پرواز معمول کے مطابق منزل کی جانب گامزن تھی۔ کچھ لوگ آرام کررہے تھے اور کچھ جہاز میں موجود تفریحی نظام سے لطف اندوز ہورہے تھے
مجھے اچانک ایسا لگا کہ سانس لینے میں مشکل ہو رہی ہے۔ ساتھیوں کی طرف دیکھا تو وہ سب بھی یہی محسوس کررہے تھے۔ کنپٹیوں میں شدید دباؤ پڑنے لگا اور ایسا لگا کہ دماغ سکڑنے لگا ہے۔ خطرہ محسوس کرتے ہوئے عملے کی مخصوص کردہ نشست، جمپ سیٹ پر بیٹھ کر حفاظتی بند کس کر باندھا ہی تھا کہ جہاز ناک کی سمت غوطہ کھا گیا
ایک دھماکے کی آواز آئی اور سب کچھ غبار ہوگیا۔ ہر نشست کے اوپر موجود خانہ کھل گیا اور آکسیجن ماسک نیچے گر پڑے۔ جو کھینچ کر ناک اور منہ اس ماسک سے ڈھانپ سکا، بچ گیا۔ کچھ کے ہاتھ فضا میں ہی لہراتے رہ گئے۔ کچھ نشستوں سے نکل کر بیچ راہ داری میں گرگئے۔ سب کچھ دھندلا گیا تھا۔ اتنا شدید دباؤ تھا کہ مجھے اپنا جسم حفاظتی بند سے نکلتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ آکسیجن ماسک لگا چکا تھا لیکن پھر بھی سانس نہیں آرہی تھی۔ زوردار گڑگڑاہٹ کےساتھ میری نشست کے قبضے ہلنے لگے اور میں فضا میں بلند ہونے لگا۔ اسی دوران میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے جی بھر کے زور زور سے سانس لی اور پنکھا تیز کرکے پسینے سے شرابور جسم سکھانے کے لیے اس کے نیچے بیٹھ گیا
جی ہاں، تربیت کے دوران اس قسم کے خواب اتنے تواتر سے آتے تھے کہ بیان سے باہر ہے۔ پھر باقی کسر نیشنل جیوگرافک کے پروگرام پورے کردیتے تھے جن میں کسی فضائی حادثے کی وجوہات پر ڈرامائی تشکیل کے ساتھ کھوج لگائی جاتی ہے کہ ایسا کیوں کر ہوا
کسی بھی پرواز کی بلندی دو حصوں میں منقسم ہوتی ہے۔ ایک وہ بلندی کہ جس پر جہاز پرواز کر رہا ہوتا ہے۔ دوسری بلندی جہاز کے اندر کی فضا سے متعلق ہے جہاں مسافر آسانی سے سانس لے سکیں
مسافر بردار جہاز عام طور پر سطح سمندر سے 33 سے 35 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتا ہے۔ اب پینتیس ہزار فٹ کی بلندی پر آپ کو سانس تو نہیں آسکتا۔ اگر آسکتا ہے تو اپنے حکیم صاحب کا پتہ مجھے بھی ارسال کریں
خیر، جہاز کے اندر جہاں مسافر بیٹھتے ہیں، اس جگہ کو ‘پیسنجر کیبن’ کہا جاتا ہے۔ اس کیبن میں ہوا کا دباؤ چھ سے آٹھ ہزار فٹ کی بلندی تک رکھا جاتا ہے۔ یہ اس لیے کہ ‘معزز مہمان’ سانس لے سکیں۔ اس کیبن میں موجود ہوا کا دباؤ اگر مقررہ حد سے تجاوز کرکے ساڑھے تیرہ ہزار فٹ یا اس سے اوپر جانا شروع ہوجائے تو ہر نشست کے اوپر موجود خانوں میں چھپے آکسیجن ماسک نکل آتے ہیں۔ ان کو جھٹکے سے کھینچنا پڑتا ہے تاکہ اندر موجود جنریٹر چالو ہوجائے اور آکسیجن کی فراہمی اندر موجود سلینڈر کے ذریعے شروع ہوجائے۔ ہر سلینڈر عام طور پر اپنے اندر پندرہ منٹ کی آکسیجن کی ترسیل کا انتظام رکھتا ہے
ویسے اگر آپ خنجراب پاس جاچکے ہیں تو آپ کو وہاں سانس لینے میں ذرا سی مشکل ہوئی ہوگی کیونکہ اس جگہ کی بلندی پندرہ ہزار فٹ سے زیادہ ہے۔ لیکن اس بلندی پر جاتے جاتے آپ کو وقت لگتا ہے اور آپ عادی ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کو 60 سیکنڈ سے کم وقت میں پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچا دیا جائے تو کیسا محسوس کریں گے آپ؟
سنسر کی غلطی یا بھول کی وجہ سے فلم بینوں کے تو مزے ہوجاتے ہیں، لیکن جہاز میں اگر سنسر غلطی کرے تو فرشتوں کا کام بڑھ جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ جہاز کے اندر لاتعداد سنسر موجود ہوتے ہیں جن میں سے ایک کا کام کیبن کے اندر موجود بلندی کا ادراک رکھنا ہوتا ہے اور اگر اس میں خرابی ہو تو خودکار نظام کے تحت تمام آکسیجن ماسک خودبخود باہر نکال دینا ہوتا ہے
اس کا عملی مظاہرہ ایک مرتبہ بچپن میں ہوا جب میں اور بھائی کراچی کی پرواز پر تھے۔ میری عمر آٹھ یا نو سال ہوگی، لیکن مجھے یاد ہے سانس لینے میں زیادہ مسئلہ نہیں ہوا تھا لیکن جہاز میں ایک دم درجہ حرارت بڑھنے لگا تھا۔ وہ اس لیے کہ ہر تین ماسک کے سیٹ کے ساتھ ایک جنریٹر لگا ہوتا ہے۔ جب ماسک کھینچا جاتا ہے تو وہ چل پڑتا ہے۔ اتنے سارے جنریٹر چلنے کی وجہ سے درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے
جہاز میں آکسیجن کی کمی دو طرح سے ہوسکتی ہے۔ ایک تو سنسر یا خودکار نظام کی خرابی جو جہاز کی بلندی مقررہ حد پر قائم رکھتا ہے۔ اور دوسری وجہ جہاز کے دروازے یا کھڑکی میں دراڑ پڑجانا یا سوراخ ہوجانا۔ اس صورتحال کو ‘ڈی کمپریشن’ کہا جاتا ہے۔ یہ دوسری صورتحال زیادہ خطرناک ہوتی ہے
یہاں آپ کو ‘ٹک’ کے بارے میں بتانا ضروری ہے۔ یہ ہلکی پھلکی بھوک والا ٹک نہیں ہے اور نہ ہی عظیم شاعر میر تقی میر والا ٹک ہے۔ بلکہ یہ انگریزی زبان میں ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے ‘مفید شعور کا وقت’۔ یعنی Time of useful consciousness (T.U.C)
مفید شعور کا وقت یا مؤثر کارکردگی کا وقت کیا ہوتا ہے؟ یوں سمجھیں کہ آپ کوئی کام کررہے ہیں اور آپ کو محسوس ہورہا ہے کہ آکسیجن ایک دم ختم ہونے لگی ہے، سانس رکنے لگا ہے۔ اگر مسلسل آکسیجن کم ہورہی ہے تو یقیناً ایک نقطہ پر آکر مکمل ختم ہوجائے گی۔ اب اگر آپ کمرے میں بیٹھے ہیں تو کھڑکی کھولنے کی کوشش کریں گے یا دروازے تک پہنچ کر باہر نکلنے کی۔ تو جان بچانے کی کوشش کرنے کا وہ وقت، اس سے پہلے کہ آپ بے ہوش ہوجائیں یا عرف عام میں آپ کا دماغ آکسیجن کی کمی کے باعث کام کرنا چھوڑ دے، مؤثر کارکردگی کا وقت کہلاتا ہے
اگر چھتیس ہزار فٹ کی بلندی پر موجود ہوا کے دباؤ کا ایک دم آپ کو سامنا کرنا پڑے تو آپ کے پاس مشکل سے دس سکینڈ کا وقت ہوگا کہ کوئی حفاظتی اقدامات کرسکیں۔ اس سے کم بلندی پر آکسیجن کی صورتحال بہتر ہوگی اور کچھ سیکنڈ کا مزید مارجن ہوگا آپ کے پاس بس، اس سے زیادہ نہیں۔ یہ بھی ان لوگوں کے لیے جو سیگریٹ نہیں پیتے۔ یعنی اگر پھیپھڑے مضبوط نہیں تو کام خراب ہوسکتا ہے
اس کا یہ مطلب نہیں کہ دس سیکنڈ بعد آپ بے ہوش ہوجائیں گے۔ بس صحیح اور کارآمد فیصلہ کرنے لائق نہیں رہیں گے۔ یہ سب اس لیے ہوگا کہ دماغ کو کام کرنے کے لیے آکسیجن کی سپلائی کم ہوجائے گی اور آپ نہ صحیح طور پر کام کرسکیں گے اور نہ ہی کوئی فیصلہ کر پائیں گے
تو جناب ایسی صورتحال میں جہاز چھتیس ہزار فٹ کی بلندی سے دس ہزار فٹ کی بلندی تک آنے میں چند سیکنڈ لے گا۔ یہ وہ بلندی ہے جس پر آپ آسانی سے سانس لے سکتے ہیں۔ بس جیسے فن لینڈ کا وہ جھولا اوپر جاکر تیزی سے نیچے آتا ہے، ویسے ہی جہاز بھی آجاتا ہے، بس سیکنڈ کچھ زیادہ لگتے ہیں، یہی کوئی پندرہ سے بیس سیکنڈ۔ زیادہ پریشان ہونے کی بات نہیں۔ سمجھ رہے ہیں نا آپ؟
بس جہاز دس ہزار فٹ پر آیا نہیں تو عملہ آپ کی خدمت میں موجود ہوگا۔ جن لوگوں نے ماسک نہیں لگایا ہوگا ان کو ماسک لگائے گا۔ جو زخمی ہوگا اس کو طبّی امداد دے گا۔ لیکن ہاں ایک بات کا خیال رکھیے گا کہ اس وقت اگر کسی نے پیپسی یا بریانی مانگی تو شاید اس کے حصے کی آکسیجن کسی اور کو دے دی جائے۔ باقی زندگی اور موت تو خدا کے ہاتھ ہے.
حوالہ : ڈان نیوز