انگریزی کا وہ امتحان، جس نے ہزاروں زندگیاں تباہ کر دیں..

ویب ڈیسک

لندن – حال ہی میں بی بی سی میں ایک تہلکہ خیز رپورٹ شائع ہوئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ادارے کی ایک تحقیق نے ان شواہد کے بارے میں تازہ شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے، جن کا استعمال کرتے ہوئے ہزاروں لوگوں کو انگریزی زبان کے امتحان میں مبینہ طور پر نقل کرنے کے الزام میں برطانیہ سے ملک بدر کیا گیا تھا

رپورٹ کے مطابق بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ کو ملنے والی وِسل بلور کی گواہی اور سرکاری دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ بین الاقوامی ٹیسٹنگ آرگنائزیشن ای ٹی ایس کے طرزِ عمل اور اس کے ڈیٹا میں خامیوں کے متعلق سنگین خدشات کے باوجود، ہوم آفس (برطانیہ کی وزارتِ داخلہ) ای ٹی ایس کے دعوؤں کی بنیاد پر لوگوں کو ملک بدر کر رہی ہے

واضح رہے کہ ای ٹی ایس کے امتحان میں نقل کرنے کے الزامات کے نتیجے میں ڈھائی ہزار سے زائد لوگوں کو ملک بدر کیا گیا اور سات ہزار دو سو کو برطانیہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور جو لوگ ابھی برطانیہ میں مقیم ہیں، وہ برسوں کی مشکلات برداشت کرنے کے بعد آج بھی اپنا نام کلیئر کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں

اس کریک کا آغاز 2014ع میں بی بی سی کے پروگرام ’پینوراما‘ میں اس انکشاف کے بعد ہوا کہ لندن کے دو ٹیسٹ سینٹروں میں جعلی امتحان ہو رہے ہیں، تاکہ ویزہ حاصل کرنے کے خواہش مند افراد جعلی طریقے سے انگریزی کا امتحان پاس کر سکیں

اس انکشاف کے بعد حکومت نے ای ٹی ایس سے سو سے زیادہ ایسے ٹیسٹ سینٹروں کا جائزہ لینے کے لیے کہا، جہاں انگریزی زبان کے ٹیسٹ لیے جاتے ہیں

ای ٹی ایس نے حکومت کو ایسے مراکز کی ایک بڑی فہرست پیش کی، جہاں نقل کروائی جاتی ہے لیکن اس ثبوت کے باوجود کہ اس فہرست میں کچھ بے قصور لوگ بھی شامل ہیں، وزارتِ داخلہ ای ٹی ایس کے شواہد پر یقین کیے بیٹھی ہے

لیبر جماعت کے ایم پی سٹیفن ٹمز کا کہنا ہے کہ ’ای ٹی ایس کی گواہی قابلِ بھروسہ نہیں تھی لیکن پھر بھی ہوم آفس ان پر مکمل انحصار کرتا رہا۔‘

نیوز نائٹ نے کچھ اور شواہد کو بھی بے نقاب کیا ہے، جن میں سے زیادہ تر کے متعلق محکمے کو کئی برس سے معلوم تھا۔ اس سے مزید کئی سوالات جنم لیتے ہیں کہ جو کچھ ہوا اس کے بارے میں تحقیقات کے لیے ای ٹی ایس پر کیوں بھروسہ کیا گیا

وہی صحافی، جنہوں نے اصل فراڈ کو بے نقاب کیا، اسی کے ذریعے بی بی سی نے نئی تحقیق میں انکشاف کیا:

ای ٹی ایس کے سابقہ اور موجودہ عملے نے وزارتِ داخلہ کو بتایا تھا کہ پینوراما میں انکشاف سے دو سال پہلے ہی انھیں نقل کرنے کے ٹھوس شواہد مل چکے تھے۔
انھوں نے ہوم آفس کے تفتیشی افسران کو بتایا کہ کچھ ایسے جعلی امتحانی مراکز کو بند کرنے کی ان کی کوششوں کو مینیجرز نے روک دیا تھا کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ ٹیسٹ فیس سے آنے والی آمدنی کم ہو جائے گی

ان گواہیوں سے ہوم آفس کو معلوم ہوا کہ اس دھوکہ دہی کے معلق انھیں اندھیرے میں رکھا گیا تھا

تفتیش کاروں کو عینی شاہدین کے بیانات بھی دکھائے گئے جن کے مطابق کچھ ٹیسٹ جعلی تھے جنھیں ’ریموٹ ٹیسٹنگ ‘ کہا جاتا تھا۔ ان کے بارے میں وکلا کا خیال ہے کہ یہ ای ٹی ایس کے شواہد کو کمزور ظاہر کرتے ہیں

پبلِک اکاونٹ کمیٹی کے سربراہ اور لیبر جماعت کے ایم پی میگ ہلر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آپ کی تحقیق سے جو کچھ سامنے آیا ہے، اس کے بعد وزارتِ داخلہ ای ٹی ایس کے ڈیٹا پر بھروسہ نہیں کر سکتی۔‘

وحید الرحمٰن ، جنہوں نے سات سال کی جدوجہد کے بعد اپنے خلاف ہوم آفس کے الزامات کو غلط ثابت کیا، کہتے ہیں کہ ’انہیں مجھ سمیت دیگر بے قصور طلبا سے معافی نہ مانگنے پر شرم آنی چاہیے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’نقل کے الزام کا شکار بہت سے افراد کو اس الزام کو چیلینج کرنے کا اختیار دیے بغیر ملک بدر کر دیا گیا، حتیٰ کہ انہیں ان کے خلاف ثبوت تک دیکھنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ہوم آفس نے اپیل کا حق دیے بغیر ان کے ویزے منسوخ کر دیے۔‘

وحید الرحمٰن کا کہنا ہے کہ انہیں اپنا سر شرم سے جھکا لینا چاہیے کیونکہ اس کے لیے انہوں نے نہ صرف مجھ سے بلکہ میرے جیسے کئی بے قصور طالبِ علموں سے معافی تک نہیں مانگی

ڈیم میگ کا کہنا ہے کہ حکومت کے اقدامات ’بڑی ناانصافی‘ کا باعث بنے ہیں اور اب حکومت کو چاہیے کہ مبینہ طور پر نقل کرنے والوں (جن میں سے زیادہ تر بین الاقوامی طلبا کے طور پر برطانیہ آئے تھے) کے خلاف بقایا قانونی کارروائی کو ختم کر دے

انہوں نے مشورہ دیا کہ اس کے بجائے انہیں ویزوں کے لیے انگریزی کے نئے ٹیسٹ میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے

نومی راجہ بائیس سال کے تھے، جب جون 2014 میں امیگریشن افسران نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’انہوں نے مجھ سے میری شناخت پوچھی۔ اس آدمی کے پاس ریڈیو تھا اور وہ بولا: ’ٹارگٹ مل گیا ہے۔‘

جب وہ گیٹوک ایئرپورٹ کے حراستی مرکز میں پہنچے، تو اس وقت ایک افسر نے بتایا کہ انہیں کیوں گرفتار کیا گیا

’وہ افسر بولی ’تم نے ٹوئک دیا ہے، جس میں تم نے نقل کی اور ہم تمہیں پاکستان واپس بھیج رہے ہیں۔‘

واضح رہے کہ ٹوئک (بول چال کے لیے انگریزی کا ٹیسٹ) ای ٹی ایس کی طرف سے مقرر کردہ امتحان کا نام ہے

راجہ اپنی ملک بدری روکنے میں کامیاب ہو گئے اور ایک سو پچیس دن کے بعد رہا کر دیے گئے، لیکن اپنی بے گناہی کا احتجاج کرنے والے دوسرے لوگوں کی طرح، ان پر بھی کام کرنے، تعلیم حاصل کرنے یا این ایچ ایس (برطانیہ میں صحت کا نظام) تک رسائی پر پابندی لگا دی گئی، جس کی وجہ سے کچھ لوگوں کے رشتے داروں نے ان سے تعلق ختم کر دیا

انہیں یقین نہیں تھا کہ حکومتِ برطانیہ بغیر کسی ٹھوس وجہ کے ان پر اس طرح کے شرمناک الزامات لگائے گی

چیرٹی مائیگرنٹ وائس کی ڈائریکٹر نازک رمضان کا کہنا تھا کہ متاثرین کے لیے برطانیہ اور خود اپنے ملک میں خود کو ناپسندیدہ محسوس کرنا، ایک خوفناک احساس تھا۔ نازک رمضان کہتی ہیں کہ ایسے لوگوں سنگین ذہنی مسائل کا شکار ہو گئے اور کچھ لوگ خود کشی سے بچنے کے لیے ادویات لے رہے تھے

بی بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ، 2014 میں بی بی سی پینوراما کو ایک اطلاع ملی کہ لندن کے دو ٹیسٹ مراکز میں ایسے لوگ، جنھیں انگریزی کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں، انھیں انگریزی کے ٹوئک ٹیسٹ میں پاس ہونے کی ضمانت دی جاتی ہے

ایک انڈر کور ریسرچر نے مشرقی لندن کے ایک ٹیسٹ سینٹر میں خفیہ ریکارڈنگ کی جہاں سینٹر کے عملے نے ہر امیدوار کو پیسے لے کر نقل کروائی یا ان کی جگہ کسی اور نے ٹیسٹ دیے۔ اس کے بعد وہ پرچے مارکنگ کے لیے امریکا میں ای ٹی ایس پر اپ لوڈ کر دیے گئے

پینوراما کی اس رپورٹ نے اس وقت کی وزیرِ داخلہ ٹریسا مے کو چونکا دیا تھا اور ان کا کہنا تھا ’میں اس بارے میں کچھ کرنا چاہتی ہوں۔‘ ان کے محکمے نے بین الاقوامی طالبِ علموں کو سپانسر کرنے والے سینکڑوں کالجوں کے لائسنس منسوح کر دیے تھے کیونکہ ان پر ایمیگریشن فراڈ کرنے کا شبہ تھا۔ اس کے بعد ٹوئک کے لیے ہونے والے ٹیسٹ کی تحقیقات شروع کر دی گئیں

اب آواز کی شناخت کرنے والے سافٹ ویئر کے ذریعے ای ٹی ایس پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے، جس کے تحت اگر کوئی ایک آواز متعدد ٹیسٹ ریکارڈنگز میں سنائی دیتی ہے تو اس کا مطلب ہو گا کے کسی ایک پراکسی نے دوسرے لوگوں کی جگہ ٹیسٹ دیا ہے

اگر کوئی ٹیسٹ شک کے دائرے میں آتا ہے اور ای ٹی ایس کے دو افسران اس پر اتفاق کرتے ہیں تو اسے ’ناقابلِ قبول‘ کی درجہ بندی میں رکھا جائے گا، جس کا مطلب ہے کہ امیدوار نے یقینی طور پر نقل کی ہے

یہاں تک کہ اگر یہ نقل کی نشاندہی نہیں کرتا، تب بھی ای ٹی ایس ایک ٹیسٹ کو اس بنیاد پر ’قابل اعتراض‘ قرار دے سکتا ہے اگر یہ بہت سے ’ناقابلِ قبول‘ ٹیسٹوں والے مرکز میں لیا گیا ہو

اس حوالے سے حتمی نتائج حیران کن تھے: 2001 سے 2014 کے درمیان برطانیہ میں لیے گئے اٹھاون ہزار ٹیسٹوں میں 97 فیصد کو مشکوک قرار دیا گیا۔ جن میں سے 33663 ’ناقابلِ قبول‘ جبکہ 22476 ’قابل اعتراض‘ تھے

اگر یہ اعداد و شمار درست ہوتے تو یہ برطانیہ کی تاریخ میں نقل کا سب سے بڑا اسکینڈل ہوتا

لیبر رکن پارلیمان سٹیون ٹِمز کا کہنا تھا کہ ان اعداد و شمار کو چیلنج نہیں کیا گیا کیونکہ یہ غیر ملکی تارکین وطن کے لیے ’ناسازگار ماحول‘ بنانے کے حکومتی ایجنڈے کے عین مطابق تھے

وہ کہتے ہیں ’افسوس یہ ہے کہ انھوں نے اسے ایک موقعے کے طور پر دیکھا اور اس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ لوگوں نے بہت زیادہ قیمت ادا کی۔‘

2014 میں یونیورسٹیوں کے وزیر، لارڈ ولیٹس کہتے ہیں کہ اگرچہ 97 فیصد تعداد ’قابل یقین حد تک زیادہ‘ تھی مگر حکام نے ان پر یقین کیا۔ ہوم آفس نے فرض کر لیا کہ یہ سارا معاملہ سراسر بدعنوانی اور اختیارت کے ناجائز استعمال کا تھا، اس لیے وہ اس کی تفصیل میں نہیں گئے۔‘

جبکہ بی بی سی کے مطابق، ٹیریسا مے نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا

وزارتِ داخلہ کو ناموں کی ایک طویل فہرست دی گئی جس نے ان سب افراد کے ویزے رد کر دیے جن کے ٹیسٹ ’قابل اعتراض‘ قرار دیے گئے تھے۔ لیکن 2017 کے بعد ٹوئک ٹیسٹ دینے والوں کو برطانیہ میں اپیل دینے کا حق حاصل ہوا

2016 میں، ملک بدری شروع ہونے کے دو سال بعد ای ٹی ایس نے ایسے افراد کو جن پر ٹیسٹ میں نقل کرنے کا الزام تھا، انھیں ان کے ٹیسٹ کی ریکارڈنگ فراہم کرنا شروع کی

شکیل راٹھور کی کہانی اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ ان سے پہلے ایسے بہت سے لوگ اپنی بے گناہی ثابت کر سکتے تھے اگر انھیں بھی شکیل کی طرح آڈیو پر مبنی ثبوت پیش کرنے کا موقع ملا ہوتا۔ اس آڈیو سے ثابت ہوا کہ پچاس سالہ سول انجینیئر شکیل نے نقل نہیں کی تھی

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، جب ہم نے ان کی ٹیسٹ ریکارڈنگ سنی تو یہ صاف تھا کہ وہ انہی کی آواز تھی۔ وہ پرجوش ہو کر بولے ’ہاں یہ میری ہی آواز ہے۔‘

شکیل کو اپنی ٹیسٹ کی ریکارڈنگ حاصل کرنے میں تین سال لگ گئے، اس کے باوجود وزارتِ داخلہ نے اس وقت ان کے خلاف الزامات واپس لیے جب انھوں نے ایک ماہر کی مدد سے یہ ثابت کیا کہ یہ ان کی ہی آواز ہے

ایک اور شخص کو عدالت میں اپنی ٹیسٹ ریکارڈنگ پیش کرنے میں چھ سال لگے، جج نے ان کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے افسران کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی آواز کا موازنہ کیوں نہیں کیا گیا؟

جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کی آواز ریکارڈنگ میں تھی ہی نہیں، جس سے اس دعوے کو تقویت ملتی ہے کہ انہوں نے نقل کی تھی تاہم ڈیجیٹل فرانزک ماہر پروفیسر پیٹر سومر کا کہنا ہے کہ ’کئی بار آواز کی فائلیں اس شخص کی آواز سے مطابقت نہیں رکھتیں۔‘

تاہم اس بات کی تصدیق کرنا ناممکن تھا کہ فائلیں وہی تھیں، جو ای ٹی ایس نے دی ہیں، کیونکہ ان میں کوئی الیکٹرانک میٹا ڈیٹا موجود نہیں تھا، جس میں یہ دکھایا گیا ہو کہ وہ کب اور کہاں بنی تھیں

نومی راجہ نے اپنے خلاف الزامات میں اہم خامیاں دریافت کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں کہا گیا ہے کہ میں بنگلہ دیشی شہری ہوں جبکہ میں پاکستان سے ہوں، اس میں یہ بھی کہا گیا کہ ٹیسٹ سینٹر لیسٹر میں تھا جبکہ میرا امتحان لندن میں ہوا تھا

جب پانچ سال بعد ان کی اپیل کی سماعت ہوئی تو جج نے فیصلہ دیا کہ ’ان کے پاس فیصلہ دینے کے لیے کوئی کیس ہی نہیں۔‘

رپورٹ کے مطابق مئی 2015ع میں وزاتِ داخلہ نے تفتیشی افسران کے تجربات کو ایک رپورٹس کی شکل دی اور آج بھی یہ رپورٹس امیگریشن اپیلوں میں طلبا کے خلاف کیس کے حصے کے طور پر پیش کی جاتی ہے

فروری 2021 میں وزیرِ داخلہ پریتی پٹیل نے پارلیمان کو بتایا کہ وہ مانتی ہیں کہ کچھ بے قصور لوگوں پر غلط الزامات لگائے گئے۔ ہمیں اس کا حل تلاش کرنا ہے اور جو کچھ بھی ہوا اس میں انصاف دیا جانا چاہیے

انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ ”ٹیسٹ کیس کے فیصلہ کے بعد وہ اس معاملے کا حل تلاش کریں گی لیکن ایک سال بعد بھی اس کیس کے فیصلے کا انتظار ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close