کراچی – یہ گزشتہ مہینے کی بات ہے، جب ایک پرائیویٹ سیٹلائٹ ٹریکنگ کمپنی نے ایک چینی خلائی جہاز کو دیکھا جس نے بظاہر ایک ناکارہ سیٹلائٹ کو پکڑ کر اسے ’گریویارڈ‘ میں جا پھینکا
تفصیلات کے مطابق زمینی مدار میں گردش کرتے مصنوعی سیاروں پر نظر رکھنے والی ایک پرائیویٹ کمپنی نے گزشتہ مہینے ایک چینی خلائی جہاز کو دیکھا تھا، جس نے بظاہر ایک ناکارہ سیٹلائٹ کو پکڑ کر اُسے کئی سو کلو میٹر کی دوری پر واقع مدار کے ایسے علاقے میں جا پھینکا، جسے ”مصنوعی سیاروں کا قبرستان“ کہا جاتا ہے
جنوری کے اواخر میں ایک چینی سیٹلائٹ کو ایک مصنوعی سیارے کو پکڑتے ہوئے پایا گیا، جو کافی عرصے سے ناکارہ ہو چکا تھا اور زمین کے مدار میں گردش کر رہا تھا
اس کے چند روز بعد اس ناکارہ سیٹلائٹ کو مدار سے تین کلومیٹر دور ایک ایسے مدار میں جا کر چھوڑ دیا گیا، جسے ‘گریویارڈ‘ یا قبرستان کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ گریویارڈ مدار میں موجود چیزوں کا کسی خلائی جہاز یا سیٹلائٹ سے ٹکرانے کا امکان بہت کم ہوتا ہے
خلا میں پیش آنے والے ان نادر واقعات کے بارے میں ڈاکٹر برائن فلیوویلنگ نے ایک ویبینار میں بتایا، جس کا اہتمام "سنٹر آف اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز اینڈ سکیور ورلڈ فاؤنڈیشن” کی طرف سے گزشتہ ماہ کیا گیا تھا
فلیوویلنگ ”ایکسو اینالیٹک سولوشنز“ نامی پرائیویٹ امریکی کمپنی سے وابستہ ہے، جو دنیا بھر میں نصب ٹیلی اسکوپس کے ایک نیٹ ورک کے ذریعے زمینی مدار میں گردش کرتے مصنوعی سیاروں یا سٹیلائٹس کی پوزیشن پر نظر رکھتی ہے
ڈاکٹر برائن فلیوویلنگ کی بتائی گئی تفصیلات کے مطابق 22 جنوری کو چینی SJ-21 سیٹلائٹ کو دیکھا گیا کہ وہ اپنی طے شدہ جگہ سے ہٹ کر چین کے ہی ایک طویل عرصے سے ناکارہ سیٹلائٹ کمپاس جی ٹو Compass-G2 کی طرف بڑھ رہا تھا۔ چند دن کے بعد ایس جی اکیس کو دیکھا گیا کہ وہ جی ٹو کے ساتھ لگ کر اپنی پوزیشن پھر بدل رہا تھا
چینی حکام کی طرف سے ابھی تک اس تناظر میں کچھ نہیں کہا گیا کہ آیا خلا میں کسی ناکارہ سیٹلائٹ کو یوں پکڑا گیا یا اسپیس ٹیگ کا تجربہ کیا گیا ہے؟
مصنوعی سیارے کو پکڑنے کے چند دن کے اندر ان جڑے ہوئے سیٹلائٹس کو اپنے راستے سے ایک ساتھ ہٹتے ہوئے دیکھا گیا
ایکسو اینالیٹک کی طرف سے دکھائی گئی وڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ 26 جنوری کو یہ دونوں سیٹلائٹ ایک دوسرے سے الگ ہو گئے اور کمپاس جی ٹو کو ایک ایسے مدار میں دھکیل دیا گیا، جہاں موجود سیٹلائٹس کا یا خلائی کوڑے کا خلائی جہازوں سے ٹکرانے کا بہت کم امکان ہوتا ہے اور اسی لیے مدار کے اس علاقے کو سیٹلائٹس کا قبرستان کہا جاتا ہے
کمپاس جی ٹو چین کے بائیدو ٹو نیویگیشن سیٹلائٹ سسٹم کا حصہ تھا اور 2009ء میں خلا میں بھیجے جانے کے فوری بعد ہی اس نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ یعنی 10 برس سے بھی زائد عرصے تک یہ بھی خلائی کوڑے میں شامل کئی ملین اجزاء کے ساتھ زمینی مدار میں چکر لگا رہا تھا
واضح رہے کہ ایس جے ٹونٹی ون جس نے کمپاس جی ٹو کو خلائی سیاروں کے قبرستان پہنچایا، اکتوبر 2021ع میں لانچ کیا گیا تھا اور اب یہ واپس اپنے جیو اسٹیشنری مدار (GEO) میں واپس پہنچ چکا ہے۔ جیو اس صورت میں عمل میں آتا ہے، جب زمین کے گرد گردش کرتے سیارے کی رفتار اور زمین کی اپنے ایکسل کے گرد گردش کی رفتار ایک جیسی ہو جائے۔ ایسی صورت میں مدار میں گردش کرتا ہوا سیٹلائٹ زمین کے اوپر ایک ہی مقام پر معلق محسوس ہوتا ہے۔ اس طرح کے مدار میں سیٹلائٹ کی موجودگی ٹیلی کمیونیکشن اور دیگر سروسز کے لیے انتہائی زیادہ اہمیت رکھتی ہے
اس واقعے کے بعد خلائی سائنس سے دلچسپی رکھنے والے مختلف حلقوں میں یہ بحث چل نکلی ہے کہ چین کا اس طرح ناکارہ سیٹلائٹ سے چھٹکارا حاصل کرنا، ایک خدمت ہے یا خطرہ؟
اگر دیکھا جائے تو ایک ناکارہ مصنوعی سیارے سے چھٹکارا حاصل کرنا کوئی غلط بات نہیں کیونکہ کئی ممالک ایسی ٹیکنالوجی تیار کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، جو ہمارے زمینی مدار میں کئی ملین کی تعداد میں گردش کرتے خلائی کوڑے کو ٹھکانے لگا سکے
تاہم چین کی طرف سے اس پیشرفت پر خود چین کے بعض حکام کی طرف سے تحفظات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے
یاد رہے کہ یو ایس اسپیس کمانڈ کے سربراہ جیمز ڈکنسن نے اپریل 2021ع میں کہا تھا کہ چین کی طرف سے ایس جے 21 جیسی ٹیکنالوجی ‘”مستقبل میں دیگر سیٹلائٹس کو بھی ان کے مدار سے ہٹانے کے لیے استعمال ہو سکتی ہے‘‘
سکیور ورلڈ فاؤنڈیشن نے اپنی 2021ء کی کاؤنٹر اسپیس رپورٹ میں کہا تھا اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ چین اور روس ایسی ٹیکنالوجی کی تیاری پر کام کر رہے ہیں جو ”کاؤنٹر اسپیس کیپیبلٹی“ کی حامل ہو، یعنی جو خلائی نظاموں کو تباہ کر سکے
تاہم امریکی ایئرفورس کے ایک تھنک ٹینک ”چائنیز ایئرو اسپیس اسٹڈیز انسٹیٹیوٹ“ کی طرف سے 2021ع میں جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایس جے 21 کا استعمال بہت ممکنہ طور پر خلائی کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے طریقہ کار کو جانچنے تک ہی محدود رہے گا.