہوتا ہے کہ وہ اپنے کردار خود تشکیل کرے اور واقعات کو اپنے نقطہ نظر سے پیش کرے
ناول نگاروں کے ساتھ ساتھ آرٹسٹ بھی پینٹنگز کے ذریعے ماضی کی تصویر کو سامنے لاتے ہیں۔ فوک کہانیاں اور گیت بھی ماضی کو بنانے میں حصہ لیتی ہیں۔ اس لیے ماضی کی تشکیل کو وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ دور میں نظریاتی ریاستیں ماضی کو مسخ کر کے اسے اپنے نقطہ نظر سے پیش کرتی ہیں، جو نظریات ان کے مخالف ہوتے ہیں، انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور لوگوں کے سامنے اس ماضی کو پیش کیا جاتا ہے، جو ان کے اقتدار کو مضبوط کرے۔ لیکن یہ بھولے ہوئے واقعات بھلائے نہیں جاتے ہیں اور آنے والے مورخین ان واقعات کو اندھیرے سے نکال کر تاریخ کو مکمل کرتے ہیں۔ اس طرح ماضی کی تشکیل کا سلسلہ جاری رہتا ہے.
حوالہ: ڈی ڈبلیو اردو