اسلام آباد – اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنی آج کی سماعت میں ریمارکس دیے ہیں کہ لاپتہ افراد کا کسی کو تو ذمہ دار ہونا چاہیے
ہائی کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا ”لگتا ہے یہ ریاستی پالیسی ہے“
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مدثر نارو اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کی
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا اس کا کوئی قانون ہے کہ اسٹیٹ کسی کو اٹھا لے؟ اگر انٹرمنٹ سنٹر ہیں تو اس سے لگتا ہے کہ ریاست کی پالیسی ہے
ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے بتایا کہ آٹھ سو کے قریب افراد ابھی لاپتہ ہیں، ریاست کی ایسی کوئی پالیسی نہیں
وکیل کرنل انعام رحیم نے کہا ”ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا بیان گمراہ کن ہے ، ابھی بھی دو ہزار دو سو باون لاپتہ ہیں، ابھی 31 جنوری کی رپورٹ کے مطابق دو سو اکیس لاپتہ افراد کی لاشیں ان کے اہل خانہ کے حوالے کردی ہیں، لاپتہ افراد کمیشن کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرتے“
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو طے ہے کہ کسی کو بھی ریاست نہیں اٹھا سکتی، تحفظ بھی ریاست نے کرنا ہے، کسی کو تو اس کا ذمہ دار ہونا چاہیے کیونکہ بادی النظر میں لگتا ہے یہ ریاست کی پالیسی ہے
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل کابینہ کی میٹنگ ہے، سیکرٹری دفاع نے مائرہ ساجد کیس سے متعلق معاملہ کابینہ کے سامنے رکھا ہے، سیکریٹری دفاع کو میں نے کہا وفاقی کابینہ کے سامنے معاملہ رکھیں، سیکرٹری دفاع اور دیگر حکومت کے حکام پر مشتمل کمیٹی بنی تھی
مدثر نارو اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کیسز میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے جبری گمشدگی سے متعلق کمیشن کے ٹی او آرز (ٹرمز آف ریفرنس) اور کمیشن کی تشکیل کے متعلقہ آرڈرز طلب کرلیے
عدالت نے جبری گمشدگی کمیشن کو آئندہ سماعت پر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل چیئرمین جبری گمشدگی کمیشن کو آگاہ کریں، کیسز میں حتمی دلائل کے لیے اٹارنی جنرل آئندہ سماعت پر پیش ہوں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 28 فروری تک ملتوی کردی
دوسری جانب گزشتہ روز اسلام آباد میں پڑھنے والے بلوچ طالب علم پریس کلب کے باہر اپنے ساتھی احتشام بلوچ کے قتل اور قائداعظم یونیورسٹی کے ایم فل کے طالب علم حفیظ بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج میں موجود تھے
بتایا جاتا ہے کہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے بی ایس پروگرام کے پہلے سمسٹر کے طالب علم احتشام بلوچ چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنے گھر پنجگور میں موجود تھے جب 2 فروری کی رات شدت پسند مسلح گروپ بی ایل اے کی جانب سے پنجگور اور نوشکی میں ایف سی ہیڈ کوارٹرز پر حملے کیے گیے
احتشام کے بھائی کے مطابق احتشام 3 فروری کی صبح بس ٹرمینل سے اپنے چند مہمانوں کو لینے کے لیے گھر سے نکلے۔ یہ ٹرمینل پنجگور کے مرکزی بازار اور ایف سی ہیڈ کوارٹرز کے قریب ہی واقع ہے
احتشام جب اپنے گھر واپس نہ لَوٹے تو ان کے بھائی تلاش میں نکلے۔ انہیں اگلے روز پولیس نے احتشام کی لاش حوالے کی جن کو سر میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا
اس احتجاج کے شرکا کا الزام ہے کہ ایف سی ہیڈ کوارٹر نوشکی اور پنجگور پر حملے کے بعد متعدد بلوچ طلبا کو قتل اور جبری طور پر گمشدہ کیا گیا جن میں دو طلبا احتشام بلوچ اور حفیظ بلوچ اسلام آباد کی یونیورسٹیز میں زیر تعلیم تھے
احتجاجی مظاہرین کا کہنا تھا ’آپ میں سے کوئی ہمارے خوف کو نہیں سمجھ سکتا۔ ہر کسی کے ماں باپ اپنے بچوں کو چھٹیوں میں گھر بلاتے ہیں۔ ہمارے ماں باپ ہماری منتیں کر رہے ہیں کہ خدا کے لیے گھر مت آؤ، ورنہ تم بھی لاپتہ یا مار دیے جاؤ گے۔‘
احتجاج میں شریک ایک طالب علم کا کہنا تھا کہ ان کے امتحانات جاری ہیں، لیکن پڑھائی کے بجائے وہ اس وقت یہاں احتجاج کر رہے ہیں
احتجاج میں موجود احتشام اور حفیظ بلوچ کے کلاس فیلوز اور ہاسٹل کے ساتھیوں نے بتایا کہ حفیظ اور احتشام دونوں ہی تعلیم میں بہت تیز تھے اور اپنا زیادہ تر وقت لائبریری یا سائنس لیب میں گزارتے تھے۔ دونوں ہی نے کبھی کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیا
حفیظ بلوچ کے ایک ساتھی کا کہنا تھا کہ حفیظ بلوچ کو خضدار سے اس وقت ’اغوا‘ کیا گیا جب وہ اکیڈمی میں پڑھا رہے تھے
’اسے اس کے شاگردوں کے سامنے اٹھا کر لے گئے۔ سوچیں آپ نے ان بچوں کو کیا پیغام دیا کہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود وہ محفوظ نہیں؟‘
شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ہوئے قائد اعظم یونیورسٹی کے ایک طالب علم کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے دیگر علاقوں کے رہنے والے بلوچستان اور اس کے حالات کے بارے میں اتنا ہی جانتے ہیں جتنا ایک اندھا، ہاتھی اور اس کے دانت کے بارے میں۔‘
احتجاج میں شریک تمام ہی شرکا نے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے حفیظ بلوچ کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر حفیظ بلوچ پر دہشتگری کا کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کر کے ان کے خلاف کارروائی کی جائے تاہم سکیورٹی فورسز کی جانب سے حفیظ بلوچ کو گرفتار کیے جانے یا نہ کیے جانے سے متعلق ابھی تک تصدیق یا تردید کے حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا.