ممبئی – ”آپ کو کسی غلطی کی سزا کب تک ملنی چاہیے؟“
یہی ایک بھارتی اداکار اور ریئلٹی شو سلیبریٹی آشوتوش کوشک کا بنیادی نکتہ ہے، جس پر دہلی ہائی کورٹ جمعرات کو سماعت کرنے والی ہے
آشوتوش کوشک چاہتے ہیں کہ عدالت انہیں ‘بھلائے جانے کا حق‘ دے، کیونکہ ان کی زندگی اب بھی اُس ایک غلطی کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے، جو ان سے ’ایک دہائی قبل‘ سرزد ہوئی تھی
ماہرین کا کہنا ہے کہ ‘بھلائے جانے کا حق‘ یا ‘مٹانے کا حق‘ یہ ہے کہ آپ کی عوامی سطح پر دستیاب ذاتی معلومات کو انٹرنیٹ سے ہٹا دیا جائے۔ اگرچہ یورپی یونین میں اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن وہاں بھی یہ حق غیر مشروط نہیں ہے، لیکن بھارت میں تو یہ بالکل نیا تصور ہے اور اب بھی قانون کے دائرے میں نہیں آتا ہے
کوشک اس وقت سرخیوں میں آئے، جب انہوں نے 2007ع میں ریئلٹی شو ایم ٹی وی روڈیز کا پانچواں سیزن جیتا اور ایک سال بعد بگ باس (بگ برادر کے بے حد مقبول انڈین ورژن) میں کامیاب رہے
ان کا کہنا ہے کہ جیت کے بعد انہوں نے ‘انڈیا بھر کے لوگوں کی تعریف اور محبت‘ حاصل کی
لیکن شہرت کے بعد بدنامی اس وقت ملی جب ایک سال بعد، وہ شراب پی کر گاڑی چلاتے ہوئے پکڑے گئے
ایک عدالت نے ان کو ڈھائی ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا اور ان کا ڈرائیونگ لائسنس ایک سال کے لیے معطل کر دیا گیا۔ انہیں دن کے اختتام تک عدالت میں موجود رہنے کا بھی حکم دیا گیا
یہ واقعہ اس لیے سرخیوں میں آیا کیونکہ وہ ایک مشہور شخصیت تھے۔ جو کچھ ہوا اس کی رپورٹس، تصاویر اور وڈیوز اب بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں اور تلاش کی جا سکتی ہیں
ان کا کہنا ہے کہ اس سب نے انہیں ذاتی اور پیشہ ورانہ طور پر بہت نقصان پہنچایا ہے
وہ کہتے ہیں کہ ‘اس وقت میں ستائیس سال کا تھا۔ مجھے وہ سب کچھ مل گیا، جو میں زندگی میں چاہتا تھا۔ میں نے اپنے والد کو کھو دیا تھا اور میری رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ میں ناتجربہ کار تھا اور غلطی کی اور مجھے اس کی سزا ملی۔ لیکن اب میری عمر بیالیس سال ہے اور مجھے لگتا ہے کہ میں اب بھی قیمت ادا کر رہا ہوں۔‘
اشوتوش نے کہا کہ اس واقعے کے بعد لوگوں نے ان سے فاصلہ رکھنا شروع کر دیا
‘اب لوگوں پر میرا پہلا تاثر ہی خراب پڑتا ہے۔ میں کام سے محروم ہو گیا ہوں، مجھے کئی بار شادی کے لیے مسترد کیا گیا، اور جب بھی میں گھر بدلتا ہوں، میرے نئے پڑوسی مجھے عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔‘
ان کی اہلیہ ارپیتا ایک بینکر ہیں، جن سے ان کی شادی 2020ع کے موسم گرما میں ہوئی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے خاندان والوں نے انٹرنیٹ پر وہ وڈیوز دیکھی ہوئی ہیں، جن وجہ سے شروع سے ہی ان کے شوہر کے حوالے سے ان کا رویہ متعصبانہ ہے
‘میرے رشتہ دار ان کے ماضی کے بارے میں بہت فکر مند تھے۔ میرے بھائی نے ہماری شادی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اب بھی مجھ سے بات نہیں کرتا۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ زندگی میں ہر کوئی غلطیاں کرتا ہے، تو میرے شوہر کو عمر بھر کی سزا کیوں دی جائے؟‘
کوشک کہتے ہیں ‘جب عدالت کسی ملزم کو سزا سناتی ہے، تو یہ ایک مدت کے لیے ہوتی ہے، اس لیے ڈجیٹل سزا کی بھی ایک وقت کی حد، ایک کٹ آف ڈیٹ ہونی چاہیے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اتنے برسوں کے دوران، انہوں نے متعدد نیوز ویب سائٹس اور چینلز سے رابطہ کیا، ان سے آرٹیکلز، تصاویر اور وڈیوز کو ہٹانے کی درخواست کی، لیکن ان میں سے زیادہ تر ابھی بھی موجود ہیں
اشوتوش نے بھارت کی اطلاعات و نشریات کی وزارت اور گوگل کو بھی خط لکھا، لیکن کوئی جواب نہیں ملا
اشوتوش کوشک، جنہوں نے ’ضلع غازی آباد‘ اور ’قسمت محبت پیسہ دلی‘ جیسی بالی وڈ فلموں میں کام کیا ہے، کہتے ہیں کہ یہ مضامین انہیں ‘شدید اذیت‘ اور ‘نفسیاتی تکلیف‘ پہنچاتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ عدالت بھارتی حکومت، میڈیا کے نگراں ادارے پریس کونسل آف انڈیا اور گوگل کو ‘مختلف آن لائن پلیٹ فارمز سے مواد ہٹانے‘ کا حکم دے
واضح رہے کہ کوشک واحد بھارتی نہیں ہیں جو بھول جانے کا حق مانگ رہے ہیں۔ اسی طرح کی درجنوں درخواستیں بھارت بھر کی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ ان میں سے اکثر ایسے لوگوں کی ہیں، جو اپنے خلاف الزامات سے بری ہو چکے ہیں یا پہلے ہی اپنی سزا کاٹ چکے ہیں
ایک ازدواجی تنازع میں ایک خاتون اپنے کیس سے متعلق عدالتی فیصلے کو ایک ویب سائٹ سے ہٹوانا چاہتی ہیں کیونکہ اس میں ان کا پتہ اور دیگر ذاتی معلومات شامل ہیں
بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے ذاتی ڈیٹا پروٹیکشن بل میں، جو کہ ابھی تیار ہو رہا ہے، بھول جانے کے حق سے متعلق دفعات موجود ہیں
گوگل کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ان کی سرچ ‘عام طور پر ویب پر موجود چیزوں کی عکاسی کرتی ہے، لہٰذا اگر لوگ ویب سے مواد ہٹانا چاہتے ہیں، تو ہم کہتے ہیں کہ وہ مواد کی میزبانی کرنے والی آزاد سائٹوں سے رابطہ کر کے اس عمل کی شروعات کریں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’ہمارا ہمیشہ سے یہ مقصد رہا ہے کہ ہم معومات تک جتنا ممکن ہو سکے رسائی کو ممکن بنائیں۔ہم صارفین کو ایسے سسٹم مہیا کرنے میں بھی بہت محنت کرتے ہیں، جن کے ذریعے وہ ایسے مواد کے بارے میں ہمیں آگاہ کر سکتے ہیں، جو ہماری پالیسی کے خلاف ہو، اس میں مقامی قوانین کے تحت غیر قانونی مواد کو ہٹانا بھی شامل ہے۔‘
لیکن ٹیکنالوجی کے ماہر پرسنتو روئے کا کہنا ہے کہ فی الحال انڈین شہریوں کے لیے بھول جانے کا حق استعمال کرنے کا کوئی آسان طریقہ نہیں ہے
ان کے مطابق انٹرنیٹ بہت وسیع ہے، جہاں گوگل جیسا بڑا گیٹ وے، مائیکروسافٹ کا بِنگ اور وِکی پیڈیا، میڈیم، دیگر پلیٹ فارمز جیسا کہ فیسبک اور ٹوئٹر، اور دسیوں ہزار بلاگز موجود ہیں
وہ کہتے ہیں کہ برسوں پہلے انہوں نے ‘گوگل سے غیر رسمی طور پر ایک ایسی خاتون کے لیے بات کی تھی، جس پر بار بار بہتان لگایا جا رہا تھا اور اسے ایسے ‘شوہروں‘ سے جوڑا جا رہا تھا، جن سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن وہ زیادہ مددگار نہیں تھے۔ قانون نافذ کرنے والے ایک اور افسر کے معاملے میں نام ہٹوانا تھا لیکن غیر رسمی درخواستیں کام نہیں آئیں اور سرکاری چینلز کام آئے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ گوگل ‘بعض یو آر ایلز کو یہاں تک کہ تلاش کیے جانے والے الفاظ کو بھی آسانی سے بلاک کر سکتا ہے۔ یہی سب وہ قانون کے مطابق یورپی یونین میں کرتا ہے مگر یہاں پر انھیں ڈر ہے کہ ایسی درخواستوں کی بھرمار ہو جائے گی کیونکہ لوگ آسانی سے ناراض ہو جاتے ہیں۔‘
کوشک کے وکیل اکشت باجپائی کہتے ہیں کہ اگرچہ بھارت میں بھول جانے کے حق کے حوالے سے ایک قانونی خلا موجود ہے، لیکن ایسے عدالتی فیصلے ہیں جنہیں مثال کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے
اڑیسہ اور کرناٹک کی اعلیٰ عدالتوں نے بھلائے جانے کے حق کو رازداری کے حق کے ایک لازمی حصے کے طور پر قبول کیا ہے۔ اور سنہ 2018ع میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ رازداری کا حق ایک بنیادی حق ہے
اکشت باجپائی کہتے ہیں کہ ‘پچاس سال بعد، جب کوشک کے بچوں کے بچے اسے گوگل کریں گے، تو انہیں معلوم ہوگا کہ انہوں نے بگ باس اور روڈیز جیتا تھا، لیکن انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ وہ ایک ناخوشگوار واقعے میں ملوث تھے۔ انہیں وہ سزا مل چکی، جس کے وہ قانون کے تحت مستحق تھے، اور اب رازداری ان کا حق ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس مسئلے پر عدالتوں اور معاشرے کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے
اکشت باچبائی کہتے ہیں ”کسی شخص کے بھلائے جانے کا حق کسی شخص کے جاننے کے حق سے متصادم ہو سکتا ہے۔ لیکن مجھے امید ہے کہ عدالت ایک درمیانی راستہ تلاش کر لے گی، ریپ یا قتل جیسے گھناؤنے جرائم میں، معاشرے کو جاننے کا حق ہے لیکن اگر جرم سنگین نہیں ہے تو شاید عدالتیں بھلائے جانے کے حق کی اجازت دے سکتی ہیں۔“